donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Political Articles -->> Articles On National Issue
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Jameel Anjum
Title :
   Hai Khabar Garm Unke aane Ki

” ہے خبر گرم ان کے آنے کی “
 
جمیل انجم، کلکتہ (Mob:9831614027)
 
جوں جوں سال 2014قریب آتا جارہا ہے ہندستان کی سیاسی سرگرمیوں میں روز افزوں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ہر آنے والے دنوں کے ساتھ محاذ جنگ کی صفیں ترتیب دی جارہی ہیں اور اسباب کو یقینی بنانے کی ہر ممکن کوشش ہورہی ہیں کہ باز ی ہمارے ہی ہاتھ رہے۔ ہمارا ملک ہندستان ا یک ایساسیکولر جمہوری ملک ہے جہاں عوامی رائے کے ذریعہ راتوں رات بغیر کسی خون خرابے کے حکومتےں بدل جاتی ہیں اور برسوں سے اقتدار کا مزہ چکھنے والی حکومتےں بھی عوامی ر ائے کا احترام کرتے ہوئے خاموشی سے اپنے مسند اقتدار کو لپیٹ کر اپنی راہ لیتی ہیں۔ یہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ ہندستان میں جمہوریت کی جڑیںکس قدر گہری اور مضبوط ہیں۔ 
 
دیکھا جائے تو سیاسی میدان میں دو ہی طاقتےں ہیں جو آپس میں برسر پیکار ہیں۔ ایک طرف سیکولر محاذ ہے جو فی الوقت یوپی اے کے نام سے جانا جاتا ہے اور جس میں برسر اقتدار کانگریس ہے جو سیکولر ازم کی سب سے بڑی علمبردار ہے۔ یوپی اے کا دور دوئم گرچہ مختلف گھوٹالوں اور بدعنوانیوں سے پر ہے۔ ہر روز کوئی نہ کوئی گھوٹالہ یا بدعنوانیاں اس طرح منظر عام پر نمودار ہوتی ہیں جس سے پیچھا چھڑانا حکومت کے لئے مشکل ہو جاتا ہے اور حکومت صفائی دیتے دیتے پریشان ہوجاتی ہے۔ دوسری طرف بڑھتی ہوئی مہنگائی نے الگ عام آدمی کا جینا دوبھر کررکھا ہے اور عوام مہنگائی کی مار سے پریشان ہیں۔ 
 
دوسری جانب ہندو تواکی علمبردار بی جے پی ہے جس کا محاذ این ڈی اے کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مسلم دشمن جسکی اولین ترجیح رہی ہے۔ مسلمانوں کا بھارتیہ کرن کرنا، انہیں اپنے دین ومذہب سے بیگانہ کرکے برہمنوں کے آگے جھکانا ،انہیں دلتوں سے بھی بدتر حالت میں زندگی گزارنے پر مجبور کرنا اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو انہیں گجرات جیسے مسلم کش فسادات کے ذریعے نیست و نابود کرنا شامل ہے۔ ظاہرہے مسلمان ایسی پارٹی کو ووٹ دینا تو کجا ان کے لیڈران کے منحوس چہرے کو دیکھنا بھی پسند نہیں کرے گا۔ ہندستان کی ہر سیاسی جماعت اس حقیقت کو فراموش نہیں کرسکتی کہ مسلمانوں کی حمایت کے بغیر کسی اقتدار پر پہنچنے کا خواب ادھورا ہی رہیگا۔ مسلمان کی حیثیت اس ملک میں بادشاہ گرکی ہے۔ اس تناظر میں بھارتیہ جنتا پارٹی کا نریندر مودی جیسے خونی درندے کو وزیر اعظم کا امیدوار بنانا این ڈی اے کی دیگر پارٹےوں کےلئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ لہذا اس سلسلے میں بہار کے وزیر اعلیٰ نتےش کمارنے سب سے پہلے اعتراض جتایا ،سیاسی تجزیہ نگار اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ نتےش کمار کم گو نیتاؤں میں شمار کئے جاتے ہیں وہ نہ تو لالو پرساد یادو کی طرح لمبی لمبی پھینکتے ہیں اور نہ ہی نریندر مودی کی طرح بلند بانگ دعوے کرتے ہیں۔ انہوںنے گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کا نام لئے بغیر انہیں بہت کچھ کہہ ڈالا اور یہ اشارہ بھی دے دیا ہے کہ ان کی مرضی کے بغیر مودی کیا کسی کو بھی وزیر اعظم بنانے کی کوشش ناکام ہوگی۔ 
 
نتےش نے اپنے مودی مخالف روےے کی وجہ سے پورے ملک کے مسلمانوں کادل جیت لیا ہے۔ انہوں نے اپنی ایک تقریر میں کہا کہ ملک کا لیڈر وہی ہوگا جو ٹوپی بھی پہنے اور ٹیکہ بھی لگائے جو سب کو ساتھ لیکر نہیں چل سکتا وہ ملک کالیڈر کبھی نہیں ہوسکتا۔ نتےش کی یہ تقریر مودی کے اوپر سب سے بڑا وار ہے۔ خاص کر مودی کے اس نعرے کے جواب میں کہ ”گجرات کا قرض اتاردیا ہے اب دیش کا قرض اتاریں گے۔“
 
مسلمان اس بات کو بخوبی سمجھتے ہیں کہ نریندر مودی وزیر اعظم بننے کےلئے نئے نئے پینترے بدل رہے ہیں اور گجرات کو ایک ترقی یافتہ ریاست کے بطور ماڈل پیش کررہے ہیں جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ گجرات انگریزوں کے دور سے ہی ایک خوشحال ریاست رہی ہے۔ مودی کے دورمیں گجرات میں کوئی سرخاب کے پرنہیں نکل آئے۔ انہوںنے تو وکاس اور ترقی کے نام پر امبانی سے لے کر دیگر کارپوریٹ گھرانوں کو کوڑیوں کے مول زمینیں الاٹ کی ہیں۔ یہی وہ تجارتی گھرانے ہیں جو غیر ملکوں میں نریندر مودی کےلئے لابنگ کررہے ہیں۔ گجرات میںمسلمانوں کےلئے زمین تنگ ہے۔ اور ہندو فرقہ پرستی خوب پھل پھول رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں گجرات کا قرض اتار دیا اب بھارت ماتا کا قرض اتاریں گے۔نریندر مودی کے دور اقتدار سے قبل گجرات پر 45ہزار کروڑ کا قرض تھا آج وہ بڑھ کر ایک لاکھ سترہ ہزار کروڑ ہوگیا ہے۔ آج بھی گجرات میںپانی کی شدید قلت ہے اور لوگ عدم تغذیہ کا شکار ہیں۔یہ محض مراعات یافتہ صنعت کارہیں جو گجرات کی ترقی کی جھوٹی تشہیر کررہے ہیں۔ یہ تو طے ہے کہ بی جے پی کو اس بار بھی منہ کی کھانی پڑے گی۔ نوجوان طبقہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے فرقہ وارانہ پالیسی اور ہندو تواکی علمبردار ی سے یونہی بیزار ہے ہندستانی مسلمان این ڈی اے میں شریک پارٹےوں کو منہ لگانے سے رہے ایسے میں بی جے پی کی حیثیت قافلے کے اس امیر کی طرح ہوگی جو راہ میں بالکل یکہ و تنہا رہ جائے اور جسکے ساتھی خود ہے اسے چھوڑ کر راہ فرار اختےار کریں۔ جنتا دل یو بھی اسی راہ پرگامزن ہے جسے ہر قیمت پر بہار میں ا پنی ساکھ قائم رکھنی ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہمیشہ کی طرح مسلمان اس کاساتھ دیں۔ جنتا دل یوکی این ڈی سے علیحدگی بھارتیہ جنتا پارٹی کے لئے ایک تازیانہ عبرت ہوگی۔ اور نریندرمودی کےلئے وزارت عظمیٰ کی کرسی تک پہنچنے کا خواب محض ایک غبار راہ بنکر فضامیں تحلیل ہوجائے گا۔ 
 
بشکریہ: مشتاق دربھنگوی
 
*******************
Comments


Login

You are Visitor Number : 654