donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Political Articles -->> Articles On State Of India
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Hafeez Nomani
Title :
   Nataej Ke Elan Se Pahle Bihar Ke Voters Ko Mubarakbad

نتائج کے اعلان سے پہلے بہار کے ووٹروں کو مبارکباد


حفیظ نعمانی

 

بہار کا الیکشن کیا ختم ہوا جیسے ملک کے اوپر سے قیامت بغیر خون میں نہلائے گذر گئی۔ جس وقت تاریخوں کا اعلان ہوا تھا اس وقت سے ہمیں اور ہمارے جیسے سوچنے والوں کو یہ فکر ہونے لگی تھی کہ ان ہی دنوں میں عیدقرباں، ان ہی دنوں میں محرم اور ان ہی دنوں میں دسہرا اور دُرگا پوجا کی تقاریب ہونا تھیں۔ ان میں ہر تقریب ایسی تھی کہ ان کے منانے والے کچھ زیادہ ہی پرُجوش ہوجاتے ہیں لیکن پروردگار کا کرم ہے کہ جان اور خون کا تھوڑا سا خراج لے کر سب کچھ گذر گیا اور الیکشن کے پانچ رائونڈ بغیر کسی بڑے حادثے کے تمام ہوگئے۔

کل شام ووٹنگ ختم ہونے کے بعد ایک منٹ کی تاخیر کے بغیر ٹی وی چینلوں نے اپنے پٹارے کھول دیئے اور تقریباً ہر کسی نے یہ تسلیم کیا کہ دونوں فریقوں نے اپنی پوری طاقت جھونک کر الیکشن کو ایسی جگہ لاکر کھڑا کردیا ہے کہ 100  فیصدی یقین کے ساتھ دونوں میں سے کسی کی کامیابی کی پیشین گوئی نہیں کی جاسکتی۔ آخری رائونڈ میں وہ چار اضلاع شامل تھے جو مسلم غلبہ کے بتائے جاتے ہیں اور جسے سیمانچل بھی کہا جاتا ہے۔ اس رائونڈ میں سب سے زیادہ یعنی 60  فیصدی پولنگ اس کا ثبوت ہے کہ مسلمانوں نے ہر جگہ کی طرح اور ہمیشہ کی طرح بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔

یہ بات ہم نے بہت غور سے اور ہر سیاسی مزاج رکھنے والے نے عام طور پر دیکھی ہے کہ ہندوئوں کو الیکشن سے زیادہ دلچسپی نہیں ہوتی۔ ہم نے 1953 ء سے 1993 ء تک چالیس برس باغ گونگے نواب میں گذارے۔ وہیں پریس تھا اور وہیں رہائش اور اسی میں ممتاز انٹر کالج تھا جس میں پولنگ اسٹیشن ہوتا تھا۔ اور اس جگہ پرتاپ مارکیٹ تھی جس کے اوپر کے مکانات میں سیکڑوں پنجابی سندھی رہتے تھے لیکن پولنگ اسٹیشن پر صبح سے شام تک مسلمانوں کی تو بھیڑ نظر آتی تھی لیکن جن کے گھر سے ملا ہوا پولنگ سینٹر تھا وہ ووٹ ڈالنے کو وقت خراب کرنا کہہ کر اپنے گھروں میں چھٹی سے فائدہ اٹھاکر کھاتے ٹھیک کرتے رہتے تھے اور بیوی بچوں کے ساتھ موج کرتے رہتے تھے۔

ہمیں یہ یقین ہے کہ یہ اس لئے ہوتا ہے کہ مسلمان کو فکر ہوتی ہے کہ اس کے حلقہ سے کوئی تنگ ذہن کا امیدوار یا کسی فرقہ پرست ذہنیت کی پارٹی کا امیدوار نہ جیت جائے۔ رہے ہندو بھائی تو انہیں کیا فکر ہے؟ بہار میں حکومت نتیش کی بنے سوشیل مودی کی بنے یا لالو کی ان میں ہر کوئی ہندو ہوگا اور وہ اپنے اقتدار کے زمانہ میں کچھ بھی ہوجانے دے گا لیکن ہندو کے ساتھ کسی کو زیادتی نہ کرنے دے گا۔

بہار میں مسلمان صرف ان ہی اضلاع میں نہیں ہیں ہر جگہ ہیں اور ملک کے ہر صوبہ، ہر ضلع اور ہر حلقہ میں انہیں یہی فکر رہتی ہے اور یہ انتہائی خوشی کی بات ہے کہ وہ اس مسئلہ کی نزاکت کی وجہ سے مسلمان امیدوار اور مسلم پارٹی کو بھی نظر انداز کردیتے ہیں۔ اس سیمانچل میں حیدر آباد سے مسٹر اسدالدین اویسی 30  امیدوار کھڑے کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے جب جوشیلی تقریریں کرکے مسلمانوں کو متحد ہونے کے لئے پکارا تو خبروں کے مطابق کشن گنج میں ان کی تقریر سننے کے لئے 75  ہزار مسلمان آگئے اور انہیں یقین ہوگیا کہ انہوں نے سیمانچل فتح کرلیا۔ ہم ان سے پہلے اعلان کرچکے تھے کہ بہار کے الیکشن میں ہم آخر آخر تک وہاں کے مسائل پر لکھتے رہیں گے۔

اویسی صاحب کی تقریر کے بعد ایسے دوستوں کے بھی ٹیلیفون آئے جنہیں فکر ہوگئی کہ ان کے دخل دینے سے مسلم ووٹ تقسیم ہوجائیں گے جس کا فائد بی جے پی کو ہوگا اور کئی ٹیلیفون نوجوان مسلمانوں کے بھی آئے جس میں ہم سے فرمائش کی گئی کہ خدا خدا کرکے مسلمانوں کو ایک بہادر لیڈر مل گیا ہے جو قیادت کے خلا کو پرُ کردے گا۔ آپ اس کی حمایت کریں۔

ہم جو لکھنؤ میں بیٹھے تھے اور سفر کے قابل بھی نہیں تھے کیسے تلوار کی دھار پر چل کر منزل پر پہونچتے؟ ہم نے دعا بھی مانگی کہ قادر مطلق ہمیں صراط مستقیم دکھائے اور اپنے عزیز دوست والی آسیؔ کے شعر کی روشنی میں مدد بھی مانگی کہ   ؎

میں لکھنا چاہتا ہوں مجھ کو رہنمائی دے
مرے خدا مجھے تھوڑی سی روشنائی دے

اور پھر ’’چل مرے خامہ بسم اللہ‘‘ کہہ کر لکھنا شروع کیا اور جتنا جتنا لکھتے رہے اتنا ہی پٹنہ سے نکلنے والے اخبارات قومی تنظیم، پندار، بہار سنگم نے ایک ایک دن میں ہمارے دو دو مضمون چھاپے جن میں ہم نے آزادی کے دوسرے سال ہی میں مولانا آزادؔ کے اس مشورہ سے شروع کرکے کہ ’’اب مسلمان اپنی الگ کوئی تنظیم نہ بنائیں انہیں نظریاتی طور پر جو سیاسی پارٹی اچھی لگے اس میں باوقار طریقہ سے شامل ہوجائیں‘‘ کے بعد ہندوستان میں جتنے مسلمان لیڈروں نے جو جو پارٹیاں بنائیں ان کے عبرتناک انجام کی وہ داستانیں جن سے کیرالہ کے علاوہ ہر جگہ کے مسلمان بے وقعت ہوئے اور ان تنظیموں کی نماز جنازہ میں شریک ہونے کے لئے بھی ایک ایک مسلمان کو خوشامد کرکے بلانا پڑا۔

ہم ان تمام اخباروں کے احسان مند ہیں جنہوں نے صرف ہماری بات ہی ان تک نہیں پہونچائی بلکہ خود بھی اسی لب و لہجہ میں انہوں نے بھی مشورہ دیا کہ ہر حکومت سے شکایت مسلمانوں کا مقدر ہے اور کوئی علاقائی پارٹی مسلمانوں کے لئے کیا کرے گی جب سب سے پرانی نیشنل پارٹی کانگریس مسلمانوں کی منھ بھرائی کے خوف سے مسلمانوں کی طرف اپنا بڑھا ہوا ہاتھ بھی کھینچ لیتی تھی کہ کہیں اس کے ہندو ووٹ اس کی طرف سے منھ نہ موڑ لیں۔ ہم نے لالو یادو کی ہمیشہ تعریف کی اور اس وجہ سے کی کہ ان سے بڑا سیکولر ہم پنڈت نہرو کو بھی نہیں مانتے اور اس لئے نہیں مانتے کہ نہرو کو جب پنڈت پنت نے 1948 ء میںجواب دیا کہ اگر بابری مسجد کے اندر سے مورتیاں نکال کر وہیں رکھی گئیں جہاں سے آئی تھیں تو خون خرابہ ہوجائے گا۔ اور نہرو جی نے یہ نہیں کہا کہ اچھا تم آجائو میں ایسے آدمی کو وزیر اعلیٰ بنائوں گا جو مورتیاں بھی نکال دے گا اور خون خرابہ بھی نہیں ہوگا اور نہروجی نے جب 1961 ء میں مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ کیلاشی ناتھ کاٹجو سے کہا کہ تمہارے ہوتے جبل پور میں سیکڑوں مسلمان مار دیئے گئے اور اُن کی دکانیں اور مکان جلا دیئے گئے یہ کیسے ہوگیا؟ تو ان کے جواب کو نہروجی نے سچ مان لیا کہ ابتدا مسلمانوں نے ہی کی تھی۔

اور یہ ان دونوں سے بہت بڑا مسئلہ تھا کہ اڈوانی جو اس وقت 52  گز کے لیڈر تھے وہ ملک میں رتھ یاترا کے ذریعہ آگ لگانے کی کوشش کررہے تھے۔ لالو یادو نے انہیں اور ان کے رتھ کو ایسے ہی روک کر بند کردیا جیسے وہ ملک کے دو سب سے بڑے لیڈروں میں سے ایک ہوں اپنی پارٹی کے معمولی ورکر ہوں۔ اب اسے مودی صاحب کی بدقسمتی کہیں یا لالو اور نتیش کی خوش قسمتی کہ پورے ملک میں پے در پے ایسے واقعات ہوئے کہ مسلمانوں اور سیکولر ہندوئوں کو محسوس ہونے لگا کہ اگر مودی صاحب کی اس مہم کو بے وزن نہ کیا گیا تو جسمانی اور مالی اعتبار سے کمزور بہار تو وہیں پہونچ جائے گا جہاں سے بمشکل تمام اسے نکال کر لائے ہیں۔

اور یہ بھی بہت اچھا ہوا کہ مسلم غلبہ والے اضلاع کا الیکشن سب سے آخر میں ہوا۔ وہاں کے ووٹروں کو وہ سب دیکھنے کو ملا جسے دیکھ کر ملک کی شان اور عزت آبرو سمجھے جانے والے دانشوروں اور ہر زبان کے ادیبوں نے سیکڑوں کی تعداد میں وہ ایوارڈ حکومت کو لوٹا دیئے جو اس کا ثبوت تھے ان کے میدان میں ان سے بڑا کوئی نہیں ہے۔ اور ہر کسی کی زبان پر ایک ہی بات تھی کہ ملک میں عدم رواداری اور عدم تحمل کی فضا اتنی آلودہ ہوگئی ہے کہ دم گھٹا جارہا ہے۔ اور ووٹروں نے وہ بھی دیکھا جو بہار میں ہوا کہ ’وکاس- وکاس- وکاس‘ کی رٹ لگاتے ہوئے آنے والے مودی صاحب جاتے جاتے وہ زبان بولنے لگے جو ساکشی مہاراج اور سادھوی پراچی کی زبان ہے۔ اور ان کے سب سے بڑے معتمد امت شاہ نے کہہ دیا کہ نتیش لالو جیتے تو پاکستان میں خوشی کے پٹاخے چھوٹیں گے اور گائوں گائوں گلی گلی گائے کے گوشت کی دکانیں کھل جائیں گی۔

بی جے پی کے صرف دونوں بڑوں نے ہی نہیں ان کے آقا بھاگوت صاحب نے بھی دادری واقعہ پر اپنی فوج سے جواب طلب کرنے کے بجائے زخموں سے چور چور جسموں پر نمک چھڑک دیا اور علم و دانش کے اعتراف میں ملے ایوارڈوں کو لوٹانے والے ملک کے اتنے بڑے واقعہ کو سیاسی سازش قرار دے کر ثابت کردیا کہ وہ ہندو راشٹر سے کم پر راضی نہیں ہیں۔ بہرحال اب نتیجہ کچھ بھی ہو ہم بہار کے مسلمانوں کو مبارکباد دینا اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ انہوں نے انتہائی دانشمندی کا ثبوت دیا ہے۔

(یو این این)


  فون نمبر: 0522-2622300  
 


********************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 518