donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Political Articles -->> Articles On State Of India
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Bihar Assembly Intekhab : Wazeer Aala Banam Wazeer Azam Ki Seyasi Jung


بہاراسمبلی انتخاب: وزیراعلیٰ بنام وزیر اعظم کی سیاسی جنگ


    ڈاکٹر مشتاق احمد

پرنسپل مارواڑی کالج ، دربھنگہ

موبائل9431414586-

ای میلrm.meezan@gmail.com-


    بہار قانون ساز اسمبلی انتخاب کی ووٹنگ کی تاریخ جیسے جیسے قریب آتی جارہی ہے، ویسے ویسے یہاں کی سیاسی جنگ کا رُخ بدلتا جارہا ہے۔ ایک طرف قومی جمہوری اتحاد اس اسمبلی انتخاب کو حساس موضوعات کی طرف لے جانا چاہتی ہے، تو دوسری طرف عظیم اتحاد بہار کی ترقی اور اپنی کارکردگی کا بکھان کرنے میں لگی ہے۔سچائی یہ ہے کہ دونوں اتحاد کی طرف سے بہار کے عوام کے بنیادی مسائل کو پس پشت ڈالنے کی کوشش ہو رہی ہے، البتہ نتیش کمار اپنے دس سالہ کارکردگی کی بنیاد پر ہی عوام الناس کو اپنے حق میں ووٹ دینے کی گذارش کر رہے ہیں اور یہ دعویٰ بھی کر رہے ہیں کہ یہاں کے عوام انہیں فراموش نہیں کر سکتے۔ عظیم اتحاد میں لالو پرساد یادو پر قومی جمہوری اتحاد کے لیدڑان کا حملہ قدرے تیز ہوتا جارہا ہے، کیونکہ حالیہ دنوں میں لالو پرساد یادو نے بھاجپا بالخصوص آر ایس ایس کو خوب نشانہ بنایا ہے۔ چونکہ بہار اسمبلی انتخاب کی جنگ اب سیدھے طور پر وزیر اعلیٰ بنام وزیر اعظم ہو گئی ہے، اس لئے نریندر مودی سمیت تمام این ڈی اے لیڈران نتیش کمار کو نشانہ بنا رہے ہیں ۔ایسی صورت میں نتیش کمار بھی وزیر اعظم کے کھوکھلے نعروں کی پول کھولنے میں لگے ہیں۔ ظاہر ہے کہ وزیر اعظم نے اپنے ڈیڑہ سال کی مدت کار میں مفاد عامہ کا کوئی ایسا کارنامہ انجام نہیں دیا ہے، جس کو وہ انتخابی موضوع بنا سکیں۔یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کا گذشتہ 2اکتوبر کو بانکا میں جو انتخابی جلسہ ہوا تھا، وہ این ڈی اے کی امید پر کھرا نہیں اتر سکا۔ دریں اثناء بی جے پی کے ایک درجن قد آور لیڈران بہار کے انتخابی جلسوں سے خطاب کر رہے ہیں اور حسب قیاس حساس موضوع کی طرف عوام کو لے جانا چاہتے ہیں۔ بالخصوص جس دن سے اترپردیش کے دادری میں گائے کے گوشت کا فرضی معاملہ سامنے آیا ہے، اس دن سے بھاجپا کے لیڈروں کی یہ کوشش ہے کہ بہار اسمبلی انتخاب میں اس متنازعہ ایشو کو زندہ رکھا جائے۔یہی وجہ ہے کہ مودی کابینہ کے وزیر گری راج سنگھ جو اپنے متنازعہ بیانوں کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں، وہ ’’گائے ماتا ‘‘ کی پونچھ پکڑ کر اس انتخابی دریا کو پار کرنے کی کوشش میں لگے ہیں۔ اگرچہ نتیش کمار اور لالوپرساد یادو سمیت بایاں محاذ کے لیڈران پہلے سے ہی عوام الناس کو ہوشیار کر رہے تھے کہ اس بار بی جے پی اور سنگھ پریوار انتخاب کے وقت فرقہ وارانہ ماحول بنانے کی سازش کر سکتی ہے، اس لئے گری راج سنگھ اور ان جیسے دیگر لیڈروں کی آواز اب تک ریاست میں صدا بہ صحرا ثابت ہورہی ہے، لیکن اندیشہ ہے کہ انتخابی مرحلون کے درمیان کہیں کوئی نازیبا واقعہ نہ رونما ہو جائے۔ واضح ہو کہ اس ہفتے وزیر اعظم نریندر مودی کا انتخابی جلسہ ہونا ہے اور ان کے انتخابی جلسوں کی تیاری میں بھاجپا کے قومی صدر امیت شاہ کے ساتھ درجنوں کا بینہ وزیر لگے ہوئے ہیں۔ اگرچہ نتیش کمار کے جواب در جواب کے سامنے وزیر اعظم لاجواب ثابت ہو رہے ہیں۔ اس لئے اب ان کے اندر قدرے جھنجھلا ہٹ بھی پیدا ہو گئی ہے۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ گذشتہ دن بانکا کے اجلاس میں وزیر اعظم نریندر مودی نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اب خصوصی پیکج بھی بہار کو اسی وقت ملے گا جب یہاں این ڈی اے کی حکومت قائم ہوگی۔ ظاہر ہے اس طرح کا سیاسی بیان گھبراہٹ یا جھنجھلاہٹ میںہی دیا جا سکتا ہے۔ در اصل نتیش کمار بہار کو خصوصی ریاست کا درجہ دینے کا مطالبہ گذشتہ پانچ برسوں سے مسلسل کر رہے  ہیں۔ جس وقت مرکز میں یو پی اے کی حکومت تھی اور وہ بہار میں بھاجپا کے ساتھ اقتدار میں تھے، اس وقت بھی نتیش کمار بہار کو خصوصی درجہ دلانے کی جنگ تنہا لڑ رہے تھے۔ اب جبکہ انہوں نے بی جے پی سے اپنا دامن چھڑا لیا ہے اور وزیر اعظم کے خصوصی پیکج کو محض انتخابی جملہ ثابت کر دیا ہے۔ ایسی صورت میں این ڈی اے کے لئے سب سے بڑی مشکل ہے کہ وہ نتیش کمار کے اس دیرینہ مطالبے کی کاٹ نہیں کر پارہے ہیں۔ این ڈی اے کو یہ خوش فہمی تھی کہ پارلیامانی کی طرح اس اسمبلی انتخاب میں بھی وہ بازی مار لیں گے، لیکن انتخابی مہم کے آغاز کے ساتھ ہی یہ اشارہ ملنے لگا ہے کہ پارلیامانی انتخاب اور اسمبلی انتخاب کے ماحول میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اگرچہ سنگھ پریوار اپنی اس  کوشش میں ضرور کامیاب ہو گیا ہے کہ عظیم اتحاد کی دو سیاسی پارٹیوں، سماج وادی پارٹی اور نیشلسٹ کانگریس پارٹی کو اتحاد سے الگ کر چکی ہے اور اب یہ دونوں پارٹیاں تیسرے مورچے کا حصہ بن چکی ہیں۔ظاہر ہے کہ تیسرے مورچے سے ووٹوں کا انتشار کم یا زیادہ ہونا لازمی ہے اور ماضی میں ووٹوں کے انتشار کا بلاواسطہ فائدہ بھاجپا کو ملتا رہا ہے۔ اس اسمبلی انتخاب میں عظیم اتحاد کے لئے سب سے بڑا امتحان یہ ہے کہ وہ ریاست میں حساس مدعوں کی چنگاری کو سلگنے نہیں دیں۔کیونکہ سنگھ پریوار کی حتیٰ المقدور کوشش یہ ہے کہ پہلے مرحلے کی پولنگ یعنیٰ  12اکتوبر سے پہلے ریاست میں کہیں نہ کہیں فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کی جائے۔ اس لئے نتیش کمار کے لئے یہ چیلنج ہے کہ ایک طرف وہ اس انتخابی جنگ کو جیتنے کی حکمت عملی اپنائیں تو دوسری طرف فرقہ وارانہ ہم آہنگی بنائے رکھیں۔ جہاں تک ریاست میں سیکولر اتحاد کا سوال ہے تو وہ مکمل طور پر متحد نہیں ہو سکا کیونکہ بایاں محاذ نے تقریبا تمام 243حلقوں میں اپنے امیدوار کھڑے کر دئے ہیں۔ دریں اثناء پہلی بار ریاست میں اے آئی ایم آئی ایم نے سیاسی دستک دی ہے اور سیمانچل کے پانچ اضلاع کو اپنے دائرے میں لیا ہے۔ اگرچہ ابھی 6اسمبلی حلقوں کے لئے ہی اپنے امیدوار کے ناموں کا اعلان کیا ہے، لیکن ایسا ممکن ہے کہ وہ مزید ایک درجن امیدوار کھڑا کریں۔گذشتہ دن پارٹی کے لیڈر اکبرالدین اویسی کا سیمانچل دورہ بھی متنازعہ رہا ہے اور ان پر یہاں اشتعال انگیز تقریر کرنے کے متعلق مقدمہ بھی درج ہوا ہے۔ اس طرح کے متنازعہ بیانات بھی اسمبلی انتخاب کے ماحول کو متاثر کر سکتے ہیں۔اس لئے سیکولر اتحاد کو اس بات کا بھی خیال رکھنا ہوگا کہ ان کے بڑبولے پن سے کہیں فرقہ پرستوں کو فائدہ نہ حاصل ہو جائے۔ بہرکیف ۔بہار اسمبلی انتخاب کی سرگرمی اب اپنے شباب پر ہے اور  ہر ایک سیاسی جماعت دوسرے کو کمتر دکھانے میں لگی ہے۔سچائی یہ ہے کہ یہاں کی سیاسی جنگ کا محور و مرکز نتیش کمار اور نریندر مودی بن کر رہ گئے ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ ریاستی اسمبلی انتخاب کی سیاست میں پہلی بار وزیر اعلیٰ بنام وزیر اعظم کی سیاسی جنگ کا نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ کیونکہ اس انتخاب پرصرف ریاست بہار ہی نہیں بلکہ پورے ملک کی نگاہ ٹکی ہوئی ہے کہ آئندہ 8نومبر کو آنے والے عوامی فیصلے نتیش کمار اور نریندر مودی دونوں کے سیاسی مستقبل کی سمت متعین کریں گے۔


٭٭٭

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 384