donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Political Articles -->> Articles On State Of India
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Hafeez Nomani
Title :
   Modi Lahar Ya Awaam Ka Ghussa

مودی لہر تھی یا عوام کا غصہ؟

 

حفیظ نعمانی

مہاراشٹر اور ہریانہ کے نتیجے تو آگئے لیکن ایک نئی بحث چھڑگئی ہے کہ مودی جی کی لہر برقرار رہی یا اس میں کمی آئی؟ ہم ان لوگوں میں ہیں جو یہ مانتے ہیں کہ نہ لوک سبھا کے الیکشن میں کوئی لہر تھی اور نہ اب لہر کا کوئی وجود تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ الیکشن پارٹی لڑتی ہے اور ہار جیت بھی پارٹی کے نام لکھی جاتی ہے لیکن برسہابرس سے ہو یہ رہا ہے کہ عوام حکومت سے مایوس ہوتے ہیں اور پھر ناراض ہوجاتے ہیں اور اپنا غصہ حکمراں پارٹی کو ہراکر نکال لیتے ہیں۔

یہی وہ مایوسی اور غصہ تھا جو لوک سبھا کے الیکشن میں عوام نے بی جے پی کو ووٹ دے کر نکالا اور یہی وہ غصہ تھا جو دس سال سے ہریانہ کے وزیر اعلیٰ کی من مانی کے خلاف بھرا ہوا تھا وہ ہریانہ میں بی جے پی اور چوٹالہ کو ووٹ دے کر نکالا اور مہاراشٹر میں بی جے پی اور شیوسینا کو ووٹ دے کر نکالا اور جس اجیت پوار سے عوام سب سے زیادہ ناراض تھے اسے چوتھی پارٹی بنا دیا۔

جہاں تک مودی جی کی لہر کی بات ہے تو اگر اُن کی لہر ہوتی تو ہریانہ میں یا اُن کو ووٹ ملتے یا کانگریس کو لیکن ہوا یہ کہ دوسرے نمبر پر وہ پارٹی رہی جو پریوار کا نشان تھی اور جس کا لیڈر بھرشٹاچار کے الزام میں دس سال کی سزا کاٹ رہا ہے۔ مودی جی نے ہریانہ میں کانگریس پر بھی حملے کئے لیکن سب سے زیادہ پریوار اور بھرشٹاچار کو موضوع بنایا اگر مودی جی کی لہر ہوتی تو اوم پرکاش چوٹالہ کی پارٹی کا ایک اُمیدوار بھی کامیاب نہ ہوتا لیکن وہ دوسرے نمبر کی پارٹی رہی اور ہوسکتا ہے کہ الیکشن سے تین دن پہلے انہیں جیل نہ بھیجا جاتا تو دس پانچ سیٹیں اور لے آتے یہی مہاراشٹر میں ہوا کہ جب بی جے پی اکیلے لڑرہی تھی اور مودی جی سب سے زیادہ شردپوار اور ان کے بھتیجے پر حملے کررہے تھے، کانگریس کو بھی نشانہ بنا رہے تھے اور شیوسینا کو ہفتہ وصول کرنے والی پارٹی قرار دے رہے تھے اس کے باوجود وہ صرف 123 سیٹوں پر کامیاب ہوئے۔ اگر لہر ہوتی تو اُن کو 200 سیٹوں پر کامیابی حاصل ہونا چاہئے تھی۔

یہ بات اسی الیکشن کی نہیں برسوں سے ہر الیکشن میں منفی ووٹ فیصلہ کررہا ہے اُترپردیش کے عوام جب ملائم سنگھ سے ناراض ہوئے تو انہوں نے مس مایاوتی کو مکمل اکثریت دے دی اور جب پانچ سال اُن کا تلخ تجربہ کرلیا تو پھر اُنہیں ہرانے کے لئے ووٹ دیئے ملائم سنگھ کو اگر جتانے کے لئے ووٹ دینا تھے تو پانچ سال پہلے اُنہیں ہرایا ہی کیوں تھا؟ یہی ووٹ کانگریس کو بھی مل سکتے تھے اور بی جے پی کو بھی لیکن ان دونوں کا تجربہ کرکے عوام فیصلہ کرچکے تھے کہ ان کو تو نہیں دینا ہے۔ اور اب جو کہا جارہا ہے کہ ہریانہ اور مہاراشٹر کے بعد اُترپردیش اور بہار کی باری ہے تو بی جے پی کو دماغ سے نکال دینا چاہئے اور ان لوگوں کو بھی جو بی جے پی کے نئے صدر امت شاہ کی صلاحیتوں کا ڈھنڈورہ پیٹ رہے ہیں۔ امت شاہ نے نہ لوک سبھا کے الیکشن میں اُترپردیش میں کچھ کیا تھا اور نہ مہاراشٹر میں کوئی کارنامہ انجام دیا۔ اگر وہ کسی قابل ہوتے تو 4 اکتوبر تک مودی جی کا ہاتھ پر ہاتھ رکھ کے بیٹھے انتظار نہ کررہے ہوتے اور نہ مودی جی کو 27 ریلیاں کرنا پڑتیں۔

مودی جی کا یہ جملہ بار بار مہاراشٹر میں سنایا گیا کہ اگر گوپی ناتھ منڈے زندہ ہوتے تو اُنہیں مہاراشٹر میں اتنی محنت نہ کرنا پڑتی۔ معلوم نہیں مودی جی نے یہ جملہ کہا بھی تھا یا نہیں کہا تھا اور کہا تھا تو کب کہا تھا اس لئے کہ وہ مہاراشٹر کے اپنے علاقہ میں مقبول تھے۔ اور یہ تو سب کو یاد ہوگا کہ انہوں نے برملا کہا تھا کہ میں نے اپنے الیکشن میں دو کروڑ روپئے خرچ کئے ہیں جس پر ممبئی سے دہلی تک کہرام مچ گیا تھا۔ بہرحال مودی جی کو اپنی 27 ریلیوں کو حق بجانب ٹھہرانے کے لئے کچھ تو کہنا تھا اس لئے کہ جس کی لہر ہوتی ہے وہ صرف ایک جھلک دکھاتا ہے یا صرف ایک اشارہ کردیتا ہے گاؤں گاؤں جلسے نہیں کرتا۔

شیوسینا کے ترجمان ’سامنا‘ نے تو یہ کہا ہے کہ اگر بی جے پی اور شیوسینا مل کر لڑتے تو سونیا گاندھی اور پوار کو مل کر بھی 25 سیٹیں نہ ملتیں۔ لیکن ہمارا خیال یہ ہے کہ اگر سونیا گاندھی اور راہل گاندھی نے سماجوادی پارٹی اور اتحاد المسلمین سے معاہدہ کرلیا ہوتا تو مسلمانوں کے لاکھوں ووٹ برباد نہ ہوتے اور کانگریس آسانی سے 75 سیٹیں جیت سکتی تھی اور یہ وہ سیٹیں ہوتیں جو بی جے پی کو مل گئیں۔

مسٹر شردپوار نے 15 سال کانگریس کے ساتھ رہ کر جس طرح اس سے رشتہ ختم کیا ہے ہوسکتا ہے ان لوگوں کو اس پر حیرت ہو جو پوار کو نہیں جانتے لیکن ہمیں اس لئے کوئی حیرت نہیں ہوئی کہ انہوں نے مسز سونیا گاندھی کو کبھی اپنا لیڈر نہیں مانا اور وہ جو کانگریس کی ٹانگ کے ساتھ اپنی ٹانگ باندھے رہے وہ صرف اقتدار کے لئے۔ انہوں نے اندراجی کو بھی اس وقت دھوکہ دیا تھا جب وہ دیوراج ارس کی کانگریس میں شامل ہوگئے تھے اور پھر ارس صاحب کے انتقال کے بعد خود ارس کانگریس کے صدر ہوگئے تھے۔ غرض کہ قلابازی کھانا اُن کا پرانا شوق ہے اور یہ صحیح ہے کہ وہ الیکشن سے پہلے ہی مودی جی سے معاملہ کرچکے تھے اور اگر مودی جی کی سیٹیں 100 سے کم ہوتیں تو وہ کوئی دوسرا سودا کرتے۔ اور اب بھی یہ آخری بات نہیں ہے کہ وہ باہر سے حمایت دے رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ کوئی ایسا وقت آجائے جیسا وہ چاہتے ہیں تو مہاراشٹر کے عوام کی بہتری کے لئے وہ اندر جانے میں بھی شرم محسوس نہیں کریں گے۔


******************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 448