donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Ghazal Numa
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Syed Ahmad Qadri
Title :
   Ghazal Numa Ki Maqbuliyat

غزل نما کی مقبولیت
 
ڈاکٹرسید احمد قادری،گیا
 
اردوشاعری میں ایک طرف جہاں بہت ساری قدیم شعری اصناف معدوم ہوگئیں، وہیں دوسری طرف بہت ساری صنفیں اپنے تجرباتی دورسے گزرتی ہوئی مقبول ہورہی ہیں۔ ایسی ہی ایک صنف غزل نماہے، جس کے شعری محاسن اور فنی محرکات پر بحث ومباحثہ کم ہوا، اس صنف کے موجد کون ہیںاس پر زیادہ بحث ہوئی بلکہ ایک اخبار میں تویہ مباحثہ بہت ہی سطحی ہوکر سامنے آیا، ویسے اتنا توطے ہے کہ جس غزل نما پر شاہد جمیل نے یکم اکتوبر۱۹۷۳کے ہفتہ وار غنچہ ،بجنورمیں یاکاظم نائطی نے ۱۹۷۹میں ہفتہ واراخباراتحاد مدارس یں اور ظہیر غازی پوری نے اگست ۱۹۸۱کے روزنامہ سالار بنگلورکے ادبی ایڈیشن میں طبع آزمائی کی،اس وقت تک اس صنف نے اپنی کوئی واضح شکل اختیارکی تھی اور نہ ہی اسے کوئی نام دیا گیا تھا، ان تینوں شعرانے اپنے طورپر تجربہ کیا، بعد میں اس تجربہ میں لوگ دھیرے دھیرے شامل ہوتے گئے، ویسے اس صنف کانام غزل نما کس نے دیا یہ امر بھی بڑی اہم ہے اور میرے علم میں یہ بات نہیں ہے کہ غزل نما کوکس نے Coinکیاہے۔ایک اطلاع کے مطابق غزل نماپر اب تک پچاسوں شعرا طبع آزمائی کرچکے ہیں۔ شعری آہنگ، فکری آگہی اور فنی ندرت سے سجا نے سنوارنے کی کوشش کررہے ہیں، جس کے نتیجہ میں اب یہ غزل نما اپنے اس صنف میں شاہد جمیل کی جو پہلی کوشش ہے، اس میں جوبیان ہے وہ بہت ہی فطری ہے کچی عمر میں اسیی قسم کے احساسات اٹکھلیاں کرتے ہیں، ہاں، ان میں جوپیکر عطاکیاگیاہے، وہ بڑااہم ہے اور جب فری سطح پربالیدگی آئی، تب وہ غزل نما میں ایسے اشعار پیش کرنے لگے:
اس کی یادیں، اس کی باتیں اس کے موسم، اس کے البم
درد کوگردانتا ہوں!
 
بڑی شہرتوں میں گھرے ہیں،سکندربنے پھررہے ہیں 
میں جن کا مقدر رہا ہوں۔
 
ایسے بامعنی اور خوبصورت اشعار کہنے کے بعد شاہد جمیل اگریہ کہتے ہیں کہ:
 
غزل میری ویسی نہیںہے، مگر مجھ کوشاہد یقین ہے
میں بہتوں سے بہتر رہاہوں!
 
اس شعرمیں شاہد جمیل کی خوداعتمادی کاپرتونمایاں ہے غزل نما کی جوہئیت ہے اور اس کے جوفنی تقاضے ہیں، انہیں پورا کرتے ہوئے رئوف خیر نے اپنے ایک شعر میں انگریزی کے دو حروف AKشامل کرکے ایک نیا تجربہ پیش کیا ہے، اس تجربہ کو آنے والے دنوں میں قبول کیا جاتاہے یاردکیا جاتاہے، یہ تو وقت بتائے گاویسے رئوف خیر کایہ اندازاچھالگا۔ رئوف خیر کہتے ہیں:
 
ہمیں سے ہم کولڑارہے ہو، ہمیں سے کم کوکٹارہے ہو
یہ کس پہ اے کے چلارہے ہو!
 
رئوف خیر کے اس شعر میں معنویت بھی ہے، فکر بھی ہے، اور فنی ادراک بھی ہے، اپنے ایک اور شعرمیں رئوف خیر نے غزل نما کاتعارف یوں کرایاہے 
 
غزل نماڈیڑھ مصرعوں پر ہی مشتمل ہے، یہ بات طئے ہے
یہ خیر تم جو سنارہے ہو!
غزل نما کو جو شرف قبولیت حامل ہورہاہے اور جس طرح شعرا اس صنف میں دلچسپی دکھارہے ہیں، یقینا اس دلچسپی کے اظہار میں شعرا اپنے اپنے طور پر اس میں حسن ومعنی پیش کررہے ہیں، یوسف جمال جسیے معروف شاعر جب اس صنف کو جلا بخش رہے ہیں، پھر اس کی شہرت اور مقبولیت کو کون روک سکتاہے۔ یوسف جمال غزل نما کے موجد شاہد جمیل سے کچھ اس اندازسے مخاطب ہیں:
 
جمال تیری غزل نما پر جمیل شاہدنہ کہہ اٹھے کیوں
غزل نما کونئی جلادی!
 
غزل نما کو جلا اور فروغ دینے میں اردو کے ہر دلعزیز شاعروادیب مناظر عاشق ہرگانوی کی کوششیں قابل قدر ہیں جس طرح سے انہوں نے اس صنف کو متعارف کرایا، اس کے ہئتی تجربے اور اس کے فکری وفنی محاسن کو مختلف مقالوں میں بحث ومباحثہ کا موضوع بنایا، ساتھ ہی ساتھ شعرا کو غزل نما کہنے کی تحریک دی، یہ سب آنے والے دنوں میں ادبی تاریخ کا حصہ بنیں گے، انہوں نے غزل نما کے اپنے اشعار میں بھی ایک طرف جہاں اپنے احساسات وجذبات کی بھر پور ترجمانی کی ہے، وہیں وہ غزل نما کی اہمیت، انفرادیت خصوصیت اورآفاقیت کوواضح بھی کرتے ہیں، اس ضمن میں ان کے چند اشعار توجہ طلب ہیں:
غزل نا کو دیکھ یہ غزل سے کچھ الگ تو ہے
پھڑکتی ان کی رگ تو ہے!
 
غزل کی بھیڑبھاڑ میں غزل نماپہ غورکر
میاںیہ کچھ الگ توہے!
 
ڈاکٹر ہرگانوی کے اسی طرح کے دوسرے اشعار بھی غزل نما کے سفر کو آگے بڑھانے میں ممدومعاون ثابت ہوں گے۔ مجھے یقین ہے کہ مستقبل قریب میں غزل نما اپنی جملہ خصوصیات کی بناپر اپنا ایک خاص مقام بنانے میں کامیاب ہوگی!
++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 815