donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Political Articles -->> Articles On State Of India
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Uttar Pradesh Intekhab : Hindustani Seyasat Ka Aik Naya Morh


اترپردیش انتخاب : ہندستانی سیاست کا ایک فیصلہ کن موڑ


٭ڈاکٹر مشتاق احمد

موبائل نمبر:9431414586


    یہ حسن اتفاق ہی ہے کہ جس دن اترپردیش کے ساتھ دیگر چار ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کا اعلان ہوا ،اس دن بھی میں اترپردیش میں ہی تھا۔ اگرچہ اپنے ایک ہفتہ قیام کے دوران ریاست کے مختلف حصّوں میں جانے کا موقع ملا اور عوام الناس کے سیاسی مزاج سے آشنا بھی ہوا، لیکن ان دنوں چونکہ سماجوادی پارٹی کا خاندانی ڈرامہ اپنے عروج پر تھا اس لئے سیاسی تصویر کچھ مبہم سی نظر آرہی تھی ۔ سماجوادی پارٹی جو اس وقت اترپردیش کی حکمراں جماعت ہے اس کے اندر کے خلفشار کی وجہ سے دوسری سیاسی جماعتیں بھی اپنا واضح نقطۂ نظر پیش کرنے سے قاصر تھیں کہ اسے بھی سماجوادی پارٹی کے سیاسی ڈرامے کے اختتام کا انتظار تھا۔ جہاں تک اتر پردیش میں موجودہ اسمبلی انتخاب کا سوال ہے تو یہ انتخاب نہ صرف اس ریاست کے لئے غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے بلکہ قومی سیاست کے لئے بھی ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتی ہے۔ کیونکہ اس انتخاب کے تنائج سے نہ صرف مرکزی حکومت کے مستقبل کااشاریہ ہوگا بلکہ اس سے آئندہ صدر جمہوریہ انتخاب کی سمت بھی متعین ہوگی ۔

     اگرچہ اتراکھنڈ،گوا،منی پور اور پنجاب اسمبلی انتخاب بھی مرکزی حکومت کے لئے اہمیت رکھتی ہے کہ پنجاب میں اکالی دل سے بھاجپا کا اتحاد ہے جبکہ اتراکھنڈ میں بھاجپا اپنی واپسی کی جدو جہد میں ہے۔ لیکن اترپردیش کی سیاست جس کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ دلّی کا راستہ یہیں سے ہموار ہوتا ہے ، اگر اس انتخاب میں واقعی بھاجپا یہاں قابض ہونے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر ہندستانی سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ، اس کی تصویر واضح ہو جائے گی۔ مگر ابھی ایسا کہنا قبل از وقت ہوگا کہ اترپردیش کا سیاسی ماحول بھاجپا کے لئے ساز گار ہے۔ کیونکہ حالیہ نوٹ بندی نے ان کے حامیوں کی زبان بھی بند کر دی ہے ۔ چوک چوراہوں پر یہ گفتگو عام ہے کہ اس نوٹ بندی نے کسانوں اور مزدوروں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے ۔ علی گڑھ سے دہلی جانے کے راستے میں پرول اور جٹّاری کا علاقہ جہاں گذشتہ چھ ماہ قبل بھی جانے کا موقع ملا تھا  اور اس وقت وہاں کی اکثریت کی زبان پر بھاجپا کی رٹ تھی، آج اس طرح کا ماحول دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔ ہاں ، بھاجپا کے لوگ اس بات سے خوش ضرور نظر آرہے تھے کہ پارلیمانی انتخاب کی طرح اس انتخاب میں بھی بھاجپا مخالف سیاسی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر نہیں ہیں۔ اس بات کا احساس بہوجن سماج پارٹی اور سماجوادی پارٹی کے سنجیدہ کارکنوں کو بھی ہے کہ ان کے ووٹوں کے انتشار کی وجہ سے کہیں بھاجپا کو فائدہ نہ پہنچ جائے۔ واضح ہو کہ پرول اور جٹّاری کا علاقہ کسانوں کا ہے اور کبھی یہ علاقہ چودھری چرن سنگھ اور کبھی ملائم سنگھ کے حامیوں کا رہا ہے ۔ لیکن گذشتہ پارلیمانی انتخاب میں نتیجہ بالکل الٹا رہا اور یہاں سے بھاجپا کو بڑی کامیابی ملی۔ایک چائے کی دکان جس میں چودھری چرن سنگھ کی تصویر لگی تھی لیکن دکاندار سماجوادی پارٹی کے موجودہ ڈرامہ سے کافی ناراض تھا اور وہ کہہ رہا تھا کہ بھاجپا کو جتانے کے لئے ہی یہ سب ہورہا ہے۔ اسی دکان میں ایک کسان رام دھن سنگھ اس کی باتوں کو ردّ کرتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ بھاجپا کے لئے تو بہن جی راستہ بنا رہی ہیں کہ اس نے ۱۰۰ کے قریب مسلم امیدوار کھڑے کئے ہیں ۔ مسلم امیدواروں کے تعلق سے جب بات ہونے لگی تو اس میں میری بھی دلچسپی بڑھی ۔ میں نے انجان ہوتے ہوئے کہا بہن جی نے تو ۵۰ سے بھی کم امیدوار دئے ہیں ۔ رام دھن کا جواب تھا ’’ناجی ،کل کے اخبار میں یہ آیا ہے کہ کس ذات کو کتنا ٹکٹ دیا گیا ہے‘‘۔ میں نے جاننے کی کوشش کی کہ اگر مسلمانوں کو زیادہ ٹکٹ دیا گیا ہے تو اس سے بھاجپا کو کیا فائدہ ہوگا؟ اس کا جواب تھا کہ جہاں سے مسلم امیدوار بہن جی نے دئے ہیں وہاں سے سماج وادی پارٹی اور کانگریس کے ساتھ ساتھ ’’موسمی پارٹی‘‘بھی مسلم امیدوار ہی کھڑا کرے گی اور اس کا فائدہ تو بھاجپا کو ملنا ہی ہے۔ میں نے جب اس سے ’’موسمی پارٹی ‘‘ کی وضاحت چاہی تو اس نے کہا کہ’’ الکشن کے سمے میں بہت سی پارٹی اپج جاتی ہے وہی تو ’’موسمی پارٹی ‘‘ ہے۔ پچھلے لوک سبھا میں مسلم بھائیوں کا ووٹ ہی بٹ گیا تھا جس کے کارن بھاجپا کی بلّے بلّے ہوئی‘‘۔ مجھے اس کسان کی سیاسی بصیرت پر رشک آرہا تھا کہ وہ اس حقیقت سے آشنا ہے کہ مسلم ووٹوں کے انتشار اور غیر بھاجپا سیاسی جماعتوں کے اندر اتحاد نہ ہونے کہ وجہ سے ہی بھاجپا کو فائدہ پہنچا ہے ۔ پٹواری نگلا گائوں کا ایک کسان اس بات پر فکر مند تھا کہ مظفر نگر فساد کی وجہ سے مسلم ووٹ سماج وادی پارٹی سے دور ہو گیا ہے ۔ اسے اکھلیش یادو سے یہ بھی شکایت تھی کہ اس نے مظفر نگر کے مسلمانوں کے لئے اتنا نہیں کیا جتنا اسے کرنا چاہئے تھا۔ لیکن ایک دوسرے پڑھے لکھے مسلم نوجوان رضوان علی کا کہنا تھا کہ اس انتخاب میں مسلم نوجوانوں کو ہوشیاری سے کام لینا ہوگا۔ کیونکہ بھاجپا نے کئی نئی سیاسی جماعتوں کو مسلم ووٹ کے انتشار کے لئے اچھی خاصی رقم دی ہے اور بڑی تعداد میں امیدوار کھڑے کئے جائیں گے۔ اس لئے جہاں سے بھی مسلم سیٹ جیتی جا سکتی ہے وہاں خاص توجہ کی ضرورت ہے ۔علی گڑھ کے علمی حلقے میں بھی کچھ اسی طرح کی فکرمندی دیکھی گئی اور مسلم اکثریت علاقے میں خصوصی تحریک کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔بلاشبہ اتر پردیش میں ۷۵  اسمبلی سیٹیں ایسی ہیں جہاں سے مسلم امیدوا ریقینی طور پر کامیاب ہو سکتے ہیں ۔ اسی طرح پچاس سے زائد ایسی سیٹیں ہیں جہاں مسلم امیدواروں کو اگر دوسری برادری کا پانچ فیصد ووٹ بھی مل جائے تو وہاں سے بھی وہ کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اسی طر ح ۱۰۰  سے زیادہ اسمبلی حلقوں میں مسلم ووٹر فیصلہ کن حیثیت کے حامل ہیں ۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ گذشتہ پارلیمانی انتخاب میں ایک بھی مسلم امیدوار کامیاب نہیں ہو سکے۔البتہ ۲۰۱۲ء کے اسمبلی انتخاب میں مسلمانوں نے اپنے اتحاد کا مظاہرہ کیا تھا تو ایک بڑی تعداد اسمبلی پہنچنے میں کامیاب ہوئی تھی۔ جس میں سب سے زیادہ سماجوادی پارٹی سے مسلم امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔ اس بار بھی اگر مسلم ووٹوں کے انتشار کو روکا گیا اور سیاسی بصیرت سے کام لیا گیا تو ممکن ہے کہ مسلمانوں کو اس کا خاطر خواہ فائدہ مل سکے ۔جہاں تک میں اترپردیش کی سیاست کو جان سکا اس کے مطابق یہاں کے مسلمان کسی ایک سیاسی جماعت ساتھ نہیں ہیں، بلکہ علاقائی سطح پر ان کی ترجیحات الگ الگ ہیں کہیں مسلمان بہوجن سماج پارٹی سے جڑے ہیں تو کہیں کانگریس سے ،کہیں حکمراں جماعت سماجوادی پارٹی کی حمایت میں ہے تو کہیں اس بات سے ناراض ہیں کہ سبھی سیاسی جماعت مسلمانوں کو دھوکہ دیتی رہی ہے ۔ اس لئے اس بار مسلمانوں کو اپنی سیاسی پارٹی بنانی چاہئے ۔

    غرض کہ مسلم ووٹروں کا رجحان کسی ایک سیاسی جماعت کی طرف نظر نہیں آیا جو باعث فکرمندی ہے کہ کہیں ان کے ووٹوں میں انتشار کی وجہ سے پارلیمانی انتخاب کی طرح اسمبلی انتخاب کا نتیجہ بھی چونکانے والا نہ ہو جائے۔ ویسے صرف مسلمانوں کے اندر ہی انتشار نہیں دکھائی دیا بلکہ جاٹ اور یادوبرادری کے اندر بھی ٹوٹ نظرآئی کہ وہ حکمراں جماعت سے ناراض تھی۔ البتہ ویسے ناراض جاٹ اور یادو کی اکثریت کانگریس کی واپسی کو بہتر قرار دے رہے تھے۔ اس لئے ایسے لوگوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر بہوجن سماج اور کانگیریس کا اتحاد ہوتا تو زیادہ بہتر تھا ۔ اب جبکہ اتر پردیش میں انتخاب کا اعلان ہو چکا ہے اور مختلف مرحلوں میں پولنگ کی تاریخ طے ہو چکی ہے تو سیکولر جماعتوں کو اس بات کا فیصلہ کرنا ہے کہ اگر وہ واقعی اترپردیش میں بھاجپا کو روکنا چاہتی ہیں تو اس کے لئے ان جماعتوں کو بھی اپنی ضد چھوڑ کر سیکولر فرنٹ کو مضبوط بنانے کے لئے آگے آنا ہوگا تاکہ غیر بھاجپائی ووٹروں کے انتشار  رُک سکے۔ اسی طرح مسلمانوں کے دانشور طبقے کو بھی آگے بڑھ کر آنا چاہئے اور کچھ ایسی حکمت عملی تیار کرنی چاہئے جس سے مسلم اکثریت والے حلقے میں ان کا ووٹ منتشر نہ ہو اور زیادہ سے زیادہ مسلم امیدوار کامیاب ہو سکیں تاکہ آئندہ کی غیر بھاجپائی حکومت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کر سکیں کیونکہ اتر پردیش کی مسلم سیاست سے قومی مسلم سیاست کو تقویت پہنچتی ہے اور اس کا یہ اسمبلی انتخاب ایک سنہری موقع ہے۔

٭٭٭

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 625