donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Political Articles -->> Articles On State Of India
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Sami Ahmad Quraishi
Title :
   Bihar Ko Gujrat Banne Nahi Denge

دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجرمیں کوئی داغؔ       تم قتل کروہوکہ کرامات کرو ہو


بہارکوگجرات بننے نہیں دیں گے


لالونتیش محبت،ترقی وبقاء کے امین ہے  


سمیع احمدقریشی،ممبئی

9323986725


پورے ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی،قومی یکجہتی انتہائی لازمی ہے۔اگرفرقہ وارانہ ہم آہنگی اورقومی یکجہتی نہ ہوتوملک کا امن وامان،نظم وضبط کی صورتحال بگڑجاتی ہے۔عوامی زندگی میں اتھل پتھل ہوجاتی ہے۔روزمرہ کے  معمول کے کام نہیں ہوپاتے۔

اسکول کالج،درس گاہوں میں تالے لگ جانے کاخطرہ،زراعت کھیتی باڑی کے معمولات پرمنفی اثرات ،کل کارخانوں میں تالے بندی کاڈر،زراعتی وصنعتی پیداوارکے ٹھپ ہونے کے خطرات کیساتھ ساتھ انسانی جان کے ضائع ہونے کے خدشات ہواکرتے ہیں۔فرقہ وارانہ کشیدگی اورقومی یکجہتی کے ناپیدہونے سے ملک کی ترقی کی رفتاررکتی ہیں۔نیزجب فرقہ وارانہ کشیدگی میں دہشت،فاشزم کاعنصرشامل ہوجاتاہے۔تویہ ملک کی بقاء اوروجودکیلئے سنگین خطرات کاباعث ہے۔

فرقہ وارانہ ہم آہنگی،تکثیریت ،بھائی چارہ،محبت وآشتی ہم ہندستانیوں کاسینکڑں سال پرانااثاثہ ہے۔انگریزاپنی حکومت ملک میں قائم رکھنے کیلئے ہندومسلمانوں میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کوختم کیاکرتے تھے۔انگریزکومعلوم تھاکہ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اوریکجہتی ہوگی تویقیناً ہندومسلمانوں کااتحاد،انگریزوں کی غلامی کی زنجیروں کوتوڑدے گا۔ہندومسلمانوں میں دوریاں نااتفاقیاںپیداکرنے کیلئے انگریزمنظم سازش کیاکرتے تھے۔کہیں گائے کامسئلہ کہیں مندرمسجدکاسوال توکہیں تاریخی کتابوں میں چھیڑچھاڑکیاکرتے تھے۔افسوس ناک پہلوہے کہ انگریزوں کے ہندومسلمانوں کے بیچ نفرت کدورت پیداکرنے میں،نام نہادمولوی، سادھو،سماجی وسیاسی لیڈران کابھرپورساتھ ملاکرتاتھا۔طاغوتی شیطانی قوتوں کوتقویت دینے کیلئے نفس خواہشات کے غلام آج بھی یہی کام کررہے ہیں؎

جعفرازبنگال صادق ازدکن

ننگ دین ننگ ملّت تنگ وطن

انگریزملک چھوڑکر چلے گئے۔ملک آزادہوا۔بدقسمتی سے فرقہ واریت نے ملک کاپیچھانہ چھوڑا۔آزادی کے بعدآج تک ہزاروں فسادات ہوئے۔سرکاری کمیشنوں نے اپنی رپورٹ میں بتلایاکہ فرقہ وارانہ فسادات میں آرایس ایس،اسکی ذیلی تنظیمیں جن سنگھ،بی جے پی،وشوہندوپریشد،متعددفسادات میں انکا ہاتھ ہے یہ بات سچ ہے کہ کمیشنوں کی رپورٹ کے مدنظر اگرفرقہ وارانہ فسادات کے ملزموں کوسزامل جاتی،کیفرکردارکوپہونچادیاجاتا،تومستقبل میں ایسے فسادات نہ ہوتے۔کلکتہ،جبل پور،ملیانہ،ہاشم پورہ،۱۹۸۴؍کادہلی واطراف میں سکھ ہندوفسادات،بھاگلپور،۱۹۹۲؍کاممبئی کافرقہ وارانہ فسادات،مظفرنگرکافساد۔آزادی کے بعدسے آج تک فرقہ وارانہ فسادات کی ایک لمبی  خونی داستان ہے۔اقلیتوں مظلوموں کے ساتھ ہندوجنونیوں نے کیاکچھ نہیں کیا۔دہلی کے وزیراعلی کیجریوال کاکہنابالکل مناسب ہے کہ اگر۱۹۸۴؍کے دہلی کے ہندوسکھ فسادات کے ملزمین کوسزامل جاتی توپھرملک میں فسادات نہ ہوتے۔

جب سے مرکزمیں بی جے پی کی سرکارآئی ہے اورجہاں صوبوں میں بی جے پی کی حکومت ہے وہاں فرقہ وارانہ منافرت بڑھتی جارہی ہے۔حکمراں طبقہ خوداس منافرت کوپھیلانے کیلئے آگے آگے ہیں۔حکومت میں شامل وزراء وممبران پارلیمنٹ بذات خود فرقہ وارانہ زہریلی تقاریرکررہے ہیں۔فسادات میں شامل ہیں۔گرفتارکئے جارہے ہیں۔تب توفرقہ واریت کیسے رکے۔بیف  کھاناہے توپاکستان چلے جاؤ، بیف کھانے والوں کاایساہی حشرہوگا۔کیاسبق یادنہیں اس ملک میں شریعت کاقانون نہیں چلے گا۔کامن سول کوڈچلے گا۔وندے ماترم پڑھناہوگا۔سیاست اورحکمراں طبقے کے لوگ جب ایساکچھ کہیں گے توماحول انتہائی کشیدہ زہریلابنے گا۔ایک تیلی لگانے کی ضرورت ہے آگ اپنی تباہی وبربادی کردے گی۔حکمراں طبقہ میں آرایس ایس کی نورنظربی جے پی شامل ہے۔کہیں حقیقت پسندادیب گلبرگی،پانسارے جیسے لوگوں کاقتل،کہیں دادری میں اخلاق کومحض شبہ میں ماردیاجانا،جموں میں اسی طرح ذاکراورہماچل میں نعمان کوماردیاجانا۔دہلی کے قریب ایک دلت کے گھرپر’’اگرڑوں‘‘کی جانب سے حملہ،گھرکوجلادینا۔دومعصوم بچوں کوجلادیاجانا۔پھروزیراعظم مودی کاچپ رہنا۔لمبی چُپی کے بعدصرف بیان بازی،فرقہ واریت کودہشت کوختم کرنے کیلئے کچھ عملی اقدامات ندارد،یوںحکومت کی فرقہ پرستوں ،فاشٹوں کے آگے گھٹنے ٹھیک دینے پر آخرکوملک کے چندقلمکاروں نے مردانگی دکھلائی۔احتجاجاً اپنے ایوارڈحکومت کولوٹارہے ہیں۔قلمکاروں،ادیبوں،مصنفین نے جوجنگ حکومت کے خلاف شروع کی اسے بے پناہ عوامی حمایت مل رہی ہے۔فلم ڈائرکٹر،سائنسداں،پدم بھوشن،پدم شری سرکاری اعزاجات پانے والے افرادبھی مودی سرکارکے خلاف ڈٹ گئے ہیں۔؎

اکیلاہی چلاتھاجانب منزل مگر

لوگ ساتھ آتے گئے کارواں بنتاگیا

ایسے وقتوں میں جب پورے ملک میں اقلیتوں،کمزوروں،ادیبوں پرجان لیواحملے ہورہے ہیں۔ہرنئی صبح کچھ نہ کچھ صدمات کی خبریں ہیں۔ایسے وقتوں میں بہارمیں اسمبلی الیکشن ہے۔الیکشن کابالکل آخری دورہے۔عوام الناس دلتوں،اقلیتوں،پسماندہ طبقات،کسانوں کوسوچناہے۔ہمارادشمن کون ہے۔کون ذات پات مذہب کے نام پرپورے ملک میں خونی کھلواڑکردیاہے۔بھائیوں کوبھائیوں سے لڑارہاہے۔عقلیت پسندادیبوں کومروارہاہے۔کون جھوٹے وعدے کرکے پھرووٹ مانگنے آیاہے۔کون فرقہ وارانہ ہم آہنگی اورقومی یکجہتی کوتباہ کررہاہے۔یہی وزراعظم مودی ہیں جنہوں نے گجرات فسادات کے تعلق سے مسلمانوں کوکتے کے پلے سے تشبیہ دی۔توان کی حکومت میں شامل ایک وزیرنے دلتوں کوکتے سے تشبیہ دی۔ریزرویشن کے نام پرمودی جی مسلمانوں اوردلتوں کولڑارہے ہیں۔مودی جی ریزرویشن پرجھوٹ بول رہے ہیں۔اگرنتیش کمارنے دلت (پسماندہ) اقلیتوں کوریزرویشن دینے کی بات کہی توغیردستوری کہاں؟انگریزوں کے زمانے میں تمام مذاہب کے دلتوں (پسماندہ) طبقات کوریزرویشن ملتاتھا۔یہ ریزرویشن ایک صدارتی حکم کے ذریعہ۱۹۵۰؍میں صرف ہندودلتوں کے لئے کردیاگیا۔بعد میں ۱۹۵۶؍میں سکھوں اور۱۹۸۹؍میں نوبودھشٹ لوگوں کیلئے بھی کردیاگیا۔باقی اقلیتیں مسلم وعیسائی،پارسی وغیرہ آج تک ریزرویشن سے محروم ہیں۔یہ غیردستوری ہے۔مسلم ریزرویشن کی خاطربہار،یوپی میں ڈاکٹراعجازعلی،شبیرانصاری،ایڈوکیٹ مشتاق احمد،مہاراشٹرمیں مسلم کھاٹک سماج کے ڈاکٹرحسن الدین،محمودنواز،شمس الدین شیخ وغیرہ میدان عمل میں ہیں۔عیسائیوں اورمسلمانوں کوبھی شیڈول کاسٹ کاریزرویشن ملے۔مہاراشٹرمسلم کھاٹک سماج کی اپیل عدالت عالیہ سپریم کورٹ میں داخل بھی ہے۔
ہماراملک یہاں انیکتامیں ایکتاہے۔کثرت میں وحدت ہے۔بھانت بھانت کی بولیاں تہذیب مذاہب سب مگرہندستانی!

چشتی نے جس زمین میں  پیغام حق سنایا

نانک نے جس چمن میں وحدت کے گیت گائے

ہمارے ملک کے بزرگ سیاستداوں نے اسی بات کے پیش نظردستوروآئین میں فسادات ،ہرایک کوعدل وانصاف مذہبی سماجی آزادی جیسے اہم اخلاقی انسانی اقدارکوتحفظ دیا۔اس سے راشٹریہ سوئم سنگھ کوعداوت نفرت کدورت ہے۔یہ ملک کوہندوراشٹربنانے کیلئے اپنے قیام۱۹۲۵؍سے کوشاں ہے آرایس ایس کے بانیان لیڈران گوالکر،ہیکڈیوار،ساورکر،سدرشن وغیرہ کی تحریریں ،تقاریرپڑھنے سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوتی ہے کہ آرایس ایس اقلیتوں،دلتوں،کسانوں،مزدوروں،خواتین کے خلاف کس قدرہے۔پہلے جن سنگھ اوراب بھارتیہ جنتاپارٹی یعنی بی جے پی آرایس ایس کی ذیلی شاخ کی طرح ہے۔مودی جی گجرات کے وزیراعلی تھے ۲۰۰۲؍ کاگجرات کابھیانک فرقہ وارانہ فساد ان کی سرپرستی میں ہوا۔یہ جگ ظاہر ہے لگتاہے کہ اسی کاصلہ آرایس ایس نے انہیں وزیراعظم ہندستان بناکردیا۔کہ جاؤپورے ہندستان کوگجرات بناؤ۔ہم بہارکوگجرات بننے نہ دیں گے۔یہاں چندمہینوں پہلے مہاراشٹرمیں بھی بی جے پی کامیاب ہوکراقتداراعلی پربیٹھی ہے۔آتے ہی سردخانے میں پڑاہوابیف کے مسودے کوقانونی شکل دے دی۔ گویاشرپسندوں کواقلیتوں ومسلمانوں کے خلاف ہزیمت پہونچانے کالائسنس مل گیا۔اسی کے ساتھ بی جے پی نے مسلمانوں کے ریزرویشن کوختم کردیا۔مہاراشٹرمیں بی جے پی کواقتدارمیں لانے کاکام قوم وملت کے نام نہادقائدملت اویسی اوران کی پارٹی کارہا۔۲۵؍جگہوں سے اپنے امیدوارکھڑے کئے۔صرف ۲؍پرکامیابی ملی۔متعددسیٹوں پربی جے پی وشیوسیناکوکامیاب کیا۔بہارکے مسلمان باشعورہیں۔خاص طورپرسیمانچل کے مسلمان فرقہ واریت کوجانتے ہیں۔انہوں نے جناح کوٹھکرایا۔نئے جناح کوبھی ردکردیں گے۔یہ فرقہ واریت ہی تھی کہ آج بھی لاکھوں بہاری مسلمان بنگلہ دیش اورپاکستان میں انتہائی ہزیمت جھیل رہے ہیں۔اللہ کسی انسان کویہ حالت نہ دکھلائے ۔
فرقہ واریت کسی بھی مذہب کی ہو،وہ کینسرکی طرح ہے۔اسے ختم کرناضروری ہے شاہی امام ہوکہ مسعودرانا،اعظم خان،اویسی برادران یہ سب پروین توگڑیا،ساکھشی مہاراج ،موہن بھاگوت کی طرح ہیں ایک سکہّ کے دوروپ۔گاندھی جی کے قتل کے بعدآرایس ایس پرپابندی لگ گئی تھی۔گاندھی جی کوآرایس ایس کے گوڈسے نے اسی لئے قتل کیاتھاکہ وہ ہندومسلم اتحاداورہریجنوں کی فلاح وبہبودی کی بات کرتے تھے۔آرایس ایس پرپابندی اس کے لیڈران کے کہنے پراٹھائی گئی تھی کہ وہ سیاست میں حصہ نہ لے گی مگرثقافتی وسماجی کرداراداکرے گی۔اس کے باوجودآج مسلسل کئی سالوں سے وہ سیاست ہی کے ذریعہ عوام الناس کوہزیمت کاباعث بنی ہے۔بہارکے الیکشن کے نتائج پرپورے ملک کی نگاہیں ہیں لوگ چاہتے ہیں کہ بی جے پی کو شکست ہو۔ملک میں بڑھتی فرقہ پرستی،لاقانونیت کے خلاف ادیبوں کی شروع کی گئی لڑائی کودن بدن تقویت مل رہی ہے۔

بہارالیکشن میں اویسی برادران ووٹ کٹواپارٹی بن کربالراست مودی کی سیاست کوتقویت دیتے نظرآرہی ہیں۔مسلمانوں کوانتہائی تدبیرحکمت اورووٹنگ کی شرح کوبڑھاتے ہوئے نتیش ولالوکانگریس کے محاذ کوووٹ دیناہے۔یہی بی جے پی کوشکست دیتانظر آرہاہے۔لالونے سینکڑوں سالوں سے انتہائی پسماندہ طبقوں کواحساس خودی دی۔عزت نفس کوبڑھایا۔جوحقیقتاً اس کے لائق تھے۔اگڑوں اورسورنوں کے ہاتھوں ستائے گئے افراد ہرجگہ ہیں۔ہرمذہب میں ہیں یہ جب متحدہوکرلالو کے ساتھ ہیں۔دوسری طرف نتیش جی نے بطوروزیراعلی بہارکی سماجی وتعلیمی کردارمیں انتہائی صاف وشفاف کرداراداکیا۔لالونتیش آج بہار کی نہیں ملک کی ضرورت ہے۔انشاء اللہ کامیابی ان کوملے گی۔یہ مظلوموں کمزوروں کے طرفدار ہیں کوئی غدارنہیں کہ آرایس ایس اورمودی وان کے حواری ان کے خلاف کے غلط سلط بات کریں۔ناپاک زبان سے گندی باتیں ہی ہواکرتی ہیں۔لالونے سینکڑوں آندھیاں جھیل کر آگے بڑھناسیکھاہے؎

تم میرے ساتھ چل نہیں سکتے غم کے سائے میں ڈھل نہیں سکتے

میں گراتوسنبھل جاؤں گاتم گرے توسنبھل نہیں سکتے

 

امیدیں یہی بتلارہی ہیں کہ لالونتیش،کانگریس کامیاب ہونگے۔؎

 

لاکھ آندھیاں چلے لاکھ بجلیاں گرے

وہ پھول کھل کررہے گے جوکھلنے والے ہیں

فرقہ وارانہ ہم آہنگی،تکثیریت ،قومی یکجہتی کی بنیادپر ہماراملک سینکڑوں سالوں سے اکھنڈہے۔اس کی سالمیت وبقاء کیلئے قومی یکجہتی انتہائی ضروری ہے۔ہمارے ملک کے اتحاد ڈھانچے کومزیدمضبوط بناناہے۔ثکثریت،اتحاد،فرقہ وارانہ ہم آہنگی سے آرایس ایس کوبی جے پی کونفرت کدورت ہے۔کسی نے مودی کوگجرات فساد پرموت کاسوداگرکہاغلط نہ تھا۔

عقل فہم،سمجھداری کاہوناہم ہندستانیوں میں ضروری ہے۔علامہ اقبال نے خوب کہاتھا؎

نہ سمجھوگے تومٹ جاؤگے ہندستان والوں
تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں

مودی جی کے راج میں پورے ہندوستان میں مہنگاہی،فرقہ واریت،لاقانونیت کادوردورہ ہے۔پھرمودی جی کودعوی کہ ہم نے بہت کچھ کیا۔سب کاساتھ سب کاوکاس زمین دوزہوگیا۔ملک اوراپنے صوبہ بہارکواس زمین دوزی سے بچاناہے۔پورے ملک کے عوام دھیرے دھیرے مودی راج پراحتجاج کررہے ہیں۔بہارکے الیکشن میں عوام الناس صرف انتہائی اہمیت کاحامل اپناووٹ مودی کے بی جے پی کے خلاف درج کرکے پورے ملک کاساتھ دیں گے۔مجلس اتحادالمسلمین اوراسدالدین اویسی کی سیاست جناح کی سیاست ہے جسکے نتائج برصغیرکے مسلمانوں آج تک نقصان ہی نقصان اٹھارہے ہیں۔ہمیں مولاناابواکلام آزاد کی اعلی ارفع بلندسیاست کی ضرورت ہے۔اگرمسلمانوں نے ان کی بات مان لی ہوتی تواس قدرمسلمانوں کانقصان نہ ہوتا۔

(یو این این)

*******************************

 


   

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 517