donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Political Articles -->> Articles On National Issue
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Obaidullah Nasir
Title :
   Congress Party Me Buniyadi Aur Inqalabi Tabdili Ki Zaroorat

کانگریس پارٹی میں بنیادی اور انقلابی تبدیلی کی ضرورت

 

منظر پس منظر………عبیداللہ ناصر

 

٭ بغیر تنظیمی الیکشن کے نامزدگی کے ذریعے پارٹی کا صدر بننا راہل اور کانگریس  دونوں کے لئے خودکشی کے مترادف ہوگا۔

عین بجٹ اجلاس اور اس سے بھی بڑھ کر  جب  پورے ملک کے کسان اس قانون میں ترمیم کے خلاف  جو خود راہل گاندھی کی کاوشوںسے منظور ہوا سڑک پر اترآئے ہوں  جب انا ہزارے کسانوںکے مسیحا بنکر اسی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں جو ان  کی کوششوںاور سازشوں  سے ہی بر سراقتدار  آئی تھی  تب راہل  گاندھی کا اچانک چھٹی  پر چلے جانات فطری طور  سے مذاق اور تنقید کا موضوع بنے گاہی ۔کانگریس  کے ترجمان اور لیڈران اس  چھٹی کے حق میں چاہے جتنی دلیلیں دیں اور چاہے جتنی   لفاظی  کریں یہ تلخ حقیقت ہے کہ راہل گاندھی کی ذمہ داری سے بھاگنے کی جو امیج پہلے سے ہی بنی ہوئی تھی  اس چھٹی سے اسے اورتقویت ملی ہے ۔تحویل آراضی          قانون میں ترمیم کرکے مودی حکومت نے کسانوں کے مفاد پر جو ڈاکہ ڈالاہے اس جس عریاں کارپوریٹ  نوازی کا ثبوت دیا ہے وہ کانگریس کے لئے اپنی کھوئی ہوئی سیاسی زمین واپس لینے کا  بہترین ذریعہ بن سکتا تھا لیکن جان بوجھ کر یہ سنہری موقع انا ہزارے جیسے ازلی کانگریس دشمنوں کو دے دیا گیا حالانکہ جنتر منتر پر کانگریس  نے دھرنا  دے کر فرض کفایہ ادا کردیا  اس پر عام آدمی پارٹی  کے لیڈر یوگیندر یادو نے بڑا خوبصورت اور معنی خیز تبصرہ کیا کہ کانگریس کو بھی جنتر منتر یعنی جدو جہد کی سیاست کی اہمیت کا احساس ہوگیا  اور بی جے پی کو بھی یعنی عوام کے جذبات  کو نظرانداز کرنے کی غلطی کا احساس ہوگیا۔ اس حقیقت سے کون انکار کر سکتاہے کہ بھٹہ پرسول واقعہ کے بعد راہل گاندھی نے ذاتی دلچسپی لے  کر انگریزوں پر  زمانہ کے تحویل آراضی قانون کو تبدیل کراکے کسانوں  ہی نہیں بلکہ ان کے کھیتوںپرکام کرنے والے  کھیت مزدوروں  کے مفادکو  جو تحفظ فراہم کرایا تھا  اور جسے مودی  حکومت بڑے صنعتی  اورتجارتی گھرانوں کو فائدہ پہنچا نے کے لئے بدلنا چاہتی ہے جس کے خلاف سینہ سپر ہونا دوسری  تمام پارٹیوں اور لیڈروں سے زیادہ کانگریس اور اس کے لیڈروں کی ذمہ داری ہے مگر ایک بار پھر پارٹی کے نائب صدر راہل گاندھی نے ان کانگریسی کارکنوں کو مایوس کیا جو  نریندر مودی کی حکومت اور بی جے پی سے  دودو ہاتھ کرنے کے لئے بے چین ہیں۔ راہل گاندھی کے اس طرح وقتی طور سے  ہی صحیح منظر عام سے ہٹ جانے پر  پارٹی کی جانب سے طرح طرح کی تاویلیں دی جارہی ہیں کہاجارہا ہے کہ وہ غو ر و فکر کے لئے کسی  نا معلوم جگہ پر چلے گئے ہیں اور اس   کے لئے انہوں نے باقاعدہ صدر کانگریس سے چھٹی لی ہے اور جب واپس آئیں گے تو ایک نئے  انداز سے پارٹی  میں نئی جان  پھونکنے کی مہم شروع کریں گے۔ یہ  بھی کہا جارہا ہے کہ تنظیمی امور کو لے کر ان کی  نہ  صرف پارٹی  کے سینئر لیڈروں بلکہ خود صدر کانگریس اور اپنی والدہ سونیا گاندھی سے اختلاف رائے پیدا ہوگیا ہے کیونکہ انہیں پارٹی میں وہ ڈھانچہ جاتی تبدیلی نہیں کرنے دی جارہی ہے جو وہ کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ بھی  کہا جارہا ہے  کہ  پارٹی میں اب    پیڑھی کی لڑائی شروع ہوگئی   یعنی راہل گاندھی پارٹی کے تمام عمر دراز  لیڈروں کو کنارے کرکے اپنی نوجوان ٹیم کو سامنے لانا چاہتے ہیں جبکہ سونیا جی ان لیڈروں کو اس طرح کنارے کرنے کے حق میں نہیں ہیں جنہوں نے پارٹی میں اپنی پوری عمر کھپادی اور پارٹی نیزنہرو گاندھی خاندان کے وفادار  رہے ہیں ۔ ان لیڈروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ راہل جی کی زیادہ  چلنے نہیں دیتے اور جب پارٹی  ہار جاتی  ہے توٹھیکرا ان کے سر پھوڑ دیاجاتاہے یہ بات  اپنی جگہ درست ہوسکتی ہے لیکن جو راہل گاندھی مر کزی کابینہ کے فیصلوں کو بدلوانے کی طاقت رکھتے ہیںجو مرکزی کابینہ کے فیصلے کو ردی کی ٹوکری میں      پھینک دینے کی بات کہنے کی ہمت رکھتے ہیں وہ اپنی مرضی سے انتخابی  مہم  نہیں چلا سکتے یہ بات کسی کی بھی حلق سے نہیں اتر تی ہے ۔ پارٹی کے سینئر لیڈر اور سابق مرکزی وزیر کمل ناتھ نے یہ کہہ کر پارٹی کی اندرونی کشمکش کو مزید اجاگر کر دیا کہ کسی بھی اہم فیصلے کے لئے راہل گاندھی اور سونیا گاندھی بات  ایک دوسرے پر  ٹال دیتے تھے جس سے نہ صرف کارکنوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتاتھا بلکہ فیصلے اٹک بھی جاتے تھے انہوں نے اس صورت حال کو ختم  کرنے کے لئے  راہل گاندھی کو پارٹی کا صدر اور سونیا گاندھی کو اسکی سر پرست بنانے کی بات کہی ہے ایک دوسرے سینئر لیڈر دگوجے سنگھ نے بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کیاہے۔

 اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کانگریس اس وقت اپنی تاریخ کے سب سے خراب دور سے گذررہی ہے یہ شاید پہلی بار ہی ہواہے کہ کانگریس کے وجود اور ہندوستانی سیاست میں اس کی اہمیت اور ضرورت پر ہی سوالیہ نشان لگنے لگے ہیں ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے پارلیمانی الیکشن کے دوران  کانگریس  مکت بھارت کا جو نعرہ دیا تھا وہ اسکے بعد ہونے والے تمام اسمبلی انتخابات میں کانگریس کو مل رہی بد ترین شکست سے سچ ہوتادکھائی دے رہا ہے۔ دہلی اسمبلی الیکشن میں عام آدمی پارٹی کی شاندار کامیابی میں سب سے اہم فیکٹر  یہ ہے کہ کانگریس کا تمام روایتی ووٹ بینک یعنی کمزور  طبقہ اقلیتیں اور نچلا متوسط طبقہ عام آدمی پارٹی کی  جانب چلا گیا۔  نتیجتاً ہارون یوسف ،شعیب اقبال چودھری متین احمد  اروندر سنگھ لولی اور اجے ماکن  جیسے اس کے وہ تمام لیڈران شکست سے دو چار ہوگئے جو آج تک کبھی کوئی الیکشن ہارے ہی نہیں تھے ۔ عام آدمی پارٹی کی دہلی میں یہ کامیابی فطری طور سے اسے دوسری ریاستوں میںپر پھیلانے کی جانب راغب کرے گی اور کانگریس ہی اسکانرم چارہ ہوگی کیونکہ بی جے پی کے ووٹ بینک پرابھی تک یہاںتک  کہ دہلی  میںبدترین شکست کے بعد بھی کوئی اثر نہیں پڑاہے ہر جگہ علاقائی پارٹیاں کانگریس کی ہی قیمت پر مضبوط ہوئی ہیں اور کانگریس وہاں سے شائد ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حاشیہ پر چلی گئی ہے۔ رہی سہی کثر عام آدمی پارٹی قومی سطح پرپوری کرنے کے لئے پرتول رہی ہے۔ اس کے پاس نئی سوچ اورنئے نظریات سے لبریز نوجوان رضا کاروں کی ایک مضبوط ٹیم ہے اور چونکہ            وہ ایک دم نئی پارٹی  ہے اس لئے ماضی کا  بھی کوئی بوجھ اس کی گردن پر نہیں ہے اس حقیقت سے عام آدمی پارٹی کے بد ترین  مخالفین بھی انکار نہیں کرسکتے۔ کہ بہت کم وقفے میں اس نے ملک گیر سطح پر عوام کے ہوش اور تخیل پر اپنے نقوش چھوڑے ہیں اور بہت سے لوگ اس میں مستقبل کی امیدیں دیکھتے ہیں حالانکہ ابھی اس کا کانگریس کی جگہ لے پانا اور اس کی طرح ایک ایسا چھاتا بن  جانا بہت دور دکھائی دیتاہے جس میں  ہندوستان کا پورا   پورا متنوع سماج سماسکے لیکن اگر کانگریس کے زوال کا یہ سلسلہ جاری رہا تو شائد عام آدمی پارٹی کی راہ آسان سے آسان تر ہوجائے گی ۔

 ان حالات میں کانگریس کو اگر اپنا وجود بچاناہے تو اس میں محض  لیپا پوتی  کرکے نئی جان نہیں پھونکی جاسکتی  سچائی یہ ہے کہ کانگریس اندر سے کھوکھلی ہوچکی ہے اس میںنئی جان پھونکے  جانے کے لئے انقلابی اور ڈرامائی تبدیلیاں کرنی   پڑیں گی  کانگریس کو اپنا ڈھانچہ پوری طرح  سے بدلنا ہوگا  وہ تمام الزامات  جو کانگریس پر چسپاں ہوچکے ہیں ان داغوں کو دھونے کے لئے کانگریس کوبڑی جدو جہد کرنی پڑے گی اوراس کی اعلا قیادت کو بڑی قربانی  دینی ہوگی۔ کانگریس پر سب سے اہم الزام خاندانی پارٹی بن جانے کا ہے  یہ ٹھیک ہے کہ دیگرپارٹیاں خصوصاً علاقائی پارٹیاں اس میدان میں کانگریس سے بہت آگے نکل گئی ہیں لیکن کانگریس ایک قومی اور قدیم پارٹی ہے اسے اس تاثر سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے اس کے لئے اسے پارٹی کے آئین میں تبدیلی کرکے ہر دو سال بعد صدارتی الیکشن اور تسلسل سے دو مرتبہ سے زیادہ  کسی کوصدر نہ بننے دینے کا قانون  نہ صرف بناناچاہئے بلکہ اس پر عمل بھی کرنا چاہئے  کانگریس ورکنگ کمیٹی میں75فیصد نمائندگی تنظیمی الیکشن کے ذریعہ اور بقیہ25فیصدی نو منتخب صدرکے ذریعہ نامزد کرکے بھری جانی چاہئے ریاستوں  میں کانگریس کی قیادت کو مضبوط کرنے کے لئے ریاستی اکائیوں کو مزید آزادی دی جانی چاہئے۔ پارٹی کے اندراور اس کی حکومتوںسے وی آئی پی کلچر ختم کرنے کی جانب سنجیدہ کوششیںکی جانی چاہئے اب عوام لال بتی اور ہوٹر کی آواز سن کر طیش میں آجاتے ہیں کانگریس کو یہ کلچر ختم کرنے کی جانب  ٹھوس قدم اٹھانا ہوگا۔

 پارٹی  میں راہل گاندھی کو صدارت کی ذمہ داری سونپے جانے کی آوازیں اٹھ رہی ہیں کانگریس کا ہر کارکن ووٹر اور حامی شاید انہیں کرسی صدارت پر دیکھنا بھی چأہتاہے لیکن  اگرتنظیمی الیکشن کے بغیر راہل گاندھی کو پارٹی کا صدر نامزد کردیاگیا  تو یہ سیاسی خودکشی کے مترادف ہوگا امید ہے کہ سونیا جی اورراہل گاندھی دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایساکوئی قدم نہیں اٹھائیں گے جس سے کانگریس کے  سلسلہ میں  پہلے سے ہی خراب تاثر(  perception)اور زیادہ خراب کرنے کا موقع  اپوزیشن   میڈیا اور عوام کے ایک بڑے طبقے کو مل جائے ۔ راہل گاندھی کو تنظیمی الیکشن کے ذریعہ ہی صدارت کی کرسی قبول کرنی چاہئے نامزدگی کے ذریعہ نہیں۔ نہرو گاندھی خاندان  کا فرد  پارٹی کا صدر رہے یا نہ رہے پارٹی میں اس کی نمبر ایک کی پوزیشن کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا اس لئے بہتر ہوگا کہ راہل گاندھی اگلے دوبرسوں کے لئے خود کو پارٹی کی صدارت سے  دور رکھیں اور پارٹی کو گاؤں تک مضبوط کرنے کے لئے عوامی رابطہ مہم شروع کریں۔ انہیں پارٹی کارکنوں میڈیا اور عوام سے اپنی دوری بھی  فوری طور سے ختم کرنی ہوگی انہیں نہ صرف کانگریس کے تنظیمی ڈھانچہ میں انقلابی تبدیلی لانی ہوگی بلکہ2019کے عام انتخابات کے لئے  حکمرانی کے ایک نئے ماڈل کو بھی عوام کے سامنے رکھنا ہوگا جس کی بنیاد کانگریس کی دیرینہ اور روایتی سادگی پسندی(وی آئی پی کلچر کا مکمل خاتمہ) سیکولر ازم اور سوشلزم جیسے کانگریس کے بینادی اصولوں پر ہونی چاہئے سوشلزم  سے   مراد  کوٹہ پرمٹ انسپکٹر راج کی واپسی نہیں بلکہ محروم  غریب نچلے متوسط طبقہ کے مفاد کا تحفظ نیز ترقی کے پھل اس طبقہ تک پہنچانا یقینی بنانا ہونا چاہئے جبکہ سیکولرازم ہندوستان کی روح ہے اس  کی  تشریح کی ضرورت  نہیں بلکہ اس پر ایمانداری سے عمل در آمد کو یقینی بناناہے۔

(یو این این)

(مضمون نگار روزنامہ’ قومی خبریں‘  لکھنؤ کے ایڈیٹر ہیں)


*****************************

Comments


Login

You are Visitor Number : 612