donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Political Articles -->> Articles On National Issue
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Hafeez Nomani
Title :
   Ab Bari Hai Dehli Aur Kashmir Ki


اب باری ہے دہلی اور کشمیر کی


حفیظ نعمانی

 

بی جے پی کے عقل کل اور مالک و مختار شری نریندر مودی کی وہ تھکن جو مہاراشٹر اور ہریانہ فتح کرنے کی وجہ سے تھی وہ اب اُتر گئی ہے۔ انہوں نے اب ہر مسئلہ کو دیوالی کے بعد پر ٹالنا شروع کردیا ہے۔ دیوالی کے متعلق انہوں نے اعلان کردیا ہے کہ وہ خوشی کا یہ دن سری نگر میں اپنے اُن بہن بھائیوں کے ساتھ گذاریں گے جو آسمان سے زمین پر آگئے ہیں۔ مودی جی کے پیش نظر جموں کشمیر کا الیکشن بھی ہے جو حالات اچھے ہوتے تو شاید ہورہے ہوتے یا ہونے والے ہوتے۔ لیکن آج صورت حال یہ ہے کہ ووٹ دینا اور ووٹ لینا یا ووٹ کی بات کرنا ایسا ہی لگے گا جیسے ہفتوں کے بھوکوں سے مرغ پلائو کی بات کرنا۔ اچھا تو یہ ہے کہ ایک سال کے لئے کشمیر میں صدر راج نافذ کردیا جائے اور ایک سال میں جب کشمیریوں کی کمر سیدھی ہوجائے تب الیکشن کی بات کی جائے۔

مودی جی کے سامنے ایک مسئلہ دہلی کا بھی ہے وہاں 6  مہینے سے صدر کی حکومت ہے اور اب تک بی جے پی یہ ہمت نہیں کرپارہی تھی کہ وہاں الیکشن کرائے یا چور دروازہ سے تھوڑی سی بدنامی قبول کرکے حکومت بنالے۔ ہریانہ اور مہاراشٹر کے نتائج سے بی جے پی کے پرجوش کارکنوں کو یہ خیال ہونے لگا ہے کہ وہ دہلی میں بھی الیکشن جیت لیں گے۔ ہوسکتا ہے کہ ان کا اندازہ صحیح بھی ہوجائے لیکن ہمارا خیال یہ ہے کہ یہ الیکشن نہ ہریانہ جیسا ہوگا اور نہ مہاراشٹر جیسا۔ ہریانہ میں دس سال سے کانگریس کی حکومت تھی اور مہاراشٹر میں 15  سال سے کھچڑی حکومت تھی اور دونوں جگہ وہی ہورہا تھا جو کانگریس مرکز میں کررہی تھی اور عوام کو ایسی ہی نفرت تھی جیسی مرکزی حکومت سے تھی نتیجہ بھی تقریباً وہی ہوا جو لوک سبھا کے الیکشن میں ہوا تھا لیکن بی جے پی کے لیڈروں کو سمجھنا چاہئے کہ دہلی کا الیکشن بالکل مختلف ہے۔ دہلی کی حکومت کے خلاف عوام میں جو غصہ تھا وہ اس وقت نکل چکا تھا جب انہوں نے کانگریس کو آٹھ سیٹوں تک محدود کردیا تھا اور ایک بالکل نئی پارٹی عام آدمی پارٹی کو 27  سیٹوں پر کامیابی دلادی تھی۔ اب یہ مسٹر اروند کجریوال کی ناتجربہ کاری تھی کہ انہوں نے اسے مذاق سمجھا اور حکومت کو لات ماردی اور پارلیمنٹ کا الیکشن لڑنے چلے گئے۔


اب دہلی کی پوزیشن ایسی ہی ہے جیسی 1977 ء میں ملک کی تھی کہ عوام کا غصہ اس درجہ پر تھا کہ اگر اندراجی اور سنجے گاندھی ان کے ہاتھ آجاتے تو وہ اُن کے کپڑے پھاڑ دیتے۔ اور یہ غصہ کا ہی اظہار تھا کہ اُترپردیش کی 80  سیٹوں میںکانگریس کو ایک سیٹ بھی نہیں ملی تھی۔ اس کے بعد اندرا گاندھی اور سنجے گاندھی جگہ جگہ ذلیل ہوئے خزانے کی تلاش میں اُن کے مکان کھودے گئے جہاں گئے منھ چھپاکر گئے۔ پھر جنتا پارٹی میںپھوٹ پڑنا شروع ہوگئی اور ایسی پھوٹ پڑی کہ ساڑھے تین سال میں ہی حکومت ختم ہوگئی اور نئے الیکشن کا اعلان کرنا پڑا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کانگریس اسی شان سے واپس آگئی جیسی 1977 ء سے پہلے تھی۔ وجہ صرف یہ تھی کہ عوام کا غصہ اُتر گیا اور عوام جتنا ذلیل کرنا چاہتے تھے اُتنا ذلیل کرلیا اور خوش ہوگئے۔

دہلی میںوہی ہوچکا ہے جو 1977 ء میں ملک میں ہوا تھا 15  سال تک مسز شیلا دِکشت کی حکومت برداشت کی کامن ویلتھ کی تیاری میں جو حکومت کے خزانہ کی لوٹ مچی وہ سب نے دیکھی پھر جب الیکشن آیا تو شیلا جی کو بھی 25  ہزار ووٹوں سے ہرا دیا۔ بی جے پی جس کی حکومت 15  برس سے نہیں تھی اس کو بھی اتنی سیٹیں نہیں دیں کہ وہ حکومت بنا سکے اور کجریوال کو وہ دے دیا جس کا انہوں نے خواب بھی نہیں دیکھا تھا۔ اب ایسی حالت میں کہ غصہ اُتر چکا ہے دہلی کے عوام اگر مہربانی کریں گے تو کانگریس پر کریں گے اور اگر کجریوال کو جذباتی مگر ایماندار سمجھیں گے تو ان کو بھی نوازیں گے۔ بی جے پی کو کیوں دیں گے اور اتنے کیوں دیں گے کہ حکومت بنا سکیں؟ بی جے پی کا تجربہ تو دہلی کے عوام کرچکے ہیں اور اس تجربہ کا ہی نتیجہ تھا کہ 15  سال شیلا دِکشت کو حکومت کرنے کا موقع دیا۔ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ اگر دہلی میں بی جے پی کو حکومت کرنے کا شوق ہے تو پھر چور دروازہ سے حکومت بنا لے الیکشن میں اگر اسے شکست کا منھ دیکھنا پڑا تو ہریانہ اور مہاراشٹر کی ساری خوشی کافور ہوجائے گی۔(یو این این

*************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 596