donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Bihar
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Bihar Me Urdu Ke Liye Mahaul Sazi Ki Aik Nayi Koshish

بہارمیں اردو  کے لئے ماحول سازی کی ایک نئی کوشش


٭ڈاکٹر مشتاق احمد

موبائل نمبر:9431414586


کسی بھی زبان کی ترقی کا انحصار اس کی بنیادی تعلیم اور کے استعمال پر ہے۔ اس لئے جب کبھی سرکاری یا غیر سرکاری سطح پر زبان کے فروغ کی بات کی جاتی ہے تو اس کا محور ومرکز محض یہی ہوتا ہے کہ اس زبان کی تعلیم کو عام کیا جائے اور اس کے چلن کی روش جاری رکھی جائے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ اردو زبان کے متعلق اس طرح کی فکر مندی کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ نتیجہ ہے کہ وہ علاقہ جو کبھی اردو کا گہوارہ کہلاتا تھا وہاں اردو کا چراغ مدھم ہوتا ہوا نظر آرہا ہے، مثلاً شمالی ہند میں اتر پردیش اردو زبان کی تعلیم کا سب سے بڑا مرکز تھا لیکن آزادی کے بعد جو لسانی تعصب کا دور شروع ہوا اس میں سب سے زیادہ متاثر اترپردیش ہی ہوا کہ پرائمری ومکتب کی سطح کے تعلیمی مراکز سے اردو کی تعلیم ہی ختم کردی گئی۔ لہٰذا گفتگو کی حد تک تو اردو کی چاشنی اب بھی باقی ہے لیکن تحریری معاملے میں مایوس کن صورت حال ہے۔ اکثر یہ خبریں بھی ملتی رہتی ہیں کہ اردو کے پرچے اسکولوں اور کالجوں میں ہندی رسم الخط میں لکھے جارہے ہیں کیوں کہ اردو رسم الخط کا رواج ہی ختم ہوتا جارہا ہے۔ ظاہر ہے کہ حکومت کسی بھی سیاسی جماعت کی ہو وہ اردو کے تئیں زبانی جمع خرچ تک ہی ہمدرد ہے ، عملی معاملے میں ان کا رویہ ہمیشہ تعصبانہ رہا ہے۔ اردو کی بد قسمتی یہ ہے کہ جو اس کے حوالے سے قومی سطح پر اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں وہ بھی عملی طور پر اس کیلئے کچھ کرنے کا جوکھم نہیں اٹھا پاتے۔ گجرال کمیٹی اور اس کی شفارشات سے بھی اردو آبادی واقف ہے لیکن جب آنجہانی اندر کمار گجرال ملک کے وزیر اعظم ہوئے تو انہوںنے اردو کے لئے کیا کچھ کیا اس سے بھی اردو آبادی انجان نہیں ہے۔ 

مختصر یہ کہ آزادی کے بعد سے اردو کسی نہ کسی صورت ہماری سیاست کا موضوع بنتی رہی ہے لیکن اردو زبان کے فروغ کے جو تقاضے ہیں اس کی ان دیکھی ہوتی رہی ہے۔ البتہ جنوبی ہند میں اردو داں طبقے کی ذاتی کوششوں سے شجر اردو کی آبیاری ہوئی ہے اور ان علاقوں میں دنوں دن یہ شجر سایہ دار ہوتا جارہا ہے۔ مہاراشٹرا، کرناٹک، آندھرا پردیش ، تامل ناڈو کے مخصوص حصے میں اگر اردو پھل پھول رہی ہے تو اس میں وہاں کی حکومت سے زیادہ اردو آبادی کی بیداری اور اردو زبان کے تئیں خلوص نیتی شامل ہے کہ ان ریاستوں میں بڑی تعداد میں اردو میڈیم اسکول چل رہے ہیں۔ بلکہ اردو رسم الخط میں امتحان دینے والے طلبا نمایاں کارکردگی بھی دکھا رہے ہیں۔ مگر شمالی ہند میں ایسا کچھ نہیں دکھائی دے رہا ہے، بلکہ اس معاملے میں مغربی بنگال کی بھی اردو آبادی فعال ہے کہ وہاں بھی اردو میڈیم سے طلبا مادھمک (میٹرک) کا امتحان دیتے ہیں لیکن بہار میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل رہنے کے باوجود اس کے اردو میڈیم اسکولوں کی تعداد نہیں کے برابر ہے اور اردو رسم الخط میں امتحان دینے والے طلبا بھی انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔ اب سوال اٹھتا ہے کہ جب اردو زبان کی تعلیم ہی بے توجہی کی شکار ہے اور اس کے رسم الخط کے فروغ کا راستہ ہی مسدود ہے تو ایسے میں اس زبان کی ترقی کا راستہ کیسے ہموار ہوسکتا ہے۔ اس پر سنجیدگی سے غور فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ میرے خیال میں نوے کی دہائی سے اردو رسم الخط کے استعمال اور اس کی تعلیم کا دائرہ محدود ہوتا چلا گیا ہے۔ سچائی تو یہ ہے کہ اگر آج بہار اور اترپردیش میں اردو رسم الخط زندہ ہے تو اس کا سہرا ان مدارس کے سر ہے جہاں آج بھی اردو رسم الخط میں تعلیم کی روایت ہے اور ان کی نصابی کتابیں بھی اردو میں ہیں۔ممکن ہے کہ مدارس کے طریقہ تعلیم سے آپ اتفاق نہ کریں لیکن اس مسلمہ حقیقت کو تسلیم کرنا ہی ہوگا کہ اردو کے فروغ میں مدارس کا کلیدی کردار ہے۔

جیسا کہ میں نے کہا کہ نوے کی دہائی سے اردو کا چلن کم ہوتا گیا ہے تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اسی عرصہ میں سرکاری اسکولوں کی جگہ پرائیویٹ اسکولوں کا فروغ ہوا ہے اور ان میں بیشتر اسکول انگلش میڈیم کے ہیں جہاں اردو کی تعلیم کا معقول انتظام نہیں ہے اور اردو آبادی کی زبان کے تئیں لاپروائی کی وجہ سے نئی نسل اردو کی طرف راغب بھی نہیں ہوسکی۔ نتیجہ ہے کہ اردو زبان کی تعلیم آہستہ آہستہ ختم ہوتی جارہی ہے۔ جہاں تک سرکاری مکاتب اور پرائیمری اسکولوں کا سوال ہے تو وہاں بھی پرانے اساتذہ کی سبکدوشی کے بعد برسوں تک اردو اساتذہ کی جگہیں خالی رہیں جس کی وجہ سے بھی اردو کی تعلیم متاثر ہوئی۔ اب جبکہ ان اسکولوں میں اردو اساتذہ کی بحالی کو یقینی بنانے کا مرحلہ چل رہا ہے اور بیشتر اسکولوں میں اردو اساتذہ کی بحالیاں بھی ہوئی ہیں لیکن ایک شکایت یہ بھی مل رہی ہے کہ پہلے اردو کے مکتب میں تمام اساتذہ اردو رسم الخط کے ذریعہ پڑھانے والے ہوتے تھے وہاں اردو کے نام پر محض ایک ٹیچر کی پوسٹنگ کی جارہی ہے اور بہت سے اسکولوں سے اردو اساتذہ کی پوسٹیں ہی ختم کردی گئی ہیں۔ اگرچہ حکومت بہار نے ان تمام اسکولوں میں اردو اساتذہ کی پوسٹنگ کا اعلان کرچکی ہے جہاں دس اردو پڑھنے والے طلبا ہوںگے۔ میرے خیال سے یہ شرط بھی اردو کے حق میں نہیں ہے کیوں کہ جب ریاست کی دوسری سرکاری زبان اردو ہے تو آئینی طور پر تمام تعلیمی اداروں میں اردو اساتذہ کی بحالی کو یقینی بنایا جانا چاہئے لیکن ایسا نہیں ہوسکا ہے۔ یونیورسٹی سطح پر بھی بہت ایسے کالج ہیں جہاں آج بھی اردو کی پوسٹیں نہیں ہیں۔ اس کے لئے بارہا اسمبلی وکونسل میں سوال اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ حالیہ اسمبلی اجلاس میں بھی ڈاکٹر شکیل احمد خاں نے اس مسئلے کو اجاگر کیا ہے لیکن حکومت کی جانب سے جب تک کوئی عملی اقدام قانونی صورت میں نہیں کیے جائیں گے اس وقت تک ان اسکولوں اور کالجوں جہاں اردو اساتذہ کی پوسٹیں نہیں ہیں، اس کا راستہ نہیں کھل سکتا۔ دراصل ا س کے لئے ریاستی سطح پر تحریک کی ضرورت ہے اور پھر حکومت کے ساتھ سنجیدگی سے گفت و شنید ضروری ہے، ورنہ اردو زبان کے فروغ کے لئے یونہی اعلانات ہوتے رہیںگے اور ہم اردو آبادی مبارکبادیاں پیش کرتے رہیںگے لیکن اردو کے حصے میں کچھ بھی نہیں آنے والا، جیسا اب تک ہوتا آیا ہے۔ اس لئے اردو آبادی اگر واقعی اردو رسم الخط اور اپنی تہذیبی وراثت اردو زبان کو زندہ رکھنا چاہتی ہے تو اسے اجتماعی طور پر اس کیلئے عملی جد وجہد کرنی ہوگی، تاکہ یہ زبان زندہ رہ سکے کہ یہ ہماری شناخت کی ضامن ہے۔

بہرکیف! اس مایوس کن فضا میں بھی کچھ لوگ اردو کے پودوں کی آبیاری کے لئے متحرک ہیں۔ ان دنوں بہار کا محکمہ اردو ڈائریکٹرایٹ اردو رسم الخط کے چلن اور اس کی تعلیم کے تئیں بیداری کی مہم خاص چلارہا ہے۔ واضح ہوکہ اس ڈائریکٹرایٹ کا کام ریاست کے سرکاری دفاتر میں اردو کے چلن کو فروغ دینا ہے۔ چونکہ اردو دوسری سرکاری زبان ہے اس لئے دفتری امور میں اردو کے استعمال کا آئینی حق اردو آبادی کو حاصل ہے۔ غرض کہ اردو میں کسی بھی طرح کی درخواستیں دی جاسکتی ہیں جس کا ترجمہ اردو مترجم کرکے انتظامیہ کے اعلی حکام تک پہنچا سکتے ہیں۔ یہ نظام بلاک سے لے کر ضلع سطح تک ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اردو آبادی اردو میں درخواست دینا معیوب سمجھتی ہے نتیجہ ہے کہ اردو مترجم دیگر کاموں میں مصروف ہیں۔ لیکن ڈائریکٹرایٹ کے موجودہ ڈائریکٹر امتیاز کریمی نے تمام اضلاع میں مترجموں کے لئے ورک شاپ اور عام اردو آبادی کے لئے بیداری جلسے کا اہتمام کیا ہے جو ان دنوں ریاست کے ضلع ہیڈ کورٹر وں میں کیے جارہے ہیں۔ اسکولی بچوں کے لئے مضمون نگاری، بیت بازی اور اردو کوئز کا بھی اہتمام کیا جارہا ہے۔ میرے خیال میں ڈائریکٹرایٹ کی یہ کوشش نہ صرف اردو کے تئیں عوام الناس میں بیداری لائے گی بلکہ طلبا کے لئے مسابقتی پروگرام اردو سے رغبت پیدا کرنے کا نسخہ بھی ثابت ہوگا۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ضلع سطح کے بعد بلاک سطح پر بھی یہ مہم شروع ہونی چاہئے، بالخصوص اردو کے لئے کام کرنے والی رضاکار تنظیموں کو اس میں پہل کرنی چاہئے کیوں کہ حکومت فنڈ تو فراہم کرسکتی ہے لیکن پلیٹ فارم تیار کرنے کی ذمہ داری تو عوام پر ہی ہوتی ہے۔ یہ ایک اچھا موقع ہے کہ حکومت بہار کا محکمہ اردو ڈائریکٹرایٹ فعال ہے اور زمینی سطح پر کام کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ڈائرکٹریٹ کا یہ قدم بھی قابل تحسین ہے کہ پہلے سال میں صرف چار ادباو شعراکی یوم ِپیدائش پر خصوصی لکچرکا اہتمام ہوتا تھا۔ اب بیس ادباو شعرا کی یوم پیدائش کو بصورتِ تقریب اور لکچر کا اہتمام کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اب تقریباً ہر ماہ ایک دو خصوصی لکچر کا اہتمام ہوگا۔ اس سے نئی نسل کو اپنے اکابرین کی خدمات سے آگاہی کا موقع ملے گا۔ اس لئے بہار کی اردو آبادی کے لئے یہ وقت سازگار ہے کہ اردو ڈائریکٹرایٹ اردو رسم الخط کے چلن کو عام کرنے کی جو جد وجہد کررہا ہے اس  میں ہم سب بھی معاون ثابت ہوں تاکہ اردو کے لئے جو ماحول سازی ہورہی ہے اس کو فروغ مل سکے۔ 

٭٭٭

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 356