donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Political Articles -->> Articles On State Of India
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Maharashtra Aur Haryana Me Congress Se Door Huye Musalman


مہاراشٹر اور ہریانہ میں کانگریس سے دور ہوئے مسلمان


کیا مسلمان ،کانگریس کا سیاسی متبادل تیار کر رہے ہیں؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    مہاراشٹر اور ہریانہ میں بی جے پی کی سرکار بن گئی اور دونوں صوبوں میں کانگریس کا صفایا ہوگیا۔ ووٹروں کی اکثریت نے بی جے پی کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا اسی کے ساتھ مسلم ووٹروں نے بھی کانگریس۔این سی پی سے دوری بنائی اور مجبوری میں ہی سہی مگر ایک متبادل تلاش کرنے کی کوشش کی۔ مہاراشٹر میں مسلمان کل ہند مجلس اتحادالمسلمین کے ساتھ گئے اور نہ صرف اسے دوسیٹوں پر جتایا بلکہ بعض سیٹوں پراسے ووٹ بھی اچھے خاصے ملے۔ اِدھر ہریانہ میں تین مسلم اکثریتی سیٹوں پر بھی وہ کانگریس کے ساتھ نہیں گئے بلکہ دو سیٹوں پر انھوں نے آئی این ایل ڈی کو جتایا اور ایک سیٹ پر آزاد امیدوار جیتا۔بی جے پی کے لئے یہ خوشی کا موقع تھا کہ دیوالی سے قبل ہی اس کے یہاں دیوالی منائی گئی۔ ظاہر ہے کہ اس نے یہاں تنہا الیکشن لڑنے کا فیصلہ کر کے ایک بڑا قدم اٹھایا تھا۔ وہ کبھی بھی یہاں اکیلے انتخابی میدان میں نہیں گئی مگر اس بار نہ صرف اس نے الیکشن تنہا لڑا بلکہ شیو سینا کو چیلنج بھی دیا۔ یہ ٹھیک ہے کہ بی جے پی کو تنہا اکثریت نہیں ملی مگر اسی کے ساتھ اس کے لئے خوشی کی بات بھی ہے کہ اس نے ۲۸۸ رکنی اسمبلی میں ۱۲۳ سیٹیں حاصل کی ہیں۔ ایک مدت سے یہاں کسی بھی پارٹی نے سوکا ہندسہ پار نہیں کیا تھااور کانگریس پچھلے پندرہ برسوں سے جہاں این سی پی کے سہارے حکومت کر رہی تھی اسی طرح ماضی میں شیوسینا نے بھی بی جے پی کی مدد سے سرکار چلایا تھا۔ شیو سینا کو ۶۳ سیٹیں ملی ہیں جب کہ کانگریس تیسرے نمبر پر پہنچ گئی ہے اور اسے محض ۴۲ سیٹوں پر صبر کرنا پڑا۔ اس سے صرف ایک کم پر ہے این سی پی ،جسے ۴۱ سیٹیں ملی ہیں۔راج ٹھاکرے کی ایم این ایس کو بس ایک سیٹ مل پائی ہے جب کہ مجلس اتحاد المسلمین نے دوسیٹیں جیت کر مہاراشٹر اسمبلی میں اپنا کھاتا کھول لیا ہے۔ سماج وادی پارٹی کے ابوعاصم اعظمی کو جیت مل گئی ہے مگر ان کے دوسرے امیدوار نہیں جیتے ہیں۔کانگریس نے اپنی ہار تسلیم کرلی ہے اور سابق وزیر اعلیٰ پرتھوی راج چوان نے مانا ہے کہ عوام نے تبدیلی کے حق میں ووٹ دیا ہے۔کانگریس کے ٹکٹ پر ہارنے والوں میں نارائن رانے بھی شامل ہیں جو خود کو وزیر اعلیٰ کی کرسی کا دعویدار مانتے تھے۔  این سی پی کے ٹکٹ پر ہارنے والوں میں نواب ملک شامل ہیں جو اس کا مسلم چہرہ سمجھے جاتے تھے۔کانگریس۔این سی پی کی ہار میں دیگر طبقات کی طرح مسلمانوں کا ہاتھ بھی ہے۔ دوسرے ووٹر بی جے پی اور شیوسینا کے ساتھ جاسکتے تھے مگر مسلمان نہیں جاسکتے تھے لہٰذا انھوں نے ایم آئی ایم کو بطور متبادل کھڑا کرنے کی کوشش کی۔ اسی طرح ہریانہ میں وہ کانگریس کے ساتھ نہیں گئے مگر ان کے سامنے ایک متبادل کے طور پر اوم پرکاش چوٹالہ کی پارٹی آئی این ایل ڈی بھی تھی، جس کی انھوںنے حمایت کی۔

چھوڑو عہد وفا کی باتیں، کیوں جھوٹے اقرار کریں
کل میں بھی شرمندہ ہونگا، کل تم بھی پچھتائوگے  

 

مسلمانوں نے پیدا کرلیا کانگریس کا متبادل؟


    مہاراشٹرمیں مسلمانوں کی آبادی گیارہ فیصد کے آس پاس ہے اور اس ووٹ پر سبھی پارٹیوں کی نظر تھی لہٰذااس بار سبھی سیاسی پارٹیوں نے بڑی تعداد میں مسلمان امیدوار اتارے تھے مگر باوجود اس کے مسلم نمائندگی میں کمی آئی ہے۔ کانگریس اور این سی پی کے ساتھ ساتھ بی جے پی نے بھی کئی سیٹوں پر مسلمانوں کو ٹکٹ دیا تھا اور شاید یہی سبب تھا کہ مسلم ووٹ بکھر گیا۔ سماج وادی پارٹی تو اخیر اخیر تک کوشش کرتی رہی کہ اس کا کانگریس کے ساتھ سمجھوتہ ہوجائے مگر ایسا نہیں ہوپایا اسی کے ساتھ مجلس اتحادالمسلمین نے بھی ۲۴ سیٹوں پر امیدوار اتار دیئے تھے، جن میں غیر مسلم بھی شامل تھے۔ یہاں کے مسلمان عام طور پر کانگریس اور این سی پی کے ساتھ رہے ہیں مگر اس بار ان کے اندر کانگریس اور این سی پی سے شدید ناراضگی تھی لہٰذا یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ متحد ہوکر کانگریس کے ساتھ جاتے۔ ۲۰۰۹ء کے اسمبلی الیکشن میں مسلم ووٹ کا ۷۰فیصد اسی اتحاد کو ملا تھا مگر اس بار ایم آئی ایم نے سیندھ ماری کی ہے اور ایک بڑا حصہ اسے ملا ہے۔ حالانکہ امین پٹیل اور عارف نسیم خاں جیسے چند مسلمان کانگریس کے ٹکٹ پر جیتے ہیں مگر جہاں کانگریس کے علاوہ کسی دوسری پارٹی نے مسلمان امیدوار اتارے تھے وہاں اسے بھی مسلم ووٹ گیا۔ خاص طور پر مجلس نے اس کے ووٹ بینک پر دعویداری ٹھونکی اور مسلم اکثریتی علاقے کی دوسیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوگئی۔ عارف نسیم خاں جو کانگریس کے کام سے زیادہ سیکولرزم کے حوالے سے مسلم ووٹ چاہتے تھے مانتے ہیں کہ مسلم ووٹ کانگریس کو یکمشت نہیں ملا ہے اور اس میں بکھرائو آیا ہے۔ مسلم ووٹ کے مجلس کی اور جانے سے انھیں لگتا ہے کہ فرقہ پرست طاقتوں کو قوت ملے گی،حالانکہ مجلس کے صدر اسدالدین اویسی اس کامیابی پر خوش ہیں اور انھیں مہاراشٹر میں اپنی امکانی زمین نظر آرہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ممبئی میونسپل کارپوریشن کے انتخابات میں اب مجلس اپنے امیدوار اتارے گی۔ وہیں دوسری طرف ان کے بھائی اکبرالدین اویسی (ایم ایل اے) کہتے ہیں کہ صرف پندرہ دن کی محنت سے انھیں دو سیٹیں ملی ہیں جو یقینا خوشی کی بات ہے۔ واضح ہوکہ مجلس کے ٹکٹ پر وارث پٹھان اور اعجاز جلیل کی جیت ہوئی ہے۔  

    آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے ٹکٹ پر ممبئی کے کولابہ سے ایڈوکیٹ وارث پٹھا ن جیتے ہیں جنھیں ۳۱۴،۲۵ ووٹ ملے تھے جب کہ اورنگ آباد(سنٹرل ) سیٹ پرجرنلسٹ امتیاز جلیل کامیاب ہوئے جنھیں ۸۴۳،۶۱ ووٹ حاصل ہوئے جب کہ ان کے مدمقابل شیوسینا کے امیدوار کو صرف ۸۶۱،۴۱ووٹ ملے۔ مزے کی بات یہ تھی کہ امتیاز جلیل کوئی منجھے ہوئے سیاست داں نہیں تھے بلکہ صرف ایک مہینہ قبل سیاست میں آئے تھے۔مجلس کے تین امیدوار رنر اپ کے طور پر سامنے آئے اور اپنے مدمقابل کو زبردست ٹکر دی۔ ان میں سولا پور(سنٹر)پربھنیا اور اورنگ آباد(ایسٹ) شامل ہیں۔ علاوہ ازیں ایم آئی ایم کے آٹھ امیدوار تیسرے نمبر پر بھی رہے اور انھیں کثیر ووٹ حاصل ہوئے۔ ان میں ناندیڑ(سائوتھ)ناندیڑ(ایسٹ) اورنگ آباد (ویسٹ) ونڈیرا (ایسٹ)ورسونا، مالیگائوں، ممبرا، کوریا اور ممبا دیوی شامل ہیں۔ ان میں سبھی امیدوار مسلمان نہیں تھے بلکہ کچھ غیرمسلم بھی تھے۔مجلس کے تمام چوبیس امیدواروں کو کل ملاکر۶۳۲،۱۶،۵ ووٹ حاصل ہوئے۔ کانگریس، این سی پی، بی جے پی، شیوسینا ، ایم این ایس اور سماج وادی پارٹی سبھی نے مسلم امیدوار اتارے تھے جنھیں کل ملاکر ۱۹لاکھ ووٹ حاصل ہوئے تھے اور ان ووٹوں کا ۲۷ فیصد ایم آئی ایم کو ملا ہے۔ سب سے زیادہ کانگریس کے مسلم امیدواروں کو ۳۱فیصد ووٹ ملے جب کہ این سی پی کے مسلم امیدواروں کو۲۱فیصد ووٹ ہاتھ لگے۔ غورطلب ہے کہ ۲۰۰۹ء کے اسمبلی انتخابات میں مسلم امیدواروں کو ملنے والے ووٹوں کا ۷۰ فیصد کانگریس این سی پی اتحاد کے امیدواروں کو گیا تھا۔

ہریانہ میں مسلم ووٹ کانگریس سے دور گیا

    مہاراشٹر کی طرح ہریانہ میں بھی بی جے پی نے کانگریس کا صفایا کردیا اور پہلی بار یہاں اپنی سرکار بنانے میں کامیاب ہوپائی ہے۔ یہاں بھی مہاراشٹر کی طرح اس نے تنہا چلنے کا دانشمندانہ فیصلہ کیا تھا جس کا فائدہ اسے مل گیا۔ دس سال سے برسراقتدار کانگریس کی بری طرح ہار ہوئی اور چوٹالہ خاندان کی انڈین نیشنل لوک دل(آئی این ایل ڈی) کا اقتدار میں آنے کا خواب پورا نہیں ہوپایا۔ یہ عجیب بات ہے کہ جس ریاست میں جاٹوں کی اکثریت ہے اور ووٹر ذات پات دیکھ کر ووٹ ڈالتے ہیں وہاں بی جے پی کو کامیابی ملی جس کے ساتھ کوئی بڑا جاٹ چہرہ نہ تھا۔ یہاں بھی صرف نریندر مودی کا چہرہ سامنے تھا اور انھیں کے نام پر عوام نے بی جے پی کو ووٹ کیا۔۹۰ رکنی اسمبلی میں اسے ۴۷ سیٹیں مل گئیں گویا اس نے تنہا اکثریت حاصل کرلیا۔جب کہ آئی این ایل ڈی کو ۱۹ سیٹیں ملیں اور کانگریس صرف ۱۵ سیٹوں تک سمٹ گئی۔ہریانہ جن ہت کانگریس کو صرف دوسیٹوں پر کامیابی حاصل ہوئی جو الیکشن سے قبل تک بی جے پی کے ساتھ تھی۔ کلدیپ بشنوئی خود تو جیت گئے مگر اپنے بڑے بھائی اور سابق ڈپٹی وزیر اعلیٰ چندر موہن کو نہیں جتا پائے۔ سابق وزیر اور کئی الزامات میں گھرے ہوئے گوپال کانڈا کو بھی عوام نے شکست سے دوچار کیا ۔البتہ ایک سیٹ بی ایس پی کو بھی مل گئی ہے۔ ہریانہ ملک کی ترقی یافتہ ریاستوں میں سے ایک ہے۔ یہاں کے کسان خوشحال ہیں اور کاروباری بھی اچھی حالت میں ہیں عام طور پر مسلمانوں کی مالی حالت بھی ٹھیک ٹھاک ہے مگر  وہ تعلیم میں زیادہ پچھڑے ہوئے ہیں۔ وہ کسان ہیں، کھیت اور زمین والے ہیں،ان کے پاس بھینسیں ہوتی ہیں اور اور دودھ کے کاروباری بھی ہوتے ہیں مگر اسی کے ساتھ ان کے نام جرائم کے ساتھ اکثر جوڑے جاتے ہیں۔ میوات کا مسلم اکثریتی علاقہ سب سے زیادہ جرائم والا علاقہ ہے اور میو مسلمانوں کو انگریزوں کے زمانے سے ہی جرائم پیشہ اقوام میں رکھا گیا ہے۔ حالانکہ اب تعلیم آنے سے ان کے اندر جس قدربدلائو آنا چاہیے نہیں آیا۔میوات کے مسلم اکثریتی علاقے کے مسلما ن اکثر و بیشتر کانگریس کے ساتھ جاتے رہے ہیں مگر اس بار یہاں کی تین مسلم اکثریتی سیٹوں میں سے دو پر آئی این ایل ڈی نے جیت حاصل کی اور ایک پر آزاد امیدوار کو جیت ملی۔ یہاں الیکشن مہم کے سلسلے میں نہ تو راہل گاندھی آئے اور نہ ہی نریندر مودی۔ فیروز پور جھرکہ، پنہانا اور نوح اسمبلی حلقوں میں کانگریس کو ایک سیٹ پر بھی جیت نہیں ملی۔ غور طلب ہے کہ ہریانہ میں مسلم آبادی کا تناسب ۶ فیصد ہے مگر اس علاقے میں وہ ۷۰فیصد ہیں۔ گویا ہریانہ میں کانگریس کی ہار میں مسلمانوں کا ہاتھ بھی تھا۔

 

(مضمون نگار ٹی وی پروڈیوسر اور اسکرپٹ ر ائٹر ہیں)  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رابطہ

Email: ghaussiwani@gmail.com
GHAUS SIWANI/Facebook

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 569