donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Political Articles -->> Articles On National Issue
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Imteyaz Ahmad Advocate, Kolkata
Title :
   Siyasat Ke Khel Bhi Kitne Nirale Hain


 

سیا ست کے کھیل بھی کتنے نرالے ہیں 


(امتیاز احمد (ایڈوکیٹ کلکتہ ہائی کورٹ
(Mob:9831037013)


    سیا ست کے کھیل بڑے نرا لے مگر بڑے د ما غی ہو تے ہیں۔ جس طرح شطرنج کا کھیل جس میں دما غ کی بڑی آ زما ئش ہو تی ہے بہ نسبت دوسرے کھیلو ں کے جن میں دما غ سے زیا دہ چستی پھر تی STAMINA اورعمر بڑی معنی رکھتی ہیں ۔ کچھ کھیل تو عمر کی بس ایک حد تک ہی کھیلے جا سکتے ہیں۔ اپنے کھیل میں نامو ر اوراور ما ہر ہو نے کے با وجود عمر کی ایک حد میں ریٹا ئر ہو نا ہی پڑتا ہے جیسے فٹ بال کا جادوگر پیلے یا میرا ڈونا یا پھر کر کٹ کا ہیرو سچن تندولکر، لارڈ بر یڈ مین وغیرہ وغیرہ۔ بر عکس اسکے مثل شراب کہ جتنی پرانی ہو تی ہے اس میں نشہ اتنا زیا دہ ہو تا ہے ۔

 سیا سی کھلا ڑیو ں کی بھی عمر جتنی زیا دہ ہو تی ہے ، اسکے کھیل میں بھی نکھا ر اتنا ہی ہو تا ہے ۔ دھا ر اتنی ہی تیزہوتی ہے زیادہ، اس کے با وجو د یہ خطرہ بڑا ہو تا ہے کہ جس طرح شطرنج میں ذرا سی بھول پو ری ما ت بن جا تی ہے۔ اسی طرح کھیل سیاست میں بھی معمولی غلطی مو ت بھی بن سکتی ہے۔ مثا ل ہے بھٹو جیسے چا لاک اور زیرک سیا ست داں کی ، صدام حسین اور معمر قذافی کی۔ علا وہ اسکے محمد علی جناح جیسی شخصیت جن کی بھول ہی بر صغیر ہندو پاک کے مسلما نو ں کی مستقل تبا ہی بنی، دنیا پر قبضہ کی خوا ہش عا لمی جنگ کی بھول ہٹلر کی خو د کی مو ت کی وجہ بن گئی ۔ جا پا ن کی عظیم تبا ہی سا منے آ ئی۔

مر حومہ اندرا گا ندھی جیسی بین الا قوامی سیا سی شخصیت کی ما لک کی ایمر جسنی والی بھول ان کے زوال کا سبب بن گئی۔ سیا سی کھیل کی ایسی مثا لیں بہت سا ری ہیں کہ ذرا سی بھول تخت سے تختۂ دار پر پہ نچا دیتی ہے ۔ 

لیکن سیا سی کھیل کا ایک پہلو اور بھی ہے اور وہ پہلو مثبت پہلو ہے۔ دنیا کے بہت سا رے سیاستدانو ں نے اپنی تعمیری سیا ست سے اس کھیل کے ان مثبت پہلو ئو ں کو اجا گر کیا ہے کہ جن سے قو مو ں کی تقدیریں بدل گئیں۔ تا ریخ کا دھا را پلٹ گیا۔ استحصال زدہ عوام کی زندگی کی تصویر یں بدل گئیں ۔ یہ تو ہم سبھی جا نتے ہیں کہ ہندستا نی عوام یہ اظہا رکس کیلئے کرتے ہیں کہ :
دے دی ہمیں آ زادی بنا کھڈ گ بنا ڈھال 
سابرمتی کے سنت تو نے کر دیا کمال 

    مگر تخریبی سیا ست کر نے وا لو ں کو سابرمتی کے سنت کی وہ سیا ست ایک نہ بھائی جس سیا سی کھیل میں ذات پا ت، دھرم ، مذہب، گر جا ، گردوارے ، مسجد اور شوالے کے سوال پر ملک کی فضا میں نفرت کا زہر گھو لنا اور انسا نو ں کی بلی لینا شا مل نہیں تھا اسلئے پہلے سابرمتی کے سنت کا سینہ گو لیو ں سے چھلنی کیا گیا پھر آزادی کے بعد سے ابتک گر جا، مسجد اور شوالو ں کے نام پر نہ جا نے کتنی بارخو ن کی ہولی کھیلی گئی ، مو ت کا ننگا ر قص کیا گیااور آ ج بھی شرا ب کی طرح: 

    چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کا فر لگی ہو ئی 
کھیل بھی وہی ہے ، کھلا ڑی بھی وہی ہیں ۔ مقصد بھی وہی پرانا ہے ۔ 
    رام مند رتو بہا نہ ہے مقصدتو اقتدار ہتھیانا ہے 

آ ج پھر ایک با ر سیکو لرزم بنام کمیو نلزم یعنی انسانیت بنا م وحشت کا معر کہ اور مقا بلہ کھڑا کیا جا رہا ہے۔ آج پھر ہندستان کے عوام کا امتحا ن اور آ زما ئش کی جا رہی ہے۔ ہوا کا رخ کیا ہے؟ رام مندر کے نام پر 1990ء والا طو فا ن اٹھا یا جا سکتا ہے یا نہیں ؟ اس کی جا نچ ہو رہی ہے۔ عوام کی نبض ٹٹولی جا رہی ہے ۔ اجو دھیا میں چورا سی کو سی پر یکر ما کا بو نڈل اسی کو شش کا شا خسا نہ ہے ورنہ کیسی پو جا، کیسی یاترا اور کیسی رام بھگتی؟ سیاست کے اس شطر نجی کھیل میں ایسا کچھ نہیں ہے بلکہ نیت کچھ اور ہے شوراور واویلا ہے ۔

سر آئینہ مراعکس ہے ، پس آ ئینہ کو ئی اور ہے 

جی ہا ں! اس سیاست کے شطرنجی کھیل میں مداری پس پردہ ہے اور مداری کی ڈگڈگی پر ناچنے والے پیش پر دہ ہیں مگر اجو دھیا کا حا لیہ فلاپ شواس بات کا غما زہے کہ ہندستان کے عوام نے پس پر دہ کھلا ڑی یا مداری پس پردہ ہے اور مداری کو دیکھنے والی نظر پا لی ہے ۔ اسلئے عوام کو اندھا سمجھ کر کا نا راجہ گیم پلا ن بھس ہو گیا ۔ رو پئوں کے زور پر میڈیا کا ضمیر خریداجا سکتا ہے، عوام کا دل نہیں ۔ صنعتکا ر گھرانو ں نے تجوریا ں کھول کر بقول سپر یم کو رٹ مو جو دہ دور کے NARO یعنی نریندر مو دی کو جس طر ح وزیراعظم بنا نے کیلئے میڈیا کا استعمال کر رہا ہے وہ اسی طرف اشا رہ کر تا ہے کہ نگا ہیں کہیں پہ اور نشا نہ کہیں پہ ہے ۔ اجو دھیا میں چو را سی کو سی پریکر ما کو بقول اجو دھیا کے اصلی سنتو ں کے اور ملک کے اصل دھرم گروئو ں کے وشو ہندو پریشدکے ذریعہ کر نے کی تحریک درھا مک نہیں سیا سی ہے کیو نکہ ان سب کے بقول یہ پریکرما یہ پو جا تو اصل سمے یعنی اپریل میں ہو چکی ہے اور ان کے بقول اسو قت تو کوئی یا ترا نہیں نکا لی جا سکتی، یہ دھرم کے موافق نہیں ہے اسلئے وہ اس کی حما یت نہیں کر سکتے ۔ نتیجتاً عوام نے وشوہند و پر یشد کی اس تحریک کا سا تھ نہیں دیا جس تحریک کے پیچھے نر یندر مو دی کا دما غ کام کر رہا تھا اور ان کے دوت یعنی سیاسی سفیر امت شاہ کئی مہینوں سے اپنے BOSS کی ایما پر اتر پردیش میں اس تحریک کیلئے زمین تیا ر کر نے میں لگے ہوئے تھے ۔ مگر زمین کیا تیا ر ہو تی ۔ فلاپ شو کے بعد پیروں تلے سے انہیں زمین کھسکتی ہو ئی دکھا ئی پڑ رہی ہے ۔اور یہ تو ہو ناہی تھا کیو نکہ جیسی نیت و یسا پھل تو ملتا ہی ہے۔ آ ر ایس ایس ، وشو ہند و پر یشد اور بی جے پی جسکی کشتی کے کھویا نریندر مودی کو بنا یا گیا ہے انہو ں نے اجو دھیا میں سنتو ں کو سیڑھی یعنی پل بنا کر یوپی کے راستے بھا جپا کو دہلی پہنچا نا چا ہتے تھے اس میں وہ نا کام ہو گئے کیو نکہ بو تل کو کھول کر 1990  کے جس جن کو نکالا گیا تھا اس میں اب وہ دم خم نہیں رہا جو کبھی ہوا کر تا تھا ۔ وہ جن اب بوڑھا ہو چکا ہے ۔ یہ سچ ہے مگر یہ بھی سچ ہے کہ شکا ری کے تر کش میں صرف ایک ہی تیر نہیں ہے جس کے نشا نہ خطا ہو نے پر شکا ری شکا ر سے باز آ جا ئے گا ۔ اس کے ترکش میں اور بھی تیر ہیں جنہیں ایک ایک کر کے آ ئندہ لو ک سبھا انتخاب ہو نے تک آ ز ما یا جا تا رہے گا جس کا حالیہ اشا رہ آ سام کے وزیر اعلیٰ ترون گگوئی کے اس حالیہ بیا ن میں ملتا ہے کہ جنو بی آسام کے سلچرکے ایک ہندو مند رکو نا پا ک کر نے کے پس پشت وشوہندو پریشد کا ہا تھ ہے۔ انہوںنے پر یس کا نفرنس میں کہا کہ سلچر کے رونگپو ر علا قے میں تین مندروں میں جا نو روں کا گو شت پا ئے جا نے کے بعد جو کشید گی ہے اس کے پیچھے وی ایچ پی ہے ۔ اس نے لو گو ں کو تشدد کیلئے اُکسا یا جس کی وجہ سے بھیڑ کو وہا ں سے ہٹا نے کیلئے پو لس کو ہوا ئی فا ئر نگ کرنی پڑی۔ اسکے علا وہ وہا ں دفعہ 144 نا فذ کر نی پڑی اور کسی بھی طرح کے حا لا ت سے نمٹنے کیلئے بھا ری سیکو ریٹی فو رس کو تعینات کر دیا گیا ہے ۔ مسٹر گگوئی نے کہا کہ ریا ستی حکو مت کو اطلاع ملی ہے کہ وی ایچ پی ریا ست میں سما جی آہنگی کو بگا ڑنے کی کو شش کر رہی ہے اور سلچر کی وارداث کے پیچھے بھی اسی کا ہا تھ ہے۔ ریا ست میں الیکشن میں ٹکٹ کے بعد مبینہ طور پر بی جے پی کے ساتھ سا زش کر کے سما جی تنا ئو پیدا کر نا چاہتی ہے ۔ انہو ں نے کہا کہ ضلع انتظا میہ کو سبھی تحزیب کا روں اور فرقہ پرست طا قتو ں سے مضبو طی سے نمٹنے کی ہدا یت دیدی گئی ہے خواہ وہ کسی بھی تنظیم یا گروپ کے ہو ں ۔


دلی کا تخت صرف اجو دھیا یا آ سام میں کا میا بی سے حا صل نہیں ہو سکتا بلکہ اسکے لئے دوسری ریاستو ں میں بھی کا میابی ضرو ری ہے ۔ اسلئے بی جے پی ، وی ایچ پی ، آ رایس ایس کا یہ کھیل صرف اجو دھیا یا آسام تک محدود نہیں رہے گا بلکہ اس کا دا ئرہ وسیع علا قوں تک پھیلا یا جا ئیگا ۔ بی جے پی کا یہ منصو بہ اسی وقت صا ف ہو گیا تھا جب اس نے سب سے متنا زعہ شخصیت نر نیدر مودی کو 2014 کے لو ک سبھا الیکشن کیلئے اندرونی اور با ہری مخالفت کے با وجود پا رٹی کا کپتا ن بنا دیا تھا اور اب وزیر اعظم کیلئے نریندر مو دی کا ہی نا م تجو یز کر نے جا رہی ہے اور اسی مقصد کیلئے بی جے پی نے بہا ر میں این ڈی اے کے ایک مضبو ط حلیف نیتس کما ر کی جے ڈی (یو ) کی سا جھے داری بھی تو ڑدی۔


نریندر مو دی کو پہلے تو Shine Gujrat کا ہیرو دکھا یا گیا اور کھلو نے کے ذریعہ ہندستانی عوام کو بہلا نے کی کو شش کی گئی مگر سیا سی طو ر پر بیدار عوام جو نام نہا د Shine Gujrat کی زمینی حقیقت سے وا قف ہیں، صنعت کار گھرانوں کے ذریعہ میڈیا پروپگنڈا کو ذ را بھی سنجیدگی سے نہ لیا تو شکار کی دھن میں جس طرح بھیڑیاجلد ہی بھیڑ کے کھا ل سے با ہر آ جا تا ہے اسی طرح حصول اقتدار کی خا طر انسا نی لا شو ں کی کشتوں کے پشتوں لگا دینے سے بھی گر یزنہ کر نے وا لے اپنے اصلی رنگ میں آ گئے اور رام رحیم اور مندر مسجد کے سوال پر ملک کی پُرامن فضا کو پھر سے 1990 کی دہا ئی والی فضا بنا نا چا ہا جس کی پہلی کو شش اجو دھیا میں چورا سی کو سی پریکر ما کی شکل میں ہوئی مگر ملا ئم سنگھ کی مستعد ی اور سختی سے یہ کو شش نا کام ہو گئی ۔ اگر ایسے حا لا ت میں دو سری ریا ستو ں کے حکمراں بھی ایسی ہی مستعدی اور سختی دکھائیں تو کو ئی وجہ نہیں کہ شر پسند عنا صر اپنے خطر ناک منصو بو ں میں پست نہ ہو جا ئیں اور تعمیر ی سیا ست کو تحزیبی سیا ست پر غلبہ نہ حا صل ہو ۔ اسکی کو ئی وجہ نہیں ۔

سبھی سیا سی پا رٹیو ں کے اتفاق سے ہندستا نی پارلیمنٹ نے جس تا ریخی بل کو 26اگست کو منظو ر کیا ہے اسے ملک میں تحزیبی سیا ست پر تعمیری سیا ست کی تا ریخی فتح ہی قرا ر دیا جا سکتا ہے کیو نکہ اس بل کی منظو ری یعنی تعمیری سیا ست کی جیت سے ہندستا ن نے بھو ک سے جنگ میں پہلی فتح حا صل کر لی ہے ۔ 11 لا کھ 30  ہزار کروڑ کی سر کا ری مدد سے فو ڈ سیکو ریٹی اسکیم جیسا دنیا کا سب سے بڑا پروگرام ملک کی 82 کروڑ آبادی کو سستا اناج مہیا کرانے کا بندوبست کرتا ہے۔ فو ڈ سیکوریٹی اسکیم بھو ک سے جنگ کے معاملے میں دنیا بھر میں سب سے بڑا پروگرام ہو گا ۔ اس کیلئے 6.2 کروڑ ٹن انا ج کی ضرو رت ہو گی۔ یہ پروگرام فی شخص فی ما ہ 5 کیلو چا ول ، گندم اور مو ٹا اناج با لترتیب 3،  2  اور  1 روپئے فی کیلو کی طے شدہ قیمت پر گارنٹی کر ے گا ۔

ہما رے ملک کو ضرورت ہے آ ج ایسی ہی تعمیری سیا ست کی جس سے ملک کے غریب عوام کا بھلا ہو۔ سب کو کھا نا، تعلیم، روز گار اور علا ج کی سہولت ملے، اس سے ملک آ گے بڑھے گا۔ عالمی منظر پر ایک بلند مقام حا صل کرے گا اور اسی کیلئے جس سیاست کی مدد لی جا ئے اسی کا نام تعمیری سیاست ہے۔ رام کے نام کو بدنام کرنے والی تحزیبی سیا ست سے ہندستان عوام جتنے دور رہیں اتنا ہی اچھا ہے۔


بشکریہ: مشتاق دربھنگوی

***************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 688