donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Political Articles -->> Articles On National Issue
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Fatah Mohammad Nadvi
Title :
   Hamara Qaumi Seyasi Manzar Nama

 

ہمارا قو می سیاسی منظر نامہ

 

فتح محمد ندوی

09210806122

      
           ہمارے ملک کی سیاست اس وقت زیادہ گرما جاتی ہے بلکہ شدت اختیار کر لیتی ہے جب کوئی بڑا الیکشن سا منے ہو یا کسی ا یسے بڑے حادثے کو ٹالنے کے لئے جو اہل سیا ست کے ووٹ بینک یا کر سی  کے لئے خطرہ بن رہا ہو۔ یہ اس طرح کی سیا سی صورت حال بنا نا یا پیدہ کرنا ہمارے سیاستدانوں کی کمزوری کہیے یا مفاد پرستی لیکن وہ اقتدار کی خاطر ملک کی سا  لمیت اور سماج کے ساتھ اس طرح کے کھلواڑ کر نے سے باز نہیں آتے۔ کبھی مذہب کا سہارا لیکر اور کبھی مظلوموں کے انصاف کے نام یہ حرکتیں ہمارے سیاست دانوں کی طرف سے جاری رہتی ہیں۔ ماضی کی ایسی بہت سی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں کہ ہمارے سیاست دانوں نے ملک کے مفاد سے اوپر اٹھ کر اپنے ذاتی مفاد کی خاطر وطن عزیز کی پیشانی پر کتنے بدنما داغ لگائے۔ دنیا بھر میں ملک کے وقار ، تحفظ اور قومی یکجہتی پر کتنے سوالیہ نشان لگے۔غرض وہ سب کچھ ہوا جس سے ملک کے امن پسند اور شریف لوگ حیران اور پریشان ہوے۔ شایداسی پس منظر میں ہندوستان کے سیاست دانوں کے درمیان رہ کر سابق الیکشن کمشنر لنگدو نے جو بات کہی تھی کہ ’’یہاں کے سیاست داں ہندوستانی سماج کے لئے ناسور ہیں‘‘ وہ سو فیصد انصاف پر مبنی ہے اور اسی طرح کے تا ثرات ہیں مشہوشاعررابندر ناتھ ٹیگورکے جو انہوں نے اپنے اسکول ’’ شانتی نکیتن‘‘ کے حوالے سے لکھے ہیںکہ ’’ میں ایک بات تم سے کہتا ہوں کہ ’’ شانتی نکیتن کو سیا ست کی آگ سے محفوظ رکھواور اس کو سیاست کا اکھاڑہ نہ بنا دینا‘‘  اگر عام آدمی اس طرح کی با ت کہے تو کوئی حرج اور پریشانی کی بات نہیں ۔لیکن رابندار تاتھ ٹیگور جیسا عظیم شخص اور مفکر اس طرح کی با ت قو می سیا ست  کے حوالے سے کہے تو اس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ 


            بات آنے والے پارلیمانی الیکشن کی کرتے ہیں ۔ جو ہمارے سروں پر کم اوراہل سیاست کے سروں پر زیادہ گرجنے لگے۔دیکھنا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ملک کی دونوں بڑی قومی پارٹیوں (بی جے پی اور کانگریس )سمیت دوسری علاقائی پارٹیاں بھی تیاری میںلگ چکی ہیںبلکہ کچھ تو پچھلے پانچ سال ہی تیاری کے عمل میں مصروف ہیں۔ یہ ہما ری سطحی اور گھٹیا سیاسی سوچ اور فکر کا نتیجہ ہے ۔کہ ہم انصاف اور سماج  کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کو بر طرف کر کے پھر آنے والے پا نچ سالوں کے لئے حکمت عملیاں بنا نے لگتے ہیں اور وہ تمام وعدے بھو ل جال تے ہیں جن کے توسط اقتدار ملتا ہے ۔ نیلسن منڈیلا نے دنیا کی موجودہ سیاست اور اہل سیاست کے تعلق سے کیا خوب بات کہی کہ اب دنیا میں رہنما نہیں سیا ست داں پیدا ہوتے ہیں کیونکہ رہنما وہ ہوتا ہے جو آنے والی نسل اور قوم کے لئے سو چتا ہے اور سیاست داں آنے والے الیکشن کے بارے میں سوچتا ہے‘‘ نیلسن منڈیلا کا یہ قول یقینا آب زر سے لکھنے کے قا بل ہے۔ واقعی آج ا گر ہم اپنی قوم میں رہنماتلاش کر نے لگے۔تو مایوس ہو جا ئیں گے۔ تھک جا ئیں گے ۔ کو ئی نظر نہیں آئیگا۔لیکن سیاست داں خوب مل جائیں گے۔یہ ہمارا اپنا قصور ہے کہ خود ہم رہنما نہیں بناتے ۔ہا ں سیاست داں ضرور بنا تے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ آزادی کہ بعد سے ابتک ہم مولانا ابوالکلام آزاد ۔ مولانا حسین احمد مدنیؒ۔ گاندھی جی اور پنڈت نہرو جیسے رہنما اپنی قوم کو نہیں دیسکے۔                                                               
     مثالیں اگر اس تخریبی سیاست کی دی جائیں جس کا اوپر ضمناً  تذکرہ ہوا۔اور جس میں ہم نصف صدی سے غو طے لگا رہے ہیں ۔تو حمام میں سب ننگے نظر آ ئیں گے ۔کو ئی بھی سیا سی پارٹی قومی سیاست میںہما رے سامنے ایسی نہیں جس کو آئیڈیل یا نمونے کے طورپر تعمیری سیاست کے منظر نامے میں بطور مثال پیش کر سکیں ۔وجہ اس کی کیا ہو سکتی ہے ۔کیا ہماری قومی سیاست پر اب تک غیر قوموں کے اثرات موجود ہیں؟۔کیا ہم اپنی کوئی ایسی سیاسی سوچ نہیں رکھتے جو گندگی اور تخریب سے پاک ہو؟ ۔ یقناً وہ سب کچھ ہمارے پاس ہے ۔جس کا تعلق ایمانداری، اخلاق اوراعلی کردار سے ہے ۔لیکن ان تمام اچھائیوں اور خوبیوں کو ہم نے قومی سیا ست سے الگ کردیا ۔جو ہماری قومی سیاسی سوچ اور فکر کی بنیاد سمجھی جا تی تھیں ۔ اور اس کو لے لیا جس کو انگریز اگل کر چلے گئے ۔ پھر اس کو چا ٹنے کے بعد جو ہوا اور ہورہا ہے ۔وہ سا منے ہے۔                                                   
              لیکن اب سوال یہ ہے کہ ملک کی قومی سیاست میں تخریب کیسے داخل ہوئی؟ اور اس میں کس پا رٹی کا زیا دہ رول رہا ہے ۔اگر کسی ایک پارٹی یا رہنما پر ذمہ ڈال دی جا ئے تو یہ بڑی نا انصافی ہوگی ۔کیونکہ اگر حقیقت پسندی سے تمام صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو سب ہی اس میں برابر کے شریک ہیں ۔ہا ں ! کیفیت اور کمیت کا فرق ہو سکتا ہے ۔ ویسے اگر ملک کی سا ٹھ سالہ سیاسی تا ریخ کا  ایک تجزیاتی جائزہ لیا جا ئے تو اس میں کیفیت کے اعتبا ر سے بھی اور کمیت کے اعتبار سے بھی بی جے پی تخریبی سیاست میںسر فہرست نظر آتی ہے ۔جہاں تک بات کانگریس یا دوسری علاقا ئی پا رٹیوں کی ہے تو تخریبی سیا ست کے جراثیم ان میں بھی موجود ہیں اور کانگریس تو بہر حال اس میدان میں کسی سے کم نہیں جبکہ کا نگریس پا رٹی سیا سی اعتبار سے گاندھی ،نہرو اور مولانا ابوالکلام آزاد جیسے سیکولر لیڈروں کی وارث ہے ۔ اور رہے گی اگر چہ کبھی کبھی یہ پا رٹی بھی اپنے بانیوں کے اصولوں سے منحرف ہو جا تی ہے لیکن جب بھی کا نگریس پا رٹی نے اپنے بنیادی اصولوں سے بغاوت کی تو انجام جو ہوا وہ سب جانتے ہیں ۔ بہر حال کانگریس اور بی جے پی کی تخریب کا ری میں ہمیشہ فرق رہا ہے گا نگریس آستین کا سانپ بن کر اور چھپ کر اس گھنائو نے عمل میں لگی رہی ۔ لیکن بی جے پی نے جس تخریب کا ری کو علی الاعلان ملک میں جنم دیا  اس سے ملک میں بد امنی بڑھی اور آپسی بھائی چارگی پر گہرا اثر پڑا۔مذہب کے نام پر سیاست کا فروغ ہوا دیش بھگتی کا نعرہ دیا گیا ۔ اوریہ سب لعنت بی جے پی کے اس قومی سیا سی نظریے سے آئی جس کی بنیاد ہی تخریب کا ری کے اوپر تھی۔ جس کے ایجنڈے میں وہ سب کچھ تھا اور ہے جو اس ملک کے اکثریت کے مزاج کے خلاف ہے ۔اگر بی جے پی کی سو چ اس اکثریت طبقے کے موافق ہوتی جس کو ہم نے ابھی گزشتہ سطروں میں لکھا ہے تو اس ملک میں کبھی بھی کا نگریس یا دوسری سیکیولر پا رٹیاں اقتدار میں نہ آتی ۔اندازا اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ کبھی بھی بی جے پی کو اس ملک میں اکثریت نہیں ملی ۔                     
       ۲۰۰۲ء میں گجرات میں خونی فساد ہوے ۔بی جے پی نے دنگوں کی سر پرستی کی ۔ مودی جو فساد کے ذمہ دار تھے وہ بھا جپا کے ہیرو بن گئے۔اور معا ملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ ہزاروں معصوموں کا قاتل بی جے پی کا پی ایم امید وار ہوگیا ۔خدا خیر کرے ۔۔۔۔ لیکن اب سوال یہ ہے کہ مودی پی ایم کی دعوے داری تک کیسے پہنچ گئے ۔اس کا آسان جواب یہ ہے کہ مودی کی اس امید واری میںجہاں بی جے پی کی فر قہ پر ست سوچ ذمہ دار ہے ۔وہیںکانگریس بھی برابر کی ذمہ دار ہے بلکہ مودی کو ہیروبنا نے میںکانگریس کا بڑا اہم رول ہے ۔جب بھی مسلمانوں کو خوش کرنا ہو ۔یا خوف دلانا ہو تو مودی کے وہ تمام گناہ ایک ایک کرکے باہر آجاتے ہیں اور ایسا محسوس ہو نے لگتا ہے کہ اب گجرات کے مظلوموں کو انصاف مل جا ئے گا۔لیکن معاملہ چیخ وپکار پر آکر ختم ہوجا تا ہے۔مظلومین پھر انصاف کا منہ تکنے لگتے ہیں۔ وجہ  اس کی یہ ہے کہ گجرات کے فرقہ وارانہ فساد سے بی جے پی کو گجرات مل گیا ۔لیکن بی جے پی کی اس فرقہ پرستی سے کانگریس کو ایک طویل مدت کے بعد پورا ہندوستان مل گیا ۔ اور کا نگریس اب اسی فارمولے پر عمل کر رہی ہے جس کی وجہ سے مودی کو اس کے گنا ہوں کی سزا نہیں مل رہی ہے ۔ ورنہ جہاں تک بات انصاف کی ہے تو مودی کو جیل میں ہونا چاہئے تھا ۔اس کو اپنے گناہوں کی سزا ملنی چاہئے تھی ۔کتنے ثبوت تھے جو اس کے ظلم کی گواہی کے لئے کا فی تھے ۔ لیکن تمام ثبوت اور ہزاروں گواہیاں ایک طرف کر کے ایس آئی ٹی کے ذریعہ سے مودی کو بچانے کی کو ششیں ہو تی رہی ہیں ۔اور آخر کار اپر یل ۲۰۱۲ء میں مودی کو ایس آئی ٹی نے کلین چٹ دیدی جبکہ اس کلین چٹ پر بہت سے سوالیہ نشان لگے انصاف پسند لوگوں نے اس پر شور مچایا ۔ سپرم کور ٹ کے سابق جج پی بی ساونت (جو گجرات کی فساد انکوئری کر چکے ہیں ) نے بھی ایس آ ئی ٹی کی اس رپوٹ سے متفق نہیں تھے جس میں مودی کو کلین چٹ دی گئی تھی ۔ معطل آپی ایس افسر سنجیو بھٹ نے بھی مودی کے خلاف سپرم کورٹ میں ایک حلف نامہ داخل کر کے یہ دعوہ کیا تھا کہ انہوںنے ۲۷ فروری ۲۰۰۲ء اپنی رہائش گا ہ پر سینئر افسروں کے ساتھ ایک میٹنگ کی تھی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ گودھرا سا نحہ کے بعد ہندوئوں کواپنا غصہ اتارنے کی اجازت دی جا ئے ۔اور اب مودی کے قریبی ڈی ونجارا بھی ان کے کردار کا مکمل خلاصہ کر چکے ہیں ۔ بہر حال ان تمام سچا ئیوں کے با وجود اب تک مودی کوسرکاری قاتل نہیں قرار دیا گیا ۔مظلوم انصاف کے لئے عدالتوں کے چکر لگا تے رہے کبھی گجرات سے دہلی اور کبھی دہلی سے گجرات ۔لیکن اب تک بحث اسی بات پر چلتی رہی کہ مودی گجرات فساد کے ذمہ دار ہیں یا نہیں ۔کچھ رپوٹیں ان کو آسانی سے بری کر دیتی ہیں ۔کچھ ان کو مجرم قرار دیتی ہیں ۔یہ ایک طویل سلسلہ ہے ۔کب ختم ہو گا اس پر کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے ۔ 


    تخریبی سیا ست کا یہ عفریت ہماری اخلاقی قدروں کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے لیکن آج تک اس سما جی اورگھنائونی برائی سے بچائو کے لئے کو ئی پیش قدمی نہیں ہو ئی۔ نہ سرکاری سطح پر کو ئی آواز اٹھی اور نہ ہی عوا می سطح پر ۔ جس کی وجہ سے 
صدیاں گزر جا نے کے بعد بھی کوئی تبدیلی قو می سیاست میں نہیں آئی۔ جہاں سے سفر شرو ع کیا تھاوہیں چکر لگاتے رہے۔ ایسی صورت میں اشد ضرورت اس بات کی ہے۔ کہ متحد ہو کر ان عناصر کا مقابلہ کر یں ۔ جو تخریبی سیاست اور سو چ کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ ور نہ وہ دن دور نہیں جب یہ جراثیم تمام سماج میں پھیل جا ئیں گے ۔ پھر آنے والی نئی نسل ملک کی ترقی کے بجائے ایک اندرونی تنائو اور فساد میں مبتلاء ہو جا ئے گی۔ 

*********************

Comments


Login

You are Visitor Number : 820