donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Political Articles -->> Articles On National Issue
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Bihar Ke Liye Khususi Marayat Ka Mutalba Markaz Ke Liye Darde Sar


 

بہار کیلئے خصوصی مراعات کا مطالبہ مرکز کیلئے دردِ سر! 
 
ڈاکٹر مشتاق احمد، دربھنگہ 
 
قومی ترقیاتی کونسل کی حالیہ میٹنگ مورخہ ۲۷؍ دسمبر۲۰۱۲ء میں ایک بار پھر ریاست بہار کو خصوصی درجہ دینے کا مطالبہ بڑے زوروشور سے اٹھایا گیا ہے اور وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے اپنے گیارہ صفحات کے تحریری مطالبے میں ان تمام نکات کی نشاندہی کی ہے جوریاست بہار کو خصوصی ریاست کی فہرست میں شامل کرنے کا جواز پیش کرتے ہیں۔اب یہ مسئلہ قومی سطح پر بحث ومباحثہ کا موضوع بن گیا ہے اور بہار کی سیاست کا محورومرکز بھی۔ کیوںکہ ایک طرف نتیش کمار نے ریاست کو خصوصی درجہ کے مطالبہ کو اپنے وقارکا سوال بنا لیا ہے تو دوسری طرف حزبِ اختلاف کے لیڈران اس مطالبے کو محض سیاسی ہتھ کنڈہ بتا رہے ہیں۔واضح ہو کہ جب سے بہار میں نتیش کمار کی قیادت والی قومی جمہوری اتحادحکومت قائم ہوئی ہے اسی دن سے بہار کے لئے خصوصی مراعات کا مطالبہ کیا جا رہا ہے ۔ یوں تو جس دن بہار کی تقسیم ہوئی تھی اور نئی ریاست جھارکھنڈ تشکیل پائی تھی اسی وقت یہ بات سامنے آئی تھی کہ نئی ریاست کے وجود میں آنے کے بعد بقیہ بہار کی اقتصادی حالت کافی متاثر ہوگی۔کیوں کہ بہار میں پانی اوربالو کے سوا کچھ نہیں رہ گیا ہے ۔واضح ہو کہ آزادی کے بعد مرکزی حکومت کے ذریعہ جتنے بھی چھوٹے بڑے صنعت وکارخانے لگائے گئے وہ سب کے سب جنوبی بہار یعنی موجودہ جھارکھنڈ میں ہی لگائے گئے کیوں کہ وہاں معدنیات کی سہولت تھی اور پھر ٹھوس زمین کی بھی فراوانی۔شمالی بہار میں صنعت کے نام پر چینی ملیں اور کاغذ مل لگائے گئے لیکن ان چینی ملوں میں نصف سے زیادہ بند ہو چکی ہیں اور پیپر مل کا تو وجود بھی ختم ہونے والا ہے ۔لہذا مرکز نے بھی اس حقیقت کا اعتراف کیا تھا کہ جھارکھنڈ بننے کے بعد ریاست بہار کے پاس صنعت کے نام پر کچھ نہیں رہ گیا ہے  لہذا یہاں کے بنیادی ڈھانچوں کو مستحکم کرنے اور ترقیاتی کاموں کو انجام دینے کے لئے ریاست کو خصوصی پیکج کی ضرورت ہوگی ۔ لیکن سچائی یہ ہے کہ بہار کی تقسیم کی دہائی مکمل ہو چکی ہے لیکن اب تک بہار کو خصوصی پیکج نہیں مل پایا ہے ۔ ایک طرف بہار کے موجودہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار ہر ا یک ہفتہ دس دنوں پر اپنے اخباری بیان کے ذریعہ اس مطالبے کا اعادہ کر تے ہیں کہ مرکز نے بہار کو اب تک خصوصی پیکج نہیں دیا ہے ۔حکومتِ بہار کے دیگر وزراء بھی وزیر اعلیٰ کی سُر میں سُر ملا کر عوامی جلسوں میں اس حقیقت کو اجاگر کرتے ہیں کہ ریاست کو خصوصی پیکج نہیں ملنے کی وجہ سے بہت سے ترقیاتی کام نہیں ہو پا رہے ہیں۔غرض کہ ایک طرف مرکزی حکومت ریاست کو خصوصی مراعات دینے کو تیار نہیں ہے یا پھر کسی مصلحت کے تحت نہیں دے رہی ہے تو دوسری طرف ریاستی حکومت خصوصی پیکج نہ ملنے کو ریاست کے ساتھ حق تلفی قرار دے رہی ہے ۔اب جب کہ مالیاتی اسکیم کمیشن کے نائب چیر مین منٹیک سنگھ اہلووالیہ نے مورخہ۲۷؍ دسمبر۲۰۱۲ء کو دہلی میں قومی ترقیاتی کونسل (این ڈی سی) کی میٹنگ کے بعد یہ وضاحت کردی ہے کہ ریاست کو خصوصی پیکج نہیں مل سکتا اور ریاست کو اپنے بل بوتے ہی ترقی کی راہ پر گامزن ہونا ہوگاتو یہ بات اب بالکل صاف ہوگئی ہے کہ بہار کو خصوصی مراعات نہیں ملنے جا رہا ہے ۔کیوں کہ جناب سنگھ نے بہار کو خصوصی پیکج نہ ملنے کے پسِ پردہ کی مجبوری کو بھی واضح کردیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ دوسری کئی ریاستیں مثلاً مغربی بنگال اور کیرل بھی خصوصی پیکج کا مطالبہ کر رہی ہے۔ اگر بہار کو یہ پیکج دیا جاتا ہے تو ان ریاستوں کو بھی دیناہوگا اور مرکز فی الوقت اقتصادی طورپر اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ ان تمام ریاستوں کو خصوصی پیکج دے سکے۔ جنابِ سنگھ نے یہ بھی کہاہے کہ بہار میں ترقی کرنے کے بہت سے شعبے ہیں مثلاً زراعت کی پیداوار بڑھا کر ،دودھ کی پیداوار میں اضافہ کر اور گھریلو صنعتوں کو مستحکم کر بہار کی ترقی کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے بہار میں مائنڈ سٹ کو بدلنے کی بھی وکالت کی ہے ۔کچھ اسی طرح کا خیال اپریل ۲۰۱۲ء میں وزیر اعظم کے مشیر سیم پترودا نے پٹنہ دورہ کے وقت ظاہر کیا تھا۔ لیکن دوسری طرف ریاستی حکومت کہہ رہی ہے کہ جب تک مرکز سے خصوصی پیکج نہیں ملتا ہے اس وقت تک بہار ترقی کے میدان میں اپنے منازل تک نہیں پہنچ سکتا۔میرے خیال میں مرکز اور ریاست کے درمیان بیان بازی کا سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا کیوں کہ 2014ء میں پارلیامانی انتخاب ہونا ہے اور ریاستی حکومت کے پاس مرکز کو کوسنے کے لئے خصوصی پیکج سے اچھا کوئی حربہ نہیں ہے۔ دوسری طرف مرکزی حکومت بارہا یہ کہتی ہے کہ ریاستی حکومت کو ترقیاتی کاموں کے لئے جو فنڈ مہیا کرایا جاتا ہے اس کو بھی وقت پر خرچ نہیں کیا جاتا اور ہر سال فنڈ کی واپسی ہوتی ہے ۔ سچائی یہ ہے کہ جب تک مرکز ی اور ریاستی حکومت سنجیدگی سے یہ نہیں طئے کرتی ہے کہ ریاست میں ترقیاتی کاموں کو انجام تک پہنچانا ہے تو اس وقت تک اسی طرح کی سیاست چلتی رہے گی اور اس کا خسارہ عظیم ریاست کی عوام کو اٹھانا ہوگا۔واضح ہو کہ موجودہ بہار کا نصف حصہ ہر سال سیلاب کی تباہی کا شکار ہوتا ہے تو دوسری طرف جنوبی اور وسطی بہار کا حصہ بارش کے پانی کی قلت سے دوچار رہتا ہے جس کی وجہ سے زراعت متاثر ہوتی ہے ۔نتیجتاً بہار کی اقتصادی صورتحال بہتر نہیں ہو پا رہی ہے اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ بہار کو خصوصی پیکج دیا جانا چاہئے تاکہ بہار میں ترقی کا راستہ ہموار ہو سکے۔ اگر خصوصی پیکج کو لے کر ریاست اور مرکز میں اسی طرح کی رسہ کشی جاری رہی تو ایک جمہوری طرزِ حکومت کی صحت کے لئے مضرثابت ہو سکتا ہے۔ وزیر اعلیٰ نتیش کمار اس بات کو بار بار دہرا رہے ہیں کہ ریاست کو خصوصی درجہ دینے کے لئے جو پیمانہ طئے ہے اس میں تبدیلی ضروری ہے۔ انہوں نے تمام مرکزی اسکیموں میں 90فی صد مالی تعاون کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ساتھ ہی چار ہزارکروڑ روپئے خصوصی پیکج دینے کی مانگ کی ہے تاکہ ریاست میں حقوقِ تعلیم اور اندرا آواس جیسی مفادِ عامہ کی اسکیم کو پورا کیا جا سکے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مرکزی حکومت نتیش کمار کے مطالبے کو کس حد تک قبول کرتی ہے کیوں کہ اب یہ مطالبہ انتخابی ایجنڈہ بن چکا ہے۔ جیسا کہ حال ہی میں نتیش کمار نے اپنی پارٹی کی’’ ادھیکار ریلی‘‘ پٹنہ میں کہا تھا کہ اگر مرکز بہار کو خصوصی ریاست کا درجہ نہیں دیتی ہے تو آئندہ 2014ء کاپارلیامانی انتخاب کا محور ومرکز یہی ہوگا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کی دیگر ریاستوں کے مقابلے بہار پسماندہ ہے اور یہاں ترقیاتی کاموں کی رفتار کا تیز ہونا ضروری ہے۔ بالخصوص روزگار پر مبنی صنعت کارخانے کی اشد ضرورت ہے کیوں کہ اس وقت بہار میں کوئی ایسا کارخانہ نہیں ہے جہاں مزدوروں کو روزگار مل سکے۔ نتیجتاً یہاں کے پڑھے لکھے نوجوانوں اور مزدوروں کی دوسری ریاستوں کی طرف ہجرت جاری ہے۔جو بہار کی بد حالی کی تصویر پیش کرتا ہے۔
******************
Comments


Login

You are Visitor Number : 764