donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Political Articles -->> Articles On State Of India
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Bihar Me BJP Ne Vikas Chhorh Hindtv Ko Kiyon Apnaya


بہار میں بی جے پی نے’’وکاس‘‘ چھوڑ’’ ہندتو‘‘ کو کیوں اپنایا؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    مشہور کہاوت ہے کہ جب برا وقت آتا ہے تو انسان کی عقل ماری جاتی ہے۔ ان دنوں بہار میں بی جے پی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہورہا ہے۔ اب تک ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘‘کا نعرہ لگانے والی بی جے پی نے بہار اسمبلی چنائو کے آخری مرحلے میںاپنا ایجنڈا تبدیل کرلیا اور ہندتو کے راستے پر چل پڑی ۔ ایک بار پھر اس نے یہاں ہندووں کو مسلمانوں کے نام پر خوفزدہ کرنے کا کھیل کھیلنے لگی۔ اس کا آغاز خود وزیر اعظم نریندر مودی نے کیا ۔انھوں نے حال ہی میںبیان دیا کہ پسماندہ طبقات کے ریزرویشن میں سے پانچ فیصد کاٹ کر مسلمانوں کو دینے کی سازش رچی جارہی ہے اور سازش کو ناکام بنانے کے لئے وہ اپنی جان کی بازی لگادیںگے۔ اس کے بعدپارٹی نے اس سلسلے میں پوسٹر اور بینر بھی جاری کئے جسے بعد میں الیکشن کمیشن نے ہٹانے کا حکم دے دیا۔  بی جے پی صدر امت شاہ نے بھی بہار کے انتخابی ماحول کو کمیونل کرنے کے لئے بیان دے دیا کہ اگر مہاگٹھبندھن جیتا اور بی جے پی ہاری تو پاکستان میںپٹاخے چھوٹینگے۔ عین بہار میں الیکشن کے دوران پڑوسی ریاست جھارکھنڈ میں آرایس ایس کا اجلاس چل رہا تھااور وہاں بھی ایسے ایشوز کو زیر بحث لانے کی کوشش کی گئی جو بہار کے انتخابات پر اثر انداز ہوسکیں۔ سنگھ پریوار کے اچانک وکاس سے ہندتو کے ایجنڈے کی طرف چھلانگ لگانے سے کئی سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ بہار میں لوگ اس اچانک تبدیلی کے بہت سے مفہوم نکالنے لگے ہیں۔ کیا بی جے پی کو احساس ہوچلا ہے کہ وہ اسمبلی انتخابات میں بری طرح ہارنے والی ہے جس کے بعد اس نے اپنا ایجنڈا بدل دیا ہے؟ کیا بہار والوں نے نریندر مودی کے وکاس کے نعروں کو مسترد کردیاہے اور نتیش کمار کے کاموں کو ترجیح دی ہے؟ بہار میں بی جے پی کی بدلتی حکمت عملی نے بہتوںکو یہ باور کرادیاہے کہ وہ بہار میں الیکشن ہار رہی ہے۔

    سنگھ پریوار کے اندرونی حلقوں سے جو خبریں مل رہی ہیں ان کے مطابق بی جے پی بہار میں شکست تسلیم کرچکی ہے۔ابتدائی دومرحلوں کے بعد اس نے گھبراہٹ میں اپنی حکمت عملی میں بدلائو کیا کیونکہ اسے پولنگ کا رخ دیکھ کر احساس ہوچلا ہے کہ اس کا صفایا ہوتا جارہاہے اور وہ اپنی موجودہ سیٹیں بھی نہیں بچاپائے گی۔اسے یہ بھی معلوم ہوچلا ہے کہ نریندر مودی کا جادو بہار میں نہیں چل رہاہے اور ان کے وعدوں ودعووں کی پول بھی کھل چکی ہے۔ دال، پیاز کی بڑھتی قیمتوں اور مہنگائی میں اضافہ کے سبب عام لوگوں کے اندر مودی سرکار کے تئیں سخت بیزاری پائی جاتی ہے۔انھیں ز مینی سچائیوں کو دیکھتے ہوئے، سنگھ پریوار نے حکمت عملی میں بدلائو کیا اور اب مودی اپنی تقریروں میں ترقی کے بجائے کمیونل ایشوز کو اٹھا رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس سے جہاں ایک طرف ہندووں کو بی جے پی کی حمایت میں لام بند کرنے کی کوشش ہے وہیں دوسری طرف عام لوگوں کی توجہ مہنگائی سے پھیرنے کی چالاکی بھی ہے۔مودی ہی نہیں بلکہ ان کے سپہ سالار امت شاہ بھی اپنی تقریروں میں اب فرقہ وارانہ باتیں کر رہے ہیں۔ حال ہی میں انھوں نے کہاکہ اگر بہار میں مہاگٹھبندھن جیتتا ہے تو سب سے زیادہ خوشی جیل میں بیٹھے محمد شہاب الدین کو ہوگی اور این ڈی اے ہارتی ہے تو نتائج پٹنہ میں نکلیں لیکن پٹاخے پاکستان میں پھوٹینگے۔ حالانکہ بہار انتخابات میں پاکستان کی دخل اندازی سے سیاسی بھونچال آ گیا ہے۔ راشٹریہ جنتا دل کے سربراہ لالو پرساد یادو نے اس پر شدید اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ کیا امت شاہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ تمام بہاری پاکستانی ہو گئے ہیں؟

    بہار میں الیکشن کو فرقہ وارانہ بنانے کے لئے بی جے پی کی طرف سے کوئی کور کسر نہیں چھوڑی گئی اور جہاں ایک طرف اس کے لیڈران فرقہ وارانہ اشتعال پھیلانے والے بیانات دے رہے ہیں وہیں دوسری طرف اس نے مہاگٹھبندھن کے خلاف ایسے پوسٹر ،بینر اور ہنڈبل وغیرہ نکالے ہیں جن میں الزام لگایا گیا ہے کہ پسماندہ ہندووں کے ریزرویشن کو کاٹ کر مسلمانوں کو دینے کی کوشش میں لگے ہیں نتیش اور لالو پرساد یادو حالانکہ اس اشتہار پر الیکشن کمیشن نے کارروائی کی ہے اور ہٹانے کا حکم دیا ہے۔الیکشن کمیشن کے ذرائع نے کہا کہ ریاست کے انتخابات افسر انکوائری کریں گے کہ کیا اشتہارات کے پرنٹر اور پبلشر کا نام اور تفصیلات اس پر چھپا ہے یا نہیں۔ عوامی نمائندگی ایکٹ کی دفعہ 127 اے کے دفعات کے تحت یہ ضروری ہے۔

    بہرحال اب بہار میں انتخابات کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے اور یہی وقت ہے اہل بہار کے عقل وشعور کے امتحان کا۔ آگے وہ بی جے پی کے ہندو کارڈ سے متاثر ہوتے ہیں یا بہار کے وسیع مفاد کو پیش نظر رکھ کر ووٹ کرتے ہیں۔ ابتدائی تین مرحلوں کے الیکشن میں بھاجپا کو سخت نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے اور آگے بھی اس کے لئے کوئی اچھا وقت نظر نہیں آتا۔ بہار والے اب تک نریندرمودی یا بھاجپا پر بھروسہ نہیں کرپائے ہیں جب کہ نتیش کمار ان کے آزمودہ ہیں۔ مودی صرف وکاس کے وعدے کر رہے ہیں جب کہ نتیش کے وکاس کو اہل بہار محسوس کر رہے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ وہ مودی پر بھاری پڑ رہے ہیں۔    

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 506