donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Abdul Moqeet Abdul Qadeer
Title :
   Gosht Kisan,Maharashtra Sarkar Aur Musalman

گوشت کسان،مہاراشٹر سرکار اور مسلمان!


عبدالمقیت عبدالقدیر ، بھوکر:9867368440

 

گائے کے ذبییحہ پر پابندی بھارت میں نئی بات نہیں ہے یہ ہمیشہ سے فرقہ پسند عناصر کی جانب سے شرپسندی کا حربہ رہا ہے اسی حربہ کا استعمال کر گائے کی نسل کشی کے نام پر بیل کے ذبیحہ پر بھی پابندی کی بات ہوتی رہی ہے ۔ پورے بھارت میں گائے کے ذبیحہ پر امتناع عائد ہے البتہ بیل کے گوشت پر ریاستی حکومت کو اختیار دیا گیا ہے۔ شمالی ہند کی تقریباً ریاستوں میں بیل کے ذبیحہ پر بھی پابندی ہے۔

فسطائی طاقیتں اب سارے بھارت میں عروج پر ہیں ۔مہاراشٹر میں جانوروں کے مسلمان بیوپاری اور گوشت کسانوں( قصاب) کافی عرصے سے ان کے مظالم کا شکار ہوتے رہے ہیں۔ جانوروں کی حمل ونقل کرنے والے ٹرکوں ، جانور وں کے ایک گاوءں سے دوسرے گاؤں خرید وفروخت کے مقصد لے جانے والے چرواہے سبھی اس دہشت میں مبتلا ہیں کہ کہیں ان پر فسطائی گروہوں کا حملہ نہ ہوجائے اور سارے جانور ضبط کر کے جنگل میں چھوڑ دیے جائیں۔ ان حملہ ور گروہوں میں بجرنگ دل، وی ایچ پی ، آر ایس ایس کے علاوہ بی جے پی اور شیوسینا کے کارندے شامل رہتے ہیں۔جن کی دہشت گردی کا نشانہ گوشت کے کسان ہمیشہ بنتے آئے ہیں۔ بقرعید کے موقع پر ان کی دہشت گردی عروج پر پہنچ جاتی ہے ۔ بیل کے مالکان کی مرضی سے قیمت دے کر خریدے گئے جانور وں کو یہ دہشت گرد اڑا لے جاتے ہیں بعد میں کچھ قبر نہیں ملتی کے جانور کسی گوشالہ میں دے گئے یا دوبار ہ اتنی ہی قیمت کے ساتھ کسی اور مسلم خریدار کو بیچ دیے گئے ۔ یہ سارا چکر پولیس کے ناک کے سامنے ہوتا ہے اور ان دہشت گردوں کی محا فظ بنی مسلمانوں کے خلاف عمل کرتی دکھائی دیتی ہے۔

ان دہشت گردوں کے مظالم سے تنگ آ کرایک ماہ پہلے ریاست کے مسلمان گوشت کسانوں( قصاب) نے جب اپنے کاروبار بند کرنے کا اعلان کیا تب ان دہشت گردوں کی گود میں پلے اور ان کے ’’ شرپرست ‘‘بنے وزیر اعلی نے انھیں بڑے پیار سے بہلایاکہ ایسی کوئی کاروائی ہوئی تو پولیس اس کا سد باب کرے اس طرح کے حکم نامے پولیس اسٹیش کو روانہ کردیے گئے ہیں۔

گوشت کسان اس خبر کو سنتے ہی خوشی سے جھوم اُٹھے او ر اپنا کاروبار دوبار ہ شروع کردیا۔ ابھی دوہفتے بھی نہ ہو پائے تھے کہ ریاستی حکومت نے یہ آرڈنینس پاس کروالیاکہ اب بیل کے قتل پر، اس کے گوشت کی تجارت پر یا بیل کا گوشت کھاتے پائے جانے پر 10000 روپے جرمانہ اور سات سال قیدکی سزا ملوث افراد کو دی جائے گی۔

اب حال یہ ہوچلا ہے کہ ریاست کی مسلم عوام جس کے پاس فسطائی حکومت، اس کی پالیسی اور اسلام مخالف اقدامات کا جائزہ لینے کا وقت نہیں تھا اب رات دن اس فکر و فراق میں ہے کہ گوشت کے مسئلے کا حل کیا نکالا جائے۔ کچھ امید لگائے ہوئے ہیں کہ برے دن جلد ختم ہوں گے اور ’’ اچھے دن آئیں گے‘‘ گوشت اپنی آب و تا ب کے ساتھ پر دسترخوان کی زینت بنے گا ۔ بوڑھے اپنی محفلوں میں گوشت یاد کررہے ۔ جوان ورلڈکپ کی لذت کو بھول گوشت کا مزہ اور متبادل تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔ بچے ابو سے بوٹی طلب کررہے ہیں۔ریاستی حکومت کے اس قدم سے سب سے زیادہ متاثر ہمارے گھروں کی خواتین نظر آرہی ہیں ۔ میاں جی صبح جانے والے ہوتے تو بس قیمہ بن جاتا۔ گھروالوں کے لیے دوپہر میں ترکاری میں گوشت ملاکر دوپہرکا لذت دار ظہرانہ تیار ہوجاتا۔ وہیں بچے ہوئے گوشت اور ہڈی میں مصالحہ لگا کر رات کا عشائیہ تیار ہوجاتا۔ مراٹھواڑہ خصوصاً ناندیڑ اور پربھنی کی خواتین پریشان ہیں کہ اب بڑے کی تہاری کے بغیر وہ گھروالوں کو کیا کھلائیں گی اور اپنی خانسامائی پر تعریف کیسے حاصل کریں گی ۔ مائیں فکر مند ہیں کہ اپنی لاڈوکو کیا پکانہ سکھائے ؟ حکومت کے اس قدم کا ٹی وی سیریل والوں کو شاید پہلے ہی اندازہ تھا اس لیے ماسٹر شیف بھی اس بار بغیر گوشت کے ( Vegitarian) دکھایا جارہا ہے

ریاست کی امت مسلمہ کا حال یہ ہوچکاہے حکومت نے صرف بڑے کے گوشت پر نہیں بلکہ دعوت و تبلیغ کے ساتھ ساتھ نمازوں پر بھی پابندی لگادی ہو اب ریاست کے مسلمانوں کی جان کے ساتھ ایمان بھی خطرہ میں ہے۔حکومت یہ قدم صحیح یا غلط اس پر بحث کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوسکتا۔ مسلمان گوشت کی بحالی کے لیے جو عجیب و غریب حرکات اور آندولن کررہے ہیں وہ سمجھ سے پرے ہے۔اتنی شدت سے اگر اوقاف کی جائدادوں کا معاملہ اُٹھایا جاتا تو ملت کو بھی فائدہ حاصل ہوتا۔


حکومت کا یہ قدم گوشت کسانوں کے لیے بے حدخطرناک ثابت ہوسکتا ہے ایسے اندیشے جتائے جارہے ہیں۔مہاراشٹر کے اور ملک کے گوشت کسانوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ ان کی کوئی قومی یا ریاستی تنظیم نہیں ہے۔پچھلے ماہ بھگوا دہشت گردو ں کے خلاف جو بند کیا گیا تھا اس موقع پر حکومت سے بات کرنے کے لیے جوقصابوں کی تنظیمیں سامنے آئیں ان میں سے اکثر ہنگامی اور شہر یا ضلع تک ہی محدود تنظیمں تھیں۔ پہلی بار ایسا دیکھا گیا تھا کہ ایک چھوٹی سی تحریک نے حکومت کو بات کرنے کے لیے تیار کردیا مگر گوشت کسانوں کی بد قسمتی کے حکومت سے بات کرنے اور معاملات طے کرنے کے لیے کوئی ریاستی یا قومی تنظیم موجود نہیں تھی۔ شاید اسی صورتحال کے چلتے حکومت کی جانب سے گوشت کسانوں کے مسائل کے بجائے ان کے کاروبار کو ختم کرنے کا ہی فیصلہ کردیا گیا۔اب بھی وقت ہے کہ گوشت کسان حکومت کے اس فیصلے کو مشروط قبول کرتے ہوئے اپنے لیے خرگوش، بکری ، مرغی اور ایمو جیسے پلانٹ کی مانگ اور اسکے لیے زمین و قرض طلب کرسکتے ہیں ممکن ہے کہ حکوت اس طرح سے انھیں معاشی طور پر پسماندہ ہونے سے بچالے۔

اس قدم کا بہت بڑا مثبت اثر بھی ہوسکتا ہے یہ امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے کیسے دعوتی مواقع میں تبدیل کر سکتی ہے۔ عموماً بردران وطن ( ہندو عوام)مسلمان کی بیل خوری کا گلہ کرتے ہوئے ان سے کراہت برتتی ہوئی نظر آتی ہے ۔ اکثر لوگ مسلمانوں کے ٹفن یا دستر خوان میں شامل نہیں ہو پاتے ۔ اب دعوتی نقطہ نظر سے دیکھیں تو ہم ابرداران وطن کو اپنے ساتھ دسترخوان کے ساتھ ساتھ دین میں شرکت کی بھی دعوت دے سکتے ہیں۔ریاست کے مسلمان اور علماء و لیڈران کو اس جانب توجہ دینی چاہیے نہ کہ بیل کے گوشت کو جزؤایمان ثابت کرنے کی کوشش۔


*********************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 595