donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Political Articles -->> Articles On National Issue
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : M Wadood Sajid
Title :
   Kuchh Na Samjhe Khuda Kare Koi

کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی  
 
ایم ودود ساجد
 
 
 
انڈین نیشنل کانگریس کے ترجمان ڈاکٹرشکیل احمدجیسے سلجھے ہوئے انسان اور مدبرسیاست داں کے اس ’برقی بیان‘پر افسوس ہوا کہ ’انڈین مجاہدین کا قیام گجرات فسادات 2002کے ردعمل کے طورپر وجود میں آیاتھا‘۔وہ اپنے اس بیان کی تائید میں ہندوستان کی نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے)کے ذریعہ حال ہی میں عدالت میں داخل کی گئی ایک چارج شیٹ کا حوالہ دیتے ہیں۔وہ اپنے اس بیان سے فی الواقع کیا حاصل کرنا چاہتے تھے یہ تو وہی بتاسکتے ہیں لیکن اس بیان سے انہوں نے کیا کھودیااس کا شایدانہیں اندازہ نہیں ہے۔مجھے یہ کہنے میں کوئی تکلف نہیں کہ کانگریس ‘کسی مسلمان کوتنظیم یا حکومت میں اگر کوئی پوزیشن دیتی ہے تو وہ اس کی اہلیت کی بنیاد پر نہیں بلکہ مسلمانوں کو رجھانے‘لبھانے‘ورغلانے اور بہکانے کے لئے دیتی ہے۔یہاں ڈاکٹرشکیل احمد کی صلاحیت اوران کی سیاسی اہلیت پر سوال اٹھانا مقصود نہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ انہیں 2014کے عام انتخابات میں مسلمانوں کے ممکنہ کرداراورشدید ردعمل کو سامنے رکھتے ہوئے ہی کانگریس نے ترجمانی کا فریضہ سونپاہے۔ ان کے فرائض منصبی میں یہ فرض سب سے اوپر ہے کہ وہ کانگریس کی مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے ہاتھوں مظالم کے شکار مسلمانوں کو کانگریس کے قریب لانے کا کام کریں۔تو اگرڈاکٹر شکیل احمد نے مذکورہ بیان دے کر یہ سوچا تھا کہ ناراض مسلمان کانگریس کے قریب آجائیں گے تو وہ اس محاذ پر ناکام ہوگئے ہیں۔ان کے اس عبث اور لغو بیان پر مسلمان اور ان کی جماعتیں بے حدناراض ہیں۔
 
انڈین مجاہدین کون ہیں؟ان کا ہیڈ کوارٹر کہاں ہے؟اس پراسرار قسم کی جماعت کا سربراہ کون ہے؟ان سوالات کے جوابات سے خود اعلی حکام اور ذمہ دار وزرا تک لا علم ہیں۔گزشتہ ایک دہائی میں مسلم جماعتوں کے درجنوں وفود مختلف وزرائے داخلہ سے مل کر یہی سوالات دوہرا چکے ہیں۔پی چدمبرم جیسے باخبراور ذی علم وزیر داخلہ تک کو اس کا کوئی علم نہیں تھا۔اب سشیل کمار شندے کے پاس بھی ان سوالات کا کوئی جواب نہیں ہے۔لیکن جواب تو بہرحال دینا ہے لہذا این آئی اے کو یہ کام سونپ دیا گیا ہے۔لوگ سمجھ رہے ہیں کہ این آئی اے بہت شاندار کارنامے انجام دے رہی ہے اور یہ کہ اس کے افسران براہ راست آسمان سے اتری ہوئی کسی دوسری مخلوق سے تعلق رکھتے ہیں۔لیکن صورت حال اس کے برعکس ہے۔مختلف ریاستوں میں جس مرکزی وزیر داخلہ کے دور میں سب سے زیادہ مسلم نوجوانوں کو مختلف دہشت گرد گروپوں کے نام پر نشانہ بنایا گیا تاریخ اس کا نام نہیں بھول سکتی۔ جب 2008میں یہ واقعات بڑھے تواوکھلا کی بستیوں میں آباد مسلمانوں اور علما کا ایک وفداس وقت کے وزیر داخلہ شوراج پاٹل سے ملنے گیا ۔اس وفد نے ان سے ملک بھر میں اور خاص طور پر مدھیہ پردیش میں مسلم نوجوانوں پر پولس مظا لم کی شکایت کی ۔ وفد میں شامل ایک بزرگ عالم دین نے درد بھرے لہجے میں یہ بھی کہہ دیا کہ’ شو راج جی کیا ہم نے اور ہمارے اسلاف نے ملک کی آزادی کے لئے اسی لئے قربانیاں دی تھیں کہ ہمارے سامنے ہمارے نوجوانوں کو بے گناہی کی سزا دی جائے اور ہر مسلمان کو دہشت گرد بناکر پیش کیا جائے؟‘اس پر شوراج بھڑک گئے تھے۔انہوں نے اپنے ہاتھ کو فضامیں لہراکر بزرگ عالم دین کو اپنی بات کو آگے بڑھانے سے روک دیا تھا۔اس موقعہ پر انہوں نے اپنے سیکریٹریوں سمیت انٹلی جنس کے افسران کو بھی وفد کی ’نقل وحرکت ‘پر نظر رکھنے کے لئے بلا رکھا تھا۔بات اتنی خراب ہوئی کہ شوراج غصہ میں کھڑے ہوگئے اور چلتے وقت رسمی سلام کلام بھی نہ ہوا۔ اس کے بعد اوکھلا کی مسلم بستیوں میں پولس کی نقل وحرکت بڑھ گئی۔مسجدوں اور مدرسوں کی تفصیلات جمع کی جانے لگیں۔اسی دوران 13ستمبر کا وہ دن دہلی کے متعددعلاقوں کے لئے قیامت خیزی لے کر آیاجب ایک ساتھ کئی بم دھماکے ہوئے اور درجنوں بے قصور لوگ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے۔بلا شبہ یہ دھماکے انتہائی قابل مذمت تھے۔ملک کے دیگر تمام طبقات کے ساتھ ساتھ مسلمانوں‘ ان کی تنظیموں اور قائدین نے ان دھماکوں کی بھرپور مذمت کی اور ذمہ داروں کو انصاف کے آستانے تک گھسیٹ کر لانے کا مطالبہ کیاگیا۔یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔اس طرح کے دہشت گردانہ واقعات کے بعد یہی سب کچھ ہوتا ہے۔ان واقعات کے بعد بھی پولس اور انٹلی جنس فورسز وہی کچھ کہہ سن کر خاموش بیٹھ جاتیں جو وہ ہمیشہ کہتی اورکرتی رہی ہیں۔مگرنئی بات یہ ہوئی کہ پرائیویٹ چینلوں نے وزیر داخلہ(شوراج پاٹل) کی پورے دن کی نقل وحرکت کو اور خاص طور پر ان کی خوش لباسی کوٹیلی کاسٹ کردیا۔97فیصد ناظرین نے ان کے استعفی کا مطالبہ کر ڈالا۔خود لالو پرساد یادو تک نے ان کے خلاف وزیر اعظم سے شکایت کی۔سونیا گاندھی نے سیکیورٹی کی صورت حال پر غور کرنے کے لئے کابینہ کے اہم افراد کی میٹنگ بلائی‘شور یہ تھا کہ شوراج پاٹل کی چھٹی ہوجائے گی۔وزیر داخلہ اتنے خوف زدہ ہوگئے کہ وہ اس اہم میٹنگ میں شریک نہیں ہوئے۔ شو راج پاٹل نے اپنی نقل و حرکت پر نظر رکھنے والے چینلوں پر پلٹ کر وار کیا‘انہیں جلی کٹی سنائیں۔اس کے بعد تو اوکھلا کو زد پر لے لیا گیا۔درجنوں بے گناہوں کی جان بچانے میں ناکام پولس اور انٹلی جنس ایجنسیوں نے ساری گتھی چند دنوں میں ہی سلجھا لی۔14ستمبر سے16ستمبر تک اوکھلا میں مقیم متعدد معزز شہریوں کی پگڑیاں اچھالی گئیں۔بزرگوں اور نوجوانوں کو پکڑپکڑ کر اسپیشل سیل لے جایا گیا۔روزہ دار مسلمانوں کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا گیا۔ان واقعات پر شاہی امام ‘جماعت اسلامی‘جمعیت علما اور دوسری متعدد ملی جماعتوں نے تشویش ظاہر کی اور 17ستمبر کو دعوت نگر میں ایک کل جماعتی میٹنگ ہوئی۔اس میں حکومت کو متنبہ کیا گیا کہ وہ معزز مسلمانوں کی اس طرح پکڑ دھکڑ کو روکے ورنہ تحریک چلائی جائے گی۔ان جماعتوں نے خیال ظاہر کیا کہ پولس اور انٹلی جنس کی یہ مہم در اصل اس علاقہ کو بدنام کرنے کی ایک سازش ہے۔18ستمبر کو اخبارات نے کل جماعتی میٹنگ کی خبر شائع کی اور 19ستمبر کی صبح بٹلہ ہاؤس میں ’تصادم‘ ہوگیا۔ہر ایک کی زبان پر یہی تھا کہ یہ فرضی تصادم تھا اور یہ کہ پولس نے بے گناہوں کو شوراج پاٹل کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔انسپکٹر شرما کے بارے میں بھی عام خیال یہی ہے کہ اس کو خود اس کے ساتھیوں کی گولی لگی اور اسپتال لے جاتے ہوئے اس کے ساتھ کوئی انہونی ضرورہوئی۔مگر حال ہی میں ایک مقامی عدالت نے اس سلسلہ میں ماخوذ ایک نوجوان کو اس کا مجرم قرار دیدیا کہ اس نے انسپکٹر شرما پر گولی چلائی تھی اور اس کے بعد وہ اتنی اونچی بلڈنگ سے کودکر فرار ہوگیا تھا۔
 
ان سطور کو دوہرانے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ حکومتوں اور خاص طورپرکانگریس کی حکومت کے پاس مسلم دہشت گردگروپوں کے تعلق سے کئے گئے سوالات کا کوئی تشفی بخش جواب نہیں ہے ۔لیکن ان گروپوں کے نام پر بے گناہ مسلم نوجوانوں کوپکڑ پکڑ کرپابند سلاسل کیا گیااور ان کی زندگیاں بربادکردی گئیں۔جن چند معاملات میں مقدمات فیصل ہوگئے ہیں ان میں یہ نوجوان اپنی زندگی کے قیمتی ایام بربادہونے کے بعد باعزت رہا ہوگئے ہیں۔بہت سے دیگر مقدمات میں بھی ماخوذ نوجوانوں کے بری ہوجانے کے بھرپور امکانات ہیں۔ایسے میں حکومت اوراس کی ایجنسیوں کے ذریعہ گڑھے گئے فرضی دہشت گرد گروپوں کی حقیقت کھل کرسامنے آجاتی ہے۔اسی بنیاد پر مسلمانوں اور ان کے قائدین کا موقف یہ ہے کہ انڈین مجاہدین یا اس قبیل کا کوئی دہشت گردگروپ فی الواقع روئے زمین پر ہے ہی نہیں۔یہ سب ایجنسیوں کی اختراع ہے اور حکومت اس خطرناک سازش میں برابر کی شریک ہے۔ایسے میں کانگریس کے ترجمان ڈاکٹرشکیل احمد کا یہ بیان عدلیہ کے سامنے ثابت شدہ حقائق‘مسلمانوں کے مجموعی موقف ‘واقعاتی شواہداور حقیقی صورت حال کے بالکل برعکس ہے۔این آئی اے کوئی فرشتوں کی جماعت نہیں ہے کہ وہ جو کچھ کہے اسے سچ مان لیا جائے۔ این آئی اے کے بیان کو دوہراکر شکیل احمداگر مسلمانوں کو کوئی پیغام نہیں بھی دینا چاہتے تھے تب بھی ان کے اس بیان کی کوئی ’تک‘نہیں تھی۔آخر ان سے کس نے پوچھا تھا کہ این آئی اے نے اپنی چارج شیٹ میں جس انڈین مجاہدین نامی گروپ کا ذکر کیا ہے اس سلسلہ میں آپ کا کیا موقف ہے۔انہوں نے ٹویٹرپر یہ بیان داغ کر ایک طرف جہاں مسلمانوں کے مستحکم موقف کی نفی کی وہیں انہوں نے دہشت گردی کے سوال پرخود ہندوستانی مسلمانوں کو ہی کٹگھرے میں کھڑا کردیا۔
 
ہمارا موقف یہ ہے کہ وجہ کچھ بھی ہو جوابی عمل کے طورپردہشت گردانہ اقدامات کی کوئی توجیہ پیش نہیں کی جاسکتی۔خدا کا شکر ہے کہ ہندوستان میں ایک طرف جہاں عدلیہ بڑی حد تک غیر جانبدار اور قائم بر انصاف ہے وہیں اس ملک کے ہندؤں کی اکثریت مسلمانوں کے ساتھ ہے۔مسلمانوں کو عدلیہ پر پورا بھروسہ ہے ۔بہت سے معاملات میں عدالتوں نے اس کا برملا ثبوت بھی دیا ہے۔مسلمانوں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر کوئی اقدام کبھی نہیں کیا۔شرپسندکارسیوکوں نے پانچ صدیوں پرانی بابری مسجد کو بزور طاقت شہید کردیا لیکن مسلمانوں نے کبھی کسی کی عبادت گاہ کو منہدم نہیں کیا۔اگر خدانخواستہ مسلمانوں اور ان کے قائدین نے رد عمل کی اس مذموم پالیسی کو اختیار کیا ہوتا تو ایک بابری مسجد کے بدلے میں نہ جانے کتنی عبادت گاہیں گرادی گئی ہوتیں۔لیکن اس سلسلہ میں اسلام اور قرآن کے واضح احکام کی موجودگی میں مسلمان ایسا کوئی قدم اٹھانا تو دور اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔بابری مسجد کی شہادت کے وقت بھی مسلمانوں نے اپنے علاقوں میں موجود مندروں اور ہندو مکینوں کی بجاطورپرحفاظت کی۔ردعمل کی تھیوری نریندر مودی کی ڈکشنری میں ہوگی ہماری ڈکشنری میں ردعمل کا یہ تصور سرے سے ہی نہیں ہے۔اس لئے یہ کہنا یا این آئی اے کے اس خیال کی تائید کرنا کہ انڈین مجاہدین کا قیام 2002کے گجرات فسادات کے ردعمل کے طورپرعمل میں آیا تھا‘سراسر بے ہودہ اور احمقانہ عمل ہے۔ایسا کہنا نہ صرف اسلام کی تعلیمات پرعایدتشدد کے الزامات کی بالواسطہ تائید کرنا ہے بلکہ شرپسندوں اور فرقہ پرستوں اور حکومت میں گھسے ہوئے ان کے ایجنٹوں کے ہاتھ بھی مضبوط کرنا ہے۔
 
کانگریس کی یہ روایت رہی ہے کہ وہ مسلمانوں کو ورغلانے اور اصل مسائل سے ان کی توجہ ہٹانے کے لئے اس طرح کے شوشے چھوڑتی رہتی ہے۔شکیل احمد بھی اسی کلچر کے پروردہ ہیں۔وہ شاید کانگریس میں مسلمانوں کے دگوجے سنگھ بننا چاہتے ہیں۔دگوجے سنگھ نے پچھلے پانچ سالوں میں مسلمانوں کے مسائل پر اسی قسم کے بیانات دے کر انہیں بے وقوف بنانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔کس کو یاد نہیں ہوگا کہ دگوجے سنگھ بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر پر اپنی پارٹی اور حکومت کی لائن سے بالکل الگ دوسری زبان بول رہے تھے۔وہ اس انکاؤنٹر کو فرضی قرار دیتے رہے۔لیکن ان کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا کہ جب مرکز میں آپ کی ہی حکومت ہے تو آپ مسلمانوں کے مطالبہ کی زبانی تائید کے بجائے اس پر عمل کیوں نہیں کرواتے؟ شکیل احمد ابھی تک یہ نہیں بتاسکے ہیں کہ ان کے اس بیان کا مقصد کیا تھا۔وہ صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ میں نے اپنی طرف سے کچھ نہیں کہا ہے بلکہ میں نے وہی کہا ہے جو این آئی اے نے کہا ہے۔بات تو جب تھی کہ شکیل احمد اس بیان پر کوئی واضح موقف اختیار کرتے۔وہ این آئی اے سے اختلاف کرتے ہوئے کہتے کہ مسلمان ردعمل کی تھیوری میں یقین نہیں رکھتا۔وہ کہتے کہ انڈین مجاہدین کوئی فرضی گروپ ہے جو مسلمانوں کا بھیس بدل کر دہشت گردانہ واقعات انجام دے رہا ہے۔وہ مطالبہ کرتے کہ اس کی آزاد ذرائع سے تحقیقات کرائی جائے۔وہ اپنی حکومت سے کہتے کہ بے گناہ مسلم نوجوانوں کے معاملات کو جلد از جلد فیصل کرایا جائے۔وہ یو اے پی اے جیسے سیاہ قانون کے خلاف اپنی حکومت کو متنبہ کرتے۔وہ اس کا جائزہ لے کر حکومت کو بتاتے کہ انڈین مجاہدین جیسے فرضی گروہ کے نام پر کتنے نوجوانوں اور کتنے خاندانوں کی زندگیاں برباد ہوگئی ہیں۔لیکن انہوں نے محض وہی بات دوہراکرجو این آئی اے نے کہی ہے‘خود اپنے لئے بھی مصیبت مول لے لی ہے اورخود مسلمانوں کو بھی مشکوک کردیا ہے۔کانگریس میں سب نے ان سے کنارہ کرلیا ہے۔کانگریس کے سینئر قائد دگوجے سنگھ ‘سینئر ترجمان رینوکا چودھری اور راشد علوی نے بھی ان کے بیان سے خود کو الگ کرلیا ہے۔لیکن اصل سوال پر اب بھی کوئی بات نہیں کر رہا ہے۔سوال یہ ہے کہ این آئی اے کی اس ’دریافت‘پر خود حکومت کا کیا موقف ہے؟کیا واقعی انڈین مجاہدین نامی کوئی گروپ موجود ہے جسے مسلم نوجوان چلاتے ہیں اور جو گجرات کے رد عمل کے طورپرقائم ہوا ہے؟حکومت کو اور خاص طورپروزیر اعظم منموہن سنگھ کو اس کا واضح جواب دینا چاہئے۔
 
جہاں تک اس موضوع پر بی جے پی کے ذریعہ واویلا مچانے کا سوال ہے تو اس پر زیادہ کچھ کہنے سننے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔بی جے پی کے لئے گجرات فسادات کا ذکر ایسا ہے جیسے کسی آوارہ سانڈ کو لال رومال دکھادینا۔ہمیں بی جے پی سے کوئی شکایت ہونی بھی نہیں چاہئے۔اس لئے کہ اس کی تعمیر میں ہمارا کوئی رول نہیں ہے۔اس کی بنیاد ہی مسلم دشمنی کے خمیر سے تیار ہوئی ہے۔شکایت اس کانگریس سے ہے جس کی تعمیر میں ہمارا اور ہمارے اسلاف کا خون پسینہ لگا ہوا ہے۔گجرات فسادات کی کوئی توجیہ پیش نہیں کی جاسکتی۔اس کا کسی دوسرے فساد سے موازنہ بھی نہیں کیا جاسکتا۔لیکن کیا کانگریس کے زمانہ میں کچھ کم فسادات ہوئے ہیں۔ساڑھے 23ہزار فسادات اسی نوعیت کے ہیں جس نوعیت کا 1984کا سکھ مخالف فساد برپا ہوا تھا۔لیکن تاریخ کی یہ بھی ایک سیاہ ترین حقیقت ہے کہ 84کے فسادات کے متاثرین کواب تک سات ارب22کروڑاور نو لاکھ روپیہ سے زائد معاوضہ دیا جاچکا ہے جبکہ ہزاروں مسلم کش فسادات کے لاکھوں متاثرین آج تک انصاف کے لئے ایڑیاں رگڑ رہے ہیں۔ اگر مسلمان ردعمل کے طورپردہشت گردانہ سرگرمیوں کے قائل ہوتے تو اب تک ہزاروں دہشت گر دگروپ کھڑے ہوگئے ہوتے۔کانگریس ‘بی جے پی کو نیچا دکھانے کے لئے اب این آئی اے کو استعمال کر رہی ہے۔این آئی اے نے آخر کس بنیاد پر یہ جھوٹ گڑھا ہے کہ گجرات 2002کے ردعمل میں انڈین مجاہدین کا گروپ وجودمیں آیا ہے؟کیا اس سے پہلے ہندوستان میں کوئی فساد نہیں ہوا؟آخر مرادآباد کی عیدگاہ کے بھیانک فساد کے بعد کون سا گروپ وجود میں آیا تھا؟یوپی میں میرٹھ‘ملیانہ‘ہاشم پورہ‘سہارنپور‘اعظم گڑھ‘علی گڑھ ‘بہار میں سیتامڑھی‘بھاگل پوراورجمشید پورکے فسادات کیا 1984یا2002کے فسادات سے کچھ کم تھے؟آخر ان فسادات کے بعد کون سا گروپ وجود میں آیا؟
 
-- 
M Wadood Sajid
Editor-in-chief
VNI &
Media Adviser to
President IICC
New Delhi.
9810041211
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 755