donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Political Articles -->> Articles On State Of India
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Bihar Me BJP Ka Anokha Election Parchar


بہار میں بی جے پی کا انوکھا الیکشن پرچار


  تحریر: غوث سیوانی،نئی دہلی


    بہار میں انتخابی جنگ جیتنے کے لئے سبھی پارٹیاں ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہیں۔ ہر ممکن حربہ اپنایا جارہا ہے اور ووٹروں کو لبھانے کی کوشش چل رہی ہے۔ اس کوشش میں ایک طرف بہار میں بھگواوادی خواتین تنظیم درگا واہنی، مودی ایند کمپنی کے پرچار میں جٹی ہوئی ہے تو دوسری طرف گجرات کے سورت سے مودی برانڈ ساڑیوں کی آمد ہورہی ہے یعنی اس بار یہاں سنگھ پریوار نتیش کے خلاف ناری شکتی کا زبردست استعمال کر رہا ہے۔ درگا واہنی ،وشو ہندو پریشد کی خواتین ونگ ہے اور جس طرح وشو ہندو پریشد مردوں کے بیچ کام کرتا ہے انھیں خطوط پر درگاواہنی عورتوں میں کام کرتی ہے۔یہ تنظیم اس وقت بی جے پی کے پیغام کو بہار میں عام کرنے کا کام کر رہی ہے تو دوسری طرف مودی ساڑیاں بہاری خواتین ووٹرو ں کے بیچ پہنچائی جارہی ہیں، حالانکہ یہ سوال اپنی جگہ ہے یہ دونوں حربے ووٹروں کو کس قدر لبھا پائیںگے؟۔ جنتاد ل (یو) کا کہنا ہے کہ بی جے پی کروڑوں روپئے کی ساڑیاں تقسیم کر رہی ہے تو بی جے پی کا کہنا ہے کہ وہ تقسیم نہیں کر رہی ہے بلکہ ساڑیاں فروخت ہورہی ہیں۔بی جے پی کے ساڑی پرچار نے جنتا دل یو کو مشکل میں ڈال دیا ہے ۔وہ الیکشن کمیشن سے اس کی شکایت کرے بھی تو کیسے جب کہ یہاں اب تک انتخابی ضابطہ اخلاق بھی لا گو نہیں ہے۔یہاں بی جے پی اپنے ترکش کا آخری تیر بھی باقی نہیں چھوڑنا چاہتی کیونکہ یہاں خود وزیر اعظم  نریندر مودی کی ساکھ داؤ پر لگی ہے۔ بی جے پی وہ ہر ممکن کوشش کر رہی ہے جس سے انتخابی جنگ جیتی جا سکے۔ اس لئے سورت سے 5 لاکھ مودی ساڑیاں بہار بھیجی گئی ہیں۔ بی جے پی کے شائقین میں بھی ان ساڑیوں کا کریز دکھائی دے رہا ہے۔اسی کے ساتھ درگاواہنی بھی اپنے کام میں جٹی ہوئی ہے اور وہ مودی کا پیغام گھر گھر پہنچا رہی ہے۔حالانکہ یہ خواتین سیدھے طور پر سیاست پر بات نہیں کرتی ہیں مگر ان کا استعمال چالاک لیڈران اپنے پیغام کو عام کرنے کے لئے عقلمندی سے کرتے ہیں۔

درگا واہنی آئی مودی کی حمایت میں

    کہنے کو تو درگاواہنی ایک نیشلسٹ جماعت ہے اور ظاہر کیا جاتا ہے کہ اس کا مقصد راشٹرواد کا پیغام خواتین میں عام کرنا ہے مگر حقیقت میں اس کا مقصد خواتین کے اندر فرقہ پرستی کا زہر بھرنا ہے۔ماضی میں جہاں جہاں ’’لوجہاد‘‘کے نام پر سنگھ پریوار نے ہنگامہ مچایا وہاں وہاں اس کا بھی استعمال کیا گیا اور اب بہار میں درگا واہنی کا استعمال ہندو خواتین کے ووٹوں کو بی جے پی کے حق میں کرنے کے لئے ہورہا ہے۔اس تنظیم کی طرف سے پربھات پھیری، ست سنگھ اور کمیونٹی مٹینگس کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ظاہر ہے کہ ان طریقوں سے بھی بی جے پی کے لئے سیاسی میدان ہموار کرنے کا کام ہوتا ہے۔درگاواہنی کی بھاگلپور یونٹ سے تعلق رکھنے والی انیتا سنگھ بتاتی ہیں کہ ہم راشٹرواد کے لئے کام کرتے ہیں مگر سیاسی طور پر ہم صرف بی جے پی کی حمایت کرتے ہیں۔درگا واہنی کی ایک اور ذمہ دار ممبر کا کہنا ہے کہ بہار تمام ۳۸ اضلاع میں ان کی یونٹس ہیں اور ہر جگہ بی جے پی کو جیت دلانے کے مقصد سے ہم لوگ کام کررہے ہیں۔اس وقت درگا واہنی کے پاس بہار میں تین سو ممبران ہیں جو ہر وقت اپنے کام میں مصروف رہتی ہیں علاوہ ازیں سینکڑوں آرڈنری ممبران ہیں جو ان کے ماتحت کام کرتی ہیں۔

    ۲۸سالہ انامیکا شرماایک فل ٹائم ممبر ہیں۔ وہ شادی شدہ ہیں اور ان کے دو بچے بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے انھوںنے پانچ سال قبل درگا واہنی جوائن کیا تھا اور اب اپنا پورا ٹائم اسی میں لگاتی ہیں۔بہار پولیٹیکل سائنس ایسوسی ایشن کی چیئر پرسن پروفیسر ایل این شرما بتاتی ہیں کہ درگا واہنی جیسی جماعتوں کے لئے یہاں کے دیہی علاقوں میں بہت زیادہ امکانات ہیں۔ ان کے ذریعے کسی بھی پیغام کو خواتین میں پھیلایا جاسکتا ہے اور ان کی ذہن سازی کی جاسکتی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ خواتین مذہبی ہوتی ہیں اور وہ آرایس ایس و وشوہندو پریشد جیسی جماعتوں کو مذہبی سمجھتی ہیں، لہٰذا جلد اثر میں آجاتی ہیں۔

بِہارمیںمودی ساڑیوں کی بَہار

    جہاں ایک طرف درگا واہنی اپنی پوری قوت کا استعمال بی جے پی کے پرچار میں لگائے ہوئے ہیں وہین دوسری طرف سورت کی ساڑیوں کا استعمال بھی انتخابی تشہیر کے لئے کیا جارہا ہے۔ بہار میں سورت کی ساڑیوں کے بہانے الیکشن پرچار کا آئیڈیاگجرات کے بی جے پی ممبرپارلیمنٹ سی آر پاٹل کا ہے جنھیں پارٹی نے بہار میں بی جے پی کی انتخابی مہم کی کمان سونپ رکھی ہے۔ پاٹل کو امید ہے کہ مودی ساڑی بی جے پی کی انتخابی جیت میں اہم رول ادا کر سکتی ہے۔پاٹل ،نریندر مودی کے خاص لوگوں میں ہیں۔ غورطلب ہے کہ سال 2010 میں کوسی سیلاب متاثرین کو گجرات کی سابق مودی حکومت کی طرف سے پانچ کروڑ کی امداد کے لیے پاٹل نے اخبارات میں زورو شور سے اشتہارات دئیے تھے، جو مودی اور نتیش کے درمیان کشیدگی کی ایک وجہ بنا۔

بہار سے سورت کا رشتہ

    سورت کی ساڑی انڈسٹری 40 ہزار کروڑ روپے کی ہے اور بہار کے لاکھوں لوگوں کو اس سے روزگار ملتا  ہے۔ بہار سے آکر یہاں کام کرنے والے لوگ روزانہ کم از کم 500 روپے کما لیتے ہیں۔یہ لوگ گھر جاتے وقت اکثر گھر کی خواتین کے لئے سورت کی ساڑی لے جاتے ہیں۔ممبر پارلیمنٹ اور بہار انتخابات کے شریک انچارج سی آر پاٹل کو امید ہے کہ ساڑی کے ذریعے بہار کے ان لاکھوں خاندانوں تک آسانی سے پہنچا جا سکتا ہے، جن کے گھر کا کوئی نہ کوئی سورت کی ان ٹیکسٹائل ملز میں کام کرتا ہے۔

کیا یہ انتخابی رشوت ہے؟

     وزیر اعظم نریندر مودی ان دنوں بہار میں ریلیاں کر رہے ہیں اور ان کی ریلیوںکو کامیاب بنانے میں درگا واہنی بھی اہم کردار نبھا رہی ہے،اس بیچ سورت کی ساڑیوں کاتنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔ جے ڈی یو نے الزام لگایا ہے کہ 200 کروڑ روپے کی ساڑیاں سورت سے بہار بھیجی جارہی ہیں۔ساڑیوں کے پیکٹ پر مودی کی تصویر لگی ہوئی ہے۔ جے ڈی یو کا دعویٰ ہے کہ تقریبا دو سو کروڑ روپے کا خرچ کیا گیا ہے اور بیس لاکھ ساڑیاں ووٹروں کو لبھانے کے لیے بی جے پی بہار میں بانٹے گی۔دوسری طرف بی جے پی کا کہنا ہے کہ اس میں غلط کیا ہے۔دھرمیندر پردھان نے کہا کہ یہ الیکشن کمیشن کے فریم میں آتا ہی نہیں ہے کیونکہ ابھی انتخابی ضابطہ اخلاق نافذ نہیں ہوا ہے۔جب کہ مودی والی ساڑیوں پر ہو رہے اس مہابھارت کے درمیان گجرات کے تاجروں کا کہنا ہے کہ وہ مودی کی جیت کا سلسلہ بہار میں جاری رکھنا چاہتے ہیں، اس لیے وہ خود ہی اپنی ساڑیوں کو اس طرح کے پیکٹ میں بہار بھیج رہے ہیں۔

مودی کی ساکھ دائو پر

    بہار ان دنوں بی جے پی اور بی جے پی مخالفین دونوں کے لئے وقار کا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ یہان ہردائو آزمایا جارہا ہے اور اپنے مخالفین کی پوزیشن خراب کرنے کی ہرممکن کوشش کی جارہی ہے۔ اسی کا حصہ ہے سورتی ساڑیوں کے نام پر بہار میں جنگ اور درگا واہنی کا الیکشن جیتنے کے لئے استعمال۔ نریندر مودی بہار کی جنگ کو اپنے لئے اس لئے بھی اہم مان رہے ہیں کہ ان کے مخالفین یہاں بی جے پی کی ہار کو مودی کی ہار بتائیں گے اور اس کے اثرات مغربی بنگال، اترپردیش اور تمل ناڈو کے انتخابات پر پڑسکتے ہیں۔ بی جے پی اس سے قبل دلی اسمبلی کے انتخابات بری طرح ہار چکی ہے، حالانکہ وہ اس سے چند مہینہ قبل ہی یہاں سے لوک سبھا کی تمام سیٹیں جیتی تھی۔ بہار کی بیشتر لوک سبھا سیٹیں بھی بی جے پی کے کھاتے میں گئی تھیں اور وہ یہاں اسمبلی میں اصل اپوزیشن ہے۔ اب وہ یہاں جیت کر نہ صرف اپنی سرکار بنانا چاہتی ہے بلکہ اپنے مخالفین کو بھی جواب دینا چاہتی ہے۔ یہاں پارٹی میں وزیر اعلیٰ کے دعویدار بہت زیادہ ہیں اور اس کے پاس ایک بھی ایسا لیڈر نہیں ہے کہ وہ وزیر اعلیٰ کے امیدوار کے طور پر پیش کر سکے لہٰذااس نے مودی کا چہر ہ آگے کر کے انتخابی دنگل میں اترنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مودی اور امت شاہ نے ذات پات میں منقسم بہار بی جے پی کے لیڈران پر بھروسہ کرنے کے بجائے گجرات اور دوسرے صوبوں کے لیڈروں کو بہار میںالیکشن کی کمان دے رکھی ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ وہ بہار میں بہار کے انداز سے الیکشن نہیں لڑ رہی ہے بلکہ گجرات کے انداز میں الیکشن لڑ رہی ہے ۔بہار میں اب تک باضابطہ طور پر الیکشن کی تاریخوں کا اعلان نہیں ہوا ہے اور انتخابی ضابطہ اخلاق بھی لاگو نہیں ہوا ہے، ایسے میں کونسی پارٹی کیا کر رہی ہے، اس پر نظر رکھنے کا کام الیکشن کمیشن کا نہیں ہے۔ امید کی جارہی ہے کہ اکتوبر اور نومبر میں یہاںاسمبلی انتخابات ہونگے اور عنقریب کمیشن تاریخوں کا اعلان بھی کردے گا، اس کے بعد ساڑیوں کی جنگ مزید شدت اختیار کر سکتی ہے، اور اس پر ہنگامہ مچ سکتا ہے۔ بعض جگہوں سے یہ خبر بھی آرہی ہے کہ مردوں کے اندر پرچار کے لئے بی جے پی کی طرف سے گمچھے بھی بانٹے جارہے ہیں۔ ان گمچھوں کے بارے میں خبر نہیں ہے کہ سورت سے آرہے ہیں یا بہار میں ہی تیار ہورہے ہیں۔ ان گمچھوں پر بھی نریندر مودی کی تصویر بنی ہوئی ہے۔بہرحال اس وقت بہار اسمبلی الیکشن کی تیاری میں جن کی زیادہ چرچا ہے، ان میں خاص ساڑیاںاور ناریاں ہیں۔ یہ ساڑیاں گجرات کی ہیں اور ناریاں درگا واہینی کی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 531