donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Political Articles -->> Articles On State Of India
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Sami Ahmad Quraishi
Title :
   Bengal Election :Yeh Yaum Intekhab Nahi Yaum Inteqam Hai

سبق پڑھ پھر صداقت کا،عدالت کا،شجاعت کا       لیاجائے گاتجھ سے کام دنیاکی امامت کا


بنگال الیکشن : یہ یوم انتخاب نہیں یوم انتقام ہے


٭سمیع احمدقریشی،ممبئی

9323986725


موجودہ دورجمہوریت کاہے۔حکومت چلانے کیلئے اسے بہترین طرزحکومت آج کی دنیامیںماناجاتاہے۔یہ مغرب کی دین ہے۔جب تک کوئی دائمی طورپرحکومت چلانے کیلئے معیاری طرزحکومت نہیں ہم کواسی سے کام چلانااوربہترسمجھنالازمی ہے۔جمہوریت میں ووٹ کے ذریعہ حکومت چلانے والوں کوچناجاتاہے۔یوں ووٹ کی اہمیت وافادیت سے انکارنہیں کیاجاسکتا۔ ووٹ ایک امانت ہے جس کااستعمال انتہائی سمجھ داری،بے باکی اورغیرجانبداری کے ساتھ کرناانتہائی ضروری ہے۔ووٹ سفارش یاگواہی کادرجہ رکھتاہے۔ہم جسے ووٹ دے رہے ہیں گویا اس کے معیاری ہونے کی گواہی دے رہے ہیں۔ہمارے ووٹوں سے جوپارٹی،امیدوارکامیاب ہوکرانسانی اقدارکے پیش نظرقانونی مرتکب کرے گا۔جس کے اثرات تعمیری ہونگے توایسے امیدوارپارٹی کوکامیاب بنانے میں ووٹ دینے والے کوبھی نیک اجرملے گا۔نیزجن کے ووٹ سے غیرمعیاری پارٹی یاامیدوارکوکامیابی ملی اوروہ غیرمعیاری کارکردگی کی بناء پرتعمیرکی بجائے تخریب کاباعث ہوگا۔ایسے امیدواراورپارٹی کے کامیاب ہونے میں جس نے ووٹ دیا۔وہ خُداکے نزدیک باعث پکڑہوگا۔چونکہ ایک ووٹ سفارش اورگواہی کے مانندہے،اسی لئے اسے دیتے ہوئے سنجیدگی،فکروعمل کاہوناانتہائی ضروری ہے۔امیدوار چاہے اپناخونی رشتہ دارکیوں نہ ہو۔ووٹ دیتے وقت ہمارے سامنے یہی بات ہوتی ہے کہ ہم اس پارٹی یاامیدوار کوووٹ دے رہے ہیں جودوسرے سے بہترہے گویاووٹ دینا،رائے دینااورمشورہ دینابھی ہے۔جب کسی سے مشورہ اوررائے طلب کی جائے تونہایت ایمانداری سے مشورہ دیاجائے۔منافق اورخائن کی پہچان یہ بتائی گئی کہ وہ امانت میں خیانت کرے۔پتہ چلاکہ جولوگ ملک و ملّت کے خلاف ووٹ دیتے ہیں وہ شریعت کی نظرمیں خائن  اورمنافق ہیں۔بلاشبہ مسلمانوں کے پاس،ہندوستان میں ووٹ ایک اہم ہتھیارہے۔یہی اصل طاقت ہمارے پاس بچی ہے۔ووٹ شجرممنوعہ ہیں یہ انتہائی منفی سوچ ہے۔ووٹ کی انتہائی اہمیت وافادیت سے انکارکرنامحال ہے۔یقیناً بے جاووٹ دینے والے اورنہ دینے والے حکومت کی شرانگیزیوں اورنقصان دہ پالیسیوں میں شریک مانے جائیں گے۔حدیث شریف میں ہے کہ جوشخص مسلمانوں کے معاملات کواہمیت نہ دے وہ ہم میںسے نہیں۔یعنی وہ صحیح مانے میں مسلمان نہیں۔

موجودہ دورمیں وہ افراد جوانسانیت کے دشمن،انسانی اقدارسے دورہیں وہ پوری طرح ووٹنگ کرتے ہیں۔ووٹ کی اہمیت کوسمجھتے ہیں مثلاً امریکہ اوریورپ میںیہودیوں کی ووٹنگ کی شرح سب سے بڑھ چڑھ کرسوفیصدتک ہوتی ہے۔بالکل یہی حال ہمارے ملک عزیزبھارت کاہے۔آرایس ایس کا ہندوتواایجنڈاانسانیت سے عار،ملک کے باشندوں میں نفرتوں کاامین ہے۔یہی ہندوتواوادی یہودیوں کی طرح بے پناہ ووٹ کرتے ہیں۔انسانیت پسندوں اورسیکولرووٹوں میں اس قدرنہیں ہوتا۔بی جے پی آرایس ایس کی گویاایک شاخ ہے۔یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔اب توکھلم کھلا آرایس ایس کے اجلاس میں وزیراعظم مودی سے لیکر سبھی مرکزی وزراء حصہ لیتے نظرآتے ہیں۔آرایس ایس کاقیام ۱۹۲۵؍میں ہوا۔اپنے قیام کے روزاول سے ادی واسیوں،پسماندہ طبقات،کسانوں،مزدوروں،عیسائیوں،اقلیتوںکی کی دشمن ہے۔گویاملک کی اکثریتی آبادی کے ساتھ اس کولینادیناکچھ نہیں۔برہمن وادکومانتی ہے۔بہت ہی خوبصورتی کے ساتھ کام کرتے کرتے بلاشرکت غیرے آج مرکزمیں آرایس ایس کی نورنظربی جے پی کی حکومت قائم ہے۔پورے ملک اورمعتددصوبوں میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کاستیاناس ،فاشزم کابڑھتااثر،کمزوروں کاماردیاجانا،کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں آسمانوں کوچھونا،کسانوں کی خودکشی،ان تمام کے ڈانڈے وماخذآرایس ایس ہی ہے۔

زبان وادب سے تعلق رکھنے والے متعدد زبانوں کے ادیب ،دلتوں۔اقلیتوں،مسلمانوں جیسے گلبرگی اورپانسارے جیسے اقلیت پسندوں،ادیبوں پرجان لیواحملے ان کی اموات پربطوراحتجاج اپنے ایوارڈواعزازات واپس کررہے ہیں۔حکومت لمبی خاموشی کے بعدچُپی توڑتی ہے۔مگرعملی اقدامات کرنے سے قاصرہے۔نمایاں شخصیت سابق نیوی چیف ایڈمیرل رام داس انہوں نے بھی سرکارکوآئینہ دکھاتے ہوئے کہاکہ اقلیتوں،دلتوں پرہونے والے حملوں کی وجہ سے میراسرشرم سے جھک گیاہے۔فرقہ وارانہ ماحول پرتشویش کرتے ہوئے انہوں نے وزیراعظم مودی اورصدرجمہوریہ پرنب مکھرجی کوخط لکھاہے۔نیزسوالات اٹھائے ہیں۔نیزآپ نے موجودہ بگڑتی سماجی صورتحال کاایک ذمہ آرایس ایس کوبھی قراردیا۔کہاکہ’’اسی کی سوچ کی بناء معاشرے میں تقسیم ہورہی ہے۔نیزافواہ کی بناء پرلوگوں کی بھیڑایک آدمی کی جان لے لیتی ہے۔ادھرممبئی اورمہاراشٹر میں ادیبوں،قلمکاروں،صحافیوں کی طرف سے ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اورتکثریت کی حمایت میں فرقہ واریت کے خلاف سیاسی لیڈران بھی آگے آگئے ہیں۔ملک کے قدآورلیڈرشردپوارنے بھی بڑھتی فرقہ پرستی کے خلاف فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لئے مراٹھی ادیبوں،صحافیوں کے درمیان ایک اخباری پریس کانفرنس میں شرکت کی۔یہاںملک میں بگڑتی ہم آہنگی،دوستی بھائی چارہ کے لئے دن بدن میدان عمل بڑھ رہاہے۔دوسری طرف اردوکے شاعرمنورراناکاحال عجیب وغریب ہے۔’’دھوبی کاکتاگھرکانہ گھاٹ‘‘ کاجیسی بات ہے۔پہلے تومنوررانابطوراحتجاج ایوارڈواپس کرتے ہیں اوراخباروں کی سرخیوں میں رہتے ہیں پھردوسرابیان دیتے ہیں۔مودی مرے بڑے بھائی ہیں،ان کاجوتامیرے سرپراٹھالوں گا۔پھربعدمیں بیان دیتے ہیں کہ’’ مجھ میں اورمودی میں بہت سی باتیں مشترک ہیں۔کہاکہ مجھے مودی کی طرح اپنی ماں سے بے حدپیارہے۔وہ مودی سے ملنے کیلئے بے چین ہیں‘‘بہرحال شیرکی کھال میں چھپے بھیڑیئے ایک وقت پرپہچانیں جاتے ہیں۔بقول شاعر؎

ہیں کواکب کچھ نظرآتے ہیں کچھ
دیتے ہیں یہ دھوکہ بازی گرکھلا

بہرحال ووٹ ایک انتہائی اہم ہتھیارہے۔بشرطیکہ اس کامناسب زیادہ سے زیادہ استعمال ہو۔جارج بُش انتہائی ظالم امریکی صدرتھا۔افغانستان،عراق کوتباہ کرنے میں نیست ونابودکرنے میں زبردست جنگی حملہ کئے۔انتہائی زہریلے بم وہتھیاراستعمال کئے،مگریہ ووٹ جس کی بدولت صدارتی الیکشن ہارگئے۔یوں ووٹ کی بدولت انسانیت کوظالم مکروہ جارج بش سے نجات ملی۔ایک ووٹ کشمیری ممبرپارلیمنٹ سیف الدین سوزکاتھاجوآرایس ایس کی نورنظربی جے پی کے اٹل بہاری واجپائی کے خلاف سوزنے اپناووٹ استعمال کیا۔یوں جارج بش کی طرح ووٹ ہی کی بدولت واجپئی کوجاناپڑا۔

مغربی بنگال کااسمبلی  الیکشن انتہائی اہمیت کاحامل ہے۔ملک میں بڑھتی مہنگائی،فرقہ واریت،عدم رواداری،عدم برداشت کایوں ختم ہوتے جائے ۔یہ ایک اہم مسائل ہیں۔مودی کی مرکزی حکومت انتہائی ناکام ہے۔ضرورمغربی بنگال میں بی جے پی کے خلاف دیاجانیوالاووٹ ملک کی تعمیروبقائ،فرقہ وارانہ ہم آہنگی ،پسماندہ طبقات کے وجودوخودداری کی خاطرایک تابناک موڑثابت ہوگا۔

اپنے کعبہ کی حفاظت اب ہمیں خودکرنی ہے
اب کوئی ابابیلوںکالشکرنہیں آنے والا

یقیناً جن سیاسی عناصرنے بھائی کوبھائی سے لڑایا،انسانیت کوتہ تیغ کیا،استعمراریت،سامراجیت کے نقیب رہے۔ان سے  صرف ایک ووٹ سے نپٹناہے۔یہ الیکشن یوم انتخاب نہیںیوم انتقام ہے۔
بہرکیف مغربی بنگال اسمبلی الیکشن میں ایسے شرپسندعناصرکوشکست دے کررہیں گے کہ انہیں کوئی کُتابھی نہ پوچھے گا۔

اورزیادہ سے زیادہ ووٹنگ کریں،حیلے وبہانے وسستی وکاہلی نہ کریں۔؎

دیکھ زنداں سے پرے رنگ چمن جوش بہار
رقص کرناہے توپاؤں کی زنجیرنہ دیکھ

بہرحال انسانیت کی بقاء ضروری ہے۔

مغربی بنگال کاالیکشن ملک کی انتہائی پرآشوب دورمیںہورہاہے۔ایک طرف ہندوتواوادی مودی کی بی جے پی اوردوسری طرف ممتابنرجی اورکانگریس وکمیونسٹوں کامتحدہ محاذہے۔ہندوتواوادکوہراناضروری ہے۔سیکولرووٹوں کی تقسیم اکثرہندوتواوادی پارٹیوں کی کامیابی کاباعث ہواکرتی ہیں۔ کہیںممتابنرجی اورکانگریس و کمیونسٹوں کے انتخابی محاذ کے درمیان تقسیم ہوکرہندوتواوادی بی جے پی کی کامیابی کاباعث نہ ہو۔یہاں گذشتہ مہاراشٹراسمبلی الیکشن میں راشٹروادی کانگریس اورکانگریس نے اپناالیکشن اپنی دوستی واتحادکوبھلاکرلڑا۔رہی سہی کسرمجلس اتحادالمسلمین کے اویسی برادران نے ۲۵؍امیدواروں کوکھڑاکرکے ہندوتواوادی بی جے پی اورشیوسیناکوکامیابی دلادی۔آج صوبہ مہاراشٹرمیں ہندوتواوادیوں کی حکومت ہے۔آتے ہی بیف پرپابندی اورمسلمانوں کے تعلیمی ریزرویشن کوختم کردیا۔یوں اقلیتوں کیلئے سنگین مسائل پیداکردیئے۔اویسی برادران کومسلم ووٹ کی تقسیم کاری سے کیاملا؟

بہارکے مسلمانوں نے سیکولرووٹوں کی تقسیم کی حقیقت کوبھانپ لیا۔اویسی کے امیدواروں کی کم وبیش ہرحلقہ میں ضمانت جمع کرادی۔نتیش کماراورلالویادو کے متحدہ محاذ کے ہاتھوں بی جے پی کی بری شکست ہوئی۔

اب مغربی بنگال کے مسلمانوں کے سامنے ووٹ دیتے وقت ووٹوں کی تقسیم سے بچیں۔ تمام سیاسی پارٹیوں کی سیاسی وسماجی کارگزاریاں سامنے ہیں۔کوئی پارٹی دودھ کی دھلی نہیں،مگرہاں وقت کاتقاضہ ہے کہ ایسی صورتحال میں جوسب سے اچھی سیاسی سیکولرپارٹی کی سماجی کارگزاریوں کودیکھتے ہوئے ووٹ دیں۔میں سمجھتاہوں کہ اس معاملہ میں بی جے پی۔کانگریس۔کمیونسٹوں کے مقابلہ میں ممتابنرجی کسی قدربہترہیں۔ووٹ دیتے ہوئے پہلی پسندممتابنرجی کی ترنمول کانگریس ہی ہوناچاہئے۔ہم بھی صحافت میں ہیں۔سیاست کوسالہاسال سے دیکھ رہے ہیں۔ سیاسی وسماجیت کاجائزہ لیکر دردرمندانہ اپیل کرتے ہیں کہ ممتابنرجی کوووٹ دے کرکامیاب کریں۔

(یو این این)

****************************

 

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 512