donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Political Articles -->> Articles On State Of India
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ashraf Ali Bastavi
Title :
   Kya Aam Aadmi Party Apni Hi Taye Karda Asool wa Zawabit Se Moonh Morh Rahi Hai



کیا عام آدمی پارٹی اپنے ہی طے کردہ اصول و ضوابط

کی پاسداری سے منہ موڑ رہی ہے ؟


پارٹی ابھی تک ایسا واضح سیاسی نظریہ تشکیل نہیں دے سکی ہے جویہاں آنے والے سبھی سیاسی نظریات کے حاملین کو قابل قبول ہو


اشرف علی بستوی ؛ نئی دہلی


کیاعام آدمی پارٹی بھی جنتا پارٹی اور جنتا دل کی ڈگر پر گامزن ہے  ؟ جس پر چل کر یہ دونوں پارٹیاں ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی تھیں۔ کیا انا ہزارے کی بدعنوانی مخالف تحریک کے بطن سے جنم لینے والی یہ پارٹی  اب خود اپنے ہی طے کردہ اصول و ضوابط کی پاسداری سے منہ موڑ رہی ہے ؟ طویل عرصے سے بدعنوانی کی چکی میں پستے  بے چین لوگوں کو اس پارٹی کے بدعنوانی مخالف مضبوط عزم  اور ارادے  کے اظہار نے ہی  یکجا کیا تھا ، ملک کے کونے کونیسے  مختلف علاقوں کے افراد ایک ساتھ آ کھڑے ہوئے تھے۔ جو نہ صرف زبان کلچر اور تہذ یب کے لحاظ سے الگ الگ تھے بلکہ ان کے سیاسی نظریات بھی مختلف تھے۔  یہاں آنے والوں کے درمیان صرف ایک بات  مشترک تھی کہ سبھی  رائج الوقت  سیاسی  نظام  سے آزادی چاہتے تھے۔ اور اب  عام آدمی پارٹی کیعزم میں دراڑ پڑتی  نظر آرہی ہے ؟  

 آخر کیا وجہ ہے کہ  یہ پارٹی اپنے اندرونی اختلافات پر ابھی  تک قابو پانے میں  ناکام  رہی ہے ، ایک  خیال یہ تھا کہ جب اروند کیجری وال   بنگلور سے واپس آئیں گے تو حالات  معمول پر آجائیں گے لیکن ابھی تک  کوئی ثمر آور پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔  پارٹی کے درمیان  اٹھنے والے اختلافات  سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پارٹی بہتر حکمرانی کا واضح روڈ میپ  تو رکھتی ہے لیکن ابھی واضح سیاسی نظریہ  تشکیل نہیں دے سکی ہے جویہاں آنے والے سبھی سیاسی نظریات کے حاملین  کو قابل قبول ہو۔  یہی وجہ ہے کہ خود پارٹی کے لیڈر ہی اپنے سینئر ساتھیوں کو الٹرا لیفٹسٹ تک کہہ گئے۔ لیکن اس طرح کی باتوں کی پروا کیے بغیر یوگیندر یادو جیسے سنجیدہ  لیڈر اب بھی پر امید ہیں کہ  آئندہ جو کچھ ہو گا  خیر ہی نکل کر سامنے آئے گا۔

اس وقت عام آدمی پارٹی  کو خود کو انتشار سے بچانا سب سے بڑا چیلنج ہے،  کانگریس اور بی جے پی کا متبادل پیش کرنے  کا جو نادرموقع ملا ہے اسے غنیمت جان کر بر وقت اپنے مسائل کا حل تلاش کر لینا چاہیے۔  1972کے بعد سے  کانگریس اور بی جے پی کا متبادل پیش کرنے نادرموقع ہے اگر پارٹی نے  اپنے باہمی خلفشار کی وجہ سے اسے کھو دیا تو پھر لمبے وقت تک کے لیے  پھر کسی سیاسی جماعت  کو عوام کا اعتماد بحال نہیں کر سکے گی ۔ اس پارٹی کے تعلق سے ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ اس میں بایاں بازو کی طرز سیاست میں یقین رکھنے والے اگر پرشانت بھوشن  اور یو گیندر  یادو ہیں تو ہندو توا کے تئیں نرم گوشہ رکھنے والے  کمار وشواس  بھی ہیں جنہوں نے ایک موقع پر کہا تھا ہماری سیاست ' شیو کی بارات 'جیسی ہے، اسی لیے  اکثر اپنے  بیانات کی وجہ سے وہ  سرخیوں میں رہتے ہیں۔ دراصل یہاں سب سے بڑا مسئلہ نظریات کے ٹکراو کا پیدا ہو گیا ہے اسے حل کرنا  اروند کیجری وال کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔

سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اقتدار سے کسی جماعت کو بے دخل کر نے کا ایک عمل ہے اور اس کی جگہ لینا یہ دوسرا عمل ہے ، عام آدمی پارٹی نے پہلا

 کام تو انجام دے دیا ہے لیکن اب متبادل بن کر دکھانا بڑا چیلنج ہے یہ کام طویل مدتی  منصوبہ سازی کے  تحت مضبوط سیاسی نظریے سے ہی کیا  جا سکتا ہے۔ 1989 میں یہی کام  وی پی سنگھ نے بھی انجام دیا تھا ، راجیو گاندھی حکومت  کو بے دخل کر نے میں اہم کردار ادا کیا ، ان کے ذریعہ دیے گئے دل چسپ انتخابی نعرے عوامی نعروں میں تبدیل ہو گئے تھے۔ اس وقت 'گلی گلی میں شور ہے ' ایک جلیبی ایک سموسہ کانگریس کا کیا بھروسہ '  جیسے نعرے  ہر خاص و عام  کی زبان  پر آگئے تھے۔ اور پھر کچھ ہی دنوں بعد جنتادل کے  کتنے  ٹکڑے ہوئے شاید ان کے بانئین کو بھی یاد نہ ہو۔  عام آدمی پارٹی کی جیت میں بھی اس کے دل چسپ نعروں کا اہم  کردار ہے  پانچ سال کیجری وال '

سب لیڈر چور ہیں جی ' آپ کسے ووٹ دیں گے ' ایماندار یا بدعنوان'  کو یہ اور اس طرح کے نعروں کے سہارے اقتدار کے گلیاروں تک پہونچنے والی پارٹی کو  یہ طے کر نا ہو گا کہ وہ اسے عملی زندگی میں کیسے نافذ کرتی ہے۔  اگر پارٹی نے اپنی کوتاہیوں کو دور کرنے  کی فکر نہیں کی تو عام آدمی پارٹی کوٹوٹنے سے کوئی روک نہیں سکتا کیونکہ یوگیندر یادو اور پرشانت بھوشن  کے سیاسی نظریات کے حاملین کی بڑی تعداد پائی جاتی ہے۔

کیجری وال کے اسٹنگ آپریشنوں  کی اگر بات کریں  تو یہ بھی کم تشویش ناک نہیں ہیں  جوڑ توڑ کی سیاست کی ہمیشہ نفی کرنے والے  کیجری وال  اخلاقی اصولوں سے سمجھوتہ کرلینے پر  کیوں راضی نظر آئے ،  یو گیندر یادو اور پرشانت کو کیجری وال کی یہی  پالیسی بے چین کر رہی تھی۔ ان کا اختلاف اصولی تھا جسے ایک حلقے نے کیجری وال مخا لف بنا کر پیش کر دیا۔ اس وقت عام آدمی پارٹی پر بڑی ذ مہ داری دہلی کے عوام کے امنگوں پر بہترحکمرانی کے ذریعے  کھرا اترنا اور ساتھ ہی ملک میں صاف ستھری متبادل سیاست کو فروغ دینا یہ کام ایک مضبوط سیاسی نظریے کے  قیام کے بغیر ممکن نہیں ہے  جس کا یہاں  فی الحال فقدان نظر آرہا ہے۔

(یو این این)

**************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 503