donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Political Articles -->> Articles On National Issue
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mozaffar Hussain Ghazali
Title :
   Agar Ab Bhi Na Samjhe To


اگر اب بھی نہ سمجھے تو ۔۔۔

 

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

 

ہریانہ اور مہاراشٹر کے نتائج آچکے ہیں ۔دونوں ریاستوں میں چوتھے پائیدان والی پارٹی بھاجپا ہریانہ میں 47اور مہاراشٹر میں 123سیٹیں حاصل کرکے سب سے بڑے دل کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے ۔ 15سالوں تک مہاراشٹر میں اور دس برسوں تک ہریانہ میں سرکار چلانے والی کانگریس دونوں صوبوں میں تیسرے نمبر پر ہے ۔ ہریانہ میں تو اوم پرکاش چوٹالہ کی پارٹی سے بھی پیچھے رہ گئی ۔

بھاجپا کی اس کامیابی کو کچھ لوگ مودی لہر کے طور پر دیکھ رہے ہیں تو کچھ اچھی سرکار اور ترقی کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کررہے ہیں ۔اس مسئلہ پر الگ سے بات کرنے کی ضرورت ہے ۔یہا ں ہریانہ اور مہاراشٹر کے انتخابات کا جائزہ لینا مقصود ہے ۔ پارلیمنٹ میں بھاجپا نے مودی کے نام پر ووٹ مانگے تھے ان ریاستوں میں پارٹی ۔مودی اور گڈ گورننس کے نام پر ووٹ مانگے گئے ۔پہلی مرتبہ بڑی تعداد میں سنگھ پرچارک منظم طریقہ سے سیاست میں سرگرم ہوئے ۔ ان میں سے کئی نے چناؤ لڑ کر کامیابی بھی حاصل کی ہے ۔ ان دونوں ریاستوں کے الیکشن میں عام آدمی پارٹی نے حصہ نہیں لیا ؟

یہ نتائج عوام کی ریاستی سرکاروں سے ناراضگی ضرور ظاہر کرتے ہیں لیکن کچھ اور عوامل بھی ہیں جن پر دھیان دینے کی ضرورت ہے ۔ مہاراشٹر میں کانگریس ا ین سی پی سرکار پر شدید قسم کے کرپشن کے الزامات لگے ۔یہی حال ہریانہ میں بھی تھا ۔ پھر ریاستی نیتاؤں کے آپسی اختلافات نے بھی کانگریس کو بہت نقصان پہنچایا اس آپسی رنجش کا سب سے زیادہ نقصان کانگریس کو ہریانہ میں ہوا ۔پھر کانگریس کی اعلیٰ قیادت نے حالات کے مطابق نہ سمجھداری سے کام لیا اور نہ ہی پورے من سے الیکشن میں حصہ ۔ کانگریس نے دونوں ریاستوں میں پارٹی کے بجائے ان لوگوں کے نام پر ووٹ مانگا جن سے مقامی کارکنان ناخوش تھے جبکہ بی جے پی نے پارٹی اور مودی کو آگے رکھا ۔

25ستمبر کو یہ صاف ہو گیا تھا کہ بھاجپا شیو سینا سے اپنا ناطہ توڑ رہی ہے کانگریس کے پاس این سی پی کے ساتھ اپنا اتحاد بنائے رکھنے کا وقت تھا 26ستمبر کو یہ بھی معلوم ہو گیا کہ مہاراشٹر میں چوطرفہ مقابلہ ہوگا اس وقت کانگریس نے حکمت سے کام لیا ہوتا تو مودی کی نہ ہرائے جانے والی شبیبہ ٹوٹ جاتی اور کانگریس این سی پی مہاراشٹر میں بھگوا پارٹیوں کا سوپڑا صاف کر دیتی ۔یہ بے جوڑ موقع تھا جو چوک گیا ۔ بقوم شرد پوار کانگریس کی ریاستی اکائی اتحاد کے حق میں نہیں تھی اس سے پتا چلتا ہے کہ کانگریس این سی پی بھاجپا کو جتنا نا پسند کرتے تھے اس سے کہیں زیادہ ایک دوسرے سے نفرت ۔

ہندتو وادی سیاست کے فائر برانڈ لیڈر کے طور پر ابھرے مودی نے لوک سبھا چناؤ کے بعد اپنے پرانے چہرے کو پیچھے کر ملک کو ترقی کی راہ پر لے جانے والا چہرہ پیش کیا ۔نوجوانوں میں ان کی سوچ کو مقبولیت ملی انہوں نے مسلمانوں میں بھی پارٹی سے نفرت کو کم کرنے کی کوشش کی دوسری پارٹیوں کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے پھر مودی نے دونوں ریاستوں میں تابڑ توڑ ریلیاں کرکے عوام میں جوش بھر دیا جبکہ کانگریس کی جانب سے چار چار ریلیاں ہوئیں وہ بھی پھیکی ۔مودی کی باتوں کا بھر پور جواب کوئی بھی پارٹی نہیں دے سکی کانگریس کے کئی ایم ایل اے عین الیکشن سے پہلے بی جے پی میں شامل ہو گئے اس سے معلو م ہوتا ہے کہ پارٹی لیڈران و کارکنان کو پارٹی اعتماد میں نہیں لے سکی ۔دوسری طرف سنگھ اور پارٹی نے مل کر ہر سطح پر مینجمنٹ کیا ۔چھوٹی چھوٹی سیکولر کہے جانے والی پارٹیوں کا ایک وفاق بنواکر مہاراشٹر میں ہر سیٹ پر نمائندہ کھڑا کرایا گیا ۔اس وفاق میں کمیونسٹوں کے علاوہ جنتا دل ، جنتا دل ایس ، آر جے ڈی ، جے ڈی یو وغیرہ شامل تھے ۔ اس طرح ووٹوں کی بڑی تعداد کو بے اثر کردیا گیا ۔

بھارتیہ جنتا پارٹی جو کبھی اپنے دم پر ان ریاستوں میں ایکشن نہیں لڑی جسے پچھلے چناؤ میں ہریانہ میں نو اور مہاراشٹر میں 14فیصد ووٹ ملے تھے اس بار ہریانہ میں 33اور مہارشٹر میں 27.8فیصد ووٹ حاصل کرنا ایک بڑی چھلانگ ہے ۔دونوں ریاستوں میں بی جے پی سرکار بنانے کی پوزیشن میں ہے اگر مہاراشٹر میں پارٹی کو 20سیٹیں اور مل جاتی تو بی جے پی کو شیو سینا سے ہمیشہ کے لئے چھٹکارا مل جاتا ۔ شیو سینا کو 16فیصد کے آس پاس ووٹ ملے ہیں شیو سینا 63سیٹیں لانے کے با وجود ممبئی کا قلعہ بی جے پی کے ہاتھوں گنوا چکی ہے ۔ یہ اس کے مستقبل کے لئے اچھا اشارہ نہیں ہے ۔ بھاجپا مہاراشٹر میں خود کو اکلوتی ہندو ایجنڈے والی پارٹی کے طور پر پھیلانا اور مضبوط کرنا چاہے گی البتہ منسے کی سیٹیں کم ہونے سے اس کا امکان ہے کہ راج ٹھاکرے بے کار کے مدے اٹھا کر بی جے پی کا ناک میں دم کرتے رہیں ۔

ان نتائج کو ملک کی سیاست میں بدلاؤ کی علامت مانا جا رہا ہے ۔لڑائی اب کانگریس بنام دوسرے سب کی جگہ بی جے پی ۔مودی بنام باقی سب کی ہو گئی ہے ۔ہریانہ میں چوٹالہ ، دیوی لال تو مہاراشٹر میں ٹھاکرے اور پوار کی خاندانی سیاست کی دکان فی الحا ل پھیکی پڑی ہے شیو سینا کا قد کم ہوا ہے لیکن این سی پی ، بہتر حال میں ہے ۔ہریانہ میں INLDکے سامنے بقاء کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے اور HJCختم ہوئی ہے ۔کانگریس کی سماج میں پکڑ کمزور ہوئی ہے اس کی وجہ سے بی جے پی بنام سب کے مقابلے والی ریاستوں کی تعداد بڑھ رہی ہے ۔اگر بھاجپا بنام سب کا سمی کرن بنا تو بھاجپا کو جیت اور ہار دونوں میں فائدہ ہوگا ۔ اڑیسہ سے لیکر کجرات تک وسطی بھارت میں اپوزیشن اپنی کوئی شکل بنانے میں نا کام رہی ہے سیاسی صفر (Zero)بڑھ رہا ہے ۔دم دار اثر دار حزب مخالف غائب ہو چلا ہے عوام اچھی سرکار اور ترقی کے نام پر ذات برادری اور طبقات پر ٹکی سیاست کی بثات کو الٹنے کو تیار ہے ۔ مودی نے سیکولر ازم کے نام پر سیاست کرنے والوں کا راستہ بھی روک دیا ہے ان کے سامنے بدلے ہوئے حالات کے مطابق سیاست کا ماڈل کھڑا کرنے کا چیلنج پیش کیا ہے ۔

مہاراشٹر اور ہریانہ کی کامیابی کو امت شاہ نے کانگریس کے بغیر بھارت کی طرف دو قدم بتایا ہے ان کا کہنا تھا کہ سنامی کی طرح مودی لہر پورے اپوزیشن کو ختم کررہی ہے بھاجپا مہاراشٹر میں کبھی 119سیٹوں سے زیادہ پر نہیں لڑی ۔شیو سینا کے ساتھ گٹھ بندھن ٹوٹنے پر پارٹی سبھی 288سیٹوں پر چناؤ لڑی اسے اتنی سیٹوں پر کامیابی ملی جتنی کہ شیو سینا دینے کو تیار نہیں تھی شیو سینا 119سیٹیں دینا چاہتی تھی جبکہ بھاجپا 134سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑا کرنا چاہتی تھی ۔ اسی طرح اتحاد توڑ کر بھاجپا ہریانہ میں 90سیٹوں پر الیکشن لڑی اور کامیاب رہی ۔

بھارتیہ جنتا پارٹی نے NDAکی بیساکھیوں کو چھوڑ کر ملک میں پھیلاؤ کی تیاری شروع کردی ہے ۔ این ڈی اے میں وہ سب کچھ ہوتی جا رہی ہے وفاق میں کوئی بھی پارٹی بی جے پی کی مخالفت کرنے کی ہمت نہیں کریگی بھاجپا ، پنجاب ، جھار کھنڈ ، اور تامل ناڈو سمیت کئی دوسری ریاستوں میں وہ اپنے ساتھیوں کا ساتھ چھوڑ کر اکیلے چلنے کے بارے میں سوچ سکتی ہے یا پھر ان کے ساتھ سختی سے پیش آسکتی ہے ۔ بی جے پی ملک کی سیاست میں مسلمانوں کی اہمیت کو دھیرے دھیرے کم کرکے بے اثر کرنے کی سنگھ کی منشاء کو پورا کرنا چاہتی ہے ۔ جس کی شروعات وہ کر چکی ہے پارلیمنٹ میں ایک بھی مسلم ممبر بی جے پی کے ٹکٹ پر جیت کر نہیں آیا ۔ یوپی جیسی ریاست سے ایک بھی مسلم ممبر منتخب نہیں ہوا ۔ نتیجہ کے طور پر لوک سبھا میں مسلم ممبران کی تعداد 35سے گھٹ کر 21رہ گئی ۔مدھیہ پردیش اسمبلی میں ایک بھی مسلم ممبر نہیں ہے راجستھان میں برسر اقتدار پارٹی کا بھی یہی حال ہے کیا مسلمان اس بدلاؤ کو سمجھ کر کوئی قدم اٹھاسکیں گے۔

یہ وقت بتائے کا کہ بھاجپا کی بڑھی ہوئی طاقت علاقائی پارٹیوں کو ایک ساتھ لاکر کوئی نیا مورچہ بنانے کے لئے ابھارتی ہے کیا یہ مورچہ ملک میں پیدا ہوئے سیاسی خلاء کو پر کرکے سیاست کی نئی بسا ط رکھ پائے گا کیا عوام کو نیا سیاسی نعیم البد ل دینے کی پوزیشن میں ہوگا یا اس کے لئے کوئی راہ ہموار ہو سکے گی ضرورت تو یہی ہے کہ صفر (Zero)کی طرف جاتی سیاست کے رخ کو موڑ کر اس میں سب کی حصہ داری کو یقینی بنایا جائے ۔

(یو این این)
*******************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 909