donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Political Articles -->> Articles On State Of India
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Dehli Ke Muslim Aksiriati Seton Par BJP Ki Jeet Ke Imkanat Raushan


دلی کی مسلم اکثریتی سیٹوں پر بی جے پی کی جیت کے امکانات روشن


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    دلی میں کیا ہوگا؟ کس کی سرکار بنے گی؟ راجدھانی کے ووٹرس کی اکثریت کس جانب جائے گی اور مسلمان کسے ووٹ کریںگے؟ وہ کانگریس کے ساتھ جائیں گے یا عام آدمی پارٹی کے ساتھ؟ کیا مسلمانوں کا ایک طبقہ بی جے پی کو ووٹ کرنے بارے میں بھی سوچ رہا ہے یا مسلم ووٹ تقسیم ہوکر اپنی اہمیت گنوا دیںگے؟ اس وقت دلی کے ووٹروں کا مزاج غیر یقینی نظر آرہا ہے اور ایسے ہی کشمکش میںمسلمان ووٹرس بھی دکھائی دے رہے ہیں جو اب تک فیصلہ نہیں کرسکے ہیں کہ انھیں کس پارٹی کے ساتھ جانا ہے؟ کانگریس اگر چہ راجدھانی میں اپنی سیاسی اہمیت کھو چکی ہیں مگر مسلم محلوں میں اب بھی اس کی اہمیت باقی ہے اور مسلمانوں کا ایک طبقہ اسے ووٹ دینے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ جن علاقوں میں عام آدمی پارٹی کے امیدوار کمزور ہیں وہاں بھی مسلمانوں کا رجحان کانگریس کی طرف ہے۔ گزشتہ اسمبلی الیکشن میں کانگریس نے مسلم علاقے کی تقریباً تمام سیٹوں کو جیت لیا تھا اور اسمبلی میں جتنے بھی مسلمان پہنچے تھے ان میں سوائے ایک کے تمام کانگریس کے ٹکٹ پر جیتے تھے۔ ان لیڈروں کے اثرات اب بھی اپنے علاقے میں ہیں اور انھیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان حالات میں مسلم ووٹ کس جانب جائے گا ،ابھی سے کچھ کہہ پانا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ دلی میں مسلم ووٹ ۱۳فیصد بتایا جاتا ہے اور اس ووٹ پر تمام پارٹیوں کی نظر رہتی ہے۔ اس بار بھی سبھی پارٹیاں مسلم ووٹ پر نظر جمائے بیٹھی ہیں اور سیاسی لیڈران مسلم محلوں میں دائو کھیلنے میں مصروف ہیں۔ ہر کوئی دوسرے کی کمزوری کا فائدہ اٹھانے میں لگا ہوا ہے اور عوام کو خواب دکھانے میں لگا ہوا ہے، ایسے میں یہاں مسلم اکثریتی علاقوں کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کس کی جیت ہوگی۔

مسلمان بمقابلہ مسلمان

    دلی میں پانچ مسلم اکثریتی سیٹیں ہیں جہاں سے ہر بار مسلمان ہی جیت کر آتے ہیں۔ ان میں سے سیلم پور سیٹ سے چودھری متین

احمد، مصطفیٰ آباد سیٹ سے حسن احمد، اوکھلا سیٹ سے آصف محمد خان، بلی ماران سے ہارون یوسف کو جیت ملی تھی جو سبھی کانگریس سے ہیں۔ مٹیا محل سے ہر بار شعیب اقبال جیت کر آتے ہیں جو الگ الگ الیکشن میں الگ الگ پارٹی سے ہوتے ہیں۔ فی الحال وہ کانگریس کے ٹکٹ پر لڑ رہے ہیں جب کہ پچھلے الیکشن میں وہ جنتادل (یونئیٹیڈ) میں تھے۔ گزشتہ الیکشن میں نہ تو عام آدمی پارٹی کے ٹکٹ پر کوئی مسلمان جیتا تھا اور نہ بی جے پی کے ٹکٹ پر۔ اس بار بھی کانگریس نے اپنے تمام جیتے ہوئے لیڈروں کو ٹکٹ دیا ہے اور انھیں سیٹوں پر عام آدمی پارٹی نے مسلمان امیدوار اتارے ہیں۔ بی جے پی نے صرف مٹیا محل سیٹ پر انجمن دہلوی کو اتارا ہے اور کسی دوسرے مسلمان کو ٹکٹ نہیں دیا ہے۔ یہاں تک کہ سیلم پور، مصطفیٰ آباد، اوکھلا اور بلی ماران کی مسلم اکثریتی سیٹوں پر بھی اس نے بی جے پی نے مسلمان امیدوار نہیں اتارے ہیں۔ اس نے اوکھلا سے برہم سنگھ بدھوڑی کو امیدوار بنایا ہے جو پہلے بی ایس پی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑتے تھے اور چند ہزار دلت ووٹ پاتے تھے۔ مصطفی آباد سے جگدیش پردھان کو ٹکٹ دیا ہے جو گزشتہ اسمبلی الیکشن میں لگ بھگ دوہزار ووٹوں کے فرق سے حسن احمد سے ہارے تھے جب کہ سیلم پور سے سنجے جین کو امیدوار بنایا ہے اور بلی ماران سیٹ سے شیام موروال کو میدان میں اتارا ہے۔ عام آدمی پارٹی نے بھی انھیں تمام سیٹوں پر مسلمان امیدوار تارے ہیں جہان کانگریس کے مسلم امیدوار میدان میں ہیں۔ گویا مسلمان کا مقابلہ مسلمان سے ہورہا ہے اور اس جنگ میں بی جے پی کے امیدواروں کی جیت کے امکان سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔اوکھلا میں اسکول چلانے والے ماسٹر محمد رفیق کا کہنا ہے کہ جس طرح سے کانگریس و عام آدمی پارٹی مسلم علاقوں میں آمنے سامنے ہیں اس سے مسلمانوں کا ہی نقصان ہوگا اور اس بار مسلم نمائندگی میں مزید کمی آجائے تو حیرت نہیں ہونی چاہئے۔ جب کہ لکشمی نگر کے محمد راشد کا کہنا ہے کہ سرکار کسی کی بھی بن جائے مسلمانوں کے حالات جوں کے توں رہیں گے لہٰذا انھیں زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں بی جے پی سے بھی زیادہ خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ ماضی میں جو لوگ کانگریس یا دوسری پارٹیوں کے ٹکٹ پر جیت کر اسمبلی میں پہنچے ہیں انھوں نے کونسا ہمارے لئے آواز اٹھایا ہے۔  

    ہم نے جن چند سیٹوں کا اوپرذکر کیا، یہ تو مسلم اکثریتی ہیں مگر ان کے علاوہ بھی بہت سی ایسی سیٹیں ہیں جہاں مسلمانوں کی آبادی اچھی خاصی ہے اور ان کا ووٹ جس جانب جائے گا وہ امیدوار جیت حاصل کرے گا۔ ان میں (ریزرو سیٹ )سیما پوری، چاندنی چوک، بدر پور، لکشمی نگر، سنگم وہار، تغلق آباد،جنگ پورہ ،بابر پور ،صدر بازار وغیرہ شامل ہیں۔  ماناجاتا ہے کہ بائیس اسمبلی سیٹوں پر مسلمان ووٹ اثرانداز ہونے کی پوزیشن میں ہے۔ان سیٹوں پر کسی بھی قابل ذکر پارٹی نے مسلم امیدوار نہیں اتارے ہیں  اور یہاں مسلمانوں کا رجحان کانگریس یا عام آدمی پارٹی کی طرف ہے۔ ’’آپ‘‘ کے مسلم لیڈروں نے نو سیٹوں پر مسلم امیدوار تارنے کی مانگ کی تھی مگر اسے پارٹی نے ماننے سے انکار کردیا اور صرف پانچ مسلمانون کو ہی ٹکٹ دیا۔ ’’آپ‘‘ کے ایک ناراض لیڈر کا کہنا ہے کہ اروند کجروال کا مسلمانوں کے تعلق سے ویسا ہی نظریہ ہے جیسا کہ کانگریس کا رہا ہے۔ انھیں لگتا ہے کہ اب مسلمانون کے سامنے کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے اور وہ ’’آپ‘‘ کو ووٹ دینے پر مجبور ہیں مگر یہ ان کی غلط فہمی ہے۔

’’آپ‘‘ میں اختلاف

    مسلم اکثریتی اسمبلی حلقوں میں اپنی جیت کے تعلق عام آدمی پارٹی مطمئن نظر آرہی ہے مگر اس نے ان علاقوں میں جو امیدوار

تارے ہیں وہ عوام سے زیادہ قریب نہیں ہیں اور ان کی تصویر بھی ویسی ہی ہے جیسی کہ دوسری پارٹیوں کے امیدواروں کی ہے۔ جو بڑے بڑے دعوے اروند کجریوال کرتے تھے اور امیدوار طے کرنے سے پہلے علاقے کے عوام سے مشورہ کرنے کا یقین دلایا کرتے تھے ایسا کہیں نہیں ہوا۔ یہاں تک ان کی پارٹی کے کارکن اور ممبران ہی اس رویے سے ناراض دکھائی دے رہے ہیں اور اپنی پارٹی کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ اوکھلا علاقے میں تو یہ جھگڑا بڑے پیمانے پر دکھائی دے رہا ہے جہاں امانت اللہ کو ٹکٹ دیئے جانے سے پارٹی کے بہت سے ورکر ناراض ہیں اور پارٹی چھوڑ چکے ہیں۔ یہاں تک کہ پارٹی کا اکلوتا مسلم چہرہ کہے جانے والے عرفان اللہ خاں بھی پارٹی پرچار سے غائب ہیں جو گزشتہ اسمبلی الیکشن میں امیدوار تھے مگر اب ٹکٹ نہ ملنے سے خفا ہیں۔ پارٹی کے لوگون کا ماننا ہے کہ امانت اللہ کئی پارٹیاں بدل چکے ہیں اور اگر جیت گئے تو وہ دوسرے ونود کمار بنی ثابت ہونگے۔ اس حلقے میں سب سے بڑا خطرہ یہ پیدا ہوچکا ہے کہ کانگریس اور ’’آپ‘‘ کی لڑائی میں کہیں بی جے پی نہ جیت حاصل کرلے۔ یہاں مقابلہ سہ رخی دکھائی دیتا ہے اور برہم سنگھ بدھوڑی جو کہ بی جے پی کے امیدوار ہیں ان کی بیوی پہلے سے یہاں کونسلر ہیں ، اس کا فائدہ انھیں مل سکتا ہے۔ آصف محمد خان اپنی سیٹ بچانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہیں اور انھوں نے پورے علاقے میں عین الیکشن سے قبل سیور کا کام شروع کرایا ہے۔ ان کی خاصیت یہ ہے کہ وہ کام کریں یا نہ کریں مگر سرگرم نظرآتے ہیں۔ حالانکہ ان کے خلاف بھی ایک طبقہ دکھائی دے رہا ہے۔ آل اندیا مجلس مشاورت کے ڈاکٹر ظفرالاسلام کا کہنا ہے کہ یہاں کانگریس اپنی زمین کھوتی جارہی ہے اور علاقے کے باشندے کانگریس و بی جے پی دونوں سے بیزار دکھائی دیتے ہیں۔ ویسے جو حالت اوکھلا علاقے کی ہے ٹھیک وہی صورتحال دوسرے مسلم حلقوں کی بھی ہے۔ جہاں مسلمان دو گروپ میں تقسیم ہوچکے ہیں اور ایک طبقہ کانگریس کے ساتھ جارہا ہے تو دوسرا عام آدمی پارٹی کی حمایت میں کھڑا ہے۔ پرانی دلی کے بزنس مین جاویدخان کا کہنا ہے کہ اس علاقے کے مسلمان ہارون یوسف اور شعیب اقبال کو جتائیںگے جب کہ سیلم پور کے سماجی کارکن محمد نعیم کا کہنا ہے کہ کانگریس سے مسلمان مایوس ہیں اور ان کا رجحان عام آدمی پارٹی کی طرف ہے۔

مسلمان بی جے پی کی حمایت میں یا مخالفت میں؟

    دلی کے مسلمان واضح طور پر کانگریس اور عام آدمی پارٹی کے خیموں میں تقسیم نظر آتے ہیں مگر قابل غور پہلو یہ ہے کہ گزشتہ لوک سبھا الیکشن میں مسلمانوں کے ایک طبقے نے بی جے پی کو بھی ووٹ کیا تھا اور ایسا اس بار بھی ہوسکتا ہے۔ حالانکہ بی جے پی نے مسلمانون کو لبھانے کی کوئی کوشش نہیں کی ہے اور انھیں ٹکٹ بھی نہیں دیئے ہیں مگر کچھ مسلمانوں کو لگتا ہے کہ بی جے پی اگر دلی میں آئی تو شہر کا بھلا ہوگا اور ترقی کے ساتھ ساتھ امن وامان رہے گا۔ ایسے لوگوں کے لئے کرن بیدی بھی امید کی کرن ہیں مگر یہ طبقہ بہت چھوٹا ہے۔ وہ حلقے جہاں مخلوط آبادی ہے ،وہاں بھی مسلمانوں کا رجحان کسی ایک پارٹی کی طرف نہیں ہے اور ممکن ہے کہ جو امیدوار بی جے پی کو ہرانے میں زیادہ مضبوط نظر آئے گا اس کی طرف مسلمان آخری وقت میں جانے کا فیصلہ کریں۔ ایسا بار بار ہوتا رہا ہے اور پورے ملک کے مسلمان ووٹروں کا یہی انداز دیکھا گیا ہے لہٰذا دلی میں بھی ایسا ہوجائے تو کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔

(یو این این)

************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 523