donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Articles on Sports -->> Articles On Sports
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Abdul Majid Bhatti
Title :
   Pakistan Cricket Ki By Pass Surgeory Kaun Karega

پاکستان کرکٹ کی بائی پاس سرجری کون کرے گا؟
 
عبدالماجد بھٹی
 
برمنگھم کے سفر کے دوران ہر جانب موضوع بحث انگلش ٹیم کی فائنل میں رسائی ہے۔ میزبان ٹیم یہ ٹائیٹل پہلی بار جیتنے کے لئے ایک میچ کے فاصلے پر ہے۔ مقامی لوگ آپس میں اوول سیمی فائنل پر بات کررہے تھے۔دل میں یہی خیال آیا کہ کاش پاکستان جاکر اپنے غلطیوں کا اعتراف کرنے والے بلے باز ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے اور آج انگلش کرکٹ پرستار پاکستانی ٹیم کی کارکردگی پر زمین آسمان ایک کردیتے۔ پاکستانیوں سے ملاقات ہوئی تو وہ کہہ رہے کہ وہ کون سا مرد آہن ہے جو پاکستان کرکٹ کی بائی پاس سرجری کرے گا۔ میں نے کہا کہ ڈاکٹر ایک سے بڑھ کر ایک قابل ہیں۔ مرض کی تشخیص ہوچکی ہے لیکن درست وقت پر دیانت دار شخص ہی اس ڈوبتی کشتی کو کنارے لگائے گا۔ ایک پاکستانی دوست نے اس معصوم خواہش کا اظہار کردیا کہ فائنل کوئی بھی جیتے ہندستان کو نہیں جیتنا چاہیے۔ ہندستان نے ہمیں ایجبسٹن میں شکست کا جو زخم لگایا ہے۔ اسے مندمل ہونے اور ہمارے دلوں کو تسکین اس وقت ہوگی جب ہندستان بھی ٹائیٹل جیتے بغیر وطن واپس جائے۔
 
یہ2007کی بات ہے۔وزیر اعظم ہاؤس میں پاکستانی ٹیم کو اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز نے چائے پر مدعو کیا۔ جس وقت کھلاڑی ہائی ٹی سے لطف اندوز ہونے میں مصروف تھے۔ شوکت عزیز نے اس وقت کے کپتان انضمام الحق کا ہاتھ پکڑا اور دوسرے کمرے میں لے گئے۔ انضمام کے لئے وہ لمحہ حیران کن تھا۔ وہ سمجھے وزیر اعظم تنہائی میں لے جاکر کسی بات پرسر زنش کرنا چاہتے ہیں۔ اسی دوران شوکت عزیز نے کیمرہ مین کو بلوایا اور انضمام الحق کا ہاتھ تھامے کہنے لگے کہ آپ میرے پسندیدہ کرکٹر ہیں میں آپ کے ساتھ تصویر بنوانا چاہتا ہوں۔ اس طرح پاکستانی کپتان اور وزیر اعظم کی یاد گار تصویر کیمرے میں محفوظ ہوگئی۔ وہ تصویر آج بھی شوکت عزیز کے پاس موجود ہے۔ اس واقعے کو سناتے ہوئے انضمام الحق فخریہ انداز میں کہنے لگے کہ وزیر اعظم بھی میرے مداح ہیں۔ وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹنے کے بعد شوکت عزیز انگلینڈ میں رہتے ہیں۔ ایجبسٹن بر منگھم میں ہندستان کے خلاف میچ کے دوران شوکت عزیز، سابق آئی پی ایل کمشنر للت مودی کے ساتھ میچ کا مزہ لوٹتے رہے۔ ملک سے دوری کے باوجود ان کی کرکٹ سے محبت میں کمی نہیں آئی ہے۔ انہوں نے اپنی مصروفیت میں سے کرکٹ میچ کے لئے پورا دن نکال لیا۔ یہی حال یہاں ہر پاکستانی کا ہے۔ وہ ہندستان کے میچ کے لئے وقت نکال کر ایجبسٹن آئے۔ اتنی بڑی تعداد میں تماشائیوں کے آنے سے ایجبسٹن گراؤنڈ میں کروڑں پاؤنڈز کی لاگت سے تیار ہونے والی بلڈنگ میں پہلی اننگز کے بعد پانی ختم ہوگیا۔ حتیٰ کہ بیت الخلاء میں بھی پانی نہ تھا۔ منتظمین پریشان تھے کہ اس قدر بڑی تعداد میں تماشائیوں کے آنے سے ان کے انتظامات دھرے کے دھرے رہ گئے۔ مسلسل تیسرا میچ ہارنے کے بعد چراغوں میں روشنی نہیں رہی۔ اور ٹیم کو پہلے راؤنڈ ہی میں بریک لگانا پڑا۔ ایسی کارکردگی کی کسی کو بھی توقع نہ تھی۔ برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کی بڑی تعداد آئی سی سی چمپئنز ٹرافی میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی پر مایوس اور ناراض ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ٹورنامنٹ کا سیمی فائنل مرحلہ اب ختم ہوچکا ہے اور برمنگھم میں اتوار کو فائنل کی تیاریاں مکمل ہیں۔ مصباح الحق کی کپتانی میں قومی ٹیم جس دھوم دھڑکے سے یہاں آئی تھی۔ قومی ٹیم کے نتائج اس کے برعکس ہیں۔ جس شہر میں جائیں آپ کو پاکستانیوں کی بڑی تعداد ملے گی۔ یہ پاکستانی اپنے ملک سے عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے مہنگے ٹکٹ خرید کر آتے ہیں لیکن جب ٹیم ہارتی ہے تو ان کا غصہ فطری ہوتا ہے۔
 
انگلینڈ میں دو ہفتے کے قیام کے دوران کئی جذباتی شائقین سے بھی ملاقات ہوئی۔ کئی پاکستانی ٹیم کی کارکردگی پر سوالات پوچھ رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ پاکستان کرکٹ کہاں جارہی ہے۔ کیا گوری چمڑی پاکستانی ٹیم کو بلندیوں کی طرف لے جائے گی۔ پاکستان میں ایک بات سبھی جانتے ہیں کہ ہم غیر ملکیوں خاص طور پر گوروں سے جلدی متاثر ہوجاتے ہیں۔ ڈیو واٹمور کی مثال سب کے سامنے ہے۔ سری لنکا اور بنگلہ دیش کرکٹ ٹیم میں سیاست کا زہر گھول کر اس نے پاکستان کا رخ کیا۔ ایک بار پاکستانی کھلاڑیوں کی مخالفت پر اسے کوچنگ کا عہدہ نہیں دیا گیا تھا۔ دوسری بار وہ ایسے ماحول میں ہیڈ کوچ بن گیا جب غیر ملکی پاکستان آنے سے گھبرا رہے تھے۔ اس سے پہلے ہندستان بھی کوچنگ کے لئے اس کی درخواست رد کرچکا تھا۔ بر منگھم میں ہندستان کے ہاتھوں شکست کے بعد جب کئی پاکستانیوں نے شکست سے دلبرداشتہ ہوکر رات کا کھانا نہیں کھایا ہوگا اور کئی جذباتی اپنے گھروں میں شکست پر ماتم کررہے ہوں گے۔ واٹمور جس طرح ڈھٹائی سے پریس کانفرنس میں آیا اور ہنستے ہوئے یہ عندیہ دے رہا تھا کہ یہ صرف ایک شکست ہے۔ باقی سب ٹھیک ہے۔ یہی ٹیم اگلی سیریز میں جیتے گی۔ اس سے لگا کہ شاید باب وولمر کی طرح غیرت مند نہیں ہے کہ آئر لینڈ کے ہاتھوں شکست کے اگلے دن موت کو گلے لگا لے۔ واٹمور پروفیشنل کوچ ہے لیکن اس کی پاکستان ٹیم کے ساتھ وفا داری پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کیوں کہ وہ پیسے کی خاطر سب کچھ کررہے ہیں۔ ایک ایسا شخص جو سری لنکا میں پیدا ہوا۔ آسٹریلیا کی طرف سے ٹسٹ کھیلا۔ سری لنکا، بنگلہ دیش، لنکا شائر اور کلکتہ نائٹ رائڈرس کی کوچنگ کی۔ ہندستان کی نیشنل کرکٹ اکیڈمی کا ڈائرکٹر رہا۔ اب وہ پاکستان کرکٹ کے ساتھ کام کرنے کے لئے کس قدر ترو تازہ ہوگا۔ ڈیو واٹمور نے پاکستان آکر دعویٰ کیا ہے کہ ہمار ا ہدف2015 کا ٹورنامنٹ ہے۔ لیکن واٹمور کے دوسالہ عہدے کی میعاد آئندہ سال اپریل میں ختم ہوجائے گی۔ جبکہ اگر مصباح الحق اس وقت فٹ رہے اور پاکستان کی کپتانی کی تو ان کی عمر41 سال ہوجائے گی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا2015 کے ورلڈ کپ پلان میں واٹمور اور مصباح الحق کی جگہ موجود ہے۔ اس سوال کا جواب کرکٹ کے ارباب اختیار، وقت اور حالات ہی دے سکتے ہیں۔ لیکن انگلینڈ میں جس طرح پاکستانی شیر ڈھیر ہوئے ہیں اس نے کئی کھلاڑیوں کے مستقبل کے حوالے سے بڑا سوال اٹھایا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اگلے دورے میں کس کس کو لائف لائن ملتی اور کون پلان سے باہر ہوتا ہے۔ لیکن یہاں تو پی سی بی کے افسران کو بھی لائف لائن کے لئے دعائیں، لابنگ اور نہ جانے کیا کیا کرنا پڑرہا ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ میں سالہا سال چیئرمینوں کے عروج و زوال دیکھنے والے افسران ان دنوں گھبراہٹ کا شکار ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نئے باس کے ساتھ انہیںپھر سے چلتی ہوئی بس میں سوار ہونا ہے۔ پھر باس بس سے نیچے ہوں گے اور افسران نئی بس پر لٹک جائیں گے۔
 
******************
Comments


Login

You are Visitor Number : 923