donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Political Articles -->> Articles On State Of India
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Bihar Ke Intekhabi Natayej Aur Qaumi Seyasat


بہارکے انتخابی نتائج اور قومی سیاست


ڈاکٹر مشتاق احمد

پرنسپل مارواڑی کالج،دربھنگہ

موبائل:09431414586

 ای میل: rm.meezan@gmail.com


    بہار اسمبلی انتخاب 2015کا نتیجہ توقّع سے زیادہ ہی خوش آئند رہا ہے کہ اس انتخاب میں ایک طرف وسیع تر اتحاد کو کلّی اکثریت مل گئی ہے تو دوسری طرف قومی جمہوری اتحاد کے تمام تر منصوبوں پر پانی پھر گیا ہے۔ اس انتخابی نتیجے کی غیر معمولی سیاسی اہمیت کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس پر قومی ذرائع ابلاغ کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر بھی تبصرے ہو رہے ہیں۔یوں تو یہ انتخاب ایک ریاست کا تھا مگر اس کی قومی سیاسی اہمیت تھی کہ اس انتخاب کے بعد ملک کی سیاسی تصویر بدلنے والی تھی۔واضح ہو کہ گذشتہ پارلیمانی انتخاب میں محض 31فیصد ووٹ حاصل کرکے بھاجپا نے 282پارلیمانی نشستوں پر قبضہ جما لیا تھا۔ مگر راجیہ سبھا میں اسے فی الوقت اکثریت حاصل نہیں ہے۔ اس لئے گذشتہ ڈیڑھ سال کی مدّت کار میں وزیر اعظم نریندر مودی چاہ کر بھی بہتیرے ایسے بِل ،  جو سنگھ پریوار کے ایجنڈوں پر مبنی تھے، اسے وہ پیش نہیں کر سکے، کیونکہ کسی قیمت پر راجیہ سبھا سے اُسے منظوری نہیں مل سکتی تھی۔پارلیمانی انتخاب کے فوراً  بعد ہریانہ اور مہاراشٹرا کے اسمبلی انتخاب میں انہیںکامیابی ملی تھی ۔ اس کے بعد سنگھ پریوار کی نگاہ دہلی اور بہار پر لگی تھی۔ اگرچہ دہلی ریاست بہار کے مقابلے چھوٹی ہے مگر قومی راجدھانی ہونے کی وجہ سے اس کی بھی غیر معمولی سیاسی اہمیت ہے۔اس لئے دہلی اسمبلی انتخاب کو بھی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے وقار کا سوال بنالیا تھا۔ مگر وہاں بھی وہ چاروںخانے چت ہوگئے۔اس کے بعد بہار پر ان کی نگاہ ٹکی تھی۔ سنگھ پریوار اور تمام بڑے صنعتی گھرانے اس انتخاب کو بھاجپا کی جھولی میں ڈالنے کی ہر وہ ممکن کوشش کر رہے تھے جو آج کی سیاست کی روِش ہو گئی ہے۔ بالخصوص ہماری قومی میڈیا نے جس طرح ایک طرفہ رُخ اپنا رکھا تھا اور آخر آخر تک یہ گمرہی پھیلانے کی کوشش کی کہ بہار میں بھاجپا کو اکثریت مل رہی ہے۔ پولنگ کے بعد ایکزٹ پول کے ذریعہ بھی یہ پیغام دینے کی کوشش کی جارہی تھی کہ بہار میں این ڈی اے کی حکومت بن رہی ہے۔ در اصل ایسا صرف اس لئے کیا جارہا تھا تاکہ بیوروکریٹس جو ہمیشہ حکومت کے بہی خواہ ہوتے ہیں، ان پر دبائو بنائے رکھا جائے۔مگر سنگھ پریوار کی تمام تر سازشیں ناکام ہوئیں اور سیکولر اتحاد کو اکثریت حاصل ہوئی۔ غرض کہ بہار کی کمان ایک بار پھر نتیش کمار کے ہاتھوں میں رہے گی۔ جیسا کہ پہلے ہی ذکر آچکا ہے کہ اس انتخابی نتیجے کی غیر معمولی سیاسی اہمیت ہے۔ اولاً تو بہار میں بھاجپا جس کا رموٹ کنٹرول سنگھ پریوار کے ہاتھوں میں ہے، اسے پائون جمانے کا موقع نہیں ملا ہے۔ ورنہ انتخابی مہم کے دوران جس طرح بھاجپا کے لیڈروں نے فرقہ وارانہ زہر پھیلانے کا کام کیا تھا، اگر ان کی حکومت بن جاتی تو بہار میں بھی دیگر بھاجپائی ریاستوں کی طرح نفرتوں کا بازار گرم ہو جاتااور ریاست کے تمام محکموں کے اعلیٰ عہدوں پر زعفرانی مزاج کے آفیسروں کی تعیناتی کی جاتی، جیسا کہ دیگر بھاجپائی حکومت والی ریاستوں میں ہے اور مرکز میں بھی کچھ اسی طرح کی روِش ہے۔دوئم یہ کہ بہار میں اگر این ڈی اے کواکثریت مل جاتی تو راجیہ سبھا میں بھی آئندہ سال تک ان کے ممبروں کی تعداد بڑھ جاتی۔ واضح ہو کہ آئندہ سال مغربی بنگال اور پھر  2017میں اتر پردیش میں انتخاب ہونا ہے۔ سنگھ پریوار کا منصوبہ تھا کہ بہار کے بعد مغربی بنگال اور اترپردیش میں بھی وہ پائوں جما سکتے ہیں۔ پھر تو راجیہ سبھا میں بھی ان کی اتنی اکثریت ہو جائے گی کہ وہ آزادانہ اپنے ایجنڈوں کے مطابق کسی بھی بل کو قانون کی شکل دے سکتے۔ اس لئے بہار میں ان کی شکست نے ایک طرح سے ان کے روڈ میپ پر ایک بریکر لگا دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بنگال اور اتر پردیش میں کیا ہوتا ہے۔مگر بہار کے نتائج نے ان دونوں ریاستوں کے عوام اور بالخصوص سیاست دانوں کو بھی ایک راہ دکھائی ہے کہ اگر وہاں بھی سیکولر اتحاد بہار کے جیسی حکمت عملی اپنائیںاور سیکولر ووٹوں کے انتشار کو روکنے میں کامیاب رہیں تو ان ریاستوں میں بھی سنگھ پریوار کے منصوبوں پر پانی پھر سکتا ہے۔در اصل بھاجپاکے پاس آج بھی30فیصد سے کم ہی ووٹ ہے، مگر دیگر ووٹوں کے انتشار کا فائدہ جس طرح انہیں پارلیمانی انتخاب میں ملا تھا اور پھر ہریانہ اور مہاراشٹرمیں بھی اسی نسخے کو اپنا کر حکومت پر قابض ہوئی ۔ اسی طرح بہار پر بھی قبضہ جمانا چاہتی تھی ۔ یہاں اگر اسے کامیابی مل جاتی تو اس کے بعد بنگال اور اترپردیش میں سیکولر اتحاد کا حوصلہ پست ہو جاتا۔مگر بہار کے انتخابی نتائج نے الٹے سنگھ پریوار کے حوصلوں کو پست کر دیا ہے۔ظاہر ہے کہ بہار کے نتائج سے بھاجپا کو ایک بڑا سیاسی خسارہ ہوا ہے کہ اب وہ  2019تک کسی بھی طرح راجیہ سبھا میں اکثریت حاصل نہیں کرسکتی۔ساتھ ہی ساتھ صدر جمہوریہ کے انتخاب میں بھی سنگھ پریوار اپنے چہیتوں کو کامیاب نہیں بنا سکتے کیونکہ سنگھ پریوار کی نگاہ اب راشٹرپتی بھون پر ہے اور ان کا نشانہ ہے کہ اگر وہ اپنا صدر جمہوریہ بنا لیں گے پھر سارا کھیل ان کے ہاتھوں میں آجائے گاکہ اگر 2019کے پارلیمانی انتخاب میں بھاجپا کا صفایا بھی ہو جاتا ہے تب بھی راشٹرپتی بھون ان کے اشارے پر کام کرتا رہے گا۔واضح ہو کہ حالیہ دنوں میں جتنے بھی گورنروں کی بحالیاں ہوئی ہیں، وہ سب کے سب آر ایس ایس کی پسند ہیں۔ ملک میں جتنے بھی ثقافتی ، تعلیمی ، سماجی اور دیگر آئینی ادارے ہیں وہاں صرف اور صرف زعفرانی ذہن کے لوگوں کو بٹھایا جارہا ہے۔ جیسا کہ فلم انسٹی چیوٹ پونے ، آئی سی ایچ آر،آئی سی سی آر ، این سی ای آر ٹی ، یو جی سی اور این اے اے سی میں بھی سنگھ پریوار کے لوگوں کو براجمان کیا گیا ہے ۔ ظاہر ہے ان تمام اداروں میں ماضی کی حکومت بھی اپنی ہی پسند کے لوگوں کو بٹھاتی رہی ہے، مگر اس وقت اس بات کا خیال ضرور رکھا جاتا تھا کہ ان اداروں پر ایسے ہی لوگوں کو بٹھایا جائے جو واقعی اس کے اہل ہیں۔مگر آج ان اداروں پر بٹھانے کا ایک ہی پیمانہ ہے کہ وہ آر ایس ایس کا ممبر ہوخواہ اس کی لیاقت کچھ بھی نہ ہو۔ایسی صورت میں تو ملک کے ان اداروں کے نظام کے درہم برہم ہونے کا خدشہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان دنوں ملک کے بیشتر دانشور حضرات فکر مند ہیں کہ ملک کے ان آئینی اداروںکا وقار مجروح نہ ہو جائے۔اس لئے بہار کے بعد مغربی بنگال اور اترپردیش میں بھی عوام الناس کو اپنی سیاسی بصیرت و بصارت کا مظاہرہ کرنا ہے۔ بالخصوص مسلم اقلیتوں کو بہار کے جیسی سیاسی حکمت عملی اپنانی ہوگی کہ ان دونوں ریاستوں میں مسلم ووٹ فیصلہ کن ہے۔ اگر مسلم ووٹوں میں انتشار نہیں ہوا تو وہاں بھی سنگھ پریوار کے منصوبے ناکام ہو سکتے ہیں۔غرض کہ بہارکے انتخابی نتائج کے بہتیرے سیاسی اورسماجی اثرات مرتّب ہوں گے کہ اس نتیجے نے ایک طرف بھاجپا کے اندر طوفان برپا کر دیا ہے تو دوسری طرف سنگھ پریوارکے قد بھی بونے ہوئے ہیں کہ اسے یہ خوش فہمی ہوگئی تھی کہ اب ملک زعفرانی رنگ میں رنگ چکا ہے۔


*************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 568