donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Political Articles -->> Election in India 2014
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Zubair Hasan Shaikh
Title :
   Aye Jamhuriat Tere Hal Pe Rona Aaya


 

اے جمہوریت!  تیرے  حال  پہ  رونا  آیا..........


زبیر حسن شیخ


ہندوستان میں مجلس قانون ساز  یعنی لوک سبھا کا  سولہواں جنم ہوا چاہتا ہے  اور پچھلے پندرہ جنم اپنے انجام کو پہنچے ،  سابقہ چند انتخابات میں منتخب شدہ اکثر    حضرات نے جس ذہانت و بلو غت، تہذیب و تو قیر  کا مظاہرہ کیا  وہ ذرائع ابلاغ  میں جہاں  سرخیوں سے لکھا گیا ہے  ونہیں تاریخ میں سیاہ  لفظوں سے رقم ہوا ہے -  ہر نئے  انتخاب پر  یوں محسوس ہوتا ہے کہ  مانو سابقہ مجلس  گنگا نہاچکی –  اب موجودہ  امیدواروں  میں سے اکثر  کا چال چلن دیکھیے گا،  انداز  بیان ملاحظہ فرمائیے گا، انکے افکارت پر غور فرمائیے گا ،  انکے رنگ ڈھنگ  پر غور کیجیے گا  ،   انکے مذاکرات کو سنیے گا  اور سر اور چھاتی  پیٹیے گا-  ماتا جمہوریت کی آغوش میں  پرورش پانے والے امیدواروں کو ذرائع ابلاغ میں  دیکھکر  یوں محسوس ہوتا ہے جیسے  ہندوستان میں جمہوریت کا سولہواں سوئیمبر رچایا جا رہا ہے ....... دیکھیں کیا گزرے ہے دولہوں پہ سحر  ہونے تک -   سابقہ دولہوں میں سے اکثر پھر سے منتخب ہو کر آئیں گے، پھر  کہیں شہنا ئی بجے گی  اور کہیں ماتم ہوگا،  پھر کو ئی سیاست داں "ماتا کی جے جے کار"   کریگا  اور  جمہوریت کا " چیر ہرن"   کرے گا -  پھر کو ئی سپوت جے ماتا  اور بھارت ماتا کی جیے ہو کا  نعرہ بلند کر  اپنی ماتا کی چھاتی میں چھید کرے گا اور    بد عنوانی، فسادات، غنڈہ گردی ، جھوٹ  اور نفرت کے پودے اگائے گا،   پھر یہ کھیتی لہلائے گی اور جہاں چند  ہزار     اس کھیتی سے مستفیض ہونگے ونہیں کروڑوں  بیچارے اس کھیتی کو بادل نہ خواستہ کھیتے رہیں گے-  پھر کو ئی صنعت کار یا تاجر  حب الوطنی کے نام پر وطن کو اندر ہی اندر  گھن کی طرح کھائیگا اور  ٹیکس چوری  کریگا اور  دان پن کریگا،   سمندر لوٹے گا اور قطرے  بانٹے گا-     پھر کوئی ناچے گا اور نچائے گا اور  سخاوت کے دعوی   کریگا،  اور رہا   ٹی وی میڈیا   تو  وہ  ان  حالات  کا  فایدہ  اٹھا کر ،  لوگوں کے درجات اور من مطابق   تفریح  کا سامان فراہم کرے  گا  -  عوام پھر اگلے  انتخاب  تک  سر پیٹتے رہے گی،  پھر  انتخاب آئیں گے، کچھ مختلف انداز میں  ہونگے ، طرز  دیگر ہوگی لیکن باقی سب کچھ وہی ہوگا جو پہلے سے ہوتا آیا ہے -  اولین چند  مجالس قانون ساز  کا حال تو پھر بھی  ٹھیک ٹھاک ہی تھا- منتخب  شدہ حضرات  غلا می کی قید  اور ظلم و جبر سے جنگ جیت  کر مسندوں پر بیٹھے تھے اور  کامیابیوں اور ناکامیوں کی طویل فہرست میں نیک نیتی کا جذبہ سر فبرست رہا تھا، اس لئے ملک کا وقار بھی  تھا  اور عوام کی اکثریت کی دعائیں بھی شامل تھیں - 

ہندوستان کو  آزادی کے بعد  آزادانہ  سیاست کرتے ہوئے ساٹھ سال سے زائد کا عرصہ ہوگیا،  یعنی جمہوریت سن بلوغت پار  کرچکی،  لیکن افسوس کے اسکے پیروکار اب بھی بلوغت کو نہ پہنچے -  جب سیاست دانوں، دانشوروں اور  امرا  و  اہل اقتدار  کی اکثریت ایمان سے نا بلد ہوگی تو  کیا گل کھلا ئے گی جمہوریت-  اور کہاں کہاں دنیا میں گل کھلا چکی ہے یہ.... کسے خبر-  بے چاری پیدائیشی غریب،  مفلس،  معصوم جمہوریت!  جسے چولا بدلنے پر مجبور کیا جاتا رہا اور اسکا اپنا کو ئی لباس باقی نہ رہا ،  بر صغیر میں اکثر  اچکوں اور نا اہل لوگوں کے ہتھے چڑہتی رہی، دنیا کے دیگر ممالک میں اسکی عمر رسیدہ بہنوں کا حال بھی اس سے کچھ کم برا نہیں ہوا-   بے چاریاں !!   انقلابات، جنگ و جدل، ظلم و جبر ، استحصال و استبداد کے شکم  سے پیدا ہوئی تھیں-  کروڑوں انسانوں کی  بلی  چڑھا ئی گئی تھی تب کہیں جا کر  یہ دنیا میں  زندہ رہ پا ئیں-  دنیا نے بڑی منتوں او ر چاو سے سو سال تک  انکی پرورش کی،  اور مغرب نے تو انہیں پتہ نہیں کیا  کھلا پلا کر ،  بلکہ پلا پلا کر  بڑا اور  فربہ کیا،  بڑی با ضابطہ   پرورش   ہوئی تھی انکی وہاں-  لیکن تکثریت کی  محتاج ان بے چا ریوں  کو کیا پتہ  تھا کہ اوصاف سے خالی تکثریت سے بھلا  کیا توقع کی جا سکتی ہے،   ہندسوں کے جال اور  سیاست کی چال میں  خوبیوں کا کہاں کچھ عمل دخل ہوتا ہے،   جیسے انتخاب کرنے والے ہونگے ویسے  ہی منتخب ہونے والے ہونگے، بے غرض ، متقی  خدمت خلق کے جذبہ سے معمو ر  مجلس شوری سے ان کا کیا موازنہ کیا جائے،  پچاس یا ساٹھ فیصد لوگ ووٹ ڈالتے ہونگے  اور  ان میں  سے اکثریت تو یہ بھی نہیں جانتی کہ امیدوار کی اہلیت کے پیمانے کیا کیا ہیں،   بلکہ اہلیت کہتے کسے ہیں ،  ان امیدواروں میں کتنا اخلاص ہے اور وہ جمہوریت کے متعلق کتنا کچھ جانتے ہیں-  اسکی تربیت اور پرورش کرنے والوں میں رفتہ رفتہ اخلاص ختم ہوتا جارہا ہے -  بر صغیر میں ویسے بھی اسکی  با ضابطہ تربیت نہیں ہو سکی-  سب کی پیاری راج دلاری کہہ کہہ کر  اسے خوب بے وقوف بنایا گیا اور  اس کا استعمال کیا گیا-   کہیں ماتا جمہوریت اور کہیں اسلا می جمہوریہ  کہہ کر  اپنا الو سیدھا کیا گیا تو کہیں رام راج  اور چانکیہ کی سام دام دنڈ بھید کی    سیاست کا ڈھونگ رچا  کر اس پر سواری  کی گئی،  اور اس میں بھید  کا عنصر ہمیشہ غالب رہا -    یہ بے چاری  بھی کیا کرتی-   اس بے چاری کی حالت طوائف الملوکی سے بھی بد تر ہو گئی، اس بے چا ری کا کیا قصور  ہے اس میں،  دنیا میں  اسکا حال دیکھ کر  "طوائف الجمہوریہ " کہنا کچھ غلط تو نہیں ہو گا مگر  معیوب محسوس ہوتا  ہے، لوگ غلط مطلب  نکال لیتے ہیں، اکثر و بیشتر اسے بے لگام سرمایہ داری کے اشاروں پر سر بازار نچایا بھی  گیا   ہے ،  کہیں عسکریت کے حصار میں تحفظ کے نام پر اسکو مقید کیا گیا ہے   اور کبھی   ایوانوں  میں   اس کا مجرا بھی کرایا گیا ہے،   اور خوب داد و دہش دی  گئی ہے-  بر صغیر میں اس کا حال بے حد برا  ہے-  شہر دہلی میں اسکے تحفظ کا حال شہر کی خواتین کے تحفظ کی طرح ہمیشہ خطرے اور تنازعات میں گھرا ر ہا ہے، شہر  کراچی  میں  تو  اسے  مردہ قرار دے دیا گیا ہے -  الغرض دنیا میں اسکی پشت  سے سیکورازم، سوشیل ازم اور نہ جانے اور بھی کتنے جائز اور ناجائز  ازم اور عزم سامنے آرہے ہیں-  اب یہ  بے چا ری خود کو تلاش کرتی پھر رہی ہے، مغرب میں  یہ اکثر "اولڈز  ہوم" میں نظر آتی ہے، یا پھر   عالمی  سیاسی  ہدف کے تحت  جنگی   اسلحہ  کی  فیکٹریوں میں،    یا  سائینسی  تجربہ  گاہوں  میں  جہاں    تجربات و  تحقیقات  سے  انسانیت  کو  اتنا فائدہ نہیں پہنچایا   گیا    جتنا نقصان  پہنچایا گیا ہے  -    اسکی آل   اولاد ک اب "پب" میں تو کبھی نائٹ کلب میں نظر آتی ہیں،  اور  جس میں " آزادی نسواں"   اپنی تمامتر  حشر سامانیوں کے ساتھ جلوہ گر ہوتی رہتی  ہے، کبھی یہ بے چاریاں قحبہ خانوں میں اور  امیروں کے محلوں میں مہذب غلامی کا طوق گلے میں سجا ئے جوتیاں چاٹتی بھی   نظر آتی ہیں ت، اور کبھی دفتروں  میں  معیشت کا بوجھ اٹھائے جوتیا ں  رگڑتی  -  اسکی   جوان نسل    جو شخصی آزادی کہلاتی  ہے،   وہ  جوانی کے  نشے میں دھت اور ڈرگس کے نشے میں  ادھمری کبھی  قید خانوں میں تو کبھی زیر زمین  راستوں میں  اور کبھی  تعلیمی اداروں کے گوشوں  میں پڑی ملتی ہے-  اسکی  اولادوں میں  جو سب سے  لائق فائق اولاد ہے اور  جو  فیتہ شا ہی کے نام  سے جانی جا تی ہے،  اس کی  بد عنوانیوں  اور  عیاشیوں کا ذکر  کیا کیا جائے،  برصغیر  میں تو اس کا حال انگریزوں کی نا جائز اولاد  سے بھی برا ہے-  اسکی  سب سے نا لائق اولاد  سیاست دان ہیں، ان کا حال  تو شیطان مردود ہی صحیح صحیح بتا سکتا ہے،  لا حول ولا........
 
جمہوریت کی مثال کلی طور پر دیکھیں تو  اس  بیوہ ماں  کی طرح ہوتی جا رہی ہے جو اپنی ضعیفی میں اپنی سرکش اولاد کو  ایمان کا سبق پڑھانا چاہ رہی ہے، لیکن اب   بہت دیر ہو چکی ہے-  اس بیوہ ماں کے احکامات پر  اس کی اولاد کان نہیں دھرتی – کیسے دھرے گی ........  ماں اپنی تمامتر  محبتوں،  شفقتوں،  انصاف پروری، مساوات ، اصول و ضوابط اور احکامات کے  با وجود ایمان حقیقی کے عنصر سے بے بہرہ رہی اور  ورثہ  میں  اولاد کو یہی   کچھ دے سکی-   بنا  ایمان اولاد لاکھ تعلیم یافتہ اور مہذب  ہو جائے لیکن کبھی  معتبر نہیں ہو تی،   اور حالات و  واقعات کے تحت  رنگ بدلتی  رہتی ہے،  افکار بدلتی رہتی  ہے، طرز حیات بدلتی ہے   بلکہ عریاں  ہونے میں بھی کو ئی عار  محسوس نہیں کرتی-  اور ایسے تمام تغیرات  کو ترقی اور  تہذیب و تمدن سے موسوم کرتی ہے-  ایسی  ضعیف    ماں کی کو ئی نہیں سنتا، یا سنتا ہے تو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سےاڑا دیتا ہے ...... بے چاری ماں اب کرے بھی تو کیا کرے -  بد حال ہو چکی ہے-  اب اسکی آنے والی  نسلوں  میں ایسا کو ئی باقی نہیں رہا جو  اسکے اصول و ضوابط کا پاس رکھے -  اسکی اولاد نے اعلی تعلیم حاصل تو کر لی اور  مغربی تہذیب و تمدن  اختیار کر  مہذب بھی ہو گئی لیکن چور  اچکوں، ڈاکوؤں، بھانڈوں اور  طوائفوں  کے خاندان  سے رشتہ ناطہ جوڑ  کر  احکامات اور  اصول و ضوابط اور احترام و عزت کو  نئے معنی دے دئے ....ان  تچے  پیشہ وروں نے  اعلی تعلیم حاصل   کر کے  اچھا ئی اور برا ئی  میں تمام تفرقات مٹا دئے ، تعلیم  کی افادیت ،  مساوات ،  آزادی،  انصاف، حقوق و فرائض  کو  نئے  معنی فراہم کردئے،  تعلیم و تدریس  کی شناخت ہی بدل ڈالی اور   اعلی تعلیم حاصل کر معزز  و محترم بھی ہوتے چلے گئے ، بلکہ   اپنے پیشے کو بھی معزز  کرتے چلے گئے -  عزت و احترام کا مفہوم بدلتا چلا گیا،  اور  اب تو یہ عالم  ہے کہ رفتہ رفتہ  بیوہ ماں  کی نسل سے ایک نیا  "معز ز و محترم"   خاندان وجود میں  آرہا ہے، ایک نئی نسل سامنے آر ہی ہے، جدید  سیاسی نسل،  جدید تجارتی نسل، مکمل  آزاد  نسل -  یہ سب ایک  ایمان حقیقی  کے نہ ہونے سے واقع   ہورہا ہے-  وہی ایمان جو  انسان پر انسان کی حکومت کا قائل نہیں ہے اور جو انسان کو  خالق حقیقی کے علاوہ کبھی کسی کا  محکوم ہونے نہیں دیتا،   ادنی محکومیت  اشرف المخلوقات کا وصف نہیں ہے کہ  یہ اشرف و اعلی مخلوق  انسانوں   کی محکومیت اختیار کرے ، اور  ہر  ایرے غیرے کے حکم کے آگے  سر خم کرے،  ایسا  تو   ادنی  مخلوق بھی نہیں کرتی،  چرند پرند اور درند بھی نہیں کرتے - 
 
کہتے ہیں جب  ایمان کی قوت  مفقود ہوگی تو  سمجھوتے لاکھ ہونگے....... وطن پرستی،  قوم پرستی،  مادیت پرستی،  نسب پرستی ، جاہ پرستی ،  ستارہ پرستی، سائینسی خدائی،  سیاسی عقیدت مندی،  معاشرتی ترقی،  خاندانی خوشحالی، ضروریات زندگی، رشتہ داری اور  تعلقات کے نام  پر سمجھوتے کئے جاتے  رہیں  گے  اور ان سمجھوتوں میں  نیتیں مخلص نہیں ہونگی، اور جب بد نیتی اور بے ایما نی   نسلوں اور   قوم و ملت  میں رچ بس جائیگی تو پھر کہاں  کوئی اقبال و سرسید و  حالی و شبلی و  جوہر  پیدا ہوگا، کہاں کو ئی   گاندھی   اور  ابولکلام ہوگا اور کہاں کو ئی  محمد علی جناح،  اور کہاں کوئی  خان لیاقت  ہوگا،  اب کہاں وہ علمائے حق پیدا ہونگے،  اس قوم و ملت میں  اب کہاں کو ئی اسیر مالٹا ہوگا اور کہاں حکیم ملت ، کہاں کوئی تھانوی و  دریابادی یا مبارکپوری ہوگا، کہاں کوئی مولانا سلیمان  و  مولانا علی  میاں ندوی ہوگا،  کہاں کو ئی مولانا الیاس  و مودودی و محمد شفیع  یا  اسرار پیدا ہونگے – اب کہاں  الازہر ، دیو بند اور ندوہ اور علیگڈھ  کی تعمیر  ممکن ہوگی-  ایسے اور ان جیسے تمام علمائے کرام و اکابر کی نیتیں مخلص تھیں، انکے جذبے صادق تھے اور انکا حساب کتاب انکے جذبۂ صادق  اور انکی نیک نیتی  پر ہی  کیا جا ئے گا ،  اور انکے ادوار ، حالت و  واقعات کے پس منظر میں  کیا  جائے گا -   انکی ذاتیات اور انکی غیر ارادی  خطاوں کا حساب کتاب کرنے کے لئے  اب کون اتنا معتبر، جید عالم و فاضل اور متقی پیدا ہوا ہے جو  انکے جذبہ صادق اور نیک نیتی کو  کسی ترازو میں تول سکے -  نقص سے پاک تو صرف اللہ رب العزت کی ذات ہے -  معصوم عن الخطاء تو  صرف  آقائے نامدار  کی ذات  اقدس ہے-  یہ صحیح  ہے کہ قوم و ملت کے حق میں لئے گئے  تمام    فیصلوں اور اقدامات کو  بالیقین خالق حقیقی  کی رضا سے موسوم نہیں کیا جا سکتا، لیکن مشیت الہی میں کتنی اور کسقدر دور اندیشی موجود ہے اسکا کو ئی پیمانہ حضرت انسان کے پاس کہاں  ہے،  مشیت الہی نہ ہی  زماں و مکاں کی پابند ہے اور نہ ہی  جغرافیا ئی حدود تک محدود-  علمائے حق اور اکابر قوم و ملت کے فیصلوں اور اقدامات کو پرکھنے کی کسوٹی تو موجودہ نسل کے پاس سوائے  انکے  خلوص  نیت اور جذبہ صادق کو پرکھنے کے اور کیا ہو سکتی ہے –  اسکے سوا گر کچھ ہے تو وہ سب غیر مدلل ہے، عبث،  بے جا اور بے محل اور عاقبت نا اندیشی ہے-  انکے، افکارات، فیصلے اور  اقدامات  ذاتی مفادات اور تعصب سے پاک تھے اور  اس بات کا  انکار کون کرسکتا ہے،  ان سے خالق حقیقی کو کیا کام لینا تھا کون جانتا ہے، انکی  ذاتیات اور انکے ماضی  کے پس منظر  سے انکے عظیم الشان کارناموں  کا  کیا تعلق ہے ، اور ان کارناموں کی انجام دہی میں  اور انکے   بعد پیدا ہونے والی پیچیدگیوں میں باطل کا کتنا حصہ ہے کون بتا سکتا ہے، اور  ان پیچیدگیوں کے پیدا کرنے میں  اپنے پرایوں کی سازش اور ذلالتوں کا کتنا حصہ ہے اسے کیسے تولا جاسکتا ہے؟  ابھی سابقہ فیصلوں  اور اقدامات سے تمام نتائج سامنے کہاں آئے     ہیں -   اور جو کچھ سامنے آیا ہے اس میں کتنا تغیر  ہونا با قی ہے-  تغیرات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا کون کہہ سکتا ہے ، اور کون سی تبدیلی اور ٹوٹ  پھوٹ قوم و ملت کے لئے کس قدر نقصان دہ یا فایدہ مند ثابت ہوگی اس کا تخمینہ کون لگا سکتا ہے،   حق و باطل کی جنگ  میں نشیب و فراز  اور سکوت و طلاطم کا اختتام کہاں جا کر ہو گا کون جان سکتا ہے-  ایمان کے اصول و ضوابط  میں پیمانے اور کسوٹیاں نہیں بدلا کرتیں،  جذبہ صادق اور خلوص نیت ہی  واحد پیمانہ ہو سکتا ہے ،  حالات و واقعات کبھی بھی ایک جیسے نہیں رہاکرتے ..... اس دار فانی میں  قوم و ملت و انسانیت  کے لئے کئے  گئے فیصلے  اور اقدامات نیک نیتی  اور اخلاص کے پیمانوں پر ہی تولے جا سکتے ہیں نا کہ ذاتیات  اور غیر ارادی خطاوں پر ، اور نہ ہی  جذبہ خیر اور  نیک نیتی سے صرف نظر کر-    کسی عام تعلیم یافتہ،  اعزاز یافتہ،  مفکر یا ادیب یا شاعر یا  منصب و عہدیدار  یا  کٹھ ملا کے پیمانوں پر انہیں تولا  نہیں جاسکتا،  موجودہ دور  کا ایسا  کون سا متقی عالم اور پرہیز گار  ہوگا، یا کوئی  شریف ترین سیاسی رہنما ہوگا  جو  قوم و ملت کے  ایسے   اکابر  اور  علمائے حق کے  گزرے حالات کے پس منظر میں انہیں،  انکے کاموں کو اور انکی  خطاؤں کو پرکھے  اور  کو ئی نتیجہ اخذ کرے -  ان سب کا ذکر  مبارک کوئی اکبر  سلیم کی کہانی نہیں ہے  اور نہ ہی عیاش نوابوں کی داستان عاشقی،  یا کسی  سخی بادشا اور جاگیردار کی خود نوشت ، بلکہ  انکے اپنے خون جگر سے لکھی گئی سچا ئی ہے جسے نظریاتی اختلافات کی بھینٹ نہیں چڑھایا جا سکتا-  ان کے مقابل کسی ملک یا ادارہ کے صدر  یا  گورنر  کا کیا مقام ہوسکتا ہے،  اور  ان حضرات کے کارہائے نمایاں کا نعم البدل کس دور میں پیدا ہوسکتا ہے .....  ان  پر بحث بے جا اور بے محل ہوگی - تو تو میں میں کے سوا اور کیا ہوگا ، اور ہر 'تو'  میں  تعصب پسندی اور ہر 'میں'  میں انا اور خود پسندی  کے سوا کچھ نہیں رکھا ہوگا - 

بر صغیر  کے مسلمانوں کو ابھی بہت کچھ دیکھنا باقی ہے،  اور جو کچھ نظر آرہا ہے اور آئیگا اسکا ذمہ اکابر قوم و ملت اور علمائے حق کے سر نہیں ڈالا جاسکتا، اب حالات اور واقعات وہ نہیں رہے اور نہ ہی مستقبل میں ہونگے -  ملکوں اور سرحدوں کا بننا بگڑنا  اور  ٹوٹنا پھوٹنا سب  ثانوی اہمیت کا حامل رہا ہے اور تاریخ اس بات کی گواہ ہے-  اہمیت  اس بات کی ہے کہ مسلمان من جملہ قوم و ملت کتنی اچھی اور خالص  مسلمان قوم ہے، کتنے  قوی ایمان کی حامل ہے،  انسانیت کو  وہ کیا دے رہی ہے ، اسلام کے لئے کیا کر رہی ہے اور اپنی آخرت کے  لئے کیا کر رہی ہے-  کہیں مشیت الہی کو  اسکی رضا تو نہیں سمجھ رہی ہے؟  اسکی  رضا کو سمجھنے کے لئے الکتاب و سنت موجود ہے اور  جس میں کوئی  پیچیدگیاں نہیں،  پیچیدگیاں تو  موجودہ نظام و  طرز حیات کی  پیدا کردہ ہیں،  جس کے پس منظر میں قرآن و حدیث کو سمجھا اور پرکھا جاتا ہے،  حبکہ اسکے بر عکس اصولا ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس نظام حیات اور طرز حیات کو  قرآن و حدیث کے پیمانے پر سمجھا اور پرکھا جاتا ...... اس پر طرا یہ کہ  مسلمانیت کا  دعو ی بھی کیا جاتا ہے او ر اپنے آپ کو اہل  ایمان میں شمار کرنے کا شوق بھی پالا جاتا ہے-  ہندوستان  میں  پارلیمانی  انتخابات  ہوں یا  ریاستی ، پاکستان، ایران  اور بنگلہ دیش میں ہوں یا دنیا کے کسی اور خطے میں،  مسلمان کا کردار  کیا ہونا چاہیے-  ایمانی قوت کی حامل قوم و ملت کو کیسی حکمت عملی درکار ہے، موجودہ سیاست کی پیچیدگیوں سے کیسے نمٹنا ہے، اتحاد و اتفاق کی اہمیت کو واضح کیسے کیا جا یے اوراسکی غیر موجودگی میں ترجیحات کیا ہونی چاہیے،  کن گروہ  کا ساتھ دینا چاہیے، کس امیدوار  کو منتخب کرنا ہے-  "کچھ نہ ملنے سے کچھ کا ملنا بہتر  ہے" یا  "نا جا ئز  و  نا قص  کے ملنے سے بہتر ہے کچھ نہ ملے " کے اصول  پر کاربند ہونا چاہیے-  ان پیچیدگیوں کا علم عوام کی جاہل اور نیم تعلیم یافتہ اکثریت کو کہاں ہو تا  ہے... اس کے لئے دانشور اور علما  حضرات  کو کھل کر کہنا ہوگا،  کھل کر سامنے آنا ہوگا،  باطل تو کھل کر کہہ رہا ہے اور ڈھنڈورا پیٹ رہا ہے اپنی اہلیت کا  ......  حق شناس  کیوں نہیں کھل کر بولتا .....  وہ اتنا ڈرا ہوا کیوں ہے........ اسے تو  احساس بھی ہے بلکہ اس کا ایمان ہے کہ  یہاں سب کچھ  عارضی اور فانی ہے، سب امتحان ہے،  سب سفر ہے،   سب راستے ہیں،   منزل کچھ اور ہے،   پھر ڈر کس بات کا ؟   تنازعہ کیسا؟  اب کو ئی انتخاب  مسلمان قوم و ملت کا کیا اچھا یا برا کرسکتا ہے، اور  کسقدر  کر سکتا ہے-  کو ئی مودی نہ ہی ہمارا کچھ بگاڑ سکتا ہے اور نہ ہی کو ئی راہل ہمارا بھلا کر سکتا ہے،  اور نہ ہی کو ئی کیجریوال مسلمانوں کو انکے جائز  حقوق دلا سکتا ہے، او رنہ ہی کو ئی مشرف اور نواز اور زرداری جذبہ صادق اور نیک نیتی کا دعوی کر سکتا ہے -  ان تمام حضرات کے  موقف ہی  ہمارے موقف سے مختلف ہیں اور یہ اس سے انکار بھی نہیں کرتے ، جبکہ ہماری قوم و ملت کو تو  نوابوں وڈیروں اور  غلام محمد و  سکندر مرزا  و  ایوب و یحیی و ضیا  اور  بھٹووں اور مجیبوں  اور انکے پیروکاروں نے دربدر کر کے رکھ  دیا ہے- ان سب کا موقف  تو قوم و ملت کا  موقف تھا  جیسا  کہ  ان سب کا دعوی تھا،  جبکہ یہ سب مغرب کے  پالے ہوئے تھے اور اپنے انجام کو پہنچے-  عملیت پسندی اور حالات کا تقاضہ ہے کہ جذبہ صادق اور نیک نیتی کو دیکھا اور  پرکھا جائے-  کسی نہ کسی کو منتخب کرنا ضروری نہیں بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس سچا ئی کو تہہ دل سے مانا جائے کہ  انتخاب میں ووٹ ڈالنا   حق و باطل کی گواہی دینے کے مترادف ہے ،  اور اس کی جوابدہی  دنیا اور آخرت  دونوں میں  دینی ہوگی-  الکشن آتے ہیں اور جاتے ہیں، آئیں گے اور جائیں گے، جمہوریت اور  حکومت کی طرز  میں تبدیلی واقع ہوتی  رہے گی ، موقف بدلتے رہیں گے،  ظلم و جبر  کم یا زیادہ  یونہی   جا ری  رہے گا، میر جعفر اور میر قاسم ہر سیاسی پارٹی میں ہونگے،  بس ہما را موقف مذکورہ بالا سمجھتوں کا شکار نہ ہونے پائے،  ہماری آخرت داو پر نہ لگے، دنیا تو سب کی  داو پر لگی ہے اپنے ہوں یا پرائے... ، اور ہمیشہ سے لگتی  آئی ہے،  ہمارے پائے استقامت  میں لرزش نہ ہو،  ہمارا ایمان سلامت رہے، انفرادی اور اجتما عی ایمان، ہم باطل  کا انتخاب نہ کریں بلکہ صرف حق کا کریں،  اور اگر  حق موجود نہیں ہے تو  اسکی  غیر موجودگی میں باطل کا انتخاب ظلم ہوگا، چاہے باطل بر سر اقتدار  آجا ئے، کتنے دن تک  با قی رہے گا،  اس سے پہلے کتنے دنوں با قی رہا ہے،  ہمارا  ایمان زمان و مکاں کی قید سے ماورا ہے- مجمو عی طور پر انسانیت کا حال بے حد برا ہے اور سدھرنے کے کو ئی آثار نظر  نہیں آتے،  اب   ماتا  جمہوریت کو  ایمان لانا  ہی  ہوگا .......  اس کے سوا کو ئی حل نہیں  ہے ورنہ آنے والی  نسل   یہی   گنگناتی   رہے  گی  ک

ہ  ......اے جمہوریت ! تیرے انجام پر رونا آیا

 


۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

Comments


Login

You are Visitor Number : 586