donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Articles on Women -->> For Women
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Hasnain Sahir
Title :
   Qayam Pakistan Se Qabal Khwateen Ki Taleemi Huqooq Ke Liye Jaddo Jehad


 قیام پاکستان سے قبل خواتین کی تعلیمی حقوق کے لیے جدوجہد


 

(حسنین ساحرHassnain Sahir - )


 
    روز اول سے آج تک تمام شعبہ ہائے زندگی میں خواتین کی حیثیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ سماجی نظام جو بھی ہو، جیسا بھی ہو، عورت اپنا ایک سماجی، سیاسی اور معاشی مقام اور اپنی ایک شناخت رکھتی ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جب تک عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ شریک کار نہیں بنتیں، اس وقت تک نہ تو کوئی قوم اور نہ ہی کوئی ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔ لیکن بدقسمتی یہ کہ عورتوں کو ہمیشہ اپنی حقوق اور پہچان کے حصول کے لیے کٹھن اور طویل جدوجہد کرنی پڑی۔تعلیم ہی وہ بنیادی ضرورت تھی جس کی بنیاد پر خواتین اپنے حقوق کی جنگ لڑ سکتیں تھیں لیکن تعلیمی حوالے سے برصغیر کی خواتین ہمیشہ زبوں حالی کا شکار رہی ہیں۔
 
     اٹھارہویں صدی  کے پہلے عشرے سے ہی برصغیر پاک و ہند میں کئی مذہبی، معاشرتی اور سیاسی تحریکوں کا آغاز ہو چکا تھا جو بعد ازاں سیاسی رنگ اختیار کر گئیں۔ لیکن بدقسمتی سے ایسی کوئی تحریک نہیں چلائی گئی جو عورتوں کو اپنی قسمت بدلنے کے لیے ،  معاشرتی یا سیاسی طور پر کوئی پلیٹ فارم مہیا کر سکتی۔ برصغیر پاک و ہند میں خواتین نے اپنے سیاسی، معاشی، معاشرتی و سماجی مفادات کے حصول کے لیے طویل جدو جہد کی اور ہندو مسلم خواتین نے اس سلسلے میں بھرپور کردار ادا کیا۔
 
     قیام پاکستان سے قبل برصغیر میں تعلیم نسواں کی صورتحال انتہائی مایوس کن تھی۔ انیسویں صدی کے اواخر تک خواتین کی زندگیاں گھر کی چاردیواری تک محدود تھیں۔ مسلمان عورتوںکو صرف امور خانہ داری کی تربیت اور مذہبی تعلیم حاصل کرنے کی اجازت تھی جب کہ ہندو، سکھ، پارسی اور دیگر مذاہب کی خواتین کسی نہ کسی حد تک تعلیم حاصل کر رہی تھیں۔ تعلیم کے حصول میں ہندو خواتین نے پہل کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے کو سدھارنے کا کام بھی شروع کیا۔ کیوں کہ تعلیم ہی کے ذریعے خواتین میں  سماجی ، سیاسی  ، معاشی اور معاشرتی شعور بیدار کیا جاسکتا تھا۔

        اس سلسلے کا پہلا نام ’’سینڈیتا رما بائی‘‘ ہیںجو 1855ء میں ایک ہندو گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم گھر میں اپنے والد سے حاصل کی۔ والد کی موت کے بعد چھ سال تک اپنے بھائی کے ساتھ ہندوستان کے مختلف علاقوں کا سفر کیا۔ اس دور میں سفری سہولیات نہ ہونے کے باعث انہوں نے تقریباً دو ہزار میل پیدل سفر کیا۔ اسی دوران میں انہیں ہندوستان کے مختلف علاقوں کی عورتوں کی مخدوش حالت کا بہت قریب سے مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔1880ء میں انہوں نے ’’آریا مہیلا سماج‘‘ کی بنیاد ڈالی۔ 1882ء میں حکومت ِ ہندوستان نے عورتوں کی تعلیم و تربیت کے لیے ایک کمیشن بنایا۔ اس کمیشن نے ایک تقریب منعقد کی جس میں ’’آریا مہیلا سماج ‘‘کی تین سو خواتین نے شرکت کی۔ اس دور میں برصغیر پاک و ہند کی خواتیں کی زبوں حالی کو دیکھتے ہوئے صرف دو  ہی سال میں’’ آریا مہیلا سماج‘‘ کی اتنی تعداد بہت حوصلہ افزا تھی۔ رما بائی نے خواتین اساتذہ کی تربیت اور صحت کی سہولیات کے بارے  میںکمیشن کو آگاہ کرتے ہوئے خواتین کے مسائل کو بھرپور انداز میں پیش کیا۔
 
    رما بائی کی ایک اور ہم عصر خاتون ــ’’فرین سپنا سہراب جی‘‘ نے بھی عورتوں کے لیے تعلیم کو ممکن بنانے کے لیے گراں قدر خدمات پیش کیں۔ انہوں نے اپنے سماجی کاموں کا آغاز گائوں میں سکول قائم کر کے کیا۔
 
    ــ’’رما بائی رنادی‘‘ نے آریا سماج سے اپنے سوشل ریفارم کا آغاز کیا۔ بعد ازاں 1884ء میں اپنے ہندو لیڈیز کلب کی داغ بیل ڈالی۔اور اسی کلب کے تحت لڑکیوں اور بیوہ عورتوں کی تعلیم کا آغاز کیا گیا۔ رمابائی رنادی نے 1884ء  ہی میں بمبئی میںایک سکول قائم کیا۔ وہ عورتوں کو جمع کر کے صحت اور دیگر مسائل پر لیکچر دیتیں اور مختلف مسائل کے حل سے اُنہیں آگاہ کرتی تھیں۔ ’’سیوا سدن نرسنگ اور میڈیکل ایسوسی ایشن‘‘ بھی انہوں نے ہی قائم کی جس میں بغیر معاوضہ کے ضرورت مند عورتوں کو ہنر سکھایا جاتا تھا۔ رمابائی رنادی نے لازمی پرائمری تعلیم کے لیے طویل جدوجہد کی اور اس پر کئی کتابیں تحریر کیں۔
 
    خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم عمل خواتین میں ایک اور بڑا نام ’’رانی لیڈی پرنام سنگھ‘‘ کا ہے۔ ان کا تعلق کپور تھلہ پنجاب سے تھا۔ انہیں پنجاب کی خواتین کے سدھار کا بانی مانا جاتا ہے۔ انہوں نے چھوٹے بچوں اور بچیوں کے لیے سکول، خواتین کے لیے سلائی سنٹر اور ایک لیڈیز کلب بھی کھولا۔
 
    اسی دور میں اگر مسلمان خواتین کا جائزہ لیا جائے تو سوائے مایوسی کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ تعلیم ہی کسی معاشرے کی ترقی میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے اور برصغیر کی نام نہاد مسلم معاشرتی اقدار خواتیں کی تعلیم کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنی ہوئی تھیں۔ایک تو مسلم خواتین کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں تھی، اور تعلیمی پسماندگی کی دوسری بڑی وجہ کم عمری کی شادی تھی۔ کیوں کہ لڑکیاں جلد شادی ہو جانے کی وجہ سے تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہ جاتی تھیں۔
 
    مسلمان خواتین کا ملازمت، کاروبار یا گھر سے باہر جانا مَردوں کے لیے انتہائی ناپسندیدہ فعل تھا۔ انہی پابندیوں کی وجہ سے مسلمان عورتیںمیڈیکل اور ٹیچنگ(صحت و تدریس)  یا دوسرے شعبوں میں نہیں جاسکتی تھیں۔چند ہی گھرانے ایسے تھے جنہوں نے تمام فرسودہ  روایات کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے اپنی خواتین کو حصول تعلیم کی اجازت دے کر ایک جرات مندانہ قدم اُٹھایا۔ جدید معاشرے سے دوری اور تعلیم کی کمی نے اس دور کی مسلمان عورت کو  دوسرے مذاہب کی عورتوں کی نسبت بہت کم درجے پر رکھا تھا۔
 
    مسلمان خواتین جس معاشرتی بدحالی کا شکار تھیں، اسے دور کرنے کے لیے انہیں بہت زیادہ محنت کرناپڑی۔ علی گڑھ تحریک انیسویں صدی کی وہ واحد تحریک ہے جس نے برصغیر پاک و ہند کے معاشرے میں انقلابی تبدیلیاں لانے کے ساتھ ساتھ مسلمان خواتین میں تعلیمی اور سماجی شعور کو بھی بیدار کیا۔ اس تحریک کا بنیادی مقصد مسلمانوں کی تعلیم اور ان میں سماجی شعور بیدار کرنا تھا لیکن اس کے مثبت نتائج میں حوصلہ اٖفزا پہلو خواتین کے معاشرتی حالات میں نمایاں تبدیلی کا آنا تھا۔ ابتدا میں خواتین کی تعلیم کے حوالے سے تو اس تحریک نے خاموشی اختیار کی لیکن مسلمان مردوں میں اس تحریک سے جو عام بیداری ہوئی، اس کے باعث مسلمانوں کے رویے میں خواتین کی تعلیم کے حوالے سے مثبت تبدیلی آئی۔ لیکن بدقسمتی سے یہ تبدیلی صرف تعلیم یافتہ گھرانوں میں آئی جبکہ عام مسلمانوں نے اس سے کوئی اثر قبول نہیں کیا۔
 
    حالات کی ستم ظریفی تو دیکھئے کہ سرسید احمد خان جیسے مصلح، مدبر اور عظیم مفکر اسلام بھی خواتین کی تعلیم کے متعلق عام لوگوں سے مختلف نہ سوچتے تھے۔وہ بھی ضروری نہیں سمجھتے تھے کہ خواتین میں تعلیم عام ہو اور مسلمان لڑکیوں کے لیے جدید تعلیم کی درسگاہیں قائم کی جائیں۔ کوئی شک نہیں کہ انہوں نے ایک ڈوبتی ہوئی قوم کو سہارا دیا لیکن ان کی اصلاحی سکیم کے تحت خواتین کی تعلیم ثانوی حیثیت رکھتی تھی۔ سرسید احمد خان کا کہنا تھا کہ خواتین روائتی تعلیم کو جاری رکھیںکیوں کہ ان کی علیحدہ گھروں میں روائتی تعلیم اور اخلاقی و زمانی اقدار کے مطابق صحیح اور بہتر تھی۔انہوں نے 1882ء میں حکومت ہند کی جانب سے ہونے والے ایجوکیشن کمیشن کے سامنے کہاـکہ’’میں تسلیم کرتا ہوں کہ آج مسلمانوں کے درمیان خواتین کے سلسلے میں عام رائے اطمینان بخش نہیں کہی  جاسکتی، جب تک مسلمان مردوں کی بڑی تعداد مستحکم تعلیم حاصل نہ کر لے‘‘۔
 
    علی گڑھ تحریک سے امراء  اور  رؤسا کا ایسا طبقہ سامنے آیا جنہوں نے اپنی خواتین اور لڑکیوں کو تعلیم دلوانا شروع کر دی۔ جبکہ مذہبی اور پرانے خیالات کے حامل لوگوں نے خواتین کی تعلیم کی شدید مخالفت کی۔ تاہم روایت پسند طبقے ، بالخصوص زمیندار اور جاگیردار گھرانوں نے لڑکیوں کی تعلیم کو قبول کرنے میں کافی وقت لیا۔
 
    1886ء میں لاہور میں منعقدہ محمڈن ایجوکیشنل کانفرس کے اجلاس میں خواتین کی تعلیم کے لیے قرارداد پیش کی گئی۔ یہاں مسلمانوں کی سوچ کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مذہبی حلقوں کے ساتھ ساتھ روشن خیال طبقے کا رویہ بھی بہت مایوس کن تھا۔ اور تو اور خود سرسید کا ردعمل بھی انتہائی مایوس کن تھا۔ انہوں نے کہاکہ ـ’’لوگوں کو یہ دیکھ کر تعجب ضرور ہوگا کہ اکثر معاملات میں میرے خیالات ترقی پسندانہ ہیں لیکن لڑکیوں کی تعلیم کے سلسلے میں میرے خیالات وہی ہیں جو بزرگوں کے ہیں۔ ہندوستان میں یہ وقت مناسب نہیں ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے اسکول قائم کیے جائیںاور لڑکیوں کے لیے یورپ کے اسکول کی نقل کی جائے‘‘۔
 
    1891ء میں ایجوکیشنل کانفرنس کا اجلاس علی گڑھ میں ہوا۔ اس میں بھی تمام حلقوں کی طرف سے خواتین کی تعلیم کی مخالفت کی گئی۔ دوسری طرف علی گڑھ کے شیخ عبداللہ وہ پہلے مرد تھے جنہوں نے خواتین کے لیے تعلیم کو ممکن بنانے میں بھرپور کوشش کی۔ انہی کی کوششوں کے نتیجے میں محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس میں خواتین کا شعبہ قائم کیا گیاجس کے تحت تین سال بعد کلکتہ میں خواتین اساتذہ کے لیے تربیتی سکول قائم کیا گیا۔بیسویں صدی کے پہلے عشرے میں لڑکیوں کے بہت سے سکول کھولے گئے لیکن انہیں خاطرخواہ ترقی حاصل نہ ہو سکی۔ مسلمان خواتین کی تعلیم کے سلسلے میں سب سے پہلے شیخ عبداللہ اور انکی بیگم (آلہ جی) نے  1902ء میں پہلا عملی قدم اٹھایا اور لڑکیوں کے لیے پہلا انگریزی سکول قائم کیا جس کی مذہبی اور روایت پسند حلقوں کی طرف سے شدید مخالفت کی گئی۔ لیکن دوسری جانب ہمت افزا پہلو یہ تھا کہ بیگم عباس طیب جی، لیڈی عبداللہ سہروردی، عطیہ فیضی اور دیگر بااثر خواتین نے اس کی زبردست حمایت کی۔آلہ بی کے ساتھ ان کی بہن نے بھی اس سکول میں درس و تدریس کے فرائض سر انجام دیے اور دوسری خواتین کی حوصلہ افزائی کی۔ ان جیسی کئی خواتین کی جدوجہد کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1904ء تک لڑکیوں کے بہت سے سکول قائم ہو چکے تھے۔
 
    خواتین کی تعلیم و تربیت میں چند مرد حضرات نے بھی اہم کردار ادا کیاجن کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ ان میں سب سے پہلا نام سرشفیع محمد کا آتا ہے جنہوں نے تعلیمی میدان میں اہم کارہائے نمایاں سرانجام دیے ۔ انہی کی کوششوں کی بدولت ریذیڈنشیل ٹائپ یونیورسٹیز لکھنؤ، ڈھاکہ، رنگون، ناگپور، علی گڑھ اور دہلی میں قائم ہوئیں اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا بِل امپیریل لجسلیٹو کونسل سے پاس ہوا۔مولوی سید امتیاز علی تاج نے اپنی بیگم (محمدی بیگم) کے ساتھ مل کر خواتین کی تعلیم کے سلسلے میں اہم کردار ادا کیا۔ اسی بنا پر انہیں ’’رہبر نسواں‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ علامہ راشدالخیری کا بھی خواتین کے حقوق کے لیے اہم کردار رہا۔ انہوں نے اپنے رسالے ’’عصمت‘‘ میں خواتین کی اخلاقی اور تعلیمی ترقی کے لیے بہت کچھ لکھا۔ انہوں نے 1911ء میں دوسرا  رسالہ ’’تمدن‘‘ کے نام سے جاری کیاجس میں انہوں نے نہ صرف اپنی تحریروں کے ذریعے خواتین کے حقوق کی بھرپور  حمایت کی بلکہ دیگر لکھاری خواتین کی حوصلہ افزائی بھی کی۔مولوی سید کرامت حسین نے مسلمان خواتین کے لیے محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس میں بھرپور حمایت کی بلکہ راجا صاحب محمودآباد کے ساتھ مل کر ایک سکول بھی قائم کیا۔ جس کے لیے انہوں نے اپنی جائیداد وقف کر دی جب کہ راجا صاحب نے چھ سو (600)روپے ماہانہ گرانٹ مقرر کی اور سید امیر حسن خان کی مدد سے لکھنؤ میں لڑکیوں کے لیے سکول قائم کیا جسے 11نومبر 1912ء کو انٹرمیڈیٹ لیول تک پہنچا دیا۔ ان کے علاوہ مرزا شجاعت علی بیگ، نواب سید بادشاہ، حاجی محمد اسماعیل، سر رفیع الدین، عبداللہ ہارون، سید نذیر محی الدین اور مولانا عبدالحق عباس نے خواتین کے لیے حصول تعلیم کو ممکن بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
 
    یہ آغاز تھا اور پھر رفتہ رفتہ عام لوگوں نے بھی لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت کو سمجھا۔ مردوں اور عورتوں میں تعلیمی اور سیاسی شعور بیدارکرنے میں اس دور کے اخبارات و رسائل نے بھی بھرپور کردار ادا کیا۔ اور پھر یہ ممکن ہو سکا کہ خواتین کسی قدر اپنا بنیادی حق حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکیں ، تحریک پاکستان میں مردوں کے شانہ بشانہ شریک رہیں اورعملی سیاست میں بھی اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔لیکن بڑی بدنصیبی کی بات تو یہ ہے کہ آزادی کے بعد سات دَہائیاں گزرگئیںلیکن آج بھی پاکستان میں خواتین کی شرح خواندگی پچاس فیصد سے بھی کم ہے۔


٭٭٭٭٭

{مآخذ}


1)         Manmohan  Kumar,  Women  in  India's  Freedom  Struggle, Starling Publisher, Dehli, 1968
 
2)     M. Indu Menon,  Status of  Muslim  Women  India,  Uppal Publishing House, New Delhi, 1981
 
3) Sarfraz Hussain Mirza, Muslim Women's  Role  in  Pakistan  Movement, Research Societry of Pakistan, University of Punjab, Lahore
 
4)                     Education  Commision  Report, Calcutta, 1884
 
5)     Balijon, JMs J,  The Reforms and Religious Ideas of Sir Syed Ahmed Khan, Lahore, 1946
 
6)     Abida Sami Uddin, R Khanam, Muslims Faminism Movement (South Asia), Delhi
7)  مولوی محمد امین زبیری، مسلم خواتین کی تعلیم، کراچی۔
 
8)     Fareeha Zafar,  Finding Our  Way,  Reading on  Women in Pakistan, Lahore, 1991 (Khawar Mumtaz & Farida Shaheed's Article)


 <<<<<>>>>>

۔۔۔۔۔۔۔۔حسنین ساحر۔۔۔۔۔۔۔Cell:0333-5443633۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1165