donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Political Articles -->> Articles On State Of India
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Bihar Congress : Mazi Ki Bazyaft Me


بہار کانگریس: ماضی کی بازیافت میں


ڈاکٹر مشتاق احمد

 


    جس وقت پورے ملک میں کانگریس کے موافق ماحول تھا، اس وقت اتر پردیش کے بعد بہار کو غیر معمولی سیاسی اہمیت حاصل تھی کہ یہاں سے کامیاب ہونے والے ممبر پارلیامنٹ یا اسمبلی میں اکثریت کانگریس کی ہی ہوتی تھی۔ لیکن نوّے کی دہائی میں جب بہار میں نیا سیاسی آفتاب طلوع ہوا یعنی لالو پرساد یادو کی قیادت میں جنتا دل قائم ہوا تو دھیرے دھیرے کانگریس کا زور کم ہوتا چلا گیا۔ بالخصوص بہار کی تقسیم کے بعد جھارکھنڈ میں کانگریس قدرے مستحکم رہی لیکن بہار میں اس کے وجود پر ہی خطرہ لاحق ہو گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اب کانگریس اس حیثیت میں نہیں رہی کہ وہ حکومت کر سکے یا پھر خزب اختلاف میں کوئی موثر کردار ادا کرسکے۔ ۱۹۹۵ ء کے بعد البتہ کانگریس نے خود کو سنبھالنا شروع کیا اور بعد کے دنوں میں لالو پرساد یادو نے کانگریس  کی حمایت سے حکومت بھی قائم کی۔لیکن جب ۲۰۰۵ء میں ریاست میں ایک نئی سیاسی صف بندی ہوئی اور نتیش کمار کی قیادت میں بھاجپا اتحاد کے ساتھ جنتا دل متحدہ کی حکومت بنی تو پھر کانگریس حاشیہ پر چلی گئی ۔ لیکن حالیہ اسمبلی انتخاب میں جب راشٹریہ جنتا دل اور جنتا دل متحدہ کے ساتھ کانگریس کا اتحاد قائم ہوا تو پھر کانگریس میں ایک طرح سے نئی جان آگئی ہے۔ بالخصوص موجودہ ریاستی کانگریس  صدر ڈاکٹر اشوک چودھری جو نتیش کمار کی وزارت میں وزیر تعلیم بھی ہیں ان کی فعال و متحرک شخصیت نے نہ صرف کانگریس کے تنظیمی ڈھانچے کو استحکام بخشا ہے بلکہ عوام الناس میں کانگریس کے تئیں نظریہ بھی بدلا ہے۔ ڈاکٹر اشوک چودھری کا تعلق دلت طبقے سے ہے اور سیاست تو انہیں وراثت میں ملی ہے کہ ان کے والد بھی کانگریس کے سرکردہ لیڈروں میں شمار ہوتے تھے، لیکن ڈاکٹر چودھری کی انفرادی کوششوں سے بھی کانگریس کا گراف بلند ہوتا ہوا نظرآرہا ہے۔ وزارت میں رہتے ہوئے وہ عوامی مسائل پر بیباک رائے دیتے رہے ہیں اور کبھی کبھی تو اپنی حکومت پر بھی ایسا تبصرہ کرتے رہے ہیں جس سے حکومت کٹگھرے میں کھڑی نظر آتی رہی ہے۔ چونکہ اس وقت بہار میں راشٹریہ جنتا دل اور جنتا دل متحدہ دونوں سیاسی جماعتوں کے لئے کانگریس ایک مضبوط کڑی کی اہمیت رکھتی ہے کہ کانگریس  کی حمایت پر ہی حکومت قائم ہے ورنہ بی جے پی ایک چوتھی طاقت کی حیثیت سے حکومت پر ہمیشہ نشانہ لگاتی رہتی ہے۔ ایسے میں دونوں اتحادیوں یعنی راشٹریہ جنتا دل اور جنتا دل متحدہ کے درمیان کانگریس توازن قائم رکھنے میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہے۔حال ہی میں جب راشٹریہ جنتا دل کے کئی لیڈران نے نتیش کمار کی کارکردگی پر سوال اٹھایا تو ڈاکٹر اشوک چودھری نے نہ صرف اس پر برہمی کا اظہار کیا بلکہ راشٹریہ جنتا دل کے کارکنوں کی بیان بازی کی مذمت بھی کی۔ اسی طرح جب کبھی جنتا دل متحدہ کے کسی لیڈر نے لالو پرساد یادو کی نکتہ چینی کی تو کانگریس کی جانب سے ڈاکٹر چودھری نے لالو کی حمایت کی۔غرض کہ کانگریس پارٹی نے موجودہ حکومت میں بھی اپنا موثر رول ادا کیا ہے اور تقریباً دو دہائیوں کے بعد تنظیمی سطح پر کانگریس فعال نظر آرہی ہے۔ ظاہر ہے کہ کانگریس کا جو ووٹ بینک تھا وہ اس سے قدرے الگ ہو چکا ہے۔بہا رمیں ایک وقت ایسا تھا کہ جب دلتاور مسلمان کے ساتھ ساتھ بڑی ذات کے برہمن، بھومیہار، راجپوتوغیرہ  کانگریس کے ساتھ تھے۔ لیکن نوّے کی دہائی کے بعد ایک طرف بیک وارڈ فورس لالو یادو اور پر نتیش کمار کے ساتھ جڑ گئی تو برہمن، بھومیہار اور راجپوت وغیرہ کا ایک بڑا حصّہ بھاجپا کی طرف مائل ہو گیا۔ اسی طرح دلت اور مسلم ووٹوں میں بھی انتشار کی صورت رہی اور اب کانگریس کا کوئی خاص ووٹ بینک نہیں رہ گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کانگریس دنوں دن کمزور ہوتی چلی گئی ۔ بہرکیف، اب جبکہ کانگریس قدرے بہارمیں مستحکم ہوئی ہے تو ایک بار پھر کانگریس اپنے ماضی کی بازیافت میں سرگرم ہو گئی ہے۔ وہ اب اپنے پرانے ووٹ بینک دلت اور مسلمانوں کو از سر نو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش میں لگ گئی ہے ۔ گذشتہ کل پارٹی کے سینئر رہنما غلام نبی آزاد کی قیادت میں ریاستی صدر ڈاکٹر اشوک چودھری نے پٹنہ کے تاریخی کرشن میموریل ہال میں دل مسلم کانگریس کانفرنس کے ذریعہ یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ ایک بار پھر مسلمان اور دلت کانگریس کے ساتھ آنے کو تیار ہیں۔ کانگریس کی مرکزی قیادت نے بھی شاید اس پہل کی حمایت کی ہے کہ اس مہم میں ڈاکٹر شکیل احمد خاں جو پارٹی کے قومی سکریٹری ہیں اور ان دنوں بہار قانون ساز اسمبلی میں کانگریس کی ایک معتبر آواز کی حیثیت رکھتے ہیں انہوں نے بھی اس دلت مسلم اتحاد کے لئے غیر معمولی جد و جہد کا مظاہرہ کیا ہے۔ ممبر قانون ساز کونسل تنویر اختر کے ساتھ درجنوں ممبران اسمبلی اور کئی وزراء نے جس طرح اس کانفرنس کو کامیاب بنانے کی کوشش کی اس سے تو یہ ثابت ہو گیا ہے کہ کانگریس ریاست میں اپنی زمین تیار کرنے میں کوشاں ہے۔اس کانفرنس کے ذریعہ غلام نبی آزاد، سی پی جوشی جیسے قومی رہنما کے ساتھ ساتھ ریاستی سطح کے سرکردہ کانگریس لیڈران نے جس طرح جوش و خروش کا مظاہرہ کیا اس سے یہ بھی ثابت ہو گیا ہے کہ مرکزی قیادت ڈاکٹر اشوک چودھری کی حکمت عملی سے خوش ہے اور وہ ریاست میں کانگریس کو تنظیمی سطح پر مستحکم کرنا چاہتی ہے تاکہ آئندہ پارلیمانی انتخاب کے وقت بہار میں کانگریس کی پوزیشن مزید مستحکم ہو سکے۔ ساتھ ہی ساتھ بہار میں اگر دلت اور مسلمانوں کا اتحاد مستحکم ہوتا ہے تو اس کے سیاسی اثرات اترپردیش میں بھی نمایاں ہوں گے کہ وہاں اسمبلی انتخاب کی تیاری شروع ہو چکی ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ کانگریس کی مرکزی قیادت نے اترپردیش میں اسمبلی انتخاب کی کمان غلام نبی آزاد کے حوالے کی ہے۔ اگرچہ اترپردیش کے ریاستی صدر راج ببر بنائے گئے ہیں اور وزیر اعلیٰ کی ممکنہ امیدوار شیلا دکشت بنایا گیا ہے، لیکن تنظیمی سطح پر جو روڈ میپ تیار کئے جارہے ہیں اس میں غلام نبی آزاد کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ ایسے وقت میں بہار میں جو سیاسی فضا تیار کی جارہی ہے اس کا ایک مقصد تو بہار میں کانگریس اپنے ماضی کی زمین تلاش رہی ہے تو دوسری طرف پڑوسی ریاست اترپردیش کے مسلمانوں اور دلت طبقے کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ایک بار پھر کانگریس اپنے پرانے ووٹ بینک کی طرف لوٹ رہی ہے۔ شاید اس لئے اب ضلع سطح پر بھی اس طرح کی کانفرنس شروع کی جارہی ہے جس میں دلت اور مسلمانوں کے ساتھ ساتھ علاقائی سطح پر بااثر ذات یعنی برہمن، بھومیہار اور راجپوت کے ساتھ ساتھ دیگر ذاتوں کو بھی جوڑا جارہا ہے۔ ظاہر ہے کہ بہار کی سیاست میں ذات و جماعت کو غیرمعمولی اہمیت حاصل ہے۔ اس لئے کانگریس اس بات کو بخوبی سمجھتی ہے کہ صرف دلت اور مسلمانوں کے اتحاد سے ہی کانگریس کا مستقبل روشن نہیں ہو سکتا، بلکہ دیگر بڑی ذات کو بھی جوڑنا لازمی ہوگا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہکانگریس کی اس نئی سیاسی حکمت عملی کے رد عمل میں ان کی اتحادی جماعت راشٹریہ جنتا دل اور جنتا دل متحدہ کا کیا رُخ ہوتا ہے۔ کیونکہ کانگریس کا مستحکم ہونا ان دونوں سیاسی پارٹیوں کے سیاسی وجود کے لئے بھی کہیں نہ کہیں فکر مندی کا باعث ہے۔


    غرض کہ بہار میں کانگریس نے اپنے سیاسی وجود کے استحکام کے لئے جو حکمت عملی طے کی ہے وہ اس کے لئے خسارے کا سودا بھی ہو سکتا ہے کیونکہ ان کی اتحادی جماعت اس وقت کانگریس کو محض بیساکھیوں پر رکھنا چاہتی ہے کہ کانگریس نے جو دلت اور مسلم اتحاد کا فارمولا طے کیا ہے اگر وہ واقعی عملی صورت اختیار کرتا ہے تو اس کا نقصان تو راشٹریہ جنتا دل اور جنتا دل متحدہ کو ہی اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ لیکن ایک  بڑا سوال یہ بھی ہے کہ بہار میں دلت طبقہ کہیں نہ کہیں رام بلاس پاسوان اور جیتن رام مانجھی کے تئیں بھی نرم گوشہ رکھتا ہے ان دنوں یہ دونوں دلت لیڈران بھاجپا کے ساتھ ہیں۔ جہاں تک مسلم ووٹوں کا سوال ہے تو اس کا کوئی ایک قائد نہیں ہے اور اب تک تو تمام سیاسی جماعتیں محض ووٹ کے لئے ان کا استعمال کرتی رہی ہے۔ ورنہ اگر کوئی بھی سیاسی جماعت مسلم طبقے کے مسائل کے تئیں سنجیدہ ہوتی تو پسماندگی کے جس دلدل میں مسلمان پھنسے ہوئے ہیں وہ آج نہیں ہوتے۔لیکن اس سچائی سے بھی انکار نہیں کہ کانگریس کے دور اقتدار میں مسلمانوں کو جو سیاسی حصہ داری حاصل تھی وہ اب بہار میں کانگریس کے اقتدار میں نہیں ہونے کی وجہ سے حاصل نہیں ہے۔ اس لئے جو لوگ سیاسی حصہ داری کے خواہاں ہیں وہ ریاست میں کانگریس کا احیاء چاہتے ہیں۔


٭٭٭

Comments


Login

You are Visitor Number : 444