donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Political Articles -->> Articles On National Issue
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Dehli Me Modi Ka Rasta Rok Sakenge Arvind Kejriwal


دلی میں مودی کا راستہ روک سکیں گے اروند کجریوال؟


راجدھانی میں بی جے پی کی نظر اقتدار پراور وقار دائو پر


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی

 

    وزیر اعظم نریندر مودی کیا واقعی عوام میں مقبول ہیں؟ ان کا جادو اب بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے؟ عوام اب تک ان کے گرویدہ ہیں یا پھر ان کی لہر صرف ٹی وی چینلوں تک محدود ہے؟ اس کا اصل امتحان اب ہوگا،دلی ودھان سبھا الیکشن میں۔راجدھانی دلی میں ایک سال کے اندر یہ تیسرا الیکشن ہونے جارہا ہے۔ پہلے ودھان سبھا کا ہوا، پھر لوک سبھا کا ہوا اور اب اک بار پھر ودھان سبھا کا ہونے جا رہا ہے۔ ظاہر ہے یہاں اصل مقابلہ بی جے پی اور عام آدمی پارٹی میں ہوگااور کانگریس کی حیثیت ایک ووٹ کٹوا پارٹی کی ہوگی جس کی بیشتر سیٹوں پر ضمانت ضبط ہوسکتی ہے۔ راجدھانی میں پڑھے لکھے لوگ رہتے ہیں،جو بے حد مصروف بھی ہوتے ہیں اوران میں سے بیشتر معاشی اعتبار سے بھی مطمئن ہیں ،اسی لئے ان کی اکثریت ووٹ ڈالنے نہیں جاتی ہے۔ اس بار دیکھنے والی بات ہوگی کہ جو لوگ ووٹ ڈالنے نہیں نکلتے ہیں وہ ووٹنگ کرتے ہیں یا نہیں؟ یہاں پہلی بار مودی بمقابلہ کجریوال کی لڑائی ہوگی اور یہ انتخاب ثابت کرے گا کہ مودی کی جس لہر کی بات میڈیا کرتا ہے اور جس طرح سے وہ مودی کوکھمبے پر چڑھا رہا ہے، اس کی حقیقت کیا ہے؟ 

یہ جیت نہیں آساں

    راجدھانی دلی میں ودھان سبھا کی ۷۰ سیٹیں ہیں اور گزشتہ اسمبلی الیکشن میں کسی بھی پارٹی کو اکثریت نہیں ملی تھی جس کی وجہ سے یہ شہر اور ریاست اب تک جمہوری سرکار سے محروم ہے۔ لیفٹننٹ گورنر کی معرفت بی جے پی ہی سرکار چلا رہی ہے اور اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ اب دوبارہ الیکشن کے حالات بن گئے ہیں ۔ اب تک بی جے پی پس و پیش میں تھی کہ یہاں جوڑ توڑ کی سرکار بنائے یا دوبارہ الیکشن کرائے مگر حال ہی میں راجدھانی سے متصل ہریانہ میں ودھان سبھا انتخابات ہوئے اور بی جے پی کو یہاں واضح اکثریت مل گئی  تو اس کا حوصلہ بلند ہوگیا اور دلی میں اسمبلی تحلیل کر کے الیکشن کرانے کا فیصلہ لے لیا گیا۔ مہاراشٹر میں بھی اسمبلی الیکشن حال ہی میں ہوئے ہیں جہاں بی جے پی نے سرکار بنائی ہے۔ ان دونوں ریاستوں میں جیت نے سنگھ پریوار کو دلی کے تئیں پرامید کردیا ہے اور اسے لگتا ہے کہ نریندر مودی کے نام پر دلی میں بھی الیکشن جیتا جاسکتا ہے۔ حالانکہ یہ بی جے پی کی خام خیالی بھی ہوسکتی ہے کیونکہ ہریانہ اور مہاراشٹر میں کانگریس کی سرکاریں تھیں۔ ایک دس سال سے چل رہی تھی تو دوسری پندرہ سال سے قائم تھی۔ ان دونوں سرکاروں پر گھوٹالوں کے سنگین الزامات بھی تھے۔ ہریانہ میں سونیا گاندھی کے داماد رابرٹ واڈرا کی زمین کا معاملہ الیکشن میں بھی اچھلا تھا جب کہ مہاراشٹر میں کئی گھوٹالے انتخابات میں موضوعِ بحث تھے اور کانگریس و این سی پی کے کئی منتری الزامات کے گھیرے میں تھے۔ان حالات میں انٹی انکامبینسی کا فیکٹر بھی حاوی ہوتا ہے جو یقیناً دونوں ریاستوں میں حاوی تھا،ایسے میں بی جے پی کی جیت کوئی حیرت کی بات نہیں تھی۔ وہ بھی ایسے حالات میں جب کہ دوسری کو ئی مضبوط پارٹی مدمقابل نہ تھی۔ مہاراشٹر میں کانگریس اور این سی پی کے سامنے بی جے پی اور شیو سینا تھیں جو نظریاتی اعتبار سے یکسانیت رکھتی ہیں توہریانہ میں کانگریس کے مقابل بی جے پی تھی اور دوسری پارٹی اوم پرکاش جوٹالہ کی آئی این ایل ڈی تھی، جس کے لیڈر اوم پرکاش چوٹالہ اب بھی جیل میں ہیں۔ ان دونوں صوبوں کے سیاسی حالات دلی سے الگ تھے لہٰذا اب یہ سوچنا غلط ہوگا کہ بی جے پی کو دونوں ریاستوں میں کامیابی مل گئی تو دلی میں بھی مل جائے گی۔ اترپردیش، راجستھان اور گجرات کے ضمنی انتخابات میں تو ان پارٹیوں نے بی جے پی کو دھول چٹایا جنھیں لوک سبھا الیکشن میں کرارای ہار کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔

’’آپ‘‘ کے سامنے بڑا چیلنج

    عام آدمی پارٹی دلی میں ایک مضبوط دعویدار کے طور پر ابھری ہے۔اس نے کانگریس کے ووٹ اپنی جانب کھینچا ہے اور ساتھ ہی ساتھ شہر کے ان لوگوں کے لئے بھی امید کی کرن ہے جو یہاں ایک سیکولر سیاسی متبادل چاہتے ہیں۔ گزشتہ ودھان سبھا الیکشن میں اس نے حیرت انگیز طور پر ۲۸ سیٹیں جیتی تھیں  جب کہ بی جے پی کو ۳۲ اور کانگریس کو ۸ سیٹیں ملی تھیں۔ لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی اور عام آدمی پارٹی کے بیچ مقابلہ رہا اور کانگریس کے ووٹ میں مزید کمی آگئی۔ اسمبلی الیکشن میں مسلمانوں نے کانگریس کی حمایت کی تھی جس کے سبب اسے ۸ سیٹیں مل پائی تھیں جنھیں لگتا تھا کہ بی جے پی کا راستہ کانگریس کی روک سکتی ہے مگر نتائج نے ثابت کردیا کہ ان کی یہ سوچ درست نہیں تھی لہٰذا لوک سبھا الیکشن میں شہر کے مسلمان عام آدمی پارٹی کے ساتھ چلے گئے ۔ کانگریس کے ووٹ میں کمی آئی اور ’’آپ‘‘ کا ووٹ بڑھا یہ الگ بات ہے کہ وہ ایک سیٹ بھی جیت نہیں پائی اور تمام کی تما م سیٹوں پر بی جے پی نے قبضہ جما لیا۔ودھان سبھا اور لوک سبھا انتخابات میں موضوعات الگ الگ ہوتے ہیں اور بہت ممکن ہے کہ اب ووٹ کی کاسٹنگ اس انداز میں نہ ہو،جس انداز میں لوک سبھا الیکشن میں ہوئی تھی۔ شہر کے مسلمان یک طرفہ طور پر عام آدمی پارٹی کے ساتھ نظر آرہے ہیں اور ممکن ہے کہ اس ۱۲فیصد ووٹ میں سے بیشتر اسی کے ساتھ جائے اور کانگریس کے امیدواروں کی اکثر سیٹوں پر ضمانت ضبط ہوجائے، جنھیں مسلم ووٹ مکمل طور پر حاصل ہوتا تھا۔اروند کجریوال نے یہاں کے لوگوں میں امیدیں جگائی ہیں اور ممکن ہے کہ عوام کی ہمدردی ان کے ساتھ ہو مگر نریندر مودی بھی ایک مضبوط شخصیت کے طور پر ابھرے ہیں اور ان کے اب تک کے کام کاج سے عوام مطمئن نظر آرہے ہیں ۔ بی جے پی اس وقت مودی کے چہرے کے ساتھ ہی ہر جگہ اتر رہی ہے اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہی ہے گویا ہر مرض کا اس کے پاس ایک علاج ہے نریندرمودی۔ اتفاق سے تمام بڑے بڑے میڈیا ہائوس ان کی حمایت میں ہیں لہٰذا جوخبریں بھی آرہی ہیں وہ مودی کو ہیرو بنانے والی ہیں مگر یہ سلسلہ زیادہ دن تک نہیں چلنے والا ہے۔ حالات کبھی بھی بدل سکتے ہیں اور ہوا کا رخ کسی بھی سمت ہوسکتا ہے۔ ایسے میں دلی میں کانٹے کی ٹکر ہوگی اور یہ کہنا مشکل لگتا ہے کہ اس جنگ میں جیت مودی کی ہوگی یا اروند کجریوال کی۔دلی میں ایک مدت بعد فرقہ وارانہ فسادات بھی شروع ہوئے ہیں،ا گر ان میں اضافہ ہوتا ہے تو یقینا اس سے بی جے پی کو فائدہ ملے گا۔

(مضمون نگار ٹی وی پروڈیوسر اور اسکرپٹ رائٹر ہیں)  

 

رابطہ

Email: ghaussiwani@gmail.com
GHAUS SIWANI/Facebook

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 658