donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Bihar
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Bihar Assembly Ka Ijlas Shor Sharabe Ki Nazar


بہار اسمبلی اجلاس شور شرابے کی نذر!


ڈاکٹر مشتاق احمد

موبائل:9431414586


    جمہوری طرز حکومت و پارلیمانی نظام میں عوامی مسائل اور مفاد عامّہ کے متعلق غورو فکر کرنے کا فریضہ صرف حکمراں جماعت کے سر ہی نہیں ہوتا بلکہ اس کی ذمہ داری حزب اختلاف پر بھی عائد ہوتی ہے۔ کیونکہ پارلیامنٹ ہو یا اسمبلی اگر ان میں جب تک ملک و قوم کے مسائل پر سنجیدہ بحث و مباحثہ نہیں ہوتا اس وقت تک صحت مند خطوط سامنے نہیں آتے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ حالیہ دنوں میں نہ صرف پارلیامنٹ بلکہ مختلف ریاستوں کی اسمبلیوں کے اجلاس شور شرابے کی نذر ہورہے ہیں۔ نتیجہ ہے کہ عوامی مسائل کے تعلق سے کوئی خاطر خواہ نشانہ نہیں بن پاتا ۔ اکثر اسمبلیوں کے اجلاس کی مدت کار بھی بہت کم دنوں کی ہوتی ہے اور روایتی انداز میں پہلے دن تو فوت ہوئے ممبران اسمبلی و دیگر رہنمائوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے بعد ملتوی کر دئے جاتے ہیں۔ پھر اس کے بعد کے ہفتہ دس دنوں کے اجلاس میں بمشکل دو سے تین دن ہی اجلاس چل پاتے ہیں۔ بقیہ دن تو ہنگاموں کی نذر ہوجاتے ہیں ۔غرض کہ جس مقصد سے اجلاس منعقد ہوتے ہیں وہ مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ 

    حال میں بہار اسمبلی اور قانون ساز کونسل کا مشترکہ اجلاس بھی پورے طور پر شور شرابے کی نذر ہوکر رہ گیا۔ البتہ اس شور شرابے میں ہی وسط مدتی بجٹ اور ایک دو اہم بل ضرور پاس ہوئے۔ بقیہ دن تو نوٹ بندی کے مسئلے اور تو تو میں میں کرنے میں صرف ہو گئے۔ جبکہ عوام الناس کو توقع تھی کہ اس سرمائی اجلاس میں کئی اہم مسئلوں پر بحث و مباحثہ ہوگا اور خاطر خواہ نتائج سامنے آئیں گے۔ ظاہر ہے کہ اس وقت بہار میں عظیم اتحاد یعنی جنتا دل متحدہ ، کانگریس اور راشٹریہ جنتا دل کی حکومت ہے اور بھارتیہ جنتا پارٹی حزب اختلاف میں ہے۔چونکہ مرکز میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے اور حالیہ نوٹ بندی کا فیصلہ اس کے ذریعہ لیا گیا ہے اس لئے دیگر سیاسی جماعتیں نہ صرف قومی سطح پر بلکہ ریاستی سطح پر بھی اس فیصلے کی مخالفت کر رہی ہیں۔ اس کا اثر ریاست بہار میں بھی دکھائی دے رہا ہے ۔ اگرچہ بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے وزیر اعظم نریندر مودی کے نوٹ بندی کے فیصلے کی حمایت کی ہے لیکن ان کی اتحادی جماعتیں راشٹریہ جنتا دل اور کانگریس نے وزیر اعظم کے اس فیصلے کو عوام مخالف قرار دے کر الگ فرنٹ کھول رکھا ہے۔ اس لئے محض ایک ہفتے کے اجلاس میں دو تین دنوں تک یہی مسئلہ چھایا رہا اور شور شرابہ ہوتا رہا۔ حزب اختلاف کے لیڈر سوشیل مودی نے کونسل میں او رپریم کمار نے اسمبلی میں حکمراں جماعت کوعوامی مسائل کے بجائے شخصی مسئلے میں الجھائے رکھا ۔ ایک طرف سوشیل کمار مودی محترمہ رابڑی دیوی سے معافی طلب کرتے رہے تو دوسری طرف رابڑی دیوی سوشیل مودی کی معافی تک کونسل کو نہ چلنے کا عہد دہراتی رہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں لیڈران اپنی اپنی ضد پر اڑے رہے اور آخرکار اجلاس کی مدت ختم ہو گئی ۔ اسی طرح کا ماحول اسمبلی میں بھی رہا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی بار بار ہنگامہ کرکے ہائوس کو چلنے ہی نہیں دیا۔ مگر اسی شور شرابے میں حکومت نے کئی ضروری بل کو پاس کر دیا۔ بالخصوص وسط مدتی مالی بجٹ کا پا س ہونا لازمی تھا کہ اگر یہ پاس نہیں ہوتا تو ریاست کے ملازمین کی تنخواہ اور دیگر کئی ترقیاتی کاموں میں رخنہ پڑتا ۔ بہار کے وزیر مالیات عبد الباری صدیقی نے اس مالیاتی بل کو پاس کراکر یہ ثابت کر دیا کہ وہ ریاست کے ایک مدبرانہ ذہن رکھنے والے سیاستداں ہیں۔ اسی طرح وزیر تعلیم ڈاکٹر اشوک چودھری بھی’’ آریہ بھٹ نالج یونیورسٹی ترمیم بل‘‘ اور ’’مونگیر یونیورسٹی قیام بل‘‘ کو پاس کرانے میںکامیاب رہے۔ اردو کے حوالے سے بھی اس اجلاس میں کئی سوالات کئے گئے تھے مگر شور شرابے کی وجہ سے اجلاس ملتوی در ملتوی ہوتے رہے نتیجتاً کئی اہم سوالات بغیر بحث و مباحثہ کے رہ گئے۔ البتہ کانگریس کے ممبر اسمبلی ڈاکٹر شکیل احمد خاں کے سوال ’’اردو ڈائرکٹوریٹ کی خود مختاری‘‘ پر بحث ہو سکی اور حکومت کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی کہ ڈائرکٹوریٹ کو خودمختار بنانے کی کاوش شروع ہو چکی ہے ۔ کونسل میں کانگریس کے ہی ڈاکٹر دلیپ چودھری نے بھی اردو اساتذہ کی بحالی کے متعلق کئی سوالات کئے جس کا جواب بھی مثبت ہی رہا کہ حکومت نے یقین دلایا کہ آئندہ تعلیمی سال کے آغاز سے قبل اردو اساتذہ کی خالی آسامیوں کو پُر کر لیا جائے گا۔ دیگر ممبران نے بھی اس مسئلے پر اپنی فکرمندی کا اظہار کیا ۔ اسی طرح وزیر مالیات جناب عبدلباری صدیقی نے اسمبلی میں یہ یقین دہانی کرائی کہ ریاست میں اقلیت طبقے کے لئے جتنی اسکیمیں چل رہی ہیں اس میں فنڈ کی کمی نہیںہوگی۔ اس اعلانیہ کی روشنی میں محکمۂ اقلیتی فلاح و بہبود کے وزیر پروفیسر عبد الغفور اور محکمہ کے پرنسپل سکریٹری جناب عامر سبحانی نے ایک مشاورتی اجلاس حج بھون میں منعقد کرکے اقلیت طبقے سے مشورے طلب کئے ۔ اس اجلاس میں اقلیت طبقے کے کئی دانشوروںاور سیاسی لیڈروں نے بھی شرکت کی اور اپنے مفید مشورے دئے۔ جناب عامر سبحانی کا یہ اعلانیہ حوصلہ بخش رہا کہ گذشتہ مالی سال میں محکمۂ اقلیتی فلاح و بہبود کو جتنے فنڈ مہیا کئے گئے تھے سب کے سب بروقت خرچ کئے گئے اور اس سال بھی محکمہ اپنے تمام بجٹ کو اقلیتی فلاح و بہبود کی اسکیموں کو پورا کرنے میں فعال رہے گا اور فنڈ کی کمی نہیں آنے دیں گے۔ 

    بہرکیف، بہار اسمبلی و قانون ساز کونسل کا یہ سرمائی اجلا س جو محض ایک ہفتے کا تھا وہ اتنا مفید نہیں رہا جس کی توقع تھی کیونکہ بیشتر دن اجلاس ہنگاموں کی نذر ہوتا رہا۔ اگر حکمراں جماعت اور حزب اختلاف سنجیدگی سے اس مسئلہ پر غور نہیں کریں گے تو ممکن ہے کہ آئندہ بھی اسی طرح کا ماحول برقرار رہے گا،  جس کا نقصان عوام کو ہوگاکیونکہ اجلاس کے چلنے پر جو اخراجات ہوتے ہیں اس میں تو کسی طرح کی کمی نہیں ہوگی خواہ اسمبلی کی کاروائی چلے یا نہ چلے۔شاید یہی وجہ ہے کہ اسمبلی کے اسپیکر نے ایک دن کل جماعتی میٹنگ بھی طلب کی تھی مگر وہ بھی بے نتیجہ رہی ۔بہار کے گورنر موصوف نے بھی رواں اجلاس کی ہنگامہ آرائی پر فکرمندی ظاہر کی تھی اور حکمراں جماعت و حزب اختلاف کے لیڈران کو اسمبلی کے اجلاس کو پر امن طور پر چلانے کی تلقین بھی کی تھی مگر ان کی بھی صدا ، صدا بہ صحرا ہی ثابت ہوئی ۔ در اصل حالیہ دنوں میں نہ صرف بہار بلکہ دیگر ریاستوں کی اسمبلیوں میں جس طرح کے مناظر سامنے آرہے ہیں اس سے ایسا لگتا ہے کہ جمہوری تقاضوں کو بالائے طاق رکھا جارہا ہے ۔ حال ہی میں جھارکھنڈ اسمبلی میں بھی کچھ اسی طرح کا نظارہ تھا اور کچھ دنوں قبل اتر پردیش کی اسمبلی میں بھی کچھ اسی طرح کے نازیبا واقعات رونما ہوئے تھے ۔ میرے خیال میں پارلیامنٹ اور اسمبلی میں اس طرح کی ہنگامہ آرائی نہ صرف عوامی مسائل کو اندیکھا کرنے کا جواز ہے بلکہ جمہوری نظام کے کمزورہوتے ہوئے تانے بانے کا بھی نتیجہ ہے۔ یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے۔ اس مسئلے پر بھی ہمارے سیاست دانوں کو غور و فکر کرنی چاہئے اور اپنے اپنے سیاسی مفاد و شخصی شناخت سے اوپر اٹھ کر جمہوری قدروں کے استحکام کے لئے متحرک ہونا چاہئے کیونکہ اگر اسی طرح اسمبلیوں اور پارلیامنٹ کے اجلاس ہنگاموں کی نذر ہوتے رہیں گے تو پھر عوامی مسائل کب حل ہوں گے؟ جب مفاد عامّہ کے سوالات یوں ہی نظر انداز ہوتے رہیں گے اورقومی مسائل کے حل کی کوشش ہی نہیں ہوگی تو پھر عوامی نمائندوں کی معنویت کیا رہ جائے گی؟ 


٭٭٭

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 339