donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Political Articles -->> Articles On State Of India
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Reyaz Azimabadi
Title :
   Kya Nitish Kumar Bihar Mein Bhagwa Agenda Ka Nefaz Rok Sakenge


 

کیا نتیش کمار بہار میں بھگوا ایجنڈے کا نفاذ روک سکیں گے ؟

 

(ریاض عظیم آبادی)


    جنتا دل یو اور بھاجپا کے درمیان 18 برسوں کے رشتے کا اختتام کہیں عارضی تو نہیں ہے؟ کیا اس ملک میں جارحانہہندوفرقہ پرستی کے خلاف کوئی محاذ بن پائیگا؟کانگریس اور آرایس ایس کے خلاف آئندہ پارلیامانی انتخاب میںکوئی مضبوط مورچہ ملک کو ایک سیکولروجمہوری حکومت دینے میں کامیاب ہو سکے گا؟ ان سوالوں کی روشنی موجودہ بھاجپا اور جنتا دل(یو)کے طلاق کا جائزہ لینامناسب ہوگا۔سب سے بڑھ کرجنتادل(یو)کو بھاجپاسے رشتہ ختم کرنے کی اتنی جلدی کیوں ہو گئی۔نتیش کمارکو جو قریب سے جانتے ہیں،اورانکے مزاج سے واقف ہیں وہ جانتے ہیںکہ نتیش کماراپنی منزل کو پانے کیلئے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مہاراج گنج انتخاب میں بھاجپا کی مبینہ غداری اور پیٹھ میں چھرا گھونپے جانے سے نتیش کمار اس قدر آزردہ ہوئے کہ انہوں نے بھاجپا کو طلاق دینے کا فیصلہ کرلیا۔’بغض لالو ‘ نامی بیماری سے نتیش کمار پریشان ہیں۔ مہاراج گنج میں جدیو امیدوار اور صوبہ کے وزیرتعلیم پی کے شاہی کی 1,37,000ووٹوں سے راشٹریہ جنتادل کے ہاتھوں شکست فاش نے نتیش کمار کی نیند حرام کردی تھی۔لالو کے ہاتھوں شکست نے نہ صرف ان کی ہیکڑی نکال دی بلکہ وہ جواب دینے کے قابل بھی نہیں رہ گئے تھے۔
     بہار میں بھاجپا - جدیو کا اتحاد کبھی بھی پر خلوص نہیں رہا ، دونوں پارٹی شروعاتی دنوں سے ہی ایک دوسرے کی مخالفت اور کردار کشی کر تی رہی ۔ جدیو کے لیڈروں نے کبھی سوشیل کمار مودی کو پسند نہیں کیا اور نہ ہی بھاجپا نے نتیش کو پسند کیا ۔ اقتدار کی لالچ نے دونوں کو ایک ساتھ جڑے رہنے پر مجبور کیا ۔ نریندر مودی کو جب وزیر اعظم کا امید وار بنانے کی بات چلی اور جدیو نے مخالفت کی تو مہاراج گنج میں بھاجپا کی نظر میں جدیو کی کامیابی مودی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ، کیوں کہ نتیش خود وزیر اعظم کا امید وار بننا چاہتے ہیں ۔ اس میں شک نہیں کہ مہاراج گنج ضمنی انتخاب میں بی جے پی کے لیڈروں نے بھی کافی محنت کی ، مگر ان کی محنت جے ڈی یو کو کامیاب بنانے کے لئے نہیں بلکہ نتیش کمار کو ان کی اوقات بتانے کے لئے  تھی ۔ اگر مہاراج گنج میں نتیش کمار کامیاب ہو جاتے تو مودی کی اکڑ سے زیادہ بڑی اکڑ نتیش کمار میں  آ جاتی۔ انتخاب کے بعد پی کے شاہی نے جو بیان دیا وہ اپنے آپ میں ایک تعزیانہ تھا ۔ محکمہ خفیہ نے نتیش کمار کو خبر دی کہ ان کی شکست کی وجہ بھاجپائی تھے ۔ کیوں کہ اسی حلقہ سے نتیش وزارت میں بھاجپائی وزیر جناردھن سنگھ سگر وال ایم ایل اے تھے ۔ مہاراج گنج کے کسی بھی اسمبلی حلقہ سے جدیو امید وار آر جے ڈی کے مقابلے میں سبقت نہیں لے جا سکے ۔ اس قدر شرمناک شکست بر سر اقتدار پارٹی کو کم ہی نصیب ہوئی ہے ۔ یہی بنیادی وجہ تھی کہ جدیو نے مودی کی آڑ لے کر یا پھر اڈوانی کے اشارے پر بھاجپا کو طلاق دینے کا فیصلہ کر لیا ۔ 


    اتفاق سے میں نتیش کمار کو کالج کے دنوں سے جانتا ہوں۔ وفاداری کیا ہوتی ہے اور رشتے کی کیا اہمیت ہوتی ہے اس سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں رہا ہے۔ ان کی دوستی یا تعلقات اسی وقت تک قائم رہا ہے جب تک ان کے مفاد کی تکمیل ہوتی رہے۔بے وفائی کرنا اور عارضی دوست بنانا ہی ان کی فطرت رہی ہے۔وزیراعلیٰ بننے کی دھن سوار ہوئی تو لالو کا دامن چھوڑ دیا۔ وزیراعظم کا امیدوار بننے کی خواہش پر بھاجپا نے ڈاکہ ڈالا تو سیکولرزم اور مودی کی دہائی دیتے ہوئے طلاق دینے کی نوٹنکی کر دکھائی۔18برسوں تک وہ آرایس ایس کی گود میں قلقاریاں مارتے رہے اور مسلمانوں کو اعلانات کے ذریعہ سبزباغ دکھاتے رہے۔اور اب ٹوپی پہن کر مسلمانوں کے سب سے بڑے ہمدرد بن بیٹھے ہیں۔کوئی ان سے پوچھے کہ اڈوانی اور مودی میںفرق کیا ہے؟ اگر مودی زہر ہیں تو اڈوانی یقینی طور پر زہرہلاہل ہیں۔ مودی نے تو صرف اپنی ریاست میں مسلمانوں کا قتل عام کروایا مگر اڈوانی نے پورے ملک میں فرقہ پرستی کا زہر بویا، بابری مسجد کو شہید کرنیوالوں کے سرغنہ کی شکل میں ممبئی میں مسلمانوں پر قہر برپا کروایا۔آج نتیش کمار اڈوانی کی طرفداری کررہے ہیں اور دوسری طرف سیکولربننے کی نوٹنکی کررہے ہیں۔ وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے وہی پروٹوکول نبھایا ہے جس پروٹوکول کی دہائی نتیش کمار دے رہے ہیں۔


    نتیش کمار آج تک اس بات کا جواب نہیں دے سکے کہ جب وہ وزیرریل تھے تو گودھرا سانحہ کی تحقیقات ریلوے سیفٹی کمشنر سے کیوں نہیں کروائی؟ اگر وہ مسلمانوں کے دوست اور سیکولر تھے تو گجرات کے فرقہ وارانہ قہر کے شکار مسلمانوں کی حالت جاننے کیلئے گجرات کیوں نہیں گئے؟ایک برس بعد گجرات گئے بھی تو وہ نریندرمودی کی قصیدہ خوانی کرتے رہے جسے وہ پروٹوکول کا نام دے رہے ہیں۔کیا وزیراعظم کے سرٹیفکٹ دینے سے وہ واقعی سیکولر ہوجائیں گے؟ نتیش کمار کی وزارت میں مسلمانوں پر جس قدر ظلم کئے گئے ہیں اس کا حساب کتاب نتیش کمار دیں گے یا وزارت سے برطرف کئے گئے بھاجپائی ڈپٹی چیف منسٹر سوشیل کمار مودی دیں گے؟پوری ریاست میں اگر بھگوا ایجنڈہ نتیش کمار کی مرضی کے خلاف لاگو کردیا گیا تو نتیش کمار کی قیادت پر ہی سوال اٹھ کھڑے ہوں گے۔ بھجن پورہ میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کا پہاڑ توڑا گیا، ان کی خبر لینے نہ تو نتیش کمار گئے اور نہ ہی ان کے خوف سے کوئی مسلم وزیر، ایم ایل اے، ایم پی… یہاں تک کہ مائنوریٹی کمیشن کے چیرمین نوشاد احمدنے بھجن پورہ جانے کی ہمت جٹا ئی۔یہاں تک کہ اشتہار بند ہوجانے کے خوف سے کسی اردو روزنامہ نے اداریہ تک لکھنے کی ہمت نہیں کی۔آج دو سال ہوچکے ہیں، نام نہاد عدالتی تحقیقاتی کمیشن نے کوئی رپورٹ نہیں دی اور اب مظلوموں پر ہی مقدمہ چلانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔12,862اردو ٹرینڈ اساتذہ کی تقرری ہونی تھی لیکن فرقہ وارانہ امتیازکی وجہ سے صرف تین ہزاراساتذہ ہی بحال کئے گئے۔مرکزی حکومت نے بہار کے سات مسلم اکثریتی اضلاع کی ترقی کیلئے تقریباً ایک ہزار کروڑ روپئے بھیجے جس میں غیرمسلم علاقوں پر278کروڑ خرچ کئے گئے اور باقی سب واپس کردیئے گئے۔آج کسی بھی یونیورسٹی میں مسلم وائس چانسلر نہیں ہے یہاں تک کہ مولانا مظہرالحق عربی و فارسی یونیورسٹی میں بھی غیرمسلم آفیسر چارج میں ہے۔آج بھی بہار میں مسلمان دو نمبر کے شہری کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کی مادری زبان اردو جسے ریاست کی دوسری سرکاری زبان بنایا جا چکا ہے ریاست سے باہر نکالنے کی کوشش جاری ہے۔جو کتابیں سرکاری اردو اسکولوں میں سپلائی کی گئی ہیں ان کتابوں کی پرنٹنگ اس قدر خراب ہیںکہ کسی کو کچھ سمجھ میں ہی نہیں آتا ہے۔


    اتنا کچھ ہونے کے باوجود جنتادل یو اور بھاجپا کے طلاق کا خیرمقدم کیا جانا چاہئے۔نتیش کمار کی ’میں‘ اور مفادپرستی کی وجہ سے ہی سہی یہ ناجائز رشتہ ختم تو ہوا۔ یہ طلاق عارضی ثابت نہ ہو اس کیلئے نتیش کمار کی پذیرائی کی جانی چاہئے۔یہاں پر لالو پرساد پر بغض نتیش حاوی ہوگیا اور 19؍جون کو بہار اسمبلی میں نتیش کے خلاف ووٹ ڈال کر اپنی حماقت کا ثبوت انہوں نے دے ڈالا۔کمیونسٹ پارٹی اور کانگریس نے سیاسی شعور کا ثبوت دیتے ہوئے نتیش حکومت کی حمایت میں ووٹ ڈال کر صحیح سیاسی فیصلہ کیا۔لالو پرساد کو چاہئے تھا کہ وہ اپنی پارٹی کو اسمبلی میں انتخاب کے وقت یا تو حمایت میں ووٹ ڈالنے کی ترغیب دیتے یا پھر واک آؤٹ کا فیصلہ کرتے۔سیاست میں اپنی ذاتی ناراضگی کا ثبوت دے کر اپنے فیصلے پر سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے۔ قبل از وقت کسی کے متعلق کوئی فتویٰ دینا مناسب نہیں ہے۔


    نتیش کمار کے سامنے ابھی کئی چیلنجز ہیں۔سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ کیا نتیش کمار بہار میں بھگوا ایجنڈے کا نفاذ روک سکیں گے ؟۔ بھاجپائی وزیروں میں افسران سے یاری کا جو فرقہ وارانہ تعصب کا بیج بویا ہے کیا وہ اسے ختم کر سکیں گے؟۔ تعصب کی بد ترین مثال آئے اے ایس انجنی کمار سنہا ہے جنہوں نے محکمہ تعلیم میں بدترین فرقہ وارانہ ذہنیت کا ثبوت دیا ہے ۔ اول تو یہ کہ انہیں لفاظی کے دائرے سے باہر آنا ہوگا۔ جس افسرشاہی کو انہوں نے اپنے سر پر بٹھا رکھا ہے انہیں زمین پر لانا ہوگا۔ وہ یہ بھول گئے ہیں کہ افسرشاہی نے ہی لالو پرساد کی حکومت کو زوال کا راستہ دکھایا تھا۔ لالو نے افسرشاہی کو گالیاں دینا شروع کی تھی تو چالاک اور شاطر افسرشاہ بظاہر لالو کے قدموں پر گرگئے اور ان کے تمام وزراء کو اپنے ٹھینگے پر رکھ لیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پورا اقتدار لالو کے ہاتھوں میں سمٹ گیا۔ کیبنٹ میٹنگ صرف ایک فارملیٹی بن کر رہ گئی تھی۔ لالو کی کیبنٹ میٹنگ میں وزراء آتے تھے، دستخط بناتے تھے اور ناشتے کے بعد اپنی لال بتی گاڑیوں پر واپس چلے جاتے تھے۔ لالو وہی فیصلہ کرتے تھے جو افسرشاہ چاہتے تھے۔ مکند پرساد جیسے نکمے افسر نے کوئی کام ہونے ہی نہیں دیا۔ آج ایسی ہی صورتحال نتیش کمار بناتے جارہے ہیں۔نتیش کمار کسی ایم ایل اے، ایم پی یا اپنے وزیر کی سننا نہیں چاہتے ہیں وہ صرف افسرشاہی پر منحصر ہوکر رہ گئے ہیں۔لالو پرساد نے دبنگ ٹھیکے داروں پر روک لگا دی تھی اور نتیش کمار نے اس پابندی کو ختم کردیا۔ آج نتیجہ یہ ہے کہ کام تو ہورہا ہے جو اوپر سے خوبصورت نظر آتا ہے اور اندر سے کھوکھلا۔ صوبہ میں سڑکیں بن رہی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کاموں میں کمیشن خوری کی مکمل گنجائش ہے۔ ریاست میں لوٹ کا بازار گرم ہے، 90فیصد اعلیٰ ذات کے ٹھیکے دار ہیں جنہوں نے لوٹ کھسوٹ کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ الغرض یہ کہ ریاست میں صرف انہیں کاموں کو انجام دیا جارہا ہے جہاں کمیشن خوری کا راستہ کھلا ہوا ہے۔ بڑی چالاکی سے بھاجپائیوں نے انہیں محکموں پر قبضہ کررکھا تھا جہاں کمیشن اور موٹی رقم ملتی ہے۔محکمہ سڑک تعمیر، صحت،پی ایچ ای ڈی اور شہری ترقیاتی محکمے بھاجپا کے قبضے میں تھے۔ آج بھاجپائی وزیر اربوں کی کمائی کر موٹے سانڈھ ہوچکے ہیں۔نتیش کمار نے اقلیتوں کے تمام اداروں کو اپاہج بناکر رکھ دیا ہے۔اقلیتی کمیشن کا چیرمین ایک ایسا شخص ہے جس پر پٹنہ ہائی کورٹ نے سرکاری زمین فروخت کرنے کے کیس میں جرمانہ عائد کردیا ہے۔ وقف بورڈ کا چیرمین بجلی چور ثابت ہوا جس پر70ہزار کا جرمانہ لگ چکا ہے۔بہار اردو اکادمی ایک سرکاری آفیسر کے حوالے کردی گئی ہے۔ نتیش کمار یہ سمجھتے ہیں کہ ٹوپی پہن کر مختلف مزاروں پر چادر چڑھانے سے مسلم پرست کہے جائیں گے اور مسلمان انہیں سر آنکھوں پر بٹھائیں گے۔ نتیش کمار نے قصداً مسلمانوں کو ان کے واجبات سے دور رکھنے ، ان کے حقوق کی پامالی کرنے اور اپنے ارد گرد مصاحبوں کی ایک مختصر سسی ٹولی بنائے رکھنے سے مسلمان اپنا ووٹ ان کی جھولی میں ڈال دیں گے۔یہ صحیح ہے کہ بھاجپا کو طلاق دینے سے مسلمان میں خوشی کی لہر دوڑی ہے مگر یہ خوشی تبھی پائیدار ثابت ہوگی جب وہ مسلمانوں کے ساتھ ہوئی زیادتیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ویسے نتیش کمار کی یہ سمجھ صحیح ہے کہ مسلمان عام طور پرنعرے بازی اور خوش کن اعلانات سے ہی خوش ہوجاتے ہیں۔ اگر نتیش کمار نے اسی بھرم کو پالے رکھا تو وہ منھ کی کھائیں گے۔1967کے بعد سے مسلمانوں کا اعتماد سیاسی دلالوں پر سے اٹھ چکا ہے۔۔نتیش کمار نے خانقاہوں کے سجادہ نشینوں، مسلم اداروں  کے اہم عہدیداروں کو اپنا ’دلال‘ یا مہذب الفاظ میں کہیں تو ’مصاحب‘ بناکر حکومت کرنے کا جو سلسلہ جاری کررکھا ہے وہ ان کیلئے سیاسی کفن ثابت ہوگا کیونکہ یہ مصاحب مسلمانوں کا ووٹ ڈلوانے کی حیثیت نہیں رکھتے ہیں۔


    وزیراعلیٰ بنتے ہی نتیش کمار نے بھاگلپور فساد کے تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ پر جسٹس این کے سنہا کا کمیشن بناکر ایک عجیب و غریب حماقت کی تھی۔ جب سے نتیش کمار وزیراعلیٰ بنے ہیں وہ کمیشن بھی برقرار ہے۔ لبراہن کمیشن کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اب تک یہ کمیشن بھی کروڑوں ڈکار چکا ہے مگر کوئی رپورٹ سامنے نہیں آئی ہے۔ مسلمانوں کے تعلق سے ریاست میں نراجیت کی کیفیت بنی ہوئی ہے۔ اگر نتیش کمار کی موجودہ نام نہاد سیکولر حکومت بھگوا ایجنڈے کے حصار سے باہر نکلنے میں کامیاب ثابت ہوئی تب ہی مسلمان ان پر اعتماد کرسکیں گے اور ان کی طرف راغب بھی ہوسکیں گے۔نتیش کمار کو اپنی وزارت میں مسلمانوں کے پسماندہ طبقے کو جگہ دینی ہوگی، سلیم پرویز جیسے نوجوان کو کونسلکے ڈپٹی اسپیکر  کے عہدے سے ہٹاکر وزیر بنانا زیادہ مناسب ہوگا۔انہوں نے علی انور جیسے شخص کو راجیہ سبھا میں بھیج کر ایک تجربہ کیا تھاجو پسماندہ برادری کی دہائی تو دیتا رہا اور ان کی مرضی کے مطابق مسلمانوں میں تفرقہ ڈالتا رہا لیکن بھجن پورہ کے پسماندہ برادری پر ظلم ڈھائے جانے کے بعد اس علاقے کے مسلمانوں کا درد بانٹنے تک کی زحمت گوارہ نہیں کی۔کانگریس نے ان کی حمایت تو کی ہے مگر کیا نتیش کمار کانگریس کی بیساکھی بننا پسند کریں گے؟راشٹریہ جنتا دل نے جو حماقت کی ہے اس کے ازالہ کیلئے اس پارٹی کو لالو پرساد کی قیادت میں زبردست 
جدوجہد کرنی ہوگی تبھی وہ مسلم ووٹ کی تقسیم کے خدشے کو دور کرسکیں گے اور18سال تک آرایس ایس کی گود میں بیٹھ کر مسلمانوں کے ساتھ کی گئی زیادتیوں کا بدلہ نتیش کمار سے لے سکیں گے۔

                        رابطہ کے لئے:  9431421821  r.azimabadi@gmail.com

Comments


Login

You are Visitor Number : 611