donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Political Articles -->> Articles On State Of India
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Hafeez Nomani
Title :
   Kya Mision 60 Ka Hashr Kashmir Jaisa Hoga

کیا مشن 60  کا حشر کشمیر جیسا ہوگا؟


حفیظ نعمانی

دہلی کے الیکشن میں جب 100  گھنٹے سے بھی کم رہ گئے تو ہمت کرکے وزیر اعظم شری نریندر مودی نے انتخابی منشور کی جگہ ویژن پیپر جاری کرادیا۔ یہ معمہ بہرحال معمہ ہی رہا کہ منشور کیوں نہیں جاری کیا؟ ویزن پیپر کی جو بھی حیثیت ہو بہرحال اسے منشور کا بدل کہا گیا ہے جس میں بہت سے وہ وعدے کئے گئے ہیں جو منشور میں کئے جاتے ہیں، مسلمانوں کو بھی کچھ دینا تھا تو مدرسہ بورڈ دینے کا وعدہ کرلیا اور دہلی کے فیشن ایبل علاقوں میں رہنے والوں کے لئے اسمارٹ سٹی کا جھنجھنا تھما دیا۔ بجلی اور پانی کی بہتر سپلائی اور بیوائوں اور ضعیفوں کو پنشن کے وہ گھسے پٹے وعدے جب سب کرتے ہیں ان کا وعدہ انہوں نے بھی کرلیا۔ ہمارے نزدیک تو یہ سب فضول کی باتیں ہیں جن میں سے کوئی نہیں ہونا ہے۔ اصل چیز حکومت ہے جو مودی کو ہاتھوں سے جاتی ہوئی نظر آرہی ہے اس نے انہیں اپنے مقام سے بہت نیچے اتار دیا ہے وہ جس طرح ہاتھ نچانچاکر اور ڈائس پر گھونسہ مارمارکر یا اپنے یوگا بنے ہوئے جسم کو ہلا ہلاکر بھاشن دے رہے ہیں وہ پنڈت نہرو سے لے کر سردار منموہن سنگھ تک کسی ایک وزیر اعظم کو بھی کسی نے نہیں دیکھا ہوگا۔

10 جنوری کی رام لیلا میدان کی ریلی کی ناکامی کو دیکھ کر جو اُن کا منھ کڑوا ہوا ہے وہ ایک مہینہ ہونے کو آیا مگر کڑواہٹ دور نہیں ہوئی۔ ایک طرف وہ امریکی صدر براک اوبامہ کے کاندھے سے کاندھا ملاکر کھڑے ہوتے ہیں 26  جنوری کی تقریب میں بیٹھتے ہیں تو جے پور کی چندری پگڑی جس میں 9  اِنچ کا شملہ ان کے قد کو اوبامہ سے بڑا کرتا ہے وہ سر پر رکھ سکتے ہیں۔ مہمان کو مرعوب کرنے اور ہندوستان کو بے نیاز ثابت کرنے کے لئے ساڑھے سات لاکھ کا وہ کوٹ پہنتے ہیں جو شاید ہندوستان میں امبانی پہنتے ہوں تو پہنتے ہوں نہرو گاندھی خاندان نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا۔ اور اپنے دوست کے جانے کے بعد اتنا نیچے اترتے ہیں کہ اوبامہ سے نہیںان کے سب سے کم درجہ کے سکریٹری سے بھی چھوٹے اروند کجریوال سے ایسے لڑتے ہیں جیسے چوتھے درجہ کے ملازموں کی بیویاں پڑوسنوں سے لڑتی ہیں۔

ہماری جوانی کے جتنے برس بھی ہوں وہ اپنے پریس کی دیکھ بھال میں گذرے یا سیاست میں یا شاعروں کی صحبت میں۔ شاعروں کے متعلق اندازہ ہوا کہ اکثر غزلیں وہ ہوتی ہیں کہ کسی شاعر نے کوئی شعر بہت اچھا کہہ دیا پھر مہینوں کوشش کی کہ چند شعر اسی بحر میں اور ہوجائیں تو غزل ہوجائے لیکن جانے کتنے شاعر ہوں گے جنہوں نے غزل پوری کرلی اور جانے کتنے وہ ہوں گے جو اس ایک شعر کو ہی لئے بیٹھے رہے۔ ہمارے وزیر اعظم کا بھی ایسا ہی مسئلہ ہے کہ انہوں نے جو ایک شعر ہریانہ اور مہاراشٹر کے لئے کہا تھا پھر دوسرا کشمیر کے لئے نہ کہہ سکے جیسا تیسا جھارکھنڈ کے لئے تو کہہ لیا لیکن چاہا کہ دہلی میں غزل مکمل ہوجائے لیکن غزل کے بجائے ہزل ہوتی جارہی ہے۔ انہوں نے چار ریلیوں کی منظوری دی تھی جس میں سے تین ہوچکی ہیں اور سیاسی پنڈت ایک ہی بات کہہ رہے ہیں کہ کجریوال انہیں کامیاب ہوتے نظر آرہے ہیں۔ مودی صاحب کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ ہر ریلی میں وہ تقریر کرتے نظر نہیں آتے بلکہ ایک معمولی آدمی اروند کجریوال سے دو بہ دو لڑتے نظر آرہے ہیں۔ اب انہوں نے ان پر الزام لگایا ہے کہ ان کے پاس حوالہ کا روپیہ آرہا ہے۔ اور اپنے متعلق یہ نہیں بتاتے کہ لوک سبھا کے الیکشن میں جو انہوں نے پانچ لاکھ کروڑ (سب سے بزرگ صحافی اور سابق سفیر) کلدیپ نیر کے کہنے کے مطابق خرچ کیا تھا کیا وہ چائے بیچ کر آیا تھا؟

الیکشن کوئی لڑے ہر پارٹی کو بڑے لوگ چندہ دیتے ہیں اور وہ سارا روپیہ نمبر دو کا ہوتا ہے۔ شری مودی کو جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں مسز اندرا گاندھی کو حکومت سے کتنا ملتا تھا یہ تو اس زمانہ کے وزیر جانیں اور الیکشن میں کتنے ہزار کروڑ ملتے تھے اس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا۔ یہی راجیو گاندھی کا حال تھا اور یہی ہر وزیر اعظم کا حال رہا اس کے بعد کجریوال کے دس بیس لاکھ روپئے کے لئے وزیر اعظم مودی کا ناچ ناچ کر ایسا انکشاف کرنا جیسا انہوں نے چور پکڑلیا سوائے ہارنے کے خوف کے اور کیا ہے؟

شری نریندر مودی نے بھگوا پوشاک والوں کو یہ سوچ کر الیکشن لڑایا تھا کہ ان کے چیلے انہیں کامیاب کرادیں گے اور وہ ان کے اشارہ پر ہاتھ اٹھا دیا کریں گے لیکن اب وہ گلے کا سانپ بن گئے ہیں۔ اُناؤ کے ساکشی جنہیں ہزاروں جاہل مہاراج کہتے ہیں وہ روز ایک نیا تنازعہ کھڑا کردیتے ہیں۔ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ہم حکومت بنا سکتے ہیں تو ہم گرا بھی سکتے ہیں۔ انہوں نے وزیر اعظم کو حکم دیا ہے کہ اگر وکاس ہوگا تو ہندوتو بھی ہوگا اگر مودی نے صرف وکاس کی بات کی تو کشتی بھنور میں پھنس جائے گی۔ دوسری سادھوی جنہیں وزیر اعظم نے پچھڑی ذات ملاح کی ناسمجھ کہہ کر ممبران سے معافی دلوائی تھی۔ انہوں نے لوجہاد اور ہندو عورتوں کو چار بچے پیدا کرنے کی بات کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ لوگ ہماری بیٹیوں کو لوجہاد کے پھندے میں پھانس کر ان سے چالیس بچے پیدا کراتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہندوستان کو دارالاسلام بنا لیا جائے۔ جس تقریب میں پراچی بھاشن دے رہی تھیں وہ وشوہندو پریشد کے زیراہتمام ان عورتوں کو مبارک باد دینے کی تقریب تھی جنہوں نے چار سے زیادہ بچے پیدا کئے ہیں۔

وزیر اعظم اس بھگوا بریگیڈ سے کیسے نبٹیں گے یہ تو وہ جانیں لیکن انہیں اپنے اندر بہت بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کشمیر میں 40  سیٹیں جیتنے کا نشانہ بنایا تھا جسے مشن 40  کا عنوان دیا تھا اور جب دہلی کی باری آئی تو مشن 60  اپنا لیا یہ دونوں نشانے بہت چھوٹی ذہنیت کی علامت ہیں وہ بی جے پی کے صدر نہیں ہیں وزیر اعظم ہیں لیکن وہ دیکھ رہے ہیں کہ کسی کو کپڑے پہناکر بادشاہ نہیں بنایا جاسکتا اسی طرح راہ چلتے کسی ایسے کو جس کی کمر پر دو جوان شوہر اور بیوی کو قتل کرانے کا الزام ہو اُسے چاہے کسی بھی عدالت سے کلین چٹ دلائی جائے عوام اسے مجرم ہی سمجھیں گے اس لئے کہ عدالتیں ہمیں معاف کریں۔ کبھی تھا عدلیہ قابل فخر اب اس سے زیادہ قابل شرم کوئی محکمہ نہیں ہے۔

یہی وجہ ہے کہ پارٹی کا صدر جب بولتا ہے تو پانچ سو آدمی نہیں آتے اور جب انہیں کوئی رپورٹر رگڑتا ہے تو وہ ہانپنے لگتے ہیں اس لئے کہ دہلی کے الیکشن میں جتنی غلطیاں ہوسکتی تھیں وہ بی جے پی نے نہیں مودی صاحب نے کرڈالیں اور صرف اس لئے کہ وہ ہرحال میںجیتنا چاہتے تھے۔ اب کجریوال نے الیکشن مشین کی ایک خرابی کا حوالہ دیا تو سب کے مرچیں لگ گئیں۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان مشینوں میں یہ ہوچکا ہے کہ چاہے جو بٹن دبائو کمل کے پھول پر پڑتا تھا۔ اسی کا علاج یہ ہوا تھا کہ پرچی نکلتی تھی۔ لیکن ہر مشین میں نہیں۔ اب الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر مشین کو ایسا بنوا دے اور جس میں پرچی نہ نکلے اسے استعمال نہ کرے اس لئے کہ اگر حکومت ہارنے لگتی ہے تو وہ سب کچھ کرالیتی ہے اس لئے اگر کجریوال ہارے تو صرف مشین کی کاریگری سے ہاریں گے ورنہ وہ جیت رہے ہیں اور یہ بات وزیر اعظم کو بھی معلوم ہے۔

(یو این این)


***********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 458