donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Political Articles -->> Articles On State Of India
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Nayab Hasan
Title :
   Dekhiye Is Bahar Ki Tah Se Uchhalta Hai Kya

دیکھیے اِس بحرکی تہہ سے اُچھلتا ہے کیا؟


نایاب حسن


    یوںتوکل دہلی میں اسمبلی الیکشن کے لیے ووٹنگ ہونا ہے اوراب انتخابی تشہیرکی ساری آپادھاپی اورہنگامہ آرائی تھم گئی ہے،مگرانتخابی مہم میں بی جے پی جس طرح مسلسل اپنی انتخابی حکمت عملی میں تبدیلی کر تی رہی اور ۱۸؍مرکزی وزرا سمیت اپنے زیرِ اقتدارریاستوں کے وزراے اعلیٰ، پارٹی کے۱۲۰؍ اراکینِ پارلیمنٹ، آر ایس ایس کے رضاکار اور دیگردسیوں رہنماؤں کو عام آدمی پارٹی کے خلاف مہم میں جھونکے رکھا، اس سے صاف پتا چلتا ہے کہ دہلی کے اسمبلی الیکشن کے حوالے سے وہ نہایت ہی غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار ہے،یہ کہنا صحیح ہوگاکہ حالیہ تقریباً ایک ماہ میں دہلی انتخابات کا رنگ بہت تیزی سے بدلا ہے، سب سے پہلے تو ایسا محسوس ہورہاتھا کہ یہ مقابلہ اروند کیجریوال اور نریندر مودی کے درمیان رہے گا؛ کیونکہ بی جے پی نے وزیرِ اعلیٰ کے عہدے کے لیے اپنا اُمیدوارنام زد نہیں کیا تھا، پارٹی نے اعلان کیا تھا کہ دیگرریاستوںکی مانند دہلی انتخابات میں بھی مودی ہی پارٹی کا چہرہ ہوں گے،اُدھرعام آدمی پارٹی نے اپنے طورپربی جے پی کے وزیرِاعلیٰ کے امیدوارکے طورپرجگدیش مکھی کو فرض کرکے دہلی کے رکشوںپرایک خاص قسم کا پوسٹرچسپاں کرکے عوام سے یہ سوال کرنا شروع کردیاتھا کہ وہ جگدیش مکھی کو اپنا سی ایم بنانا چاہیں گے یا اروند کیجریوال کو،پھر جنوری میں بی جے پی نے مودی کی سربراہی میں رام لیلامیدان میں ایک ریلی کی،اس کا مقصداپنی طاقت کا مظاہرہ کرنایا’آپ‘والوںکومرعوب کرنا تھا،مگرپڑوسی ریاست سے بس میںبھربھرکرعوام کو’ امپورٹ‘ کیے جانے کے باوصف جب مودی کی ریلی مکمل طورپر’فلاپ شو‘ثابت ہوئی اوراس میںمتوقع بھیڑ جمع نہیں ہوپائی،تواب بی جے پی نے ایک نئی حکمتِ عملی اختیار کی اور وہ یہ تھی کہ شروع ہی سے عام آدمی پارٹی سے خارکھائے بیٹھی اَنّاتحریک کی سابق رکن کرن بیدی کونہ صرف بی جے پی میں بڑی دھوم دھام سے شامل کیاگیا؛ بلکہ اُنھیں دہلی کے کرشانگرسے امیدوار بنانے کے ساتھ وزیر ِاعلی کے عہدے کے لیے بھی نامزدکر دیاگیا، پھر کچھ دنوں تک ایسا لگا، جیسے یہ کیجریوال اور بیدی کے درمیان کا مقابلہ ہو،مگر یہ حکمتِ عملی بھی زیادہ دیرتک نہیں چل پائی اورروش کمارجیسے ٹی وی اینکرکے سوالوں کے سامنے کرن بیدی کی عاجزی ، ساٹھ کروڑلے کربی جے پی میں شمولیت والے اسکینڈل،دوشناختی کارڈس رکھنے کی خبر، اندراگاندھی کی کاراٹھوانے کے معاملے میں ایک نئے انکشاف اورعوام کے ساتھ ساتھ بی جے پی کے سینئرلیڈروںکے سامنے بھی کرن بیدی کے خود سرانہ،رُعب دارانہ اور متکبرانہ لب و لہجے کی وجہ سے بی جے پی کواس حکمتِ عملی کوتبدیل کرنے اور کرن بیدی کی بجاے دیگر رہنماؤں کو بھی میدان میںلانے کی ضرورت محسوس ہوئی، نتیجتاًکل ۱۲۰؍ پارٹی ممبران پارلیمنٹ کے علاوہ تقریباً ۲۰؍ مرکزی وزرا اور بی جے پی حکومت والی ریاستوں کے وزراے اعلیٰ کو تشہیری مہم میں اُترنے اور دہلی میں ۲۵۰؍ ریلیاں منظم کرنے کو کہا گیا اوردیکھتے ہی دیکھتے یہ الیکشن کیجریوال بمقابلہ حکومتِ ہند ہو گیا۔

     جہاں بی جے پی کے مرکزی کردار مسلسل بدلتے رہے ،وہیں عام آدمی پارٹی نے چندمشہورلیڈروںکے ساتھ بنیادی طورپراپنے اسٹار پروموشنل اروند کیجریوال پرہی مکمل انحصارکیے رکھا، ’’آپ‘‘ کی تنقید کی جاتی ہے کہ یہ یک محوری پارٹی ہو کر رہ گئی ہے، مگرسوال اُٹھتا ہے کہ اس ایک آدمی اَساس پارٹی کے خلاف بی جے پی کو لیڈروں کی اِتنی بڑی فوج اُتارنے کی کیا ضرورت پیش آگئی تھی؟ جب پرانی سیاسی پارٹیاں و رہنما بی جے پی کو ہریانہ، جھارکھنڈ، مہاراشٹر اور جموں و کشمیر میں چیلنج نہیں دے سکے ، تووہ ایک نو پید پارٹی اور اس کے رہنما سے اِس قدرخائف کیوںہے اوراس کے چوٹی کے لیڈروں کی راتوں کی نیندیں بھی کیوںاُڑی ہوئی ہیں؟اس کانٹے کی ٹکر والے انتخابات میں یہ کہنا تو بہت مشکل ہے کہ کون سی پارٹی انتخاب جیتے گی،البتہ آخری نتیجہ جو بھی ہو، چاہے یہ انتخاب ’آپ‘ جیتے یا ہارے، مگر’آپ‘ نے علامتی جیت تو درج کرہی لی ہے،ویسے بیشتراوپنین پول بھی اسی کے حق میں جارہے ہیں،اب تک کے بیشتر نیوزچینلوں،اخباروں اورسروے کمپنیوںکی رپورٹس بھی عام آدمی پارٹی کوچالیس سے پچاس سیٹیں دے رہی ہیں،خودآرایس ایس کے’ آرگنائزر‘نے دہلی الیکشن میںبی جے پی کی غیر مقبولیت کا اعتراف کیاہے اور ایسا ماننے کی معقول وجہیں بھی ہیں، ۲۰۱۳ء کے اسمبلی انتخابات میں ’آپ‘  تمام سماجی طبقات سے ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی تھی؛ لیکن اسے بنیادی طورپردرجِ فہرست ذاتوں اور نچلے درجے کے عوام کے ووٹ زیادہ حاصل ہوئے تھے،یہ کم آمدنی والے طبقوں، غیر قانونی کالونیوں اور جھگی بستیوں میں رہنے والے لوگ تھے، یہ لوگ دہلی کے کل ووٹروں کا ۳۰،۳۵ فیصد ہیں اور اُن کی روایت کسی بھی پارٹی کو یک طرفہ یا’تھوک‘میںووٹ کرنے کی رہی ہے۔

     یہ سب اب تک کانگریس کو ووٹ دیتے آ رہے تھے،مگر۲۰۱۳ء میں اُن کے رجحانات میں بڑی تبدیلی آئی اور انھوں نے ’آپ‘ کی زبردست حمایت کی ، واضح رہے کہ یہی لوگ ’آپ‘ کی ریڑھ ہیں؛ کیونکہ دہلی کی ۳۰؍ فیصد سے زیادہ آبادی اِنہی علاقوں میں رہتی ہے، پھراِس فہرست میں دہلی کا متوسط طبقہ بھی شامل ہے،گرچہ۴۹؍دنوںمیں’آپ‘ کے اقتدار چھوڑنے سے اس کا ایک حصہ ناراض ہو گیاہے؛ لیکن زیادہ تر اب بھی ’آپ‘ کے ساتھ ہے، غریب لوگ یاد کرتے ہیں کہ کیجریوال کے ۴۹؍ دنوں کی حکمرانی کے دوران ریاست کی پولیس کی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ اُن سے رشوت مانگ لے اور عورتیں بھی اپنے آپ کو محفوظ محسوس کرتی تھیں۔بی جے پی نے بھانپ لیاکہ وہ اعلی و متوسط طبقے کے ووٹروں کو توایک حد تک اپنے حق میںمتحد کر سکتی ہے؛ لیکن غریب اور کم آمدنی والے طبقے کے ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے میں اسے بہت مشکل آ رہی تھی، اُسے لگا کہ صرف تشہیر کرنے سے بات نہیں بنے گی،اسے الگ سے کچھ کرنا ہوگا،سو اسی سوچ کے تحت بی جے پی دہلی کے ووٹروں، خاص طور پر جھگی بستیوں اور غیر قانونی کالونیوں کے لوگوں کو خوش کرنے والے اعلانات کرنے پر مجبور ہوئی، بی جے پی کی قیادت والی مرکزی حکومت نے پہلے تو ساری غیر قانونی کالونیوں کو اتھارائزڈکرنے کے فیصلے کا اعلان کیا، اس کے کچھ دنوں بعد وزیرِاعظم نریندر مودی کوایک انتخابی ریلی میں دہلی کو۲۰۲۲ء تک ’جھگی مکت ‘شہر بنانے کا اعلان کرنا پڑا،یوں تواِن اعلانات کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے؛ کیونکہ نتیجتاً ان کا فائدہ شہر میں رہنے والے غریبوں کو ہی ملے گا، مگر ان کے کرنے کاجو وقت ہے،وہ صاف بتاتاہے کہ مودی اینڈ کمپنی غریبوں کو اُلوبناناچاہتی ہے اوریہ اعلانات ’آپ‘کے ووٹ بینک میں سیندھ ماری کے لیے کیے گئے ہیں۔یوںبھی مودی جی کے لوک سبھا الیکشن میں کیے گئے اعلانات اور وعدوں میں سے ہنوز ایک فیصدبھی پورا نہیں کیاگیا ہے،جس سے ملک کے عوام اچھی طرح واقف ہیں۔

    اسی طرح انتخابی مہم میں مسلسل تبدیلیوںکے سلسلے کوبڑھاتے ہوئے اچانک بی جے پی نے اخلاقی اصول و ضوابط اور تقاضوںکوبالاے طاق رکھتے ہوئے ذاتیات پرانگشت زنی اورپگڑی اُچھالنے کا کاروباربھی جی بھرکے کیا،اس کے لیڈران کی عریاں گوئی تو مشہور ہے ہی،مگر دہلی الیکشن میںبتدریج ’کرو یامرو ‘ کی کیفیت میں آجانے کے بعد باقاعدہ پوری پارٹی مل کر کیجریوال کو ہدفِ طعن بنانے میں مصروف ہوگئی اور اس کامشاہدہ ساری دہلی کے عوام نے اُس وقت کیا،جب بی جے پی نے کیجریوال سے پانچ سوالات کے نام پراُن کے مختلف مضحکہ خیزکارٹونس بنوائے،ان میں اَناہزارے کو زندگی میں ہی ’آںجہانی‘ بنایا، کیجریوال کی برادری کو نشانہ بنایااورحسبِ روایت پانی کی طرح پیسے بہاکراخباروںمیں ان کارٹونوںکوچھپوایا،پھرجب اس سے بھی بات بنتی نظر نہیں آئی، تو کسی کونے کھدرے سے’ آپ‘ کے باغیوںپر مشتمل’عوام‘نامی تنظیم کولاکھڑاکیاگیا،جس نے یہ دعویٰ کیاکہ عام آدمی پارٹی نے چارفرضی کمپنیوں سے دو کروڑ روپے کا چندہ لیاہے،اس نام نہاد’انکشاف‘پربی جے پی بغلیں بجانے لگی،کانگریس کو بھی بولنے کے لیے ایک ایشوملا؛حالاں کہ خود کانگریس کے جنرل سکریٹری دگ وجے سنگھ نے اس انکشاف کو بی جے پی کی سازش قراردیا۔جبکہ دوسری جانب ’آپ‘کے لیڈروںنے کھلے طورپریہ چیلنج کرکے سب کوسکتے میں ڈال دیاکہ ان کی پارٹی کا ساراحساب کتاب اُجلاہے اورجس کوبھی،جوبھی اشکال ہے،وہ جانچ کر سکتاہے،حتی کہ پارٹی سربراہ کیجریوال نے تو ارون جیٹلی کویہاں تک چیلنج کردیاکہ اگر وہ مجرم ہیں،تووہ انھیں جیل بھجوادیں،مگرکہیں سے کوئی جواب سننے میں نہیں آیااوراس کے اگلے دن تو دودھ کادودھ اورپانی کا پانی ہوگیا،جب ’آپ‘کو چندہ دینے والی جسکیرت مان نامی خاتون نے ’عوام‘کے الزام کو صاف طورپرمستردکرتے ہوئے اس کے ثبوت بھی پیش کیے ۔ الغرض ایسا لگتا ہے کہ دہلی اسمبلی کا یہ الیکشن صرف مودی ہی نہیں، پورے بھگوائی خیمے کے گلے کی ہڈی بن چکاہے ،جسے نگلنے یااُگلنے کامنظرآنے والی ۱۰؍تاریخ کوانتہائی دل چسپ ثابت ہوگا۔

(یو این این)

**********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 490