donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Political Articles -->> Articles On State Of India
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghufran Sajid Qasmi
Title :
   Bihar Ke Musamano Ko Ab Apni Sonch Badalne Ki Zaroorat Hai

 

بہارکے مسلمانوں کواب اپنی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے
 
غفران ساجد قاسمی
چیف ایڈیٹر: بصیرت آن لائن ڈاٹ کام،ریاض،سعودی عرب
 
سیاست کے بارے میںیہ کہاوت بہت ہی مشہورہے کہ ’’سیاست میںکچھ بھی ناممکن نہیںہے،اسی طرح سیاسی گلیاروں میںکوئی کسی کا ہمہ وقتی نہ تودوست ہوتاہے اورنہ ہی دشمن،بس موقع محل اورمطلب پرستی اورابن الوقتی کانام ہی سیاست ہے‘‘۔اسی طرح اگرسیاست کے گلیاروںمیںکسی کے نظریات اور خیالات میں باربارتبدیلی دیکھنے کومل رہی ہوتواس میںحیرانی کی کوئی بات نہیںہے، بس یہ سمجھ لیںکہ وہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنی قیمت لگارہا ہے ،اب یہ وقت پہ منحصرہے کہ انہیںصحیح قیمت مل پاتی ہے یانہیں؟
 
اس وقت ہندستان کی سبھی سیاسی جماعتوں کی نگاہیں2014ء کے الیکشن پرٹکی ہیںاوراپنی اپنی پالیسی بنانے میںمصروف ہیں۔اس وقت جبکہ ہرجماعت اپنی مختلف سیاسی سرگرمیوںکے ذریعہ 2014ء کے الیکشن کی تیاریوںمیںمصروف ہے وہیںملک کی سب سے بڑی فرقہ پرست جماعت وزیراعظم کے نام پر اپنے اتحادیوںکو رام کرنے میں مصروف ہے اور اس کیلئے ملک کے سب سے بڑے فرقہ پرست لیڈر اور ہزاروں معصوم اور بے قصورافرادکے خون کے چھینٹے اپنے دامن پرسجائے ہوئے نریندرمودی جیسے موذی کا نام پیش کر دیا ہے جس پراین ڈی اے کی سب سے بڑی حلیف جماعت جنتادل یونے اپنے تیوردکھلادیے ہیں،اسی بیچ ایک ایسے شخص نے اپنی زبان سے ایک ایسے شخص کا نام اچھال دیا ہے جس کا عام مسلمانوںکوبالخصوص بہارکے مسلمانوںکو بھی بالکل توقع نہیں تھی، لیکن کیا کیا جائے سیاست کے کھیل ہیں ہی بڑے عجیب و غریب، لہٰذا حیرانی نہیںہونی چاہیے۔ابھی گزشتہ دنوںدودن تک جنتادل یو کی قومی مجلس عاملہ کی میٹنگ منعقد ہوئی جس کے ایجنڈوںمیںصدرکے انتخاب کے ساتھ ساتھ 2014ء کے الیکشن کی پالیسی بھی تیارکرنی تھی اور این ڈی اے کے وزیراعظم کے امیدوار کے نام پر غور و فکر کرنی تھی، تو جہاںایک طرف جنتادل یو کے بڑے لیڈروں نے مودی کے نام کوبالکل خارج کردیاوہیںجنتادل یوکے سینئرلیڈراوربہارحکومت میںاقلیتی فلاح وبہبودکے وزیرشاہدعلی خان نے یہ کہہ کرسب کوحیرانی میںڈال دیاکہ ’’بی جے پی کے سینئرلیڈراورہندستان میں90ء کی دہائی میںفرقہ پرستی کی بیج بونے والے اوربابری مسجدشہادت کے کلیدی مجرم لال کرشن اڈوانی وزیراعظم کے سب سے بہترامیدوارہیں۔اگراین ڈی اے اڈوانی کا نام پیش کرتی ہے تووہ اس کی حمایت کیلئے تیار ہیں، اتنا ہی نہیں انہوں نے مزید کہاکہ اڈوانی این ڈی اے کے قدآور لیڈر ہیں اور صاف ستھری شبیہ کے مالک ہیں اور این ڈی اے کے دورحکومت میںنائب وزیراعظم اوروزیرداخلہ جیسے بڑے منصب پرفائزرہ چکے ہیں‘‘۔
 
مسٹر شاہد علی خان کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جبکہ بہار میں وہ خود اقلیتی فلاح کے وزیر ہیں اور اقلیتوں کی فلاح وبہبودکیلئے کام کررہے ہیں اورنتیش کمارنے بی جے پی کے ساتھ رہ کربھی بی جے پی سے دوری بنائے رکھنے کی پالیسی اپناکرمسلمانوںمیںکافی حدتک مقبولیت حاصل کرلی ہے اور اسی کی بدولت آج وہ بہار میں دوبارہ حکومت کی باگ ڈورسنبھال رہے ہیںاورمسلمانوںنے بھی ان کے پیش رولالوسے ناامیدہونے کے بعد انہیں اپنا مسیحا سمجھ لیا اور مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد آج ان کے گن گارہی ہے، لیکن اگرمسلمانوںنے شاہد علی خان کے بیان کو سنجیدگی سے لے لیا توشاید نتیش جی کو مستقبل میں پشیمانی اٹھانی پڑسکتی ہے، لیکن ایسا لگتا نہیں ہے کہ مسلمان شاہد علی خان کے بیان کوسنجیدگی سے لیںگے،کیونکہ یہ بھی ایک بڑا المیہ ہے کہ مسلمانوں کے پاس کوئی متبادل بھی نہیںہے،لیکن ایساکیوںہے؟کبھی غورکیاہے ؟لکھنے والوںنے توبہت کچھ لکھاہے،نعرہ دینے والوں نے بہت کچھ نعرہ دیا ہے لیکن آج تک مسلمانوں نے اپنا کوئی متبادل نظم نہیں کیا ہے، آخر کیوں؟ کبھی غورکیاہے کہ جو قوم قائدہواکرتی تھی آج وہ مقتدی بنی ہوئی ہے،جس قوم کے پاس اقوام عالم کی رہنمائی کا تمغہ ہوا کرتا تھا آج وہ خوددوسری قوموںکے پیچھے پیچھے دم دبائے چلنے پر مجبور ہے اور اس کے ذمہ دارہم مسلمان خو دہیںاورہمارے قائدین ہیں؟؟؟
 
ذرا غور کریں!آج شاہد علی خان نے اڈوانی کے نام کی وکالت کی ہے اور دلیل میںانہیںصاف ستھری شبیہ کارہنمابتایاہے،توکیابعیدکہ کل کونتیش جی بھی این ڈی اے کی محبت میںمودی جیسے موذی کی حمایت یہ کہہ کر کردیںکہ مودی ہی وہ شخص ہیںجو ہندستان کی ڈوبتی نیا کو پار لگا سکتے ہیںاوردلیل میں انہیںدیش بھگت اور مرد آہن اورقوم پرست جیسے القاب سے نوازدیں،کیونکہ اس وقت ایسامحسوس ہورہاہے کہ نتیش جی بھی کانگریس سے کسی بڑی ڈیل کے انتظار میں ہیں۔اگروہ اس ڈیل میںکامیاب ہوجاتے ہیںتوبہت ممکن ہے کہ وہ این ڈی اے سے ناطہ توڑلیںیاپھرمودی کے نام کی حمایت کردیںکیونکہ این ڈی اے کے ترکش کے سارے تیرختم ہو چکے ہیں،نہ تواس کے پاس اب رام مندرکامدعاہے اورنہ کچھ، ایسے میںوہ اکثریت فرقہ کاووٹ حاصل کرنے کیلئے ایک سخت گیر اوراکثریت فرقہ میںنام نہاد قوم پرست لیڈرکادرجہ حاصل کرنے والے مودی ہی آخری تیر ہیں، لہٰذا وہ 2014ء کے الیکشن میںاپنے اکثریتی فرقہ کاووٹ بٹورنے کیلئے مودی کے نام سے کسی قیمت پر سمجھوتہ نہیںکریںگے۔ایسے میںاگر سب کچھ اسی طرح ہوتا ہے جس طرح بی جے پی چاہتی ہے توپھراللہ خیر کرے۔ ویسے بھی مودی نے اعلان کردیا ہے کہ گجرات کاقرض توہم چکاچکے ہیں اور اب وقت آگیاہے کہ بھارت ماتاکاقرض چکائیں،توملک کاعام سیکولراورامن پسندطبقہ سمجھ سکتاہے کہ مودی آخر کون سا قرض چکانے کی بات کررہے ہیں؟؟؟
 
ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان بالخصوص بہارکے مسلمان جنہوںنے اپنی وفاداریاںنتیش جی سے وابستہ کررکھی ہیںوہ ان سے سوال کریںکہ آخرآپ کے وزیرباتدبیر کس بنیادپراڈوانی جی کے نام کی حمایت کر رہے ہیںاورایک ایسے شخص کو جس نے90ء کی دہائی میںہندستان میںفرقہ پرستی کا بیج بویا اور جو عبادت گاہ کی شہادت کا کلیدی مجرم ہے اس شخص کو آپ کے وزیرکس طرح سیکولر اور صاف ستھری شبیہ والا بتلارہے ہیں۔ نتیش جی سے یہ بھی سوال کریںکہ 2014ء کے عام الیکشن میںمسلمانوںکی فلاح وبہبودسے متعلق آپ کی پالیسی کیا ہے؟ کیا آپ بی جے پی کی پالیسی پر عمل کریں گے یا آپ پرجس طرح مسلمانوںنے اپنا اعتماد جتایا ہے، اس اعتمادکوبرقراررکھتے ہوئے مسلمانوںکی فلاح وبہبودکیلئے پالیسی بنائیںگے۔اگرمسلمانوںنے اپنی سوچ نہیںبدلی اوربھیڑچال کی روش اپناتے ہوئے جدھر جو ہانکے ادھر چلتے جائیںگے توکبھی اس قوم کا بھلا نہیں ہوسکتا۔
 
بہت ہوچکا،بہت پیچھے پیچھے چل لئے، اب وقت آگیاہے کہ مسلمان ہوش کے ناخن لیںاوراپنی قائدانہ صلاحیت کااستعمال کرتے ہوئے ملک و ملت کی قیادت کافریضہ انجام دیں، اتنا ہی نہیںبلکہ ایسے مسلمان رہنماؤںسے بھی سوال کریںجو عرصہ سے مختلف سیاسی جماعتوںکے ساتھ اپنی وفاداری وابستہ کیے ہوئے ہیںاوراپنے چندذاتی اغراض کو حاصل کرنے کیلئے مسلمانوںکوسبزباغ دکھلاکران کاووٹ حاصل کرتے ہیں، جب وہ آپ کے پاس ساڑھے چارسالوںکے بعدصرف الیکشن کے زمانہ میںآتے ہیںتوان سے ان کے ذریعہ کیے گئے کارناموںکا حساب لیں اور پھر اسی کی روشنی میںاپنی پالیسی بنائیں،مسلمانوں! وقت آگیا ہے کہ جاگیں،اپنی سوچ بدلیں،بھیڑچال کی روش چھوڑیں اور اپنی قائدانہ صلاحیت کو دنیاکے سامنے پیش کریں، یادرکھیں!خدابھی اس وقت تک کسی قوم کی حالت نہیںبدلتاجب تک کہ وہ خوداپنی حالت بدلنے کیلئے کمربستہ نہ ہوجائیں۔
 
بشکریہ: مشتاق دربھنگوی
*******************
Comments


Login

You are Visitor Number : 768