donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Political Articles -->> Articles On State Of India
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Forum Desk
Title :
   Lalu Aur Nitish Aik Hon To Bihar Ki Taraqqi Mumkin

 لالو اور نتیش ایک ہوں توبہار کی ترقی ممکن
 
کیا آپ واقعی بہار کی ترقی چاہتے ہیں؟ کہیں اقتدار کا حصول ہی آپ کا مقصد تو نہیں ہے؟ چونکئے بالکل نہیں کیونکہ ایک عام آدمی کے من میں اٹھنے والے اس طرح کے سوالات غیر معمولی حیثیت بالکل بھی نہیں رکھتے ۔ جدید دور کے نام نہاد رہنماو¿ں کی طرح لالو جی اور نتیش جی کو بھی یہ اچھی طرح معلوم ہے۔انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ ایسے ہزاروں ہی وسوسے ہیں جوجنتا کے ذہنوں کو اکثر وبیشتر یوں ہی متاثر کرتے ہیں اور اب تو یہ روایت بہار میں خصوصی اور اس جیسی دوسری جمہوری ریاستوں میں عمومی طور پرعام آدمی کی روایت بن چکی ہے۔اب توشاید بہتر بھی اسی کو تسلیم کیا جانے لگاہے کہ آپ عوام کو اپنی روایت پر قائم رہنے دیجئے اورخود اپنی سابقہ روایتوں کے مطابق اپنا کام کرتے جائیے۔ اور ہاں!سیاسی روٹی حاصل کرنے کے لیے عوامی جذبات کے تنور کو بھی یوں ہی جلاتے رہئے ، اپنے شکم کو خوش اسلوبی سے سیر کرتے جائیے، بے چارہ عام آدمی تو عام آدمی ہے، وہ جب جب پریشان ہوگااور بھوک سے تڑپے گا تو اسے دور سے ہی روٹی دکھا دیجئے گاکہ ’ہاں!تجھے بھی ملے گی‘ اور پھر دیکھئے گا کہ حسب روایت اپنی بے چارگی اور آپ کی حاکمانہ جبلت سے متعلق تمام شکوک و شبہات اس کے ذہنوں سے خود بخو د دور ہو جائیں گے ۔یاد رکھئے یہ وہ نسخئہ کیمیا ہے جس سے آپ کی سیاست کا چولہا جلتارہے گااور آپ کو اقتدار کی لذت سے بھی توانائی حاصل ہوتی رہے گی۔ 
 
اب بہار کے عوام کو پھر سے یہ ایک نیا احساس دلانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ لالو پرساد یادو بہار میں تبدیلی لانے کے زبردست خواہاں ہیں۔اور شاید اسی لیے انہوں نے پٹنہ کے گاندھی میدان میں بڑی زبردست تیاریوں اور نظم و نسق کا پورا دھیان رکھتے ہوئے ایک بڑی ریلی کا انعقاد کیاتھا۔بہار کے دوردراز علاقوں سے لاکھوں کی تعداد میں عوامی ہجوم اکٹھا بھی ہواتھااوراس ریلی کو پریورتن ریلی کا نام دیا گیا تھا۔ اس ریلی میں بڑے جوش و خروش کے ساتھ عوامی نیتا کے روپ میں لالو جی نے بہار کی نتیش حکومت کی کمزوریوں کی گنتی کرائی تھی اورایک ناکارہ،عوام مخالف اور ناکام حکومت کا نام دے کر موجودہ حکومت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا عزم کیاتھا۔لالو جی کی نظر میں شاید یہی وہ پریورتن ہے جس سے مستقبل کے بہار کی ترقی ممکن ہوسکے گی۔انہوں نے اپنے دو بیٹوں کو بھی بہار کی سیاست کے میدان میں اتارنے کا اعلان کیا اور مستقبل کے ان دو مزید نئے نیتا و¿ںکو بہار کے عوام کے سامنے متعارف کراکے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ اسی تبدیلی سے بہار کے مستقبل کو سنوار اجا سکتا ہے۔لیکن یہ بات عوام الناس کے سامنے واضح نہیں ہوپائی کہ لالو جی کا مقصد بہار کو ترقی کی نئی سمت دیکر ترقی یافتہ ریاست بنانا ہے یا ملائم سنگھ یادو کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اکھلیش یادو کی طرح اپنے بیٹوں میں سے کسی کو نتیش کمار کی جگہ وزیر اعلیٰ کی کرسی پر بٹھانا ہے۔اگر وزرائے اعلیٰ کی تبدیلی ہی کا نام مہا پریورتن رکھا گیا ہے تو شاید یہاں یہ نام موزوں نہیں کہا جاسکتاہے ،کیونکہ ایسا پریورتن تو آزادی کے بعد بارہا ہوا ہے۔ لیکن بہار کی صورت بہت کم تبدیل ہوئی ہے ۔یہاں یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ اصل تبدیلی تو بہار کی ترقی ہے اور سالہاسال کی پسماندگی سے نجات حاصل کرنا ہے۔ لالو جی نتیش کمار سے قبل مسلسل پندرہ سال بہار کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں رکھ چکے ہیں ،بہار کتنا تبدیل ہوا یہ خود انہیں بھی اچھی طرح معلوم ہے۔اب توپٹنہ اور دہلی دونوں مقامات پر ان کی طوطی کا طوطا اڑ چکا ہے۔
 
لالو جی کے بعد بہار کی کمان اپنے ہاتھوں میں لینے والے نتیش کمار بھی بہار کو خصوصی درجہ دلاکر بہار کو ترقی یافتہ ریاستوں کی صف میں لا کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔ ادھیکار ریلی کا سہارا لیتے ہیں ،پٹنہ سے سفر کرتے ہیں اور ریلی کو دہلی کے رام لیلا میدان تک پہنچاتے ہیں ۔اپنے دم پر آگے بڑھتے ہیں اور یہ اعلان کرتے ہیں کہ بہار کو خصوصی درجہ حاصل کرنے کا حق ہے۔اس کی پسماندگی دور کرنے کے لیے وسائل کی سخت ضرورت ہے ۔اس ضرورت کو یقینی طور پر محسوس بھی کیا گیا ہے۔ اورمرکزی وزیر داخلہ پی چدمبرم نے بہار کو خصوصی درجہ دینے کے لئے شرائط میں تبدیلی لانے اور نئے شرائط کے تعین کے لیے ایک کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے جو ایک مہینہ کے اندر اپنی رپورٹ پیش کردے گی اور اس طرح بہار کو خصوصی درجہ حاصل ہونے کے امکانات قوی بھی ہو گئے ہیں ۔لیکن ایک سوال جو ابھی بھی ایک سوال ہے اور آئندہ بھی اس کے ایک سوال کی طرح ہی بنے رہنے کا امکان ہے کہ کیا خصوصی درجہ کا حصول بہار کو یکلخت ہی ترقی کے منازل طے کرادے گا؟
 
آج بہار کے پرائمری اسکولوں میں کھچڑی نے بچوں سے تعلیم کا حق چھین لیا ہے ۔کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ خصوصی درجہ بہاریوں سے ان کے دیگر حقوق بھی چھیننے کا ذریعہ بن جائے گا؟یقیناپالیسیوں کا پٹارا بھی تیار ہوگا ،لیکن وہ جب کھلے گا تو عوام کو مفلوج تو نہیں بنا دے گا؟یہ سوالات اس لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں کہ آج جو سہولتیں فراہم ہیں یقینی طور پر عوام کو براہ راست منتقل نہیں ہورہی ہیں۔ جو سہولتیں حاصل ہیں ان کی سمت مثبت کم منفی زیادہ ہے۔ اساتذہ کی تقرری آج بھی ایک مسئلہ ہے۔کم تنخواہوں پر کم تعلیم یافتہ افراد(شکشا متروں) کو تعلیم دینے کی ذمہ داری دی گئی ہے ،جو یقینی طور پر بہار کی تعلیم کے مستقبل کو چمکانے کا ذریعہ نہیں کہا جا سکتا ہے۔بہار کے گھر وں کوآج بھی بجلی سے روشناسی نہیں ہوئی ہے۔ جگہ جگہ بجلی کے کھمبے کھڑے ہیں لیکن یہ صرف خالی مکان ہیں اورابھی بھی انہیں اپنے مکین کابے صبری سے انتظار ہے۔کیا یہ سب کچھ خصوصی درجہ حاصل ہونے کے بعد ہی ممکن ہو سکے گا؟ سڑکیں یقینا اچھی بنی ہیں تو کیا بجلی کا انتظام بھی سڑکوں کی طرح ضروری نہیں ہے؟
 
اقلیتوں کے حقوق اور سیکولزم سے اپنی وابستگی کا بار بار اظہار کرنے والے نتیش کمار فرقہ پرست جماعت سے اپنا دامن بچانے میں ابھی بھی کامیاب نہیں ہیں۔وہ مودی کے مخالف ہیں تو لال کرشن اڈوانی کے موافق بھی ہیں۔ان کی یہ پالیسی خود ان کے سیکولرزم کے آگے ایک سوالیہ نشان لگادیتی ہے۔لالو یادو نے انہیں آرایس ایس کا’طوطا‘ نام دیا ہے۔اگرچہ لالو جی کے اس بیان کو من وعن تسلیم کرلینا ممکن نہیںہے لیکن اس سلسلے میں نتیش جی کی تذبذب کی کیفیت سے انکار کردینے کی گنجائش کابھی کوئی امکان نہیں ہے۔بہار کے عوام سیکولر ہیں اور اب تک کی تاریخ یہ گواہی دیتی ہے کہ فرقہ راریت کویہاں جڑیں جمانے کا موقع نہیں دیا جاتا ہے بلکہ اسے ا کھاڑ پھینکا جاتا ہے۔ اگر بی جے پی کو بہار میں آج کوئی مقام حاصل ہے تو اس کی وجہ جنتا دل (یو) سے اس کا اتحاد ہے۔دوسری طرف بھاگلپور کے فرقہ وارانہ فساد کے ایک مدت گزر جانے کے بعد بھی کانگریس پارٹی اقتدارسے کوسوں دور ہے۔کانگریس کو یقینا آج بھی اس کا قلق ہے اور اسی لیے وہ لالو کے لالٹین کی روشنی میں آگے بڑھنا چاہتی ہے لیکن لالٹین کی مدھم روشنی میں جب اسے منزل کا پتہ نہیں ملتا ہے تو نتیش کمار کے تیر سے اپنا شکار حاصل کرنے کی فکر میں سرگرداں ہوجاتی ہے۔
 
اگرمذکورہ بالا حوالوں کے ساتھ بہار کے منظر اور پس منظر پر غور کیا جائے تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ واقعتا پورے کینوس پر لالو پرساد یادو اور نتیش کمار کی شخصیتوں کا ہیولیٰ ہی نظر آتا ہے اور دوسرے ہیولے فی الحال حاشیے پر دکھائی دیتے ہیں۔یہ سچ ہے کہ دونوں ہی بہار کے متعلق سوچتے بھی ہیں اور اسی کو اپنی عملی سیاست کا میدان بھی تصور کرتے ہیں۔بہار کی سرزمین سے اٹھنے والی سیکولرزم کی صدا پر دونوں ہی لبیک کہنے والے ہیں۔دونوں ہی با صلاحیت اور تجربہ کار بھی ہیں۔بہار کی سرزمین کو بھی یقینا دونوں کی ہی ضرورت ہے۔ بہار پریورتن بھی چاہتا ہے اور خصوصی ریاست کا درجہ حاصل کرنے کا حق دار بھی ہے۔
 اس لیے ایک راہ کے ان رہنما و¿ں کی جانب سے جب جب بھی الگ الگ سمتوں کا تعین ہو گا پیچھے چلنے والوں کی پریشانیوں میں مزیداضافہ کی وجہ بنے گا، ہرکوئی منزل مقصود تک پہنچنے میں دشواریوں کا سامنا کرے گا اور اکثر ہی وہ بھٹک بھی جائے گا۔ اگر لالو پرساد یادو اور نتیش کمار جیسے رہنما ایک دوسرے پر لعن طعن کے بجائے یکسوئی سے ایک دوسرے کی خوبیوں سے استفادہ کریں اور بہار کی پسماندگی کو دور کرنے کے لیے کمر بستہ ہوجائیں تو یقینا بہار کی پسماندگی بھی دور ہوگی اور بہار ترقی بھی کرے گا۔ بہار کی یہ ترقی اور سیکولرزم ہندستان کی دیرینہ تہذیب کو زندہ جاوید بنانے میں معاون کا کام کرے گی ۔ لالو جی اور نتیش جی ! کیا آپ کی علیحدہ علیحدہ پارٹیاں ایک رخ پر نہیں چل سکتی ہیں؟
 
*********************
Comments


Login

You are Visitor Number : 517