donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Political Articles -->> Articles On National Issue
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Zaheeruddin Siddiqui
Title :
   BJP Navishta Deewar Padhne Me Nakaam Rahi

بی جے پی نوشتہ دیوار پڑھنے میں ناکام رہی


ظہیر الدین صدیقی اورنگ آباد

9890000552

 

    دہلی اسمبلی انتخابات میں ایک بات تو تقریباً پہلے سے طئے تھی کی دہلی کی عوام اروند کیجریوال کو پھر ایک بار موقع فراہم کرنے کے موڈ میں ہیں، لیکن کسی کو یہہ امید نہیں تھی کہ آپ پارٹی کو اتنی بڑی کامیابی حاصل ہوگی کہ بی جے پی صرف تین سیٹوں پر سمٹ جائیگی اور ملک کی سب سے پرانی کانگریس پارٹی کا دہلی سے صفایا ہو جائینگا۔ وہ کانگریس جو پچھلے پندرہ برسوں سے دہلی پر قابض تھی یوںصفر پر پہینچ جائیگی۔ سیاسی تجزیہ کار و مبصرین کو یہ اندازہ تھا ، اوپینین پول اور ایکزٹ پول بھی اس بات کا اشارہ دے رہے تھے کہ دہلی میں آپ پارٹی کو اکثریت حاصل ہو جائینگی لیکن یکطرفہ کامیابی کی امید کسی کو نہیں تھی شاید خود آپ پارٹی کو بھی نہیں۔ عام آدمی پارٹی کی اس شاندار اور غیر متوقع جیت کے لئے تو بہت سی وجوہات گنائی جا سکتی ہیں لیکن سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صرف نو ماہ پہلے عام انتخابات میں دہلی کی تمام سات پارلیمانی سیٹوں پر قبضہ کر نے والی، مرکز میں بر سر اقتدار بی جے پی اچانک اس قدر نا پسندیدہ کیوں ہوگئی؟ صرف نو ماہ میں ایسا کیا ہوگیا کہ دہلی کے عوام نے بی جے پی کو یکسر مسترد کردیا؟ اس کے جواب میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ پچھلی بار آپ پارٹی نے صرف ۴۹ دنوں کی مدت میں اپنے وعدوں کو پورا کرنے کی جو ایماندارانہ کوشش کی تھی ویسی کوشش ’ سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘ نعرہ دینے والے نریندر مودی سرکار کی جانب سے پچھلے نو ماہ میں کہیں دکھائی نہیں دی۔ لوگوں میں یہ احساس پیدا کرنے میں مودی سرکار ناکام رہی کہ اگر موقع ملے تو بی جے پی اپنے عوامی وعدوں کو پورا کرنے کے معاملے میں ایماندار ہے۔ پارلیمانی انتخابات سے قبل اور اس کے درمیان نریندر مودی نے عوام کے سامنے ترقی اور خوشحالی کا جو نقشہ کھینچا تھا اس میں رنگ بھرنے کی کوئی عملی کوشش کہیں دور دور تک آج بھی نظر نہیں آرہی ہے۔ اس کے بر خلاف جو عملی کام ہورہا ہے ہندوستانی عوام کی اکثریت اسے پسند نہیں کرتی۔ جیسے ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کی کوششیں، باالجبر دھرم پریورتن، گھر واپسی تقاریب کا انعقاد، پانچ پانچ اور دس دس بچے پیدا کرنے کا مطالبہ، گرجا گھروں پر منظم حملے، مساجد کو ہڑپنے کی باتیں، یہ وہ عوامل ہیں جس سے ہندوستان کی سیکولر عوام کو کوئی دلچسپی نہیں ہیں۔عوام سنگھ پریوار کی مرضی اور منشاء کا ہندوستان نہیں بلکہ ایک ترقی یافتہ بھارت دیکھنا چاہتے ہیں۔پھر فرقہ پرستوں کی ان حرکتوں کا مقصد کیا ہے؟ اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان باتوںکی وجہہ سے وہ ہندوستا ن کی سیکولر عوام کو فرقہ پرست بنانے میں کامیاب ہو جایئنگے تو یہ ان کی خام خیالی کے سوا کچھ نہیں۔ہندوستان کے وہ لوگ جو فرقہ پرستی کو پسند کرتے ہیں اور اس ملک کو ایک مخصوص شناخت دینا چاہتے ہیں وہ تو پہلے ہی بی جے پی کے ساتھ ہو گئے ہیں، ان کی تعداد۳۵ سے ۴۰ فیصد تک ہوتی ہے اور یہی بی جے پی کا ووٹ بنک ہے۔ اس میں دو پانچ فیصد کا اضافہ یا گراوٹ ہوتی رہیگی، لیکن ما بقی ۶۰ سے ۶۵ فیصد عوام اب بھی فرقہ پرستی کو اس ملک کی ترقی کے لئے سم قاتل تصور کرتی ہے، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ دہلی میں آپ پارٹی کو تقریباً ۵۴ فیصد عوام نے ووٹ دیا اور بقیا ۹ فیصد نے کانگریس کو ووٹ دیا۔ یہ ۶۵ فیصد عوام بھی اگر فرقہ پرستی کو جائز تصور کرتے تویقیناً اس کے ووٹ بی جے پی کے حق میں استعمال ہو تے لیکن ایسا نہیں ہوا، اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہندوستانی عوام کی اکثریت فرقہ پرستی کے مقابلے میں سیکولر اقدار کو پسند کرتی ہے۔ فرقہ پرستوں کے ان بیانات پر’ وکاس پرش‘ نریندر مودی کی خاموشی نے بالواسطہ طور پر یہ پیغام دیا کہ اگر بی جے پی کی ’وجئے رتھ ‘ کو دہلی میں نہیں روکا گیا تو یہ ملک اور قوم کے ساتھ ہمدردی نہیں بلکہ دشمنی ہوگی۔ دوسری طرف دہلی کی غریب جنتا یہ آس لگائے بیٹھی تھی کہ اب عوام کے’ اچھے دن‘ آنیوالے ہیں، انہیں کم قیمت پر بجلی اور مفت میں پانی ملے گا، بے روزگاروں کو کام ملیگا، بھوکوں کو اناج اور بے گھروں کو آسرا ملے گا، مرکزی سرکار اپنے وعدوں کو پورا کریگی، اسی انتظار میں نو ماہ کا عرصہ بیت گیا لیکن عملی طور پر ہر چیز جہاں کے وہاں رہی۔ بلی کے بھاگو چھینکا ٹوٹا عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں گراوٹ کی وجہہ سے ڈیزل اور پیٹرول کے دام تو کم ہوئے لیکن مہنگائی کی شرح میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔ڈیزل کے مہنگے ہونے کی وجہہ سے جو دام بڑھ گئے تھے وہ اب بھی وہیں پر قائم ہیں۔
    دہلی انتخابات کے اعلان ہونے سے بہت پہلے دسمبر میں ہم نے جب دہلی کی عوام سے جاننا چاہا تھا کہ اب کی بار دہلی میں کس کی حکومت بنے گی تو اسی وقت یہ رجحان سامنے آگیا تھا کہ دہلی کی عوام نے کیجریوال کی ۴۹ دنوں کی سرکار کو فراموش نہیں کیا۔ ایک آٹو رکشہ ڈرائیور کا یہ کہنا تھا تھا ہمیں کیجریوال کے دور میں لائسنس اور پرمٹ کے لئے رشوت نہیں دینی پڑتی تھی، لیکن اس کی حکومت برخواست ہونے کے بعد پھر وہی لوٹ چالو ہو گئی ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ رشوت خوروں پر کیجریوال کی جو دھاک بیٹھی تھی وہ اس کے برخاست ہوتے ہی ختم ہوگئی اور مرکز کی نئی سرکار نے اس طرف توجہہ دینے کی زحمت گورا نہیں کی۔ یہہ اور اس قسم کے تاثرات سے نوشتہ دیوار صاف پڑھا جا سکتا تھا کہ دہلی کے تخت پر قابض ہونا بی جے پی کے لئے آسان نہیں ہوگا لیکن بی جے پی اور اس کے ہم نوا اُسے پڑھنے میں نہ صرف ناکام رہے بلکہ انہوں نے اس طرف سے منہ موڑ لیا اور فرقہ پرستی کے ذریعہ عوام کو بانٹنے میں اپنی توانائی سرف کردی یا اروند کیجریوال کو بدنام کرنے پر ہی زور دیا۔ وہ عوام کو اپنے کسی کام سے متاثر کرنے اور اس کی دہائی دے کر ووٹ مانگنے کی پوزیشن میں تھی ہی نہیں جس کے نتیجہ میں بی جے پی کو آج یہ دن دیکھنا پڑرہا ہے ۔


    وزیر اعظم نریندر جی مودی، بی جے پی، آر ایس ایس ، اور اس کی تمام ذیلی تنظیموں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عوام کو فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم کرکے وقتی کامیابی تو حاصل کی جاسکتی ہے جیسے گجرات میں کیا گیا تھا لیکن پورے ہندوستان میں یہ ممکن نہیں۔ہندوستان جیسے تکثیری ملک میں ، اور اکیسویں صدی کے بھارت میں عوام کے دلوں پر راج کرنے کے لئے مذہبی نعروں کی نہیں بلکہ ترقی کی نئی راہوں کی ضرورت ہے، اسی ضرورت کو پیش نظر رکھ کر پارلیمانی انتخابات میں مودی جی کا زور صرف اور صرف ملک کی ترقی اور گُڈ گورننس پر تھا، عوام نے ان پر بھروسہ کیا اور انہیں اقتدار سونپا۔ پچھلے نو ماہ میں اگر مرکزی حکومت عوامی فلاح کے کام کرتی جس سے عوام کا اعتماد بحال ہوتا تو شاید آج کے نتائج اتنے مایو س کن نہیں ہوتے۔

    بی جے پی کو یہ بھی ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ انتخابات میں ووٹ ڈالنے، ووٹروں کو پولنگ بوتھ تک لیجانے، اور عوام کی ذہن سازی کا کام ٹاٹا ، برلا، امبانی، ادانی، سادھو، سنت نہیں کرتے بلکہ یہ کام عام آدمی کرتا ہے ، ملک کا نوجوان طبقہ کرتا ہے جسے یقیناً یہ امید ہوتی ہے کہ انتخابات کے بعد اس کے اچھے دن آئینگے، اور وہ جب مایوس ہوتا ہے تو پھر اسی طرح حکومتوں کے تختے پلٹ دیتا ہے، یہ وہی طبقہ ہے جس نے کانگریس کو اس کی اوقات بتلادی، جس نے آج دہلی میں اپنے حق کا استعمال کیا اور کیجریوال کو دوبارہ موقع فراہم کیا۔ اس طبقہ کومذہبی نعرے اور انتخابی وعدوں سے مزید بیوقوف نہیں بنایا جاسکتا۔

(یو این این)

*************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 614