donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Bihar
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Reyaz Azimabadi
Title :
   Bihar Ke Aqliati Adaron Ke Beech Bahmi Rawabit Kiyon Nahi


 بہار کے اقلیتی تکنیکی اور تعلیمی اداروں کے درمیان

 

باہمی روابط کیوں نہیں؟    

   
٭ریاض عظیم آبادی


    گذشتہ ہفتہ موبائل پر ایک آواز سنائی دی’ میں ظفر غنی بول رہا ہوں  بھیا۔‘ 36برسوںتک کے بعد یہ آواز سن رہا ہوں ،کہا ںہو؟  میرے سوال کے جواب میںوہ دوسرے روز میری رہائش گاہ پر موجود تھے۔انکے ساتھ انجمن ترقی اردو کے جنرل سکریٹری عبدالقیوم انصاری بھی تھے۔ مسلمانوں کے مسائل  اور اردو کی موجودہ صورتحال پر بحث ہوئی ۔کٹیہار میڈیکل کالج،مولانا آزاد انجینئرنگ کالج پٹنہ،ملیہ ایجوکیشنل ٹرسٹ پورنیہ کے ماتحت کئی کالج،مرزا غالب کالج گیا،اورینٹل کالج پٹنہ ،زیڈ اے اسلامیہ پوسٹ گریجویٹ کالج،سیوان،متھلا مائنوریٹی ڈینٹل کالج دربھنگہ،نقی امام ڈینٹل کالج بہیرا، دربھنگہ ڈینٹل کالج …اگر جائزہ لیں تو بہار میںمختلف اقلیتی ادارے مسلمانوں کی اعلیٰ تعلیم کے لیے سرگرم ہیںاور سبھی اپنی جگہ پر اہمیت کے حامل ہیں۔احمد اشفاق کریم،مرحوم جسٹس سرور علی اور جسٹس علی احمد،مسعود منظر،غلام حسین اور اسد امام،ظفر غنی،اچاریہ شوکت خلیل، فیاض احمد،ڈاکٹر نقی امام،مرحوم محمد علی خان،مرحوم جسٹس خلیل احمدجیسی شخصیات کی خدمات کو فراموش کیا جا سکتا ہے؟

    40سال قبل میں بہار مسلم ایجوکیشنل سوسائٹی کا سکریٹری ہوا کرتا تھا۔میں نے تمام اقلیتی اداروں کو ایک پلیٹ فارم پر لاکرانکے درمیان ثقافتی رشتہ کے ذریعہ ایک دوسرے کے قریب کردینے کی کوشش کی تھی جو خود غرضی،باہمی چپقلش اور نا سمجھی کی وجہ سے کامیاب نہیں ہو سکی۔

    احمد اشفاق کریم ایک جنون،منزل کو پانے کی لگن اور ادارے کو بام عروج پر لے جانے کے عزم کا نام ہے جس نے ۶۰ ایکڑ کے علاقے میں شمال مشرقی ہندستان کا سب سے بہترین کالج بنا دیا۔پورنیہ جیسے پسماندہ علاقے میں غلام حسین اور اسد امام ملیہ ایجوکیشنل ٹرسٹ  کے زیر اہتمام دو انجیرینگ،ایک بی ایڈ اور ایک پالیٹکنک کالج کامیابی کے ساتھ چلا رہے ہیں ہے۔مرزا غالب کالج کی باہمی رسہ کشی ختم ہو چکی ہے آج مسعود منظر کی چیر مین شپ میں شاندار کار کردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ہم جسٹس خلیل احمد مرحوم کو فراموش نہیں کر سکتے جن کی کو ششوں سے پٹنہ کے قدیم محمڈن اسکول کے احاطہ میں اورینٹل کالج کی بنیاد ڈالی گئی ۔پروفیسرمحمد علی خاں کالج کے سکریٹری بنا ئے گئے تو انہوں نے کالج کو پٹنہ کے بہترین اقلیتی کا لجوں میں شامل کر وایا ۔محمد علی خاں نے پٹنہ سیٹی کے سیکڑوں نوجوانوں کو گریجویٹ بنا نے میں اہم کردار نبھا یا سیوان میں مرحوم ،ایم ۔این ۔غنی صاحب نے ،زیڈ۔اے اسلامیہ کالج کی بنیاد ڈالی جو آج کالج کے سکریٹری ظفر غنی کی انتظامیہ میں بہار کا معروف کالج بن چکا ہے ۔آچاریہ شوکت خلیل نے دربھنگہ میں میتھلا مائنوریٹی کالج کوایک فعال اور شاندار کالج بنا ڈالا۔فیاض احمد بھی ایک جنونی انسان کا نام ہے جو ایم ایل اے ہو تے ہوئے بھی ایک ڈینٹل کالج اور کئی کالج چلارہے ہیں جس میں ایک بی ایڈ کالج بھی شامل ہے بہیرا مین ڈاکٹر ایس،ایم نقی امام ڈینٹل کالج کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا نقی امام کے بھا یوں نے نقی امام کو ہی کالج سے الگ کر دیا لیکین ظفر امام ،نیئر امام اور علی امام کالج کو آگے برہا نے میں کامیاب ہیںمیں اللہ سے دعا کرتا ہو کے سبھی بھائیوں کے دل ایک دوسرے سے مل جائیں۔ ہم نے پٹنہ ،گیااور ریاست کے دیگر علاقوں میں قائم اقلیتی اسکولوں کا ذکر نہیں کیا ہے ان اسکولوں پر الگ سے تفصیلات شائع کر نے کی ضرورت ہے۔میں نے 1975کے بعد اقلیتی کالجوں اور اداروں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی مثبت کو شش کی تھی ۔

    میں سوچ رہا ہوں کہ ہمارے اقلیتی اداروں کے در میان باہمی رابطہ کیوں نہیں ہے؟ہم عیسائیوںسے ادارہ چلانے کی ترغیب کیوں نہیں لیتے ؟ کھیل کود،تقریری،تحریری مقابلوں کا  انعقاد کیوں  نہیں کرتے؟بہار کئی ڈینٹل کالج ہیں  جنکے کبھی سیمینار منعقد ہونے کی خبر نہیں ملی۔مولانہ آزاد انجینئرنگ کالج اب ایک معتبر ادارے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ملیہ ٹرسٹ کے کالج بھی عوام میں مقبول ہوتے جا رہے ہیں۔کسی فرد کو تمام اداروں کی ایک مشاورتی میٹنگبلانی چاہیے۔آج کٹیہار میڈیکل کالج ایک بڑا ادارہ بن چکا ہے۔۱۳ مئی کو پٹنہ میں امیر شریعت کے ساتھ احمد اشفاق کریم کو سننے کا موقع ملا۔ 

اشفاق کریم عزم کے معاملے ابھی بھی با عزم ہیں اور اب بہار کو جلد ہی ا لکریم یونیور سیٹی کا تحفہ دینے کی تیاری کر رہے ہیں۔لیکن نجی میڈیکل کالج نیٹ میں کامیاب ہونے کے بعد بھی درمیانی طبقہ کے مسلمانوں کی دسترس سے باہر ہو چکا ہے۔جسکی ماہانہ آمدنی دس لاکھ سے زیادہ ہوگی وہی ایک لاکھ ۲۰ ہزار روپیہ ماہانہ فیس دیکر اپنے جچوں کو ڈاکٹر بنانے کی سوچ سکتا ہے۔یہ فیس ایم سی آئی نے طے کیا ہے۔ایم ڈی اور ایم ایس کرنے کے لیے ایک کروڑ فیس دینی ہوگی۔تقریباََ ۶۰ لاکھ خرچ کرنے کے جو نوجوان ڈاکٹر بنے گا وہ غریبوں کی خدمت کرنے کی نہیں بلکہ انہیں لوٹ کرتعلیم پر صرف رقم کو نکالنے کی فکر کریگا۔اقلیتی میڈیکل کالج اقلیتوں سے دور ہو چکا ہے اب صرف دولت مند  کے بچے ہی ڈاکٹر بن پائیںگے۔

    عام طور پر اقلیتی کالجو ں کا مطلب کند ذہن اور تھرڈڈویژنر طلبہ کی پناہ گاہ سمجھا جاتا ہے۔ہم تعلیم کے معیار کو بلند کر طلبہ کو اونچائی پر لانے کی کوشش کہاں کرتے ہیں اور اقلیتی کالجوں میں تعلیمی ماحول بنانے کی سعی نہیں کرتے ہیں۔کم از کم سال میں ایک دو مرتبہ انٹر مائنورٹی کالج ڈبیٹ اور ایلوکیشن مقابلہ،ایک مرتبہ کھیل کود کا مقابلے کا انعقاد کر سکتے ہیں۔تعلیم کے ساتھ ساتھ دیگر امور میں بھی اقلیتی طلبہ کو سرفراز کرانے کا منصوبہ بنایا جانا چاہئے۔طلبہ کے اندر ڈسپلن کا فقدان ہے جسے ترجیحی بنیاد پر ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ کالجوں اور اسکولوں میں برادران وطن کے بچے بھی پڑھتے ہیں۔ اچھا ماحول، اچھی تعلیم سے آپس میں میل و محبت کا ماحول بنے گاجس سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو تقویت پہنچے گی۔ اس وقت بہار میں ایک میڈیکل کالج اور کئی انجینئرنگ اور ڈینٹل کالج کامیابی کے ساتھ چل رہے ہیں۔ضرورت ہے ان کے درمیان باہمی روابط کی۔ پٹنہ میں ایک ایسے جلسے کا انعقاد کیا جائے جس میں تمام اقلیتی کالجوں کے اساتذہ کے نمائندے اور طلبہ کے نمائندے شریک ہوں۔ ایک لائحہ عمل تیار کر بہار کے اقلیتی اداروں کو ہندوستان کیلئے منفرد اور اہم اداروں میں شامل کرانے میں ہم سب مل کر کام کرسکتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس کی اہمیت و افادیت محسوس کریں۔ اگر تمام کالجوں کے اساتذہ کے نمائندے چاہیں تو میں اس کام میں تعاون کرنے کیلئے تیار ہوں۔طالبہ کی صلاحیتوں نکھارناہمارا فرض ہے۔اس کام میں ظفر غنی اور مسعود منظر مثبت رول ادا کر سکتے ہیں۔ضرورت ہے احساس کی اور کچھ کرنے کے جذبے کی۔تمام اقلیتی اداروںکو ایک دھاگے میں پرونے کی ضرورت ہے۔ اشفاق کریم کو اس محاذ کی سرپرستی کرنی چاہئے۔

(رابطہ9431421821)

 

*********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 669