donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Bihar
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Reyaz Azimabadi
Title :
   Urdu Ki Zabuhali Ke Liye Ham Sabhi Mujrim Hain


 

اردو کی زبو حالی کے لیے ہم سبھی مجرم ہی


ریاض عظیم آبادی


     جنوری۲۰۱۷ کا مہینہ۔اردو زبان کے تعلق سے دو اہم جلسوں کا انعقاد کیا گیا۔اردو زبان کے کچھ نقلی کچھ اصلی آنسو بہائے گئے ۔ایک دوسرے پر چھینٹا کشی کی گئی۔پہلا جلسہ اردو تحریک کے علمبردار ڈاکٹر عبد المغنی کی یوم پیدائش (۴ جنوری) کے موقع پر 8جنوری کواردو ڈائرکٹوریٹ کی جانب  سے منایا گیا اور اسی دن  شاد عظیم آبادی کو بھی یاد کیا گیا۔دوسری تقریب 10جنوری کوبہار اردو اکادمی کی جانب سے اردو کے سالار اعظم اور مایا ناز صحافی غلام سرورکی یوم  پیدائش جوش و خروش کے ساتھ منائی گئی۔  ڈاکٹر عبد المغنی اور غلام سرور اردو تحریک کے ستون تھے تھے۔ مجھ سے کئی  نوجوانوں نے پوچھا ’یہ دونوں  جلسے خانہ پری تھے یا اردو کے لیے بھی کچھ کیا جائیگا؟ میرے پاس کہنے کے لیے کیا تھا!

    پہلے میں نے اپنے سے سوال کیا،اب وہی سوال تمام اردودوستوں سے کر رہا ہوں…
    ۱۔پٹنہ کے میر افضل امام اردو داں ہیں ۔ کیا راجدھانی پٹنہ کی سڑکوں اور گلیوں کے نشانات کے بورڈوں پر اردو میں لکھا گیا؟

    ۲۔ کیا سرکاری اردو پرائمری اور سکنڈری اسکولوں میں اردو کی تعلیم دی جا رہی ہے؟
    ۳۔انجمن ترقی اردو کے گرانٹ (۸ لاکھ) کا کون مصرف لے رہا ہے؟اس خرچ کا اردو سے کیا رشتہ ہے ؟انجمن کے دفتر میں کرایہ کسکی اجازت سے لگایا گیا ہے؟ کیا اسکی اطلاع حکومت او ر بہار اردو اکادمی کو دی گئی ہے؟کیونکہ انجمن اکادمی کی کرایہ دار ہے!
    ۴۔کیا مشنری اسکولوں میں اردو کی تعلیم کا نظم ہوا؟

    ۵۔ کیا اردو دوستوں نے اپنے دوکانوں کا سائن بورڈ اردو میں میں لکھوا دیا ؟نہیں تو اسکے لیے کوئی تحریک چلائی گئی؟

    ۶۔ کیا اردو اسکولکے بچوں کو اردو  کی کتابیں وقت پر دستیاب ہو جائیںگی؟

    ۷۔ کیا ٹی ٹی ای پاس اردو اساتذہ کی بحالی ٹلتی رہے گی؟

    ۸۔موتیہارتی میں بننے  والی مرکزی یو نیور سیٹی اردو کی شمولیت ہوگی یا نہیں؟

    ۹۔اردو کے لکچروں کی بحالی کب تک ٹالی جاتی رہے گی؟

    یہ تو اردو آبادی کی خوش بختی ہے کہ امتیاز کریمی جیسا اردو ڈائکٹوریٹ کو زندہ بیدار اور فعال ڈائرکٹر اور اردو کادمی کو مشتاق احمد نوری جیساسرگرم سکریٹری مل گیا ہے۔ڈائرکٹو ریٹ  اردو کے ادیب اور شاعروں لی خدمات کو اردو آبادی متعارف کرانے کا کام کر رہا ہے تو اکادمی کو اردو آبادی  کے دروازوں پر دستک دے  رہی ہے اور ضلعوں کیاردو آبادی کواردو کے ساتھ عملی طور پر جوڑنے کی کوعشش کر رہی ہے۔یقیناََ ان دو اداروں نے اردو آبادی کے احساس کو جگانے کا کام کیا ہے اور اردو دانوں کے اندر ذمہ داری کے احساس کو جنجھوڑنے کا کام کیا ہے جسکی جتنی بھی ستائش کی جائے کم ہے۔

    ڈاکٹر عبدلمغنی میرے استاد تھے ا ور غلام سرور اردو صحافت کی آبرو تھے اور میرے لیے مشعل راہ تھے۔ غلام سرور کی صحافت پر ایک مضمون پٹنہ کے نصف درجن روزناموںمیں ۱۰ جنوری کو شائع ہو اہے ا ہے۔ ایک صاحب  نے فون کر شکایت کی کہ میں  نے سرور صاحب کی کمزوریوں کی نشاندہی نہیں کی۔میں نے جواب دیا انسان سفید و سیاح کا مجسمہ ہے،میں یہ دیکھتا ہوں کی جس شخصیت پر لکھ رہا ہوں ان میں نیک و بد میں حاوی کو ن ہے! غلام سرور نے صحافت کا استعمال اپنی سیاست  کے لیے ضرور کیا اور بہار میں اجتمائی کاوشوں پر روک لگا دی۔ یہ باتیں میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں۔کیا ہم غلام سرور کے محاسن کو فراموش کر دیں؟

    میں نے بہت پہلے لکھا تھا کہ پٹنہ کے ایک سرکاری  اردومدھیہ ودیالیہ میں ۱۷ اساتذہ ہیں جنمیں ۷ اردو کی الف سے بھی واقف نہیں ہیں۔اردو کمیٹی کے چیر میں شفیع مشہدی نے اسکا نوٹس بھی لیا ہے۔آج بھی اردو خواتین ٹیچر کو اپنی جان کو جوکھم نیں ڈال کر ۴۔۵ گھنٹوں تک سفر کرنا پڑ رہا ہے۔چھہ بجے  صبح  گھر چھوڑ دیتیں اور رات ۸۔۹ تک گھر لوٹتی ہیں۔وزیر تعلیم کہتے ہیں ۳۴۵۴۰ کے  زمرے میں بحال ٹیچر سپرم کوٹی اساتذہ ہیں ،جو جہاں ہیں وہیں سے ریٹائر کریں یا مر کھپ جائیں تاکہ انکی جگہہ کو ختم کر دی جائے۔ان کا تبادلہ نہیں ہوگا!اس طرح کے جواب کا کیا مطلب ہے؟وزیر تعلیم اشوک چودھری بہار کانگریس کے صدر بھی ہیں،ایسی باتیں کہہ کر کیا یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اب انتخاب نہیں ہوگا اور کانگریس کو اردو ووٹروں  کی ضرورت پیش نہیں آئیگی! اشوک چودھری پی کے شاہی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں اور اساتذہ کے مسائل سے خود کو عاری کرتے جا رہے ہیں۔یہ نتیش سرکار کے لیے المیہ ثابت ہوگا۔

    دونوں جلسوں میں  انجمن ترقی اردو پر قبضہ جمائے اور گرانٹ کی لوٹ کھسوٹ کا معاملہ بھی اٹھا۔صرف بیان جاری کردینے  اردو کے مسائل کا حل نہیں ہو جائے گا۔میں سوچتا ہوں کہ پٹنہ میں ایک تعزیتی نشست کا انعقاد کیا جائے جسمیں مرکزی انجمن کے جنرل سکریٹری کو بلایا جائے اور مر حو مہ انجمن ترقی اردو کو خراج عقیدت پیش کی جائے اور مرحومہ کے لیے فاتحہ کا اہتمام کیا جائے۔مرحوم ڈاکٹرخلیق انجم نے ہی انجمن کو ایک ایسے گروہ کے حوالے کر دیا جس نے انجمن کو اپنی جیب میں قید کر لیا۔

    اب فیصلہ پٹنہ کی اردو ٓبادی اور خاص کر اردو داں نوجوانوں کو کرنا ہے کہ وہ کس طرح سے انجمن کو ٖغلط ہاتھوں سے آزاد کرائیں اور انجمن کو ایک بار پھر عوامی اردو تحریک کا فعال حصہ بنائیں۔ابھی بہار اردو داں  خواب غفلت میں میں ہیں ۔پٹنہ میں اردو کے اساتذہ،دانشور وں اور اردو کے شیدائیوں کی ایک مشاورتی مٹنگ طلب کی جائے اور انجمن کو آزاد کرانے پر غورو خوص کیا جائے۔

    نٹیش حکومت سکبوش افسران کا اڈہ بن کر رہ گئی ہے۔ ریٹائر افسران پینشن کے ساتھ ساتھ سرکاری مراعات بھی بے شرمی کے ساتھ حاصل کر رہے ہیں۔انکی نظر میں ریٹائرمنٹ حرام ہیں اور مرتے دم کرسی سے چپکے رہنا چاہتے ہیں۔حکومت کے  رخ سے بھی ایسا لگ رہا ہے کہ بہار میںریٹائر افسران کے علاوہ کوئی ہے ہی نہیں۔ باقی سب نا اہل اور فضول ہیں۔ڈاکٹر ریحان غنی،اسلم جاویداں،انوارلہدیٰ،اشرف استھانوی،اشرف فرید،شکیل ہاشمی،سید ادیب عالم،مسعود عالم ،مسعود منظرجیسے درجنوں نگینے  موجود ہیں جنکا استعمال اردو کے ادارو کو فعال اور کار آمد بنانے کے لیے کیا جا سکتا ہے۔عامر سبحانی ،ایک اچیھے آئی اے ایس آفسر اور ڈاکٹر عبدلغفور جیسے سیاست پر گرفت رکھنے والے  وزیر موجود ہیں۔دونوں ملکر کر معاشرے کو سکبدوش افسران سے نجات دلا سکتے ہیں۔اردو سے متعلق اداروں کو مزید فعال بنا سکتے ہیں۔سید ادیب عالم ایک ایسے  فعال انسان ہیں جو گذستہ کئی برسوںوقف کی جائداد کو غاصبوں کے چنگل سے نکالنے،قبرستانوں  میںشجر کاری کرانے اور قبرستان کی گھیرا بندی کرانے کی مہم میں لگے ہوئے ہیں ۔امام بھارتی بھی اسی مشن میں لگے ہوئے ہیں۔فروری کے شروع میں ہی ادیب عالم تمام اضلاع کا دورو کر وقف کی جائداد کی حقیقی صورتحال کا جائزہ  لینے کے لیے دورہ کرنے والے ہیں وقف کے وزیر عبدلغفور  ان معاملوں میں بھر پور تعاون دینے کا یقین دلا چکے ہیں۔

    اردو کی زبو حالی کو دور کرنے کا معاملہ ہو یا وقف کی جائداد کی حفاظت کرنے کا،دونوں کاموںعوامی تعاون اورنو جوانوں کی عملی حصہ داری کی ضرورت پیش آئے گی۔ ہم اگر قوم اور معاشررے کے تئیں اپنی ذمہ داری کو محسوس کر لیں اور خود کو بیدار کرلیں تو ہم سبھی ایک معاشرتی انقلاب کے داعی بن جائیں گے،اور مسلم معاشرے میں ایک نئی زندگی کی شروعات ہو جائے گی۔


(رابطہ(9431421821

************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 576