donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Political Articles -->> Articles On State Of India
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Hafeez Nomani
Title :
   Akhilesh Yadav Ko Sehat Ki Fikr

اکھلیش یادو کو صحت کی فکر


حفیظ نعمانی


پاک پروردگار برکت دے اُترپردیش کے وزیر اعلیٰ کے اقتدار کی مدت میں کہ اب وہ جو فیصلے کررہے ہیں ان میں خود اعتمادی جھلک رہی ہے اور ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے وہ ڈھائی برس میں دس برس کا نصاب پورا کرچکے ہوں۔ شاید جنوری کی ہی کوئی تاریخ تھی جب بی جے پی کے بزرگ سیاست داں اور اٹل جی وزارت میں پیٹرولیم کے وزیر جن کے متعلق مشہور تھا کہ پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت بڑھانے میں وہ کوئی ریکارڈ بنانا چاہتے ہیں انہوں نے کہا تھا کہ میں جب گورنر بن کر آیا تھا اس وقت کے مقابلہ میںاُترپردیش میں قانون کی حالت اب بہت زیادہ بری ہوگئی ہے۔ شری رام نائک شاید عمر میںشری ملائم سنگھ سے بڑے ہی ہوں گے اور گورنر بھی ہیں اس کے باوجود گرم خون والے وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے کسی طرح کا کوئی جواب نہیں دیا جبکہ ہم جس کا برسوں سے کسی سیاسی پارٹی سے کوئی تعلق نہیںہے اور صحافت کی مصروفیت کی وجہ سے ہمارے لئے غیرجانبدار رہنا بھی ضروری ہے اور جو عمر میں لگ بھگ اپنے گورنر کی ہی برابر ہوں گے اسے گورنر صاحب کی بات اس لئے اچھی نہیں لگی تھی کہ یہ واقعہ کے خلاف تھی۔ کیونکہ شری رام نائک جب گورنر بن کر آئے تھے اس کے مقابلہ میں جنوری میں حالات کہیں زیادہ اچھے تھے۔

ان باتوں کے علاوہ وہ جو فیصلے کررہے ہیں وہ بہت مفید اور ضروری ہیں مثلاً انہوں نے کابینہ میں فیصلہ کیا کہ ڈاکٹر کے ریٹائرمنٹ کی عمر میں پانچ سال کا اضافہ کردیا جائے اسی طرح ان کے تقرر میں بھی پانچ سال بڑھادیئے۔ یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے کیا کیا؟ اصل بات یہ ہے کہ انہیں اس کی فکر ہے کہ سرکاری اسپتال میں تجربہ کار ڈاکٹر ہوں۔ اور کوئی اسپتال ایسا نہ ہو جس میں کوئی تجربہ کار ڈاکٹر نہ ہو وزیر اعظم شری نریندر مودی نے یہ حکم تو دے دیا کہ ہر ممبر پارلیمنٹ اور ہر وزیر ہر سال ایک گائوں کو گود لے لے جس میں ایک بینک ہو، ایک اسکول ہو، ایک اسپتال ہو اور بیمہ کمپنی ہو۔ وزیر اعظم کی تجویز میں بینک کے کلرک بھی مل جائیں گے اسکول کے ماسٹر بھی مل جائیں گے بیمہ کمپنی بھی کھل جائے گی لیکن جو سب سے ضروری چیز اسپتال ہے اس کے لئے ڈاکٹر کہاں سے آئیں گے؟

پروردگار کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ساٹھ سال تک کی ہماری عمر قابل رشک صحت کے ساتھ گذری اس کے بعد جیسے بیماریاں کہیں  کولڈ اسٹوریج میں رکھی تھیں کہ باری باری اس طرح آئیں کہ بھول گئے کہ صحت کیا ہوتی ہے؟ اس عرصہ میں درجنوں ڈاکٹروں سے رجوع کرنا پڑا اور ایسے ایسے تجربے ہوئے کہ ان کی بنیاد پر ہی اپنے وزیر اعلیٰ کی بصیرت کو مبارکباد دینا پڑرہی ہے۔ شری اکھلیش یادو کو ہم ایک مشورہ بغیر مانگے دینا چاہتے ہیں کہ اس کا کیسے علاج ہو کہ ڈاکٹر مریض کے گھر کے برتن تک بک وادے تب بھی اس کا پیٹ نہ بھرے؟ کیا یہ ہوسکتا ہے کہ گورنر صاحب کی عمر کے ڈاکٹروں کا ایک بورڈ بنایا جائے اور ان سے مشورہ کیا جائے کہ ڈاکٹروں کی دولت کی بھوک کیسے ختم ہو؟

اپنی بیماریوں کے سلسلے میں اگر 20  ڈاکٹروں سے علاج کرایا ہوگا تو شاید چار ایسے تھے جنہوں نے یہ تو چاہا کہ مریض اچھا ہوجائے یہ نہیں چاہا کہ اس کی جیب میں جو ہے وہ نکال لو۔ ایک بہت معمولی سا مسئلہ تھا کہ دل کے سرجن ڈاکٹر ایس کے دویدی نے پیس میکر لگایا تھا اور وہ دوائوں کے ذریعہ خون پتلا رکھنا چاہتے تھے۔ ایک دن مسوڑے سے خون آنا شروع ہوا اور 36  گھنٹے ہوگئے خون بند نہیں ہوا مجبوراً میڈیکل کالج گئے۔ ڈاکٹر صاحب کے پاس جانے بھی نہیں پائے تھے کہ میرے بیٹے نے کہا چلئے گھر چلیں۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اوپر کھڑکی میں دلال کھڑا رہتا ہے اور جسے دیکھنا ہے کہ وہ کار میں آیا ہے تو اسے ہمدرد بن کر مشورہ دیتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کسی جونیئر کے سپرد کردیں گے اور وہ آپ کے پاپا کا کیس اور بگارڈ دیں گے شام کو آپ ماہ نگر میں گھر پر دکھادیں صرف تین سو روپئے فیس ہے بیٹے نے باپ کی محبت میں مشورہ مان لیا اور گھر آگئے۔

شام کو ان کے گھر گئے تو ایک فارم دیا گیا جس میں عمر بھر کے ہر مرض کی تفصیل لکھی گئی باپ اور ماں کی بیماری کی تفصیل لکھی گئی اور موجودہ تکلیف کا حال لکھا گیا۔ ایک گھنٹہ میں نمبر آیا۔ اندر گئے تو ڈاکٹر صاحب نے منھ کھولنے کے لئے کہا اس میں روئی بھری تھی اسے نکال کر بتایا کہ خون نہیں رُک رہا۔ ڈاکٹر صاحب نے معلوم کیا کہ آپ ڈاکٹر دویدی کے پاس گئے؟ ہم نے کہا وہ دل کے ڈاکٹر ہیں۔ کہا خون تو ابھی روکے دیتا ہوں اور آپ فوراً ان کے پاس جایئے وہ جو بتائیں وہ آکر مجھے بتایئے تب علاج ہوگا۔ انہوں نے روئی ایک دوا میں بھگوئی اور ڈاڑھ میں رکھ دی کہا اسے دبائے رہئے۔ ہم فوراً دویدی صاحب کے پاس گئے انہوں نے پوری کہانی سنی کہا ایک ہفتہ کے لئے میری دوائیں بند کردیجئے اور کسی کے پاس جانے کی ضرورت نہیں۔

ایسے نہ جانے کتنے معاملات ہیں۔ رہی ریٹائرمنٹ کی بات تو شاید چار سال پہلے مشہور ڈاکٹر اشوک چندرا صاحب ریٹائر نہیں ہوئے تھے اس زمانہ میں وہ میرا علاج کررہے تھے اور پرائیویٹ پریکٹس پر پابندی تھی اس وجہ سے اپنے ایک دوست ڈاکٹر کے ساتھ اس طرح آتے تھے جیسے کہیں دعوت کھانے جارہے ہوں۔ کچھ دنوں تک تو وہ آئے اور پردہ میں آئے پھر معلوم ہوگیا کہ ریٹائر ہوگئے۔ اس کے بعد آئے تو خوشخبری سنائی کہ غلامی ختم ہوگئی۔ بورڈ اور حکومت زور دے رہی ہے کہ دو سال اور میں کالج میں رہوں لیکن میں ایک دن بھی رہنے پر تیار نہیں ہوں مکان چھوڑ دیا ہے نئے مکان کا پتہ اور ٹیلی فون نمبر بھی دے گئے اور کہہ گئے اب آپ فون کرکے گھر آیا کیجئے۔ آج بھی وہ صبح نو بجے سے بارہ بجے تک سحر اسپتال میں بیٹھتے ہیں۔ پانچ سو روپئے فیس ہے دو سال پہلے مجھے سحر میں بھرتی ہونا پڑا کئی دن قیام رہا علاج اشوک چندرا صاحب کا ہی تھا اگر کوئی تکلیف بڑھ گئی اور ان کو اطلاع کی کہ آکر دیکھ لیں تو اس کی فیس پانچ سو روپئے الگ ہوتی تھی۔ اب جو آدمی کم از کم دس ہزار روپئے روز کماتا ہو اس کی ملازمت میں پانچ سال کی کیا حیثیت ہے؟ اور وہ صرف اس وقت تک نوکری کرنا چاہتا ہے جب تک اس کی شہرت دور دور تک نہ ہوجائے۔ اگر اکھلیش جی ملازمت کی عمر ڈاکٹر کے لئے پانچ سال کم کردیتے تو وہ شاید زیادہ خوش ہوتے۔

مسٹر اکھلیش یادو سیفئی میںمیڈیکل یونیورسٹی کھولنے جارہے ہیں سیفئی کی بس یہ حیثیت ہے کہ وہ ملائم سنگھ جی کا گائوں ہے۔ وزیر اعلیٰ اگر ایک تجربہ کررہے ہیں تو ضرور کرلیں لیکن ایک چھوٹے سے گائوں میں اپنے اپنے فن کے ماہر رہنا پسند کریں گے؟ اور پڑھنے والے جو شہروں کے عادی ہیں وہ پڑھنے کے لئے تیار بھی ہوں گے؟ یہ وقت بتائے گا۔ بات لکھنؤ کی ہو یا سیفئی کی اصل مسئلہ یہ ہے کہ آج ڈاکٹر کا مطلب یہ ہے کہ نوٹ چھاپنے کی مشین۔ ہر دولتمند اپنی لڑکی کی شادی ڈاکٹر سے کرنا چاہتا ہے وہ اس کے لئے نرسنگ ہوم کھول کر دینے کے لئے بھی تیار ہوتا ہے اس لئے کہ جب یونانی اور آیورویدک حکیم اور وید ڈاکٹر کا بورڈ لگاکر بیٹھتے ہیں اور ان کا داخلہ دس لاکھ روپئے میں ہوتا ہے اور انہیں چھوٹے کروڑ پتی داماد بنانا چاہتے ہیں تو ایم بی بی ایس اور ایم ڈی بننے میں تو کم از کم چار کروڑ خرچ ہوجاتے ہیں پھر اسے جو ملے وہ کم ہے۔
مسٹر اکھلیش یادو کو بہت سنجیدگی سے اس مسئلہ کو حل کرنا چاہئے اور انہیں گائوں میں اتنی تنخواہ دینی چاہئے کہ وہ سفارش کرائیں اور رشوت دیں کہ ان کی پوسٹنگ کسی گائوں میں ہوجائے۔ اور ہر چھوٹی جگہ کے اسپتال اور ڈاکٹر کی کوٹھی وزیروں کے بنگلوں جیسی ہونا چاہئے۔ اس مسئلہ پر سوچیں اور ان کے مسائل کا الگ بورڈ بنائیں۔

(یو این این)


*********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 516