donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Political Articles -->> Articles On State Of India
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Huye Tum dost Jiske Dushman Uska Aasma KiyoN Ho

ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو!


ڈاکٹر مشتاق احمد

پرنسپل مارواڑی کالج،دربھنگہ

موبائل:09431414586

ای میل: rm.meezan@gmail.com


    بہار اسمبلی انتخاب مکمل ہو چکا ہے ۔ تمام امیدواروں کی قسمت ای وی ایم میں بند ہو چکی ہے۔8نومبر کو ووٹ شماری ہوگی اور نتائج کے ساتھ ہی بہار کی سیاسی تصویر سامنے آجائے گی۔ ساتھ ہی ساتھ قومی سیاست کے رُخ کا بھی فیصلہ ہوگا کیونکہ ملک کی تاریخ میں یہ پہلا ریاستی انتخاب تھا جس کی کمان وزیر اعظم نے اپنے ہاتھوں میں لے رکھی تھی اور ان کے ذریعہ تقریباً ہر ضلع میں انتخابی اجلاس کرکے عوام کو اپنی طرف مخاطب کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔اتنا ہی نہیں اس انتخاب میں ہر وہ ہتھکنڈا اپنایا گیا جو آج کی سیاست میں روا ہو گیا ہے۔ بالخصوص بھاجپا لیڈران اور وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعہ جس طرح کی بیان بازیاں کی گئی ہیں،  وہ نہ صرف جمہوری تقاضوں کے خلاف تھا بلکہ قومی ہم آہنگی اور فرقہ خیرسگالی کے لئے بھی مضر تھا۔ اب ذرائع ابلاغ میں طرح طرح کی قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں۔ میڈیا کا ایک طبقہ ایسا ہے جو اسمبلی انتخاب کے دور آغاز سے ہی قومی جمہوری اتحاد کی طرف مائل رہا ہے اور اگر اس کی بات تسلیم کر لی جائے تو بہار میں بھی زعفرانی حکومت قائم ہو سکتی ہے۔ لیکن یہاں کی زمینی سچائی کچھ اور ہے اور پانچ مرحلوں میں ہوئی پولنگ کے بعد یہ امید بندھتی ہے کہ بہار کی باگ ڈور ایک بار پھر نتیش کمار کے ہی ہاتھوں میں رہے گی، کیونکہ ذرائع ابلاغ کا ایک دیگر طبقہ اس حقیقت کا اعتراف کر چکا ہے کہ بہار میںعظیم اتحاد بالخصوص نتیش کمار کی قیادت کو قبولیت حاصل ہوئی ہے ۔ ظاہر ہے جب تک نتیجہ سامنے نہیں آتا ہے اس وقت تک دونوں اتحاد کی جانب سے دعویٰ در دعویٰ کیا جاتا رہے گا ۔ جمہوریت میں گنتی کی اہمیت ہے ۔یہاں اکیاون کی حیثیت 100ہو جاتی ہے اور 49صرف صفر بن کر رہ جاتا ہے۔ ایسی صورت میں حکومت کس کی ہوگی اس کا فیصلہ کامیاب ہونے والے امیدواروں کی تعداد پر منحصر کرتا ہے۔ لیکن بہار اسمبلی انتخاب کی تشہیر میں جس طرح غیر جمہوری طریقے اپنائے گئے اور ملک کے ایک خاص طبقے کے خلاف گمرہی پھیلائی گئی ہے ، وہ نہ صرف ریاست بہار کے لئے مستقبل میں کئی طرح کے مسائل پیدا کرے گی بلکہ ملک کی سا  لمیت کے لئے بھی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔واضح ہو کہ بہار اسمبلی انتخاب پانچ مرحلوں میں مکمل ہوا ہے ۔ پہلے مرحلے کے قبل ہی جس طرح گائے کشی کے مسئلے کو طول دیا گیا اوراس حساس موضوع کے ذریعہ ایک خاص طبقے کو نشانہ بنا کر شدت پسند ہندئوں کو متحد کرنے کی کوشش کی گئی ، وہ کسی طرح بھی جمہوری اصلوں کی پاسداری نہیں کرتا ۔ پھر دوسرے  اور تیسرے مرحلے میں بھی مسلمانوں کے خلاف دلت اور پسماندہ و انتہائی پسماندہ طبقے کو اکسانے کی نازیبا کوشش کی گئی ۔ ریزرویشن کے بہانے مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا ۔ واضح ہو کہ آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت نے ریزرویشن پالیسی پر نظر ثانی کی وکالت کی تھی ، جس کی مخالفت عظیم اتحاد کے لالو پرساد یادو اور نتیش کمار نے مشترکہ طور پر کی اور انتخابی اجلاس میں بھاجپا اور سنگھ پریوار پر حملہ شروع کیا۔ ظاہر ہے کہ انتخابی موسم میں بھاجپا کو اس حملے کی کاٹ کرنی تھی لیکن اس کے پاس کوئی معقول جواب نہیں تھا ۔ وہ نہ آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت کے بیان کی مذمت کر سکتے تھے اور نہ ریزرویشن میں کسی طرح کی تبدیلی کی حمایت کر سکتے تھے۔ اس لئے انہوں نے ایک گمراہ کن بیان دینا شروع کیا کہ لالو پرساد یادو اور نتیش کمار دلت اور پسماندہ طبقے کے ریزرویشن کوٹے سے پانچ فیصد کاٹ کر مسلمانوں کو دینا چاہتے ہیں ، جبکہ حقیقت بالکل اس کے بر عکس ہے کہ لالو پرساد یادو یا نتیش کمار نے کبھی بھی مسلمانوں کو الگ سے ریزرویشن دینے کی وکالت نہیں کی۔ البتہ نتیش کمار نے 2005ء میں پارلیامنٹ میں یہ سوال ضرور کیا تھا کہ جس طرح ہندو مذہب کے دلت اور درج فہرست ذات کو ریزرویشن حاصل ہے اسی طرح مذہب اسلام کے جو پیشہ وارانہ طور پر دلت اور درج فہرست ذات کے زمرے میں آتے ہیں ، انہیں بھی ریزروشن کی سہولت ملنی چاہئے۔ لیکن بھاجپا نے اس سچائی کو توڑ مروڑ کر اشتہار بازی کی ۔ اتنا ہی نہیں بھاجپا کے قومی صدر امیت شاہ نے کھلے عام مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے کا کام کیا۔ سیوان کے انتخابی جلسے میں امیت شاہ کا یہ کہنا کہ اگر یہاں بی جے پی کی شکست ہوتی ہے تو سب سے زیادہ خوشی محمد شہاب الدین کو ہوگی اور پاکستان میں پٹاخے چھوڑے جائیں گے ۔ یہ بیان ثابت کرتاہے کہ امیت شاہ کا اشارہ کیا ہے۔ افسوس صد افسوس کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی اپنے گوپال گنج کے انتخابی اجلاس میں کچھ اسی طرح کا اشارہ کیا کہ نتیش کمار دلت کا ریزرویشن کوٹہ کم کرکے مسلمانوں کو دینا چاہتے ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے جمہوری نظام حکومت میں وزیر اعظم کی کسی خاص سیاسی جماعت کا فرد ہوتا ہے اور وہ اپنی جماعت کے مفاد میں کام بھی کرتا ہے لیکن ایک وزیر اعظم کی یہ بھی آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ کوئی ایسا عمل نہ کرے جس سے ملک کے کسی خاص طبقے کی دل آزاری ہو اور اس کے لئے کوئی مصیبت کھڑی ہو۔ لیکن نریندر مودی اپنی آئینی ذمہ داری سے کہیں زیادہ اپنی سیاسی جماعت کے تئیں وفادار ثابت ہوئے اور ملک کی ایک بڑی اقلیت مسلمانوں کے خلاف گمرہی پھیلانے کی کوشش کی۔ اس گمرہی کا ثمرہ انہیں کیا ملے گایہ تو بہار اسمبلی انتخاب کا نتیجہ ہی بتائے گا مگر ملک کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ضرور لکھا جا چکا ہے کہ ایک سیکولر ملک کا وزیر اعظم جو آئین کے تحفظ اور تمام تر اِزم سے اوپر اٹھ کر کام کرنے کا حلف لیتا ہے ، وہ اپنے سیاسی مفاد میں آئین کی روح کو مجروح کرنے میں کوئی کسر نہیں رکھتا ۔ یہ ایک لمحہ ٔ  فکریہ ہے ۔ جہاں تک ملک میں مسلمانوں کے ریزرویشن کا سوال ہے تو ماضی میں بھی اس پر ہر ایک سیاسی جماعت سیاست کرتی رہی ہے۔ اتر پردیش کی سماج وادی حکومت بھی بارہا اس طرح کا اعلان کرتی رہی ہے، لیکن آج تک منجملہ مسلمانوں کو کوئی فائدہ نہیں ملا ہے۔ واضح ہو کہ مسلمانوں میں جو پسماندہ اور انتہائی پسماندہ طبقے کے ہیں انہیں پہلے سے ہی ریزرویشن حاصل ہے ۔ کانگریس نے بھی گذشتہ پارلیامانی انتخاب سے قبل مسلمانوں کے لئے ریزرویشن کا اعلان کیا تھا ۔ دیگر ریاستوں میں بھی عین انتخاب کے وقت میں اس طرح کے موسمی اعلانات ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن وہ اعلانات عدالتی دائو پیچ کی نذر ہوکر رہ جاتے ہیں اور نتیجہ ہے کہ آزادی کے68برسوں بعد بھی ملک کی ایک بڑی آبادی دنوں د ن پسماندگی کی شکار ہوتی جارہی ہے۔ اس کے باوجود ریزرویشن کی شطرنجی چال چلی جاتی رہی ہے۔ لیکن بہار اسمبلی انتخاب میںوہ وزیر اعظم جو خود کو سوا سو کڑوڑ کو انصاف و ترقی دلانے کا دعویٰ کرتا ہے ، اس کے ذریعہ ملک کے ایک خاص طبقے مسلمانوں کو ریزرویشن دئے جانے کی مخالفت کرنے کے ساتھ ساتھ جس طرح دلت اور پسماندہ طبقے کے ذہنوں میں مسلمانوں کے خلاف زہر بھرنے کی کوشش کی گئی ہے وہ نہ صرف ہمارے جمہوری اصولوں کو پارہ پارہ کرتا ہے بلکہ مسلمانوں کے لئے اندیشہ ٔ  فردا بھی پیدا کرتا ہے۔ غالب ؔ نے شاید ایسے ہی حکمراں کے لئے کہا تھا کہ


    ؎    یہ فتنہ  آدمی  کی  خانہ  ویرانی  کو کیا  کم ہے
        ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو


٭٭٭

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 531