donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Political Articles -->> Articles On National Issue
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Mushkil Hai Modi Aur Shah Ki Raah


پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات


مشکل ہے مودی اور شاہ کی راہ


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    کیاوزیراعظم نریندر مودی اور امت شاہ ، بی جے پی کو رواں سال کے اسمبلی انتخابات میں جیت دلاپائیںگے؟ کیا مغربی بنگال میں ان کی پارٹی اپنا کھاتا کھولنے میں کامیاب ہوگی؟ کیا بنگال اور آسام میں بی جے پی کو لوک سبھا میں ملے ووٹوں کا تناسب اسمبلی انتخابات میں بھی برقرار رہے گا؟ کیا تمل ناڈو میں وہ پارٹی کا وقار برقرار رکھنے میں کامیاب ہونگے؟ کیا کیرل میں بی جے پی اپنی جگہ بنا پائیگی؟ کیا 2017ء میں اترپردیش اور اتراکھنڈ میں بھاجپا ،سرکار بنانے میں کامیاب ہوگی؟ کیا پنجاب میں وہ اکالی دل کے ساتھ مل کر چلا رہی حکومت کو بچاپائیگی؟ ان سوالوں کے بیچ نریندر مودی نے اپنے دست راست امت شاہ کو اگلے تین برسوں کے لئے بی جے پی کاصدر بنوادیا ہے۔ انھیں تین سالوں کے بیچ گجرات میں بھی چنائو ہونے ہیں جو مودی اور شاہ کا گڑھ ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو انھیں پارٹی صدر بناکر بی جے پی اور آرایس ایس نے بہت بڑا چیلنج ان کے سامنے ڈال دیا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کسی بھی قیمت پر انھیں پارٹی صدر بنانا چاہتے تھے کیونکہ ان دونوں کے بیچ غضب کا تال میل ہے۔قارئین کو یاد ہوگا کہ مودی کے گجرات کا وزیراعلیٰ رہتے شاہ ان کے کس قدر قریب تھے۔ مانا جاتا ہے کہ میاں بیوی کے بیچ جس قدر گہرے رشتے ہوسکتے ہیں ،اس سے زیادہ ان دونوں کے بیچ افہام وتفہیم ہے۔ وہ ایک دوسرے کے خلوت وجلوت کے ساتھی ہیں۔ مودی کے گجرات کا وزیراعلیٰ رہتے یہاں جو فرضی انکائونٹر ہوئے تھے ان میں امت شاہ کا نام بھی آیا تھا اور مہینوں انھیں جیل میں گزارنا پڑا تھا۔ اب بھی وہ ضمانت پر باہر ہیں۔ اسی طرح مودی کے ذریعے ایک لڑکی کی جاسوسی کرنے کے معاملے میں بھی امت شاہ کی آڈیوٹیپ سامنے آئی تھی۔اب شاہ کو پارٹی صدر بنواکر وزیراعظم نے اسی رشتے کو آگے بڑھایا ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ جہاں ایک طرف نریندر مودی ترقی کی بات کریںگے وہیں امت شاہ ہندتو کی بات کریں گے کیونکہ بی جے پی’ ہندتو‘ کو کسی بھی حال میں نہیں چھوڑ سکتی جس نے اسے ملک کے اقتدار تک پہنچایا ہے۔

 شاہ کے سامنے چیلینج   

     شاہ ،تین سال کے لئے بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر منتخب ہوگئے ہیں۔اس درمیان اتر پردیش،اتراکھنڈ، پنجاب، گجرات، مغربی بنگال، آسام، کیرل اور تمل ناڈو جیسی اہم ریاستوں کے اسمبلی انتخابات بھی ہونگے۔ ان میں سے کئی ریاستوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی خود کو مضبوط کرنے میں مصروف ہے۔ آئندہ تین سال بھاجپا کے لئے چیلنج بھرے ہیں اور اس بیچ پارٹی قائد ہونے کے سبب امت شاہ کو تمام کامیابیوں اور ناکامیوں کا ذمہ اپنے کندھوں پر لینا پڑے گا۔ 2015 بھارتیہ جنتا پارٹی کے لئے اچھا سال نہیں تھا۔ دہلی میں اسے عام آدمی پارٹی نے بری طرح شکست دی تو بہار میں جنتا دل (یو)  اور آر جے ڈی سے اسے غیر متوقع طور پر ذلیل ترین ہار کا سامنا کرنا پڑا۔ ہوسکتا ہے ان شکستوں کے سبب امت شاہ کا اعتماد ڈگمگایا ہوگا مگر انہوں نے اسے ظاہر نہیں ہونے دیا۔دہلی میں بھارتی جنتا پارٹی اروند کیجریوال کے کرشمے سے ہاری، جبکہ بہار میں تمام مخالف پارٹیوں کی یکجہتی کی وجہ سے اس ہارنا پڑا۔

    جن ریاستوں میں انتخابات ہونے ہیںوہاںاگر بی جے پی اپنے ووٹ فیصد میںبرتری کر لیتی ہے تو یہ بی جے پی صدر کے لئے سکون بھرا ہوگا اور اگر کسی ریاست میں حکومت بن جائے تو بڑی کامیابی کہی جائے گی۔ گجرات میں بی جے پی کی ساکھ کو محفوظ ہے۔ ہماچل پردیش میں پارٹی کو اقتدار میں واپس لانا، پنجاب میں اتحاد کے ساتھ حکومت بنانا اور گوا میں اقتدار بچائے رکھنے کا چیلنج شاہ کے سامنے ہے۔ بی جے پی صدر بننے کے اگلے ہی دن بعد شاہ نے مغربی بنگال میں کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے مودی حکومت کی تعریف کی اور کہا کہ مرکزی حکومت نے ہر محاذ پر ملک کو آگے لے جانے کا کام کیا ہے۔ اُدھر شاہ کے صدر بننے کے بعد بھی مودی نے ٹویٹ کیا کہ مجھے یقین ہے کہ پارٹی ان کی قیادت میں نئی بلندیوں تک جائے گی۔

حکمت عملی کے ماہرشاہ

     امت شاہ میں حکمت عملی بنانے کی پرتیبھا ہے۔ وہ اپنی حکمت عملی زمینی کارکنوں کے ساتھ مل کر بناتے ہیں۔الیکشن جیتنا صرف امیدوار کی صلاحیت اور مقبولیت پر نہیں بلکہ اس کی انتخابی حکمت عملی پر بھی منحصر ہے اور امت شاہ اس کے لئے جانے جاتے ہیں۔ وہ کاروباری پس منظر والے جین خاندان سے ہیں۔ بھاری بھرکم جسم اور خوشحال نظر آنے والے شاہ، گجرات کے عام متوسط خاندانوں کی طرح ہی ہندو نظریاتی ہیں۔ ان کی تصویر ،مودی کی طرح آر ایس ایس کے پرچارک جیسی نہیں ہے۔اس کے باوجود وہ اپنے مقصد کے تئیں کسی رضاکار کی طرح ہی مصروف عمل رہتے ہیں۔ان کاکاروباری پس منظر انہیں چیزوں کو زیادہ صاف اور عملی طور پر دیکھنے میں مدد کرتا ہے۔ ان کے پارٹی صدر منتخب ہونے کے بعد اعلان کیا گیا کہ صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد گزشتہ ڈیڑھ سال میں وہ پارٹی کو کھڑا کرنے کے لئے اوسطا روز انہ500 کلومیٹر سفر کر چکے ہیں۔ اب تک امت شاہ کی حکمت عملی کی کامیابی میں مخصوص حالات کا بھی رول رہاہے مگر ان کا اصل امتحان ہونے والاہے۔ اگلے تین سال کے دوران پندرہ سے زیادہ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہیں۔ امت شاہ کوپارٹی صدر بنا کر مودی نے یہ سمجھ لیا ہے وہ اپنی انتخابی حکمت عملی کو لال کرشن اڈوانی جیسے مخالفین کے دخل کے بغیر چلا سکتے ہیں۔ان کی شراکت داری مؤثر اور بامعنی بھی ہے۔ اڈوانی-واجپئی جوڑے کے الٹ اس میں بہت صاف ہے کہ نمبر ون کون ہے؟ یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ شاہ 2016 کے بڑے انتخابات میں کیسی حکمت عملی بناتے ہیں، تاکہ مودی کو راجیہ سبھا میں بھی اکثریت مل سکے۔

سنگھ کی پہلی پسند تھے شاہ

    آر ایس ایس جب اس سال اور اگلے سال کچھ ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے لئے حکمت عملی تیار کر رہا تھا تب حکومت اور تنظیم کے درمیان ہم آہنگی بٹھانے والا ایک ہی نام سامنے آیا اور وہ نام ہے امت شاہ کا۔ان کے خلاف کوئی بھی نامزدگی کرنے کی ہمت نہ کرسکا۔ مطلب امت شاہ کا صدر بننا طے تھا۔سنگھ کی حکمت عملی میں حکومت اور بی جے پی تنظیم کا ساتھ تبھی مل پاتا جب وزیر اعظم اور بی جے پی صدر کی راہ ایک ہو۔ سنگھ کے رہنماؤں کو اس بات کا اندیشہ تھا کہ اگر شاہ کی جگہ کوئی اور صدر بنے گا تو حکومت سے مطابقت بٹھا پانا مشکل ہوگا۔ شاہ کے صدر بننے کے بعد ایک بات اور صاف ہو گئی کہ اگلا لوک سبھا انتخاب بھی مودی۔شاہ جوڑے کی ہی قیادت میں لڑا جائے گا۔ سنگھ کے ایک بڑے لیڈر کے مطابق جب بی جے پی صدر کے طور پر بہت سے ناموں پر غور ہو رہا تھا تب مودی نے امت شاہ کے دو دہائی سے کئے جا رہے کاموں کی تفصیلات دی کہ کس طرح شاہ صدر کے عہدے کے لئے موزوں ہیں۔ دہلی اور بہار کے اسمبلی انتخابات کو چھوڑ دیا جائے تو شاہ کے کھاتے میں کامیابیاں ہی کامیابیاں ہیں۔ چاہے وہ ریاست گجرات میںفنانس کارپوریشن کی مدت کارہو یا پھر گجرات میں وزیر ٹرانسپورٹ کی ذمہ داری۔ اتر پردیش کا انچارج رہتے ہوئے لوک سبھا انتخابات میں 80 میں 71 نشستیں بی جے پی اور دو نشستیں اتحادیوں کو دلانے کا کریڈٹ بھی شاہ کے ہی کھاتے میں جاتا ہے۔ اگست 2014 میں جب شاہ کو بی جے پی کا صدر بنایا گیا تب تنظیم کو مضبوط کرنے کے علاوہ پارٹی کے ممبران کی تعداد میں اضافہ میں بھی ان کی بے مثال کامیابی ہے۔ شاہ کے صدر بننے کے بعد مہاراشٹر، ہریانہ، جھارکھنڈ میں جہاں اکیلے دم پر حکومت بنائی وہیں جموں و کشمیر میں پہلی بار اتحاد کے ساتھ بھگوا رنگ دکھا۔ بہار میں اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کے ووٹ فیصد میں اضافہ ہوا۔ نریندر مودی کا کہنا صاف تھا کہ ایک بار شاہ کو مکمل مدت کا موقع دیا جائے۔سنگھ لیڈروں نے بھی وزیر اعظم کی اس مانگ کو نظرانداز نہیں کیا اور صاف کر دیا کہ شاہ ہی صدر ہوں گے۔ اس کے بعد اس عہدے کے دعویداروں نے خاموشی ہی بہتر سمجھی۔

    شاہ کی تاجپوشی کے وقت بی جے پی کے ’’مارگ درشک منڈل‘‘ کے رکن لال کرشن اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی بھلے ہی پارٹی ہیڈکوارٹر نہ پہنچے ہوں لیکن کئی بڑے لیڈر اس سوال کو نظر انداز کر ان کی تعریف کر رہے تھے۔ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کہتے ہیں کہ اس فیصلے سے پارٹی کارکنوں میں جوش ہے اور آنے والے دنوں میں بی جے پی اور مضبوط ہوگی۔

شاہ کی اولیت

    انتخابات کے پیش نظر شاہ پارٹی کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔شاہ کے ایک قریبی رہنما کے مطابق پارٹی کے پروگراموں کو بڑھانے کے مقصد سے بی جے پی صدر نے درجنوں ذیلی کمیٹیاں اور محکمے بنائے ہیں۔ اب ان پروگراموں پر زور دیا جائے گا جو ابھی تک دھیمی رفتار سے چل رہے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ان میں کئی پروگراموں کی ہدایت سنگھ کی جانب سے آئی تھی۔ دہلی اور بہار کی شکست کے بعد مایوس کارکنوں کو لگتا تھا کہ شاہ کی کرسی برقرارنہیں رہے گی لیکن اب شاہ حامی کارکنوں کا جوش بڑھے گا ساتھ ہی سنگھ کا بھی انھیں مکمل ساتھ ملے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 988