donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Political Articles -->> Articles On State Of India
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Abdul Azeez
Title :
   Dehli Me Aam Aadmi Ki Jeet

دہلی میں عام آدمی کی جیت

جمہوریت کیلئے اچھے دن، فرقہ پرستوں کیلئے برے دن


…………………عبد العزیز۔…………………


    عام طور پر عام آدمی بھی خاص آدمی بن کر جینا چاہتا ہے لیکن جب کسی خاص آدمی کو عام آدمی بن کر فائدہ نظر آتا ہے تو وہ بھی عام آدمی بن کر اپنے کو پیش کرتا ہے۔ سیاست میں یہ بات عام ہے کہ ہر سیاست داں عام آدمی سے فائدہ اٹھانے کیلئے عام آدمی بن کر اپنے آپ کو پیش کرتا ہے لیکن وہ عام آدمی ہوتا نہیں۔ جو لوگ عام آدمی ہوتے ہیں وہ عام طور پر پیچھے کی قطار میں کھڑے ہوتے ہیں۔ اروند کجریوال ایک انجینئر باپ کے بیٹے ہیں ۔ آئی آر ایس (IRS ) ہیں ، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف  ٹکنالوجی کھڑگپورسے میکانیکل انجینئرنگ کیا ہے اور انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ میں کمشنر کی حیثیت سے کئی سال تک کام بھی کرتے ر ہے۔ ٹاٹا اسٹیل میں بھی یہ ملازم تھے۔ کام کے سلسلے میںکلکتے میں بھی کچھ دنوں تک ان کی رہائش رام کرشنا مشن میں تھی۔ کئی امتیازی انعامات بھی حاصل کئے ہیں ۔ انا ہزارے کے ساتھ کرپشن کے خلاف کامیاب تحریک بھی چلائی ہے اور اسی تحریک کے ذریعہ عوام و خواص میں مقبول ہوئے۔ اس مقبولیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے سیاست میں قدم رکھا اور عام آدمی کے نام سے پارٹی کی تشکیل کی۔ حیرت انگیز طور پر ان کی دہلی کی اسمبلی الیکشن میں جیت ہوئی۔ اس جیت نے انہیں پورے ہندستان میں نہ صرف سیاسی لیڈر بنادیا بلکہ ان کی مقبولیت کو چار چاند لگ گئے۔

    سوال یہ ہے کہ کیا کجریوال عام آدمی تھے یا عام آدمی کے گھر کے چشم و چراغ تھے یا کسی عام عورت کے شوہر تھے؟ ان کی بیوی خود آئی آر ایس ہیں۔ سب کا جواب یہی ہوگا کہ نہیں ، وہ عام آدمی نہیں ہیں۔

    کجریوال کے حق میں جو بات جاتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ ایک خاص آدمی ہوتے ہوئے بھی عام آدمیوں کے کام میں منہمک تھے اور عام آدمی کو خوش کرنے اور اسے مطمئن کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ دوسری بات جو ان کے حق میں جاتی ہے انہوں نے بغیر کسی پیسے اور لالچ کے عام آدمیوں کی خدمت کی ہے۔ یہ چیز ان کے دوستوں میں قابل ستائش تھی۔ یہی وجہ تھی کہ جن دوستوں نے ان کا ساتھ دیا وہ دل و جان سے دیا۔ دہلی میں جب انہوں نے پارٹی بنائی تو انہوں نے خاص آدمیوں کے مسائل سے دلچسپی لینے کے بجائے عام آدمیوں کے مسائل سے دلچسپی لینا شروع کیا۔ جہاں بھی مسائل پیدا ہوئے وہ پہنچے، گھر گھر میں پہنچنے کی کوشش کی، محلے محلے میں پہنچنے کی کوشش کی، ان کی یہ کوشش بار آور ثابت ہوئی۔ نہ صرف ان کیلئے بلکہ عوام کیلئے بھی ۔

    کجریوال پہلے سے بھی زیادہ عام آدمی کی طرح رہنے لگے۔ یہ چیز بھی ان کو مقبول بنانے میں معاون ثابت ہوئی۔ ’’میں عام آدمی ہوں ‘‘ان کا اور ان کی پارٹی کا نعرہ تھا۔ اس سے پہلے بھی جو پارٹیاں بنی ہیں ان میں زیادہ تر پارٹیوں نے اپنا نام عام آدمی کی طرح ہی رکھا وہ جنتا پارٹی ہو ، چاہے پاکستان کی پیپلز پارٹی ہو ، خواہ وہ بنگلہ دیش کی عوامی پارٹی ہو ، اس طرح کے بے شمار پارٹیوں کے نام گنائے جاسکتے ہیں جنہوں نے عوام کو اپنی طرف کھینچنے کیلئے عوامی پارٹی کے نام کو پسند کیا۔ برصغیر ہند میں کجریوال جس طرح پہلی ہی چھلانگ میں چھکا مارنے میں کامیاب ہوئے اس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔ آندھراپردیش میں راما راؤ نے بہت جلد چھکا مارا تھا لیکن بہت جلد ہی بولڈ آؤٹ بھی ہوئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ عام آدمی نہیں تھے ، ان کو وہاں کے لوگوں نے بھگوان کے روپ میں فلموں میں دیکھا تھا اور فلموں کے باہر بھی انہیں بھگوان سمجھنے لگے تھے لیکن اس بھگوان کو ان کے داماد نے ہی توڑ تاڑ کر برابر کردیا اور بہت جلد وہ پردے کے پیچھے چلے گئے۔ کجرایوال میں جو خوبیاں نظر آرہی ہیں ایسا نہیں لگتا ہے کہ وہ کوئی ایکٹنگ کررہے ہیں بلکہ جو ان کا قول ہے وہی عمل ہے اور جو عمل ہے وہی قول ہے۔ یہ چیز سیاسی آدمیوں میں نہیں کے برابر ہے۔ دو بڑی پارٹیاں کانگریس اور بی جے پی دونوں کو پچھاڑنے میں کجریوال نے کامیابی حاصل کی۔ دونوں پرانی پارٹیاں ہیں ، دونوں کے پاس منی اور مسل پاور(Money & Muscle) ہے دونوں غلط طریقے سے الیکشن جیتنے کے حق میں ہے۔ ان دونوںپارٹیوں میں جو لوگ شامل ہوتے ہیں ان کا ایک مطمح نظر ہوتا ہے وہ پیسہ بنانا(Money Making)۔ دونوں پارٹیاں بد نام زمانہ ہوچکی ہیں۔ بی جے پی اپنے فرقہ پرستی کی وجہ سے اورکانگریس کرپشن کی وجہ سے۔ کانگریس مرکزی حکومت کی رہنمائی کررہی ہے اس لئے اس کا کرپشن کچھ زیادہ اجاگر ہوا ہے حالانکہ کرپشن میں بی جے پی کانگریس سے کم نہیں ہے بلکہ زیادہ ہے اس لئے کہ وہ بنیوں کی پارٹی ہے۔ یہ اتفاق کہئے یا حسن اتفاق کہئے کہ کجریوال بھی بنیا ہیں اور بنیا کے گھر سے تعلق رکھتے ہیں لیکن شاید ان کی ذہنیت بنیا کی نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بنیا پارٹی کو پیچھے کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ کانگریس کی ناکامی تو خود اس کے اندر کے تضادات (Contradictions)کی وجہ سے ہوئی ہے اور آگے بھی ہونے کے امکانات ہیں۔

مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے؟

    حقیقت تو یہ ہے کہ کوئی شخص جب مسلمان بنتا ہے تو وہ عام آدمی فوراً بن جاتا ہے چونکہ آج جو لوگ مسلمان ہیں وہ عام طور پر خاندانی مسلمان ہیں اس لئے وہ عام آدمی کی قیمت و اہمیت سے ناواقف ہیںاور عام آدمی میں رہنا بھی پسند ہیں کرتے۔ آنحضرت ؐ اکثر و بیشتر فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں غریبوں میں پاؤگے اور آپ ؐ نے اپنی پوری زندگی میں غریبوں کی کمزوری کو دور کرنے کی کوشش کی ہے اور اسلام کا پورا معاشی نظام غریبوں کو ہی اوپر اٹھانے کیلئے ہے۔ ہندستان کے مفکر اعظم اور اسلام کے ماہر علامہ حمید الدین فراہی ؒ نے دین کی جو تعریف لکھی ہے وہ یہ ہے کہ ’’دین اصل میں بندگی رب کا نام ہے اور نتائج کے لحاظ سے سب کے ساتھ حسن سلوک کرنا اور غریبوں کا (عام آمیوں کا ) ساتھ دینے کا نام ہے۔‘‘ اگر مسلمان دین کی اس روح سے واقف ہوتے تو آج وہ عام آدمی بن کر رہتے ، عام آدمی کی طرح جیتے اور عام آدمی کی طرح معاملات کرتے۔ اس کے نتیجے میں عام آدمی ان کی طرف کھینچتا ہوا چلا آتااور ان کی تعداد میں دن دونی رات چوگنی اضافہ ہوجاتی لیکن مسلمان ہے تو عام آدمی لیکن وہ خاص آدمیوں کی طرح رہتا ہے۔ اکثریت وعدہ خلاف ہے اور جھوٹ کو پسند کرتے ہیں، لین دین کے معاملات میں بھی کھرے ہونے کے بجائے کچی ثابت ہوتی ہے اور ایک طرح سے دین کا وہ حصہ جو سطحی اور نمائشی ہے اس کو اپنائے رہتے ہیں اور دین کی روح سے غافل ہوتے ہیں۔ نتیجہ نہ وہ اللہ کو خوش کر پاتے ہیں اور نہ اپنے لوگوں کو اور نہ آس پاس کے لوگوں کو ۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ نہ وہ اپنے مسائل حل کرپاتے ہیں اور دوسروں کی مسائل تو بہت دور کی بات ہے جبکہ سارے انسانوں کے مسائل مسلمانوں کے مسائل ہونے چاہئے تھے۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے تشکیل جماعت اسلامی کے موقع پر جماعت والوں سے یہی کہا تھا کہ سارے ’’انسانوں کے مسائل ہمارے مسائل ہیں۔‘‘ (روداد جماعت اسلامی اول)۔لیکن جماعت اسلامی کے لوگوں نے عام انسانوں کے مسائل سے تو دلچسپی لی لیکن وہ بہت جلد مسلمانوں کے مسائل میں گھر گئے ، نتیجہ یہ ہوا کہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے جو حکمت اپنائی تھی اس سے ایک طرح سے دور ہوگئے ، مولانا نے یہ بھی کہا تھا کہ جماعت اسلامی مسلمانوں کی نہیں بلکہ اسلام کی جماعت ہے اور یہ مسلمانوں سے اتنا ہی تعلق رکھے گی جتنا وہ اسلام سے تعلق رکھتے ہیں۔ جماعت اسلامی نے علامہ سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ کی یہ بات بھی فراموش کردی۔ ظاہر ہے ایک ایسی جماعت جو دین دار جماعت ہو وہ بھی مسلمانوں کے ہی مسئلے میں گھر جائے تو عام انسانوں کے مسائل کیسے حل کرے گی؟

    ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان مولانا حمید الدین فراہیؒ اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ کی باتوں پر دھیان دیں تو پھر وہ عام آدمیوں میں عام آدمیوں کی حیثیت سے کام انجام دے سکتے ہیں۔ میرا خیال یہ ہے کہ مسلمانوں کی کوئی جماعت اگر کجریوال کی جماعت سے مشترکہ پروگرام کے بنیاد پر معاہدہ کرتی ہے اور کانگریس کو پورے طور پر رد کردیتی ہے اور بی جے پی کو چھونا بھی حرام کردیتی ہے تو مستقبل میںمسلمانوں کیلئے بہتر ہوگا۔ جہاں تک ریاستوں میں جو پارٹیاں ہیں وہ زیادہ تر تو کانگریس سے ٹوٹ کر بنی ہیں ان کے اندر بھی کانگریس کلچر ہے۔ ملائم اور لالوکی جو پارٹی ہے وہ ذات پات کی بنیاد پر ہے ان سے کوئی بہتر امید کرنا سوائے غلطی کے کچھ بھی نہیں ہوگا۔ اگر مسلمانوں کی کوئی پارٹی کجریوال سے معاہدہ نہیں کرتی ہے جو پہلے سے کام کررہی ہے تو مسلمانوں کا کوئی نمائندہ گروپ سامنے آئے ، سیاسی پارٹی کی تشکیل دے اور عام آدمی پارٹی سے معاہدہ کرے۔ اس سے اچھا نتیجہ برآمد ہوگا۔

سیاست اور مسلمان

    علم السیاسیات (Political Science) میں سیاست کی تعریف یہ ہے ’’سیاست سلطنت سے شروع ہوتی ہے اور سلطنت پرختم ہوتی ہے۔‘‘

Politics begins and ends with state.          

     یعنی سیاست امور سلطنت سے تعلق رکھتی ہے یہی وجہ ہے کہ سیاست سوسائٹی پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔ حالات زمانہ کی وجہ سے مسلمانوں نے ایک وقت سیاست سے دوری اختیار کرلی تھی ۔ مولانا ابوالکلام آزاد ؒ نے مسلمانوں کی توجہ سیاست کی طرف موڑنے کی کوشش کی ۔ مسلمان ایک حد تک سیاست سے قریب ہوئے۔ یہ آزادی کی لڑائی کا زمانہ تھا ، اس زمانے میں انگریز مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن تھے،سرسید انگریزوں سے دوستی کرکے مسلمانوں کو تعلیم کے راستے پر لانا چاہتے تھے ایک وقت تک تو سرسید کی پالیسی سے لوگ متاثر تھے ، بڑے بڑے عہدوں کو حاصل کرنے اور بڑی بڑی تنخواہوں کی دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنا شروع کردیا۔ مولانا ابوالکلام آزاد ’’البلاغ‘‘ اور ’’الہلال‘‘ کے ذریعہ مسلمانوں کو آزادی کی جنگ میں حصہ لینے اور سیاست میں بھر پور طریقے سے آنے کی وکالت کی ۔ مولانا ابوالکلام آزاد کانگریس میں تھے اور یہ چاہتے تھے کہ مسلمان کانگریس میں شامل ہوکر آزادیٔ ہند کی لڑائی میں حصہ لیں۔ مسلمانوں کا بہت بڑا طبقہ مولانا ابوالکلام آزاد کی اپیل پر مائل ہوگیا لیکن جیسے جیسے لڑائی بڑھتی گئی اور آزادی کی منزل قریب آتی گئی تو مسلمانوںکا ایک بڑا طبقہ کانگریس سے منحرف ہوکر مسلم لیگ کی طرف مائل ہوگیا۔ مسلم لیگ کے عالم وجود میں آنے کی کئی وجہیں بتائی جاتی ہیں۔ ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ کانگریس میں ایسے لیڈر بھی تھے جو مسلمانوں کو پچھلی صف میں رکھنا چاہتے تھے اور مسلمانوں کے پورے حقوق دینے کے حق میں بھی نہ تھے۔ ایسے وقت میں مسلم لیگ نے ملک کے بٹوارے کی وکالت شروع کی۔ بالآخر ملک دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ تقسیم کے نتیجے میں جو خون خرابہ ہوا وہ تاریخ کا ایسا غمناک اور افسوس ناک باب ہے جس کے ذکر سے انسان کا کلیجہ ہل جاتا ہے۔ دونوں طرف ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگ مارے گئے، کئی شہر وں، کئی صوبوں سے مسلمان اجڑ گئے اور اسی طرح ہندو بھائیوں کو بھی پاکستان سے ہندستان آنا پڑا اور انہیں بھی آگ اور خون کادریا عبور کرنا پڑا۔ شاید دونوں طرف کے لیڈروں کو اگر یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسانیت کا اتنا بڑا خون ہوگا اور انسانوں کو اتنا شرمناک دن دیکھنا ہوگا تو شاید یہ بٹوارہ نہیں ہوتا۔ اس بٹوارے سے نہ صرف ملک تقسیم ہوگیا بلکہ ہندواور مسلمان بھی تقسیم ہوگئے۔ تقسیم کے بعد جو لیڈر جنگِ آزاد ی میں مسلمانوں کو شامل کرنے کی آواز دے رہے تھے ان کی آواز مدھم پڑگئی وہ کسی طرح سر جھکا کر سیاست میں رہنے لگے۔ بڑے بڑے لیڈر بشمول مولانا ابوالکلام آزاد سرنگوں ہوگئے۔ 1964ء تک مسلمانوں کا کوئی مشترکہ پلیٹ فارم نہیں تھا ، فرقہ وارانہ فسادات ہوتے رہے، مسلمانوں کا خون بہتا رہا ۔ جب پانی سر سے اونچا ہوگیا تو 1964ء میں کل ہند مجلس مشاورت کی بنیاد ڈالی گئی۔ صرف کیرالا میں مسلم لیگ رہ چکی تھی اور باقی جگہوں سے اس کا خاتمہ ہوچکا تھا۔ مشاورت کے وجود میں آنے سے مسلمانوں کی ہمت اور حوصلے میں اضافہ ہوا ۔ ڈاکٹر جلیل فریدی نے مسلم مجلس نام کی ایک سیاسی تنظیم کی بنیاد ڈالی۔ کچھ دنوں تک اتر پردیش میں اس کا جلوہ نظر آیا لیکن آہستہ آہستہ یہ بھی پردے کے پیچھے چلی گئی۔ ملک کے ایک دو جگہوں پر سیاسی پارٹیوں کا وجود رہا لیکن ملک گیر پیمانے پر مسلمانوں کی کوئی سیاسی جماعت نہیں رہی۔ 2012ء میں جماعت اسلامی ہند 30-32 سال کے بحث و مباحثے کے بعد اس نتیجے پر پہنچی کہ ہندستان میں مسلمان بے وقعت اور بے حیثیت ہوگئے ہیںخاص طور پر سیاسی میدان میں ۔ اس سوچ کے نتیجے میں جماعت نے ایک سیاسی جماعت ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے نام سے تشکیل دینے میں کامیاب ہوگئی۔ دو تین سال ہوگئے اس کے وزن کو ابھی تک ملک گیر پیمانے پر تو بہت دور کی بات ہے کسی ریاست میں بھی محسوس نہیں کیا جاتا۔ اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ جس طبقے سے زیادہ لوگ اس پارٹی میں شامل ہیں وہ مسلمانوں کا طبقہ ہے۔ ان کے اندر اروند کجریوال جیسا حوصلہ ، جیسی حکمت نہیںتھی۔ ان کی پارٹی کجریوال سے پہلے بنی اور دلی میں اس کی بنیاد پڑی مگر دلی ہی اس کیلئے ابھی تک دور ہے۔

    اگر یہ پارٹی مضبوط ہوجاتی ہے اور مسلمان اس کو مضبوط کردیتے ہیں تو کجریوال کی پارٹی سے اس کو معاہدہ کرلینا چاہئے۔ لیکن کجریوال بھی اس وقت اس کی طرف متوجہ ہوں گے جب محسوس کریں گے کہ اس کے پیچھے لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ جہاں تک مسلمان بحیثیت ووٹرس کے یا بحیثیت لیڈرس کے کسی بھی پارٹی میں شامل ہوں گے ان کا مقام صفحۂ اوّل میں ہونا بہت مشکل ہے۔ صفحۂ اوّل میں آنے کیلئے ضروری ہے کہ وہ خود محنت و مشقت کرکے اپنا مقام و مرتبہ بنائیں اور معاہداتی سیاست کی شروعات کریں۔ معاہدہ کی اجازت دین کی طرف سے دی گئی ہے۔ لیکن جو لوگ سیاسی پارٹیوں میں اب تک چاہے آزادی سے پہلے ، چاہے آزادی کے بعد شامل ہوتے رہے ہیں مسلمانوں کا بحیثیت مجموعی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ کانگریس کا تجربہ مسلمان کرچکے ہیں ، بی جے پی جیسی فرقہ پرست پارٹی کے ساتھ وہی مسلمان جاسکتے ہیں جو ایمان اور دین کا سودا کرنا چاہتے ہیں یا کر چکے ہیں۔

    نئی اور پرانی باتیں میں اس لئے یاد دلا رہا ہوں کہ نئے اور پرانے تجربوں سے مسلمان فائدہ اٹھائیں اور جن تجربوں سے انہیں ناکامی ہوئی ہے خدارا اسے نہ اپنائیں۔ اس سے مسلمانوں کی عزت و آبرو جاتی ہے ، وقار و مرتبہ مجروح ہوتا ہے۔ ان کی توانائی اور محنت ضائع ہوتی ہے، مٹھی بھر لوگ جو بکاؤ مال ہوتے ہیں ان کی جیبوں میں کچھ چلا جاتا ہے یا ان کا گھر با ر سنور جاتا ہے لیکن زیادہ تر لوگ محرومیت کے شکار ہوتے ہیں۔ مسلمانوں کو دین سے رہنمائی لینا چاہئے اور حضور ﷺ کی وہ سیاست جس سے مسلمانوں کا وزن دنیا میں بڑھا اس سیاست کو اپنانا چاہئے۔ سیاست ایمانداری اور سچائی کی تھی اور محض خدا کی خوشنودی کیلئے تھی۔ خدا کی وفاداری سے ہی مسلمانوں کی عزت دنیا میں بڑھی ہے اور اسی وفاداری ہی سے ان کا مقام و مرتبہ بڑھے گا ، کسی اور کی وفاداری ان کیلئے ہمیشہ باعث شرم ہوا ہے۔ ایسے لوگ جو دین کی تبلیغ کررہے ہیں اور دعوت کا کام کررہے ہیں اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کو سیاست سے دور رہنا چاہئے تو ان کو اچھی طرح سے معلوم ہونا چاہئے کہ سیاست دین کا وہ جز ہے جس کو بہتر بنائے بغیر بگاڑ اور فساد کا خاتمہ نا ممکن ہے اس لئے کہ بگاڑ کی اصلی جڑ سیاست ہے۔ علامہ اقبال نے سچ کہاتھا    ؎

جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو

٭
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

        Statecraft divorced from Faith to reign of terror leads,
Though it be a monarch’s rule or Commoners’ Show.

    ملت کا جو جز یا جو حصہ سیاسی قوت کی اہمیت نہیں سمجھتا وہ آہستہ آہستہ غیروں کے پیچھے چلنے پر راضی ہوجاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ جز ملت کا کمزور ترین حصہ ہوجاتا ہے اور یہ سماج میں اس کے اثرات و نفوذ کم سے کم ہوتے چلے جاتے ہیںبلکہ نہیں کے برابر ہوجاتے ہیں۔

    ہماری سماجی قوت کا انحصار بڑی حد تک ہماری اخلاقی قوت اور سماجی اداروں میں ہمارے رسوخ و نفوذ پر ہے۔ اگر ہم ملکی سماج کے کمزور و مظلوم اور محروم گروہوں اور طبقات کی نسبت سے عدل و قسط، اور اخوت و مساوات کے علم بردار بن کر سامنے آئیں اور اس بارے میں واضح رویوں اور پالیسیوں کی بنیاد پر دوسروں کا تعاون حاصل کرنا چاہیں تو ہمیں غیر مسلم اہلِ وطن سے بھی کافی تعاون مل سکتا ہے، جو بالآخر ہماری سماجی اور سیاسی قوت میں اضافہ ہوگا۔ اسی زاویہ نگاہ سے خود مسلمان ملت کی تعلیمی اور معاشی خستہ حالی دور کرنے اور ملت کے کمزور و محروم عناصر کو اوپر اٹھانے کا پروگرام ہاتھ میں لینا چاہئے۔ واضح رہے کہ ہم اس کو ایک ملی مسئلہ قرار دے کر محض احتجاج و مطالبات کی راہ سے اسے حاصل کرنے کی سفارش نہیں کررہے ہیں بلکہ عملی طور پر ملک و ملت کے ان کمزور عناصر کی خدمت کرکے ان کو اوپر اٹھانے کا پروگرام تجویز کررہے ہیں۔ یہ پروگرام ہمارے دین کا تقاضا ہے، ساتھ ہی ساتھ یہ ہماری سماجی قوت میں اضافہ کا مؤثر ذریعہ ثابت ہوسکتا ہے۔

 

رابطہ: 9831439068
Email: azizabdul03@gmail.com

 

(یو این این)

****************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 597