donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Political Articles -->> Articles On State Of India
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Bihar Assembly Intekhab - Bat Badalte Badalte Ab Zat Bhi Badli


بہاراسمبلی انتخاب: بات بدلتے بدلتے اب ذات بھی بدلی


ڈاکٹر مشتاق احمد

پرنسپل مارواڑی کالج،دربھنگہ

موبائل:09431414586

 ای میل: rm.meezan@gmail.com


    بہار اسمبلی انتخاب اپنے آخری مرحلے میں ہے کہ اب تک تین مرحلوں کی پولنگ ختم ہو گئی ہے۔243سیٹوں والی اسمبلی میں اب تک 131حلقوں کی پولنگ ہو چکی ہے اور اب دو مرحلوں میں بقیہ 112حلقوں میں پولنگ آئندہ یکم نومبر اور 5نومبر کو ہوگی۔ بہا راسمبلی کا انتخاب اپنے دور آغاز سے ہی کئی اعتبار سے دلچسپ رہا ہے اور اب تک وہ دلچسپی برقرار ہے۔ کیونکہ ہر ایک سیاسی جماعت نت نئے پینترے بدل رہی ہے۔ ایک طرف قومی جمہوری اتحاد ہے جس کی کمان خود وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے ہاتھوں میں لے رکھی ہے تو دوسری طرف عظیم اتحاد ہے جس کے محور و مرکز تو نتیش کمار ہیں ، لیکن لالو پرساد یادو کی للکار نے بھی مخالفین کے ناک میں دم کر رکھا ہے۔ چونکہ سیاسی اعتبار سے یہ اسمبلی انتخاب دونوں ہی اتحاد کے لئے وجود کا سوال ہے، اس لئے دونوں طرف سے ہر وہ کوشش کی جارہی ہے جس کی بدولت زیادہ سے زیادہ سیٹیں جیتی جاسکیں اور بہار میں حکومت پر قابض ہو سکیں۔ موجودہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار متفقہ طور پر عظیم اتحاد کے لیڈر تسلیم کئے جاچکے ہیں، اس لئے عظیم اتحاد کی واپسی ہوتی ہے تو وزیر اعلیٰ کے عہدے پر نتیش کمار ہی برقرار رہیں گے اور یہ بات نہ صرف عظیم اتحاد کو استحکام بخشتی ہے بلکہ نتیش کمار کی صاف ستھری شبیہہ،  قومی جمہوری اتحاد کے لئے ایک بڑی پریشانی بھی پیدا کر رہی ہے کہ جمہوری اتحاد کے پاس کوئی اعلانیہ لیڈر نہیں ہے۔ظاہر ہے کہ ایک طرف اعلانیہ لیڈر ہے جس کی سیاسی بصیرت و بصارت کے قائل ان کے مخالفین بھی ہیں کہ تقریباً تین دہائی سے عملی سیاست میں فعال و متحرک رہنے اور مختلف عہدوںپر فائز رہنے کے بعد وزیر اعلیٰ کی کرسی تک پہنچنے ہیں اور اب تک بے داغ ہیں۔نتیجہ ہے کہ قومی جمہوری اتحاد کے لیڈران لاکھ کوششوں کے باوجود اب تک کوئی ایسا نشانہ نہیں لگا سکے ہیں کہ جس سے نتیش کمار کی شبیہہ مسخ ہو۔جہاں تک بہار میں ترقی کا سوال ہے تو اس معاملے میں بھی جمہوری اتحاد تھوتھی دلیلیں تو دے سکتے ہے مگر نتیش کمار کے ترقیاتی کاموں کو جھٹلا نہیں سکتے۔ کیونکہ آٹھ سالوں تک خود بھاجپا نتیش حکومت کے ساتھ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے درجنوں انتخابی جلسوں کے بعد بھی جمہوری اتحاد کے موافق فضا تیار نہیں ہو سکی ہے۔ اور ایک طرح کی گھبراہٹ بھی ان کے اندر دیکھنے کو مل رہی ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ پہلے دو مرحلوں کی پولنگ تک وہ خود کو پسماندہ طبقے کا بتا رہے تھے لیکن تیسرے مرحلے میں وہ خود کو انتہائی پسماندہ طبقے کا بتا رہے ہیں۔ یہ تضاد ان کی ذہنی پریشانی کی عکاسی کرتا ہے۔اتنا ہی نہیں اب وہ مذہبی کارڈ بھی کھیلنے لگے ہیں۔ گذشتہ دن انہوں نے کہا کہ عظیم اتحاد پسماندہ طبقے کے ریزرویشن کوٹے سے پانچ فیصد ایک مخصوص مذہب کو دینا چاہتی ہے۔ یہ گمراہ کن بیان ایک وزیر اعظم کی طرف سے دیا جانا نہ صرف جمہوری اصولوں کے خلاف ہے بلکہ منافرت کا باعث بھی ہے۔ظاہر ہے کہ انہوں نے بغیر نام لئے اشاروں میں یہ کہنے کی کو شش کی کہ عظیم اتحاد مسلمانوں کو زیزرویشن دینا چاہتی ہے۔ شاید وزیر اعظم کو یہ بھی خیال نہ رہا کہ ریاست بہار میں پسماندہ طبقے اور انتہائی پسماندہ طبقے کو جو ریزرویشن ہے اس میں مسلم طبقے کے پسماندہ اور انتہائی پسماندہ بھی شامل ہیں۔ اس لئے اس طرح کی بیان بازی کرکے محض ہندوتو کا کارڈ کھیلنے کی کوشش کی گئی جو نہ صرف بہار کے لئے خطرناک ہے بلکہ ملک کی سا  لمیت کے لئے بھی مضر ہے۔اب تک وزیر اعظم نریندر مودی اپنی بات بدل رہے تھے اور اب ذات بھی بدلنے لگے ہیں۔ بہار میں یہ عام چرچہ ہے کہ شاید چوتھے مرحلے میں وہ خود کو دلت طبقے کا اور پانچویں مرحلے میں درج فہرست قبائل نہ کہہ دیں۔یہ ہندستان کی تاریخ میں پہلا واقعہ ہے کہ ایک وزیر اعظم اپنی ذات بدلنے کا ریکارڈ قائم کر رہے ہیں۔ یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے۔ در اصل قومی جمہوری اتحاد بہار انتخاب کے بھنور میں پھنس چکی ہے اور اس سے نکلنے کا اسے امکان نظر نہیں آرہا ہے ۔ اس لئے پریشانی میں اس طرح کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ کبھی گائے ،تو کبھی مذہب اور کبھی ریزرویشن جیسے حساس موضوع کو اٹھایا جارہا ہے۔ لیکن قابل مبارکباد بہار کے عوام ہیں کہ ان تمام حساس اور متنازعہ مدعوں کو بے اثر کرتے جارہے ہیں۔قومی جمہوری اتحاد کی ایک بڑی مشکل یہ بھی ہے کہ وہ جیسے ہی کسی ایک لیڈر کا اعلان کرے گی کہ اس کے اندر کا خلفشار سامنے آجائے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ بہار میں پسماندہ اور انتہائی پسماندہ طبقے کی سیاست چل رہی ہے۔ بھاجپا اتحاد یعنی قومی جمہوری اتحاد کے لئے ایک بڑی مشکل یہ بھی ہے کہ ان کے اتحادیوں میں اپندر کشواہا ، جیتن رام مانجھی اور رام ولاس پاسوان کسی بھی قیمت پر اپنے اتحاد کی کمان اعلیٰ طبقے کے ہاتھ میں دینا نہیں چاہتے۔جبکہ اس اتحادکے حامیوں میں اکثریت بڑی ذات یعنی برہمن ، بھومیہار، راجپوت اور کائستھ کی ہے۔ ہاں اس بات سے مکمل طور پر انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بہار میں ذات پات کی سیاست کی بڑی اہمیت ہے اور یہ حقیقت بھی قدرے مسلّم ہے کہ اعلیٰ طبقے کا رجحان قومی جمہوری اتحاد کی طرف ہے، لیکن جہاں کہیں بھی عظیم اتحاد کے امیدوار اعلیٰ طبقے کے ہیں ، وہاں اس طبقے کا ووٹ عظیم اتحاد کو بھی مل رہا ہے۔ساتھ ہی ساتھ مسلمانوں کا ووٹ ہنوز متحد ہے جس سے سیکولر فرنٹ کو استحکام مل رہا ہے۔واضح ہو کہ یہ اسمبلی انتخاب نہ صرف بھاجپا کے لئے غیر معمولی سیاسی اہمیت کا حامل ہے بلکہ سنگھ پریوار کے لئے بھی ناک کا سوال ہے۔ کیونکہ دہلی میں سنگھ پریوار منہ کی کھانے کے بعد بہار میں اپنی طاقت دکھانا چاہتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان دنوں ہزاروں کی تعداد میں آر ایس ایس کے پر چارک یہاں خیمہ زن ہیں۔ خود سنگھ سنچالک موہن بھاگوت ان دنوں پروسی ریاست جھارکھنڈ میں ڈیرا ڈالے ہوئے ہیں۔ دکھاوے کے لئے رانچی میں سنگھ کی قومی میٹنگ بلائی گئی ہے ، مگر سچائی یہ ہے کہ وہ جھارکھنڈ میں رہ کر بہار میں شطرنجی چال چل رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ سنگھ کی خواہش ہے کہ اگر بہار میں اکثریت حاصل ہوتی ہے تو ہریانہ کی طرح یہاں بھی کسی پرچارک کو وزیر اعلیٰ بنائیں گے ۔ یہی وجہ ہے کہ قومی جمہوری اتحاد میں کسی ایک چہرے کو سامنے نہیں لایا گیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بقیہ دو مرحلے کا رجحان کیا رہتا ہے ۔ اگرچہ ان دونوں مرحلوں میں مسلم ووٹروں کی حیثیت فیصلہ کن ہے۔ اس لئے اب وزیر اعظم نریندر مودی سمیت تمام بھاجپا اور سنگھ کے لیڈران ہندوتو ایجنڈے کا راگ الاپنے لگے ہیں۔لیکن اگر مسلم ووٹروں نے جس طرح تین مرحلوں کی پولنگ میں اپنی سیاسی بصیرت و بصارت کا مظاہرہ کیا ہے، اگر وہ حسب سابق برقرار رہا تو فرقہ پرستوں کی ہر شطرنجی چال ناکام رہے گی اور بالخصوص سنگھ پریوار کی ہر ایک صدا ، صدا بہ صحرا ثابت ہوگی۔کیونکہ آخری مرحلے میں سیمانچل اور متھلانچل کی تقریباً پچاس سیٹوں کا فیصلہ مسلمانوں کے ووٹوں پر منحصر ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ان علاقوں میں یادو برادری اور پسماندہ طبقے کے ووٹوں کو بھی غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ موجود ہ حالات میں عظیم اتحاد کی طرف نہ صرف مسلمانوں کا رجحان برقرار ہے بلکہ یادو،  پسماندہ اور انتہائی پسماندہ طبقے کے ووٹر بھی نتیش کمار کی طرف مائل ہیں۔ البتہ ایک خطرہ ضرور ہے کہ جس کا ذکر اوپر آچکا ہے کہ اب ہندوتو کارڈ کھیلنے کی سازش شروع ہو چکی ہے اور جس کا آغاز وزیر اعظم نریندر مودی نے ریزرویشن پالیسی کے حوالے سے گمرہ کن بیان دیکر کر دیاہے۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ تمام سیکولر ذہن کے لوگ جو بہار میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھنا چاہتے ہیں ، وہ مذکورہ گمراہ کن بیان کی کاٹ کرنے کی جد و جہد کریں۔ تاکہ بہار کی گنگا جمنی فضا مکدر نہ ہونے پائے۔ جہاں تک بایاں محاذ کا سوال ہے تو وہ بھی متحد نہیں ہو سکے ہیں۔ اکثر سیٹوں پر بایاں محاذ کی تینوں پارٹیاں یعنی سی پی ایم، سی پی آئی اور بھاکپا مالے کے امیدوار آپس میں ٹکرا رہے ہیں۔ اگر بایاں محاذ بھی متحد ہو جاتا تو شاید بہار میں بھی بھاجپا کے لئے دہلی جیسی حالت ہوتی۔ مگر اب بایاں محاذ کے درمیان بھی اتحاد ممکن نہیں ہے ۔ اس لئے اب بایاں محاذ صرف یہ حکمت عملی ضرور اپنا سکتا ہے کہ جو جہاں طاقتور ہے اس کے لئے زمین ہموار کی جائے کہ بایاں محاذ بھی بہار میں بھاجپا کو روکنا چاہتی ہے۔


٭٭٭

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 520