donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Political Articles -->> Articles On State Of India
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Bihar Assembly Intekhab Ki Badalti Tasweer


بہاراسمبلی انتخاب کی بدلتی تصویر؟


٭ڈاکٹر مشتاق احمد،

پرنسپل مارواڑی کالج،دربھنگہ

موبائل:0943141458

 ای میل: rm.meezan@gmail.com


    بہار اسمبلی انتخاب کے پہلے اور دوسرے مرحلے کی پولنگ ختم ہو چکی ہے۔ اب تک کل 16اضلاع کے 81حلقوں کے رائے دہندگان اپنی پسند کے امیدواروں کے حق میں رائے دہی کا استعمال کر چکے ہیں۔ گذشتہ اسمبلی انتخاب یعنی 2010کے مقابلے اس بار کی ووٹنگ میںپہلے مرحلے میں تقریباً چھہ فیصد اور دوسرے مرحلے میں تین فیصد کا اضافہ ہوا ہے کہ مجموعی اعتبار سے 2010میں 51فیصد پولنگ ہوئی تھی، جبکہ اس بار 57فیصد اور 55فیصد ہوئی ہے۔ سب سے زیادہ کھگڑیا اسمبلی حلقے میں  61فیصد پولنگ ریکارڈ کی گئی ہے۔ جبکہ سب سے کم نوادہ میں 53فیصد پولنگ ہوئی ہے۔ اگرچہ پولنگ فیصد میں معمولی اضافہ ہوا ہے، لیکن اس سے عظیم اتحاد کا حوصلہ بڑھا ہے۔ بالخصوص وزیر اعلیٰ نتیش کمار اپنے ہر ایک انتخابی جلسہ میں خواتین سے گذارش کر رہے ہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ ووٹنگ میں حصہ لیں۔ اس اپیل کا بھی خاطر خواہ اثر ہوا ہے کہ پہلی دفعہ اسمبلی انتخاب میں مردوں کے مقابلے خواتین کا ووٹ فیصد زیادہ رہا ہے۔ ریکارڈ کے مطابق 59.50فیصد خواتین اور  54.50مردوں نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا ہے۔ واضح ہو کہ پہلے مرحلے کے کل 49اسمبلی حلقوں اور دوسرے مرحلے کے 32حلقوں کے جو رجحان سامنے آئیں ہیں،  اس سے یہ اشارہ ملا ہے کہ بہار کے رائے دہندگان نے ان افواہوں کو غلط ثابت کر دیا ہے جس کی ہوا کھڑی کرکے سنگھ پریوار ووٹروں کو متاثر کرنا چاہ رہے تھے۔ یہاں کے ووٹروں نے ان فرقہ پرستوں کی سازشوں کو بھی ناکام کر دیا ہے جو اترپردیش کے دادری واقعہ کے بعد یہاں طرح طرح کی افواہیں پھیلا کر بعض حساس علاقوں میں اپنی پکڑ مضبوط کرنا چاہ رہے تھے۔ بالخصوص بھاگلپور اور نوادہ میں اس طرح کی سازشیں کی جارہیں تھیں کہ پولنگ کے پہلے مرحلے سے قبل ان علاقوں میں ماحول کو کشیدہ بنایا جائے۔ مگر بہار کے امن پسند عوام نے اسمبلی انتخاب کو اپنے مقامی مسائل اور ترقیاتی کاموں کے آئینے میں دیکھنے کی کوشش کی۔ نتیجتاً پہلے مرحلے کی پولنگ نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اس بار عوام نے ترقیاتی کاموں کو انجام دینے والے لیڈروں کو فوقیت دی ہے، جس کا خاطر خواہ فائدہ نتیش کمار کو ملتا ہوا نظر آرہا ہے۔اسی طرح دوسرے مرحلے میں گیا، اورنگ آباد، جہاں آباد  اور  ارول جیسے مائونواز متاثرہ اضلاع میں بھی پر امن ماحول میں انتخابی عمل ہو چکا ہے۔ان چھہ اضلاع میں بھی پولنگ فیصد 52سے لیکر  55فیصد تک رہا ہے اور عوام نے کافی جوش و خروش سے جمہوری عمل میں حصہ لیا ہے۔اس سچائی سے تو کوئی انکار نہیں کرسکتا  کہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے اپنے دس سالہ دور اقتدار میں نہ صرف ترقیاتی کاموں کو فوقیت دی ہے، بلکہ ریاست میں امن اور بھائی چارے کا ماحول بنائے رکھنے میں بھی کامیابی حاصل کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس انتخابی موسم میں نتیش کمار پر چہا رطرفہ حملہ ہو رہا ہے، لیکن اس کے باوجود ان کی صاف ستھری شبیہہ اور ان کے طریقہء کار سے عوام متاثر نظر آتے ہیں۔ یوں تو برقی میڈیا کے ذریعہ نصف درجن اکزٹ پول بھی دکھائے گئے ہیں اور بیشتر اکزٹ پول میں عظیم اتحاد یعنی نتیش کمار کی قیادت والی جنتادل متحدہ، لالو پرساد یادو کی راشٹریہ جنتا دل اور کانگریس اتحاد کو اکثریت میں دکھایا گیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ بیشتر چینلوں نے دونوں اتحاد کے مقابلہ کو سخت دکھایا ہے۔ لیکن زمینی سچائی یہ ہے کہ ایک طرف عظیم اتحاد بہار کی ترقی اور امن وآشتی کے ماحول کو استحکام دینے کی وکالت کر رہی ہے تو دوسری طرف این ڈی اے حساس موضوعات کو ابھارنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ یہ ایک دلچسپ انتخاب ہے جس میں این ڈی اے کی طرف سے ریاستی سطح پر کوئی کمانڈر نہیں ہے بلکہ انتخاب کی پوری باگڈور وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے ہاتھوں میں لے رکھی ہے۔ بھاجپا کے اعلانئے کے مطابق وزیر اعظم آخری مرحلے کی پولنگ تک کل 40 انتخابی اجلاس سے خطاب کریں گے ۔ظاہر ہے کہ این ڈی اے کے پاس ریاستی سطح کا کوئی ایسا چہرہ نہیں ہے جس کو این ڈی اے کے دیگر اتحادی قبولیت دیں۔ لہٰذا وزیر اعظم کو خود ہی اسمبلی انتخاب میں بلاواسطہ کودنا پڑا ہے۔ ان کے معاونین رام ولاس پاسوان، اوپندر کشواہا اور جیتن رام مانجھی بھی پوری طاقت سے انتخابی اجلاس کو خطاب کر رہے ہیں۔ لیکن لالو پرساد یادو اور نتیش کمار کے انتخابی اجلاس میں جو جم غفیر نظر آرہا ہے وہ عظیم اتحاد کے لئے نہ صرف باعث حوصلہ بخش ہے بلکہ سود مندی کا اشاریہ بھی ہے۔ اگرچہ لالو پرساد یادو کو طرح طرح سے گھیرنے کی کوشش ہو رہی ہے اور ان کے بیانوں کو خواہ مخواہ متنازعہ بنانے کی بھی جد جہد جاری ہے لیکن لالو پرساد یادو نے بھی سنگھ پریوار اور بھاجپا پر جس طرح جارحانہ رخ اختیار کر رکھا ہے اس سے ان کے حامیوں میں ایک نیا جوش دیکھنے کو مل رہا ہے۔


پہلے اور دوسرے مرحلے کی پولنگ میں ایک خوش آئند بات یہ نظر آئی ہے کہ مسلم اقلیت طبقے کے علاقے میں بھی ووٹ فیصد میں اضافہ ہوا ہے بالخصوص مسلم خواتین نے اپنے حق رائے دہی کے استعمال میں کافی جوش دکھایا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ایک مثبت فضا یہ بنی ہے کہ مسلم اکثریت والے علاقوں میں مسلمانوں کے ووٹوں میں انتشار کم ہوا ہے، جس کا خاطر خواہ فائدہ عظیم اتحاد کو ملنے کا امکان ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے آئندہ کے مرحلوں کی پولنگ میں مسلم اکثریت کا رویہ کیا رہتا ہے۔ کیونکہ تیسرے اور آخری مرحلے کی پولنگ میں مسلمانوں کا ووٹ فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے۔ اگر مسلمانوں کی صف بندی میں کسی طرح کی دراڑ واقع نہیں ہوتی ہے تو اس بار اسمبلی انتخاب کا نتیجہ کافی چونکانے والا ہوسکتا ہے۔ بہرکیف، ان دنوں دونوں اتحاد یعنی این ڈی اے اور عظیم اتحاد، ایک دوسرے پر طرح طرح کے الزامات بھی عائد کر رہے ہیں۔ بالخصوص بدعنوانی کو مرکزیت حاصل ہے ۔ عین وقت پر جنتا دل متحدہ کے ممبر اسمبلی اور موجودہ نتیش کمار کابینہ کے ایک وزیر اودھیش کشواہا کو ایک اسٹنگ آپریشن میں چار لاکھ روپئے بطور رشوت لیتے دکھایا گیا تھا۔ یہ خبر جیسے ہی عام ہوئی وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے نہ صرف ان کو اپنی کابینہ سے رخصت کر دیا بلکہ ان کو اپنی پارٹی کے ٹکٹ سے بھی محروم کر دیا ہے۔ بدعنوانی کے خلاف نتیش کمار کے ذریعہ کی گئی اس فوری کاروائی کی چہار طرف ستائش ہو رہی ہے اور حزب اختلاف ششدر رہ گیا ہے کہ اسے اس معاملے میں نتیش کمار کو گھیرنے کا موقع نہیں مل سکا۔ بلکہ اب عظیم اتحاد بالخصوص نتیش کمار ،  وزیر اعظم نریندر مودی کو چیلنج کر رہے ہیں کہ ان کے دو  وزیر اعلیٰ غرض کہ راجستھان کی وسندھرا راجے سندھیا اور مدھیہ پردیش کے شیو راج چوہان دونوں ہی پر گھوٹالوں میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔ مگر ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہورہی ہے۔ بلاشبہ نتیش کمار کا یہ چیلنج این ڈی اے کے لئے قدرے مہنگا پڑ رہا ہے اور ان کے تمام بڑبولے لیڈروں کی زبان بھی اس مسئلے پر بند ہے۔


    اب تک کی پولنگ سے یہ بھی ثابت ہو گیا ہے کہ عوام اپنے علاقائی مسئلوں کی بنیاد پر ہی ووٹنگ کرنا چاہتے ہیں اور اپنے پسند کے مقامی لیڈروں کو ہی ترجیح دے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ این ڈی اے کے ذریعہ جس طرح حساس مسئلوں کو ابھارنے یا پھر قومی سطح کے مسئلوں کے جال میں عوام کو الجھانے کی کوشش کی جارہی تھی، وہ ناکام ثابت ہوئی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ کے بقیہ تین مرحلوں میں ووٹروں کا رجحان کیا رہتا ہے۔ یوں تو اپنی اپنی جیت کا دعویٰ سبھی امیدوار کر رہے ہیں لیکن سچائی یہ ہے کہ جیتنے والے امیدواروں کی شناخت چھپی ہوئی نہیں رہ گئی ہے۔ حقیقت تو آٹھ نومبر کو ووٹ شماری کے بعد ہی سامنے آئے گی۔ لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ ذرائع ابلاغ میں جس طرح ایک خاص سیاسی پارٹی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی ہوڑ لگی ہوئی تھی اس میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔شاید اب وہ بھی بہار کی زمینی سچائی سے واقف ہو گئے ہیں۔اب سنگھ پریوار کو یہ بھی احساس ہو گیا ہے کہ صرف اور صرف نریندر مودی اور امیت شاہ کی بدولت ہی بہار میں انتخابی جلسوں کو کامیاب نہیں بنایا جاسکتا۔ اس لئے اب پوسٹروں اور بینروں پر ریاستی لیڈروں کی تصویریں بھی لگائی جانے لگی ہیں۔دریں اثناء وزیر اعظم کا دو انتخابی اجلاس ملتوی کر دیا ہے۔ اگرچہ اس کی وجہ درگاپوجا بتائی گئی ہے، لیکن سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ وزیر اعظم کے گذشتہ انتخابی اجلاس میں عوام کا رجحان کا مایوس کن رہا ہے۔ اس سے بھی سنگھ پریوار کے اندر ہیجانی کیفیت پیدا ہوئی ہے۔ اس لئے بہار کے امن پسند عوام کو اس بات کے لئے بھی ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہ آئندہ کے مرحلوںکی مدت کار میں طرح طرح کے حساس موضوع کو اٹھانے کی کوشش کی جائے گی۔


٭٭٭

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 541