donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Political Articles -->> Articles On State Of India
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Hafeez Nomani
Title :
   Kamal Ke Phool Par Jhadu Phir Gayi

کمل کے پھول پر جھاڑو پھر گئی


حفیظ نعمانی

ہمیں کبھی یہ غرور نہیں رہا کہ سیاست پر ہماری نظر حرفِ آخر ہے۔ البتہ یہ ضرور کہا بھی اور لکھا بھی کہ الیکشن کے معاملہ میں ہم اپنے وزیر اعظم سے زیادہ تجربہ کار ہیں۔ ایک مہینہ پہلے کی بات ہے کہ دس جنوری کو رام لیلا میدان میں وزیر اعظم کی ریلی ہوئی تھی۔ آپ کو یاد ہوگا ہم نے اسے بی جے پی کی کانفرنس لکھا تھا اس لئے کہ ریلی وہ ہوتی ہے جو صرف ایک لیڈر کے لئے ہوتی ہے اور کانفرنس وہ ہوتی ہے جس میں بڑے بڑے کئی لیڈر آتے ہیں۔ اس کانفرنس میں مہاراشٹر، ہریانہ اور جھارکھنڈ کے نئے وزیر اعلیٰ بھی آئے تھے اور جموں کے وہ لیڈر بھی آئے تھے جنہیں شری مودی اگر 60  سیٹیں جیت لیتے تو وزیر اعلیٰ بناتے۔
اسی کانفرنس میںبی جے پی کے صدر امت شاہ نے جو تقریر کی تھی اس کے متعلق ہم نے لکھا تھا کہ وہ جھوٹ کا پٹارہ تھا۔ کانفرنس کی افتتاحی تقریر امت شاہ نے ہی کی تھی انہوں نے کہا تھا کہ ہم نے حکومت بنانے سے پہلے جو وعدے کئے تھے وہ سب پورے کردیئے۔ ہم نے سات مہینے میں دس مرتبہ پیٹرول اور ڈیزل کے دام کم کردیئے جو برسوں سے نہیں ہوئے تھے۔ انہوں نے کالے دھن کے متعلق کہا کہ ہم نے جو کہا تھا اسے پور اکریں گے اس کے لئے ہم نے دوسرے ملکوں کی بھی مدد لی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مودی جی نے بے روزگاری کے لئے ایسے ایسے منصوبے بنائے ہیں کہ لاکھوں نوجوانوں کو روزگار مل جائے گا۔ امت شاہ کے بعد دوسرے وزیروں نے بھی تقریر کی بلکہ رسم ادا کی اور آخر میں وزیر اعظم بولنے کے لئے کھڑے ہوئے تو ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ان کے ماتھے پر پسینہ تھا اور ان کے بارے میں جو یہ مشہور ہے کہ وہ انگریزی بولتے ہیں تو زیادہ قابل لوگ سوچتے ہیں کہ اگر ہندی ہی بولیں تو اچھا ہے وہ اس دن ہندی میں تقریر کررہے تھے مگر ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے کوئی غیرملکی ہندی بول رہا ہے۔ وہ کہنا چاہ رہے تھے کہ جو جس کام میں ماہر ہو اُسے وہ کام دینا چاہئے جیسے جو لوگ دھرنا دینے راستہ جام کرنے بھوک ہڑتال کرنے میں ماہر ہیں انہیں وہ کام دینا چاہئے یا ہم جو سرکار چلانے میں ماہر ہیں انہیں سرکار کا کام دینا چاہئے لیکن کہہ رہے تھے جنہیں دھرنا دینے میں ماسٹری آتی ہو انہیں وہ کام دو اور ہمیں حکومت چلانے میں ماسٹری آتی ہے۔ ہمیں سرکار چلانے کا کام دو اس وقت ہماری سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ بار بار ماسٹری کیوں کہہ رہے ہیں؟ بعد میںمعلوم ہوا کہ چار صوبوں کے ورکر بلائے تھے اور دہلی کے سارے ورکر ان کے علاوہ تھے تب کل تعداد 35  ہزار تھی یہ وجہ تھی کہ زبان لڑکھڑا رہی تھی اور پسینہ آرہا تھا۔

ہم نے جو لکھا وہ اپنی جگہ اور ہر رپورٹر نے معلوم کیا کہ جب کرن بیدی کو لانے سے کوئی ناراض نہیں ہے تمام لیڈر اور ورکر آپ کے فیصلے سے خوش ہیں تو پھر 120  ایم پی اور تمام وزیروں کی ڈیوٹی کیوں لگی ہے؟ اس کا جواب شری مودی نے تو یہ دیا تھا کہ ہم 60  سیٹوں سے کم پر تیار نہیں ہیں اور ان کے جو الیکشن کے ان کے نزدیک ماہر ہیں یعنی امت شاہ انہوں نے کہا کہ دو تہائی سے کم پر ہم تیار نہیں تھے۔ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ دونوں کا انداز فرعون جیسا تھا۔ جبکہ کجریوال نے جو سویٹر اور جو مفلر گلے میںڈالا تو وہی اس دن بھی اس نے پہنا تھا جس دن شری مودی دس لاکھ روپئے کا کوٹ پہن رہے تھے۔

اب تک تو جو لکھا وہ پرانی باتیں تھیں۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ آخر جس پارٹی نے صرف آٹھ مہینے پہلے پارلیمنٹ کی ساتوں سیٹیں جیتی ہوں وہ ایک سال سے بھی کم وقت میں کیوں اتنی نظروں سے گرگئی کہ اپوزیشن لیڈر بھی نہ بنا پائی۔ اور وہی حالت ہوئی جو پارلیمنٹ میںکانگریس کی ہے۔ اس کی وجہ اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ شری نریندر مودی نے لوک سبھا کے الیکشن سے پہلے بھی صرف جھوٹ بولا اور الزام بھی جھوٹے لگائے اور ہر وعدہ جھوٹا کیا اور سات مہینے کے بعد جب رام لیلا میدان میں تقریر کی تب بھی خود انہوں نے اور ان سے زیادہ امت شاہ نے جھوٹ بولا۔ اور جہاں جہاں الیکشن ہوا وہاں ہر ایک سے ایک ہی وعدہ کیا کہ آپ کے پیار کا میرے اوپر قرض ہے میںقرض مع سود کے اتاروں گا اور وہ سود وکاس ہوگا یا بھرشٹاچار مکت ہوگا۔ لیکن کہیں نہ وکاس ہوا اور نہ بھرشٹاچار ختم ہوا۔ ہر جگہ خود ہی اپنے کو شاباشی دے لی یا امت شاہ نے جنہیں اسی کام کے لئے نوکر رکھا ہے ان کی شان میں قصیدہ پڑھ دیا۔

آٹھ تاریخ کو ہم نے لکھا تھا کہ ایگزٹ پول کی تلاش میںہم ٹی وی کے چینل بدل رہے تھے کہ دیپک چورسیا کی آواز آئی کہ پندرہ منٹ کے بعد میں ایسی خبر سنائوں گا کہ آپ کرسی سے چپک کر رہ جائیں گے اور انہوں نے اعلان کے مطابق پندرہ منٹ کے بعد کہا کہ کجریوال کو 53  سیٹیں ملیں گی۔ ہم ہنس دیئے اور دوسرے چینل دیکھے تو ہر ایک میں دو چار کا فرق تھا۔ اس کے بعد آٹھ بجے عام آدمی پارٹی کے سب سے سنجیدہ اور مدلّل گفتگو کرنے والے مسٹر یوگیندر یادو نے کہا کہ جو لوگ ایگزٹ پول بتا رہے ہیں وہ اپنی جگہ لیکن میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ جیسے نتیجے آئیں گے اس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا اور یہی ہوا کہ کسی نے شاید خود کجریوال نے بھی نہ سوچا ہوگا کہ پوری اسمبلی کی ہر سیٹ پر ان کا آدمی بیٹھا ہوگا۔

یہ تو حقیقت ہے کہ یہ صرف دہلی کا الیکشن تھا۔ اگر ہار جیت دو چار سیٹوں کی ہوتی تو عام بات ہوتی لیکن جو حالت دونوں نیشنل پارٹیوں کی ہوئی ہے وہ بھی اس پارٹی کے ہاتھوں جو ابھی شیشی سے دودھ پی رہی ہے اس نے پورے ملک کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ سب سے پہلے تو کشمیر کا مسئلہ سامنے آئے گا کہ اب مفتی سعید جو بڑی پارٹی ہونے کے باوجود بی جے پی کو سر پر بٹھانے پر مجبور تھے اب ان کا لہجہ بدل جائے گا۔ اسی کے ساتھ بہار کا مہا دلت وزیر اعلیٰ جو اوقات بھول گیا تھا اور جو دہلی میں مہاراجہ کے تلوے چاٹ کر مدد لینے آیا تھا اسے بھی سوچنا پڑے گا کہ جب راجہ کو ہی عزت کے لالے پڑے ہیں تو وہ مہادلت کو ٹھاکر کیسے بنائیں گے؟

خبروں کے مطابق مودی صاحب نے کجریوال کو مبارکباد دی ہے۔ ایسی مبارکباد ایک عام بات ہے اہمیت یہ ہے اس آدمی کو مبارکباد دی ہے جس کا کبھی مودی نام نہیںلیتے تھے اور ان کی پارٹی کو پارٹی یا دَل نہیں کہتے تھے اور وہی نہیں دوسرے درجہ کے صوبائی لیڈر بھی کہتے تھے کہ وہ نہ پارٹی ہے نہ دَل مٹھی بھر لفنگے ہیں جنہیں بندی بھی چھوڑ آئے اور جنہیں مولانا اسحاق علمی کی دختر شاذیہ علمی بھی چھوڑکر آگئی لیکن ان ہی مٹھی بھر لفنگوں نے کمل کے پھول پر ایسی جھاڑو پھیری کہ پتی پتی بکھر گئی۔

(یو این این)


******************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 516