donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Political Articles -->> Articles On National Issue
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Hain Talkh Bahut Bandae Mazdoor Ke Auqat


 

ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات!
 
(یکم مئی۔یومِ مزدور پر خصوصی)
 
ڈاکٹر مشتاق احمد، دربھنگہ
(Mob:0931414586)
 
یومِ مئی مزدوروں کے معاشی، سماجی اور سیاسی حقوق کے جدوجہد کی تاریخ کا ایک ایسا روشن باب ہے کہ جس کو رہتی دنیا تک کسی بھی طورپر بھلایا نہیں جا سکتا۔ یایوں کہیں کہ جب تک دنیا میں طبقاتی نظام قائم رہے گا اس وقت تک یومِ مئی کی اہمیت وافادیت برقرار رہے گی۔یومِ مئی یعنی مزدوروں کا دن، جسے دنیا کے تمام مزدور تقریباً  123سالوں سے مناتے آرہے ہیں، یہ دن مزدوروں اور محنت کش طبقوں کے لئے ایک ایسا یادگار حادثہ ہے جو ان کو اپنے طبقاتی اتحاد کی دعوت دیتا ہے اور شکاگو کے ان مزدوروں کی قربانیوں کی یاد دلاتا ہے جنہوںنے دنیا میں مزدوروں کی طاقت کا احساس کرایا اور بورژوا، سرمایہ داروں کو مجبور کردیا کہ وہ ان کے معاشی، سیاسی اور سماجی حقوق کو تسلیم کریں۔
 
یومِ مئی کا پس منظر یہ ہے کہ اس تاریخ سے تین یادگاریں وابستہ ہیں۔ پہلی یادگار ہے کہ جب 1886ء میں ریاستہائے متحدہ امریکہ میں مزدور آٹھ گھنٹے کے کام کے اوقات کے لئے جدوجہد کررہے تھے تو امریکہ کے شکاگو میں مزدروں پر بڑی بے رحمی سے پولس نے گولیو ںکی بوچھار کر دی تھی جس میں سیکڑوں مزدور شدید طورپر زخمی ہوئے تھے اور درجنوں جاں بحق ہوئے تھے۔یومِ مئی منانے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ جب 1889ء میں سکنڈ انٹرنیشنل کانگریس کی میٹنگ میں یہ فیصلہ لیا گیا کہ ہر سال یکم مئی کو بین الاقوامی سطح پر مزدوروں کے اتحاد کے دن کے طورپر منایا جائے گا۔ یومِ مئی منانے کی تیسری اہم وجہ یہ ہے کہ 1890ء میں ہی یکم مئی 1889ء کے فیصلے کے مطابق پہلی بار یومِ مزدور منایا گیا ۔ اس کے بعد سے ہی یومِ مئی منانے کا سلسلہ شروع ہوا جو اب تک جاری ہے ۔ اس دن سرکاری اورغیر سرکاری طورپر پوری دنیا کے مزدوروں کی زندگی اور ان کے مسائل پر غوروفکر کیا جاتا ہے اور ان کے حق میں بیشمار اعلانات بھی کئے جاتے ہیں لیکن سچائی یہ ہے کہ یومِ مئی منانے کے پسِ پردہ جو تاریخی واقعات ہیں اور جس مقصد کے تحت اس تاریخ کو یادگار بنایا گیا وہ شاید اب تک پورا نہیں ہوا ہے ۔دنیا کے کروڑوں مزدور آج بھی اپنے حقوق کی لڑائی لڑ رہے ہیں، آج بھی سرمایہ داروں سے اپنا حق مانگ رہے ہیں اور وہ ان کے مطالبہ کو صدا بہ صحرا ثابت کر رہے ہیں۔
 
وہ حادثہ جس نے یومِ مئی کو جنم دیا تھا اس طرح کا حادثہ آج بھی رونما ہو رہا ہے ۔ حال ہی میں کیرل میں ایک فیکٹری کے درجنوں مزدوروں پر ظلم ڈھائے گئے اور ایک مزدور لیڈر کو اپنی جان بھی گنوانی پڑی ہے ۔عالمی سطح پر اگر دیکھا جائے تو صنعتی اعتبار سے ترقی یافتہ سرمایہ دار ممالک اور چھوٹے چھوٹے غیر ترقی یافتہ ممالک میں مزدوروںاور سرمایہ داروں کے درمیان حقوق کی جنگ جاری ہے ۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ آج سماجی اور سیاسی طاقتوں کا باہمی رشتہ مختلف ہے اور مختلف طریقوںسے طبقاتی جدوجہدجاری ہے۔ پھر بھی مزدور وں کے وہ خواب پورے نہیں ہوئے ہیں جو انہوں نے آج سے ایک صدی پہلے دیکھا تھا۔جیسا کہ پہلے ذکر آچکا ہے کہ یومِ مئی کی تاریخی اہمیت ہے ۔ یکم مئی 1886ء کو ریاستہائے متحدہ امریکہ کے سب سے بڑے صنعتی مرکز شکاگو میں مزدورں کی ہڑتال شروع ہوئی تھی ۔ مزدوروں نے کام کے اوقات میں تخفیف یعنی آٹھ گھنٹہ کام کرنے کا مطالبہ کیا تھا لیکن اس مطالبے کو سرمایہ داروں نے صدا بہ صحرا ثابت کردیا اور حکام کا سہارا لے کر معصوم مزدوروں پر قہر برپا کیا گیا ۔ 4 مئی کو ’’ہے مارکٹ‘‘ اسکوائر کے مقام پر مزدور اپنا جلسہ کر رہے تھے وہاں ایک سازش کے تحت بم دھماکہ کیا گیا اور پھر پولس نے گولیوں کی بارش شروع کردی۔ نتیجتاً درجنوں مزدور اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے اور سیکڑوں شدید طورپر زخمی ہوئے۔ پھر اس کے بعد سرمایہ داروں نے مزدورں پر فرضی مقدمات کئے ، اخباروں میں محنت کش طبقوں کی تنظیموں کے خلاف غلط بیان دے کر افواہیں پھیلائی گئیں اور عوام کو گمراہ کیا گیا۔ آخر کار عدلیہ نے سات مزدوروں کی سزائے موت کا فیصلہ دیا۔ ان میں البرٹ پارسز، اگست اسپائز، سمیویل فلڈن، مائکل اسکواب، ایڈول فیشر، جارج اینجل اور لوئی میک کے نام شامل تھے۔ لیکن اس کے باوجود مزدورں نے اپنا حوصلہ نہیں ہارا اور اپنی تحریک جاری رکھی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فلڈن اور اسکواب کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دی گئی جب کہ باقی لوگوں کو 11 نومبر 1887ء میں پھانسی دے دی گئی۔اس وقت کے ایک معروف صحافی ومصنف ولیم ڈین ہولیز نے نیو یارک ہرالڈ ٹربیون میں ایک مضمون لکھا اور مزدوروں کو دی گئی سزائے پھانسی کی کھل کر مذمت کی ۔ انہوں نے کہا کہ ان مزدوروں کے قتل سے قوم کے وقار کو بڑا نقصان پہنچا ہے ۔ لیکن ان مزدوروں کی شہادت نے پوری دنیا میں ایک طوفان برپا کردیا اور 1889ء میں سیکنڈانٹر نیشنل کی پہلی کانگریس میں مزدوروں کے کام کے وقت کو آٹھ گھنٹے تک محدود کرنے کا فیصلہ ہوا جس کو پیرس کی بین الاقوامی کانگریس میں منظوری دی گئی۔ غرض کہ شکاگو کے حادثات نے مزدوروں کی زندگی میں بہتری کے چراغ روشن کئے اور سرمایہ داروں کے خلاف دنیا کے مزدوروں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کا موقع فراہم کیا۔یہی تاریخی اسباب تھے جن کی بناپر محنت کش طبقے کی طبقاتی استحکام کا عمل شروع ہوا۔ لیکن سچائی یہ ہے کہ مزدوروں کی ایک بڑی اکثریت کے حالات اب بھی بد سے بد تر ہیں اکثر مزدوروں کو دو و قت کی روٹی میسر نہیں ہے، ان کے سرپر چھت نہیں ہے ، وہ کھلے آسمان کے نیچے فٹ پاتھ پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ دہلی، ممبئی اور کلکتہ جیسے بڑے شہروں میں لاکھوں کی تعداد میں جھونپڑیوں میں زندگی گزارنے والے مزدوروں کے معیارِ زندگی کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت مزدوروں کو پینے کا پانی تک مہیا نہیں کرا پاتی۔ آسمان چھوتی عمارتوں کی تعمیر کرنے والے مزدور تنگ اور تاریک گلیوں میں جانور جیسی زندگی جینے پر مجبور ہیں۔ہمارا ملک ایک جمہوری ملک ہے اور یہاں بھی مزدوروں کی حالت کتنی بد تر ہے اس کا اندازہ اس بات سے ہی لگایا جا سکتا ہے کہ ایک پورا خاندان دن بھر جی توڑ محنت کرنے کے بعد بھرپیٹ کھانا حاصل نہیں کرپاتا۔ آج کے تکنیکی ترقی یافتہ دور میں بھی مزدوروں کی حالت میں بہتری لانے کے بجائے ان کے کام کو اور زیادہ دشوار بنا دیا گیا ہے ۔ آج ایک مزدور کو دس سے پندرہ گھنٹے تک کام کرنا پڑتا ہے ۔ مرکزی حکومت نے دیہی مزدوروں کو سال میں کم از کم سو دنوں کا روزگار مہیا کرانے کے لئے ’’منریگا ‘‘ جیسی اسکیم چلائی ہے لیکن افسوس صد افسوس کہ منریگا میں جس طرح کی بد عنوانی ہوئی ہے اس کا خلاصہ سی اے جی کی رپورٹ نے کردیا ہے۔ بیشتر ریاستوں میں اس اسکیم کا فائدہ مزدور طبقے کو نہیں مل پایا ہے اور بڑی لوٹ مچائی گئی ہے۔ نتیجہ ہے کہ یہ فلاحی اسکیم بھی اپنے مقاصد کو پورا نہیں کرسکی اور غریب طبقہ خاطر خواہ مستفیض نہیں ہو سکا۔ غرض کہ آج سے 123سال قبل مزدوروں نے اپنے کام کے اوقات کو کم کرنے اور اپنی زندگی میں بہتری لانے کا جو خواب دیکھا تھا اور جس کے لئے جدوجہد شروع کی تھی وہ لڑائی اب تک اپنی منزل تک نہیں پہنچی ہے۔ علامہ اقبالؔ نے ٹھیک ہی کہا تھا :
 
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات
کب ڈوبے گا سرمایہ  پرستی  کا  سفینہ
دنیا ہے  تری  منتظرِ روزِ  مکافات
***********
Comments


Login

You are Visitor Number : 991