donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Abu Arsalan
Title :
   Hindustan Me Dayish Ka Wajood Aik Moamma Hai

ہندوستان میں داعش کا وجود :ایک معمہ ہے

 

سمجھنے کا نہ سمجھانے کا 


ابو ارسلان ۔ ممبئی


دسمبر کی نو تاریخ کو نئے نئے ویب سائٹ جہاں کا انصاف کے خالق اور ایڈیٹر کا انٹر ویو ایک اردو روز نامہ میں شائع ہوا ہے ۔ویب سائٹ کے خالق مذکورہ صحافی کا دعویٰ ہے کہ یہ ویب سائٹ داعش کے پروپگنڈہ کا جواب دینے کے لئے قائم کی گئی ہے ۔حالانکہ مجھے آج تک کوئی ایسی نیوز ایجنسی نہیں ملی جس کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہو کہ وہ داعش نے تخلیق کی ہے اور اس پر اس کا پروپگنڈہ جاری ہے ۔کہا جاتا ہے کہ سوشل میڈیا پر اس کا پروپگنڈہ مشن جاری ہے ۔لیکن مجھے وہاں بھی کہیں کوئی پروپگنڈہ نظر نہیں آیا ۔اتنے دنوں میں یعنی جب سے داعش کا عروج ہوا ہے صرف ایک ٹوئٹر اکائونٹ جس کے ذریعہ اسد الدین اویسی کو دھمکی دی گئی تھی ۔وہ پہلا ٹوئٹر اکائونٹ ہے جس کو ہم نے دیکھا ۔اس کے بارے میں بھی یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ جو دعویٰ کیا گیا وہ سچ ہے کہ وہ کسی داعش کے رکن یا تنظیم کا ہے ۔زیر زمین تنظیم جس کے خلاف پوری دنیا ہو اور دن رات جہاں بمباری ہو رہی ہو ان کے خلاف کوئی فرضی اکائونٹ بنا کر بھی تو اس طرح کی دھمکی دے سکتا ہے ۔بھلا کون ہے جو ان کی طرف سے تردید کرے گا اور اگر تردید کرے گا بھی تو میڈیا اس کو کیوں جگہ دے گا ۔ہماری نظروں کے سامنے ایسی خبریں بھی گذریں ہیں جس کے مطابق داعش کے نام سے یا داعش کی حمایت کرنے والی چار سو ویب سائٹس کو بلاک کیا جاچکا ہے اور غالبا وہ ٹوئٹر اکائونٹ جس کے ذریعہ اسد الدین اویسی کو دھمکی دی گئی تھی وہ بلاک کیا جاچکا تھا ۔ہمارے خفیہ محکمہ کو ہمیشہ یہ کھجلی رہتی ہے کہ وہ یہاں کسی ایس تنظیم کی موجودگی کو ثابت کردیں تاکہ اس بہانے سے مسلم نوجوانوں کو نشانہ بنانا آسان ہو ۔حقیقت یہ ہے کہ داعش یا القاعدہ نام کی یا اس کی کوئی ذیلی شاخ ہندوستان محض ایک مفروضہ ہے ۔ماضی قریب میں بھی القاعدہ کی شاخ قائم ہونے کی خبریں میڈیا میں آتی رہی ہیں ۔گویا یہ تنظیم نہیں جھینگا پائو کی دوکانیں ہیں کہ جگہ بجگہ اپنی شاخیں قائم کررہے ہیں ۔اس طرح کی افواہ پر میں نے ایس ایم مشرف سے سوال کیا تھا کہ انٹیلی جنس ان پٹ عوام میں پھیلانے کے لئے ہو تی ہیں یا پولس محکمہ کو چوکنا کرنے کے لئے تاکہ وہ امن و سلامتی کی صورتحال کو قابو میں رکھیں ۔انہوں نے بھی کہا تھا کہ اس طرح کی خبریں عوام میں پھیلانے کے لئے نہیں ہو تیں ۔

اوپر یہ مختصر صورتحال بیان کرنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ ایسی تنظیم کی جانب سے جاری کردہ بیانات کی حقیقت کا ادراک ہو سکے ۔حالانکہ جو کچھ بیان کیا گیا وہ بالکل منطقی اور بہت چھوٹی بات ہے جو سبھی کو سمجھ میں آنی چاہئے لیکن ہم اس دور میں جی رہے ہیں جہاں لوگوں کی عقل اور ان کی سوچ پرمیڈیا کے ذریعہ خفیہ طاقتوں کے پھیلائے گئے گمراہ کن پروپگنڈہ کی گرفت میں ہیں۔آج کے اس ترقی یافتہ دور میں لوگوں نے اس الگ ہٹ کر سوچنا ہی چھوڑ دیا ہے ۔پھر بھی انہیں دعویٰ ہے کہ وہ دانشور ،صحافی اور نہ جانے کیا کیا ہیں۔مذکورہ صحافی کے انٹر ویو سے قبل جو تعارف شائع ہوا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ ’’جہاں کا انصاف ڈاٹ کام ان دنوں داعش کے مکروفریب سے مسلم نوجوانوں کو دور رکھنے کی حتی الامکان کوشش کررہا ہے اس ویب سائٹ کے ذریعہ نہ صرف یہ کہ داعش کے خلاف بیداری مہم شروع کی گئی بلکہ اس کے ناپاک اور مکروہ چہرے کو بھی بے نقاب کیا جارہا ہے ‘‘۔حالانکہ سچائی اس کے بر خلاف ہے ۔داعش کا کوئی فریب ہے کہ نہیں یہ مجھے معلوم نہیں لیکن داعش کے نام پر ہمیں فریب دیا جارہا ہے، گمراہ کیا جارہا ہے اور خوفزدہ کیا جارہا ہے ۔ہمیں جتنی خبریں اور پرپگنڈے ملتے ہیں جو اخبارات یا میڈیا کے دیگر ذرائع سے پھیلائے جارہے ہیں وہ داعش کے خلاف ہی ہیں ۔تعجب ہے اس کے باوجود ایسے زرد صحافیوں کے مطابق نوجوان ان کے جال میں پھنس رہے ہیں ۔پتہ نہیں کون پھنس رہے ہیں اور کون پھنسا رہا ہے ؟مجھے آج تک ٹوئٹر ،فیس بک یا میرے ای میل پر ایسا کوئی مسیج نہیں آیا جس سے اندازہ لگے کہ داعش کے لوگ سوشل میڈیا پر پروپگنڈہ کررہے ہیں ۔بلکہ مجھے یہ لگتا ہے کہ فرضی اکائونٹ کھول کر خفیہ محکمہ والے ہمارے پرجوش نوجوانوں کو پھنسا رہے ہیں تاکہ دہشت کا ایک ماحول قائم رکھا جاسکے ۔مسلم قوم کو احساس جرم اور مجرم ضمیری میں مبتلا کرنے کا جو سلسلہ پچھلی دہائی سے شروع ہوا ہے اس کا سلسلہ چلتا رہے۔کوئی اس پر سوال کھڑے کرتا ہے تو کرے لیکن اس کو اس کا جواب دینا ہی ہوگا کہ سینکڑوں نوجوانوں کا مختلف حیلوں بہانوں سے اور اکثر کو اغوا کرکے ان پر کچھ الزامات طے کئے گئے لیکن وہ پانچ سے اکیس یا چوبیس سال کے بعد عدالت سے با عزت بری کئے گئے ۔انہیں اس طرح ملوث کرنے کے ذمہ دار وہی لوگ نہیں ہیں جو آج داعش کے نام پر مسلم نوجوانوں کو ٹریپ کررہے ہیں ؟

دیکھئے مذکورہ صحافی اپنے ایک جواب میں کہہ رہا ہے کہ ’’کئی مسلم نوجوان ان کے دام میں بھی آچکے ہیں‘‘۔یعنی اسے یقین ہے کہ خفیہ محکمہ نے جن نوجوانوں کو گرفتار کیا ہے وہ واقعی مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔یعنی وہ ان لوگوں کے مقدمات لڑنے والی ملی تنظیم جمعیتہ العلماء کو درپردہ مجرموں کو پناہ دینے والا بتا رہا ہے ۔پوری سماجی کارکن کی ٹیم اور انصاف پسند صحافیوں کا گروہ اس بات پر متفق ہے کہ انڈین مجاہدین نام کی تنظیم خود خفیہ محکمہ اور اے ٹی ایس کی تخلیق ہے ۔میں نے اپنے کانوں سے بار بار پریس کانفرنس میں یہ سنا ہے کہ ’’انڈین مجاہدین کا ہیڈ کواٹر آئی بی کے دفتر میں ہے‘‘۔لیکن یہ زرد صحافی کہتا ہے کہ وہ داعش میں ضم ہو چکی ہے ۔اس کے وجود سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے یا دو ملکوں کے مابین جو کچھ ہو تا ہے اس میں یقینی طور پر عالمی طاقتوں کی باہم چپقلش کارفرما ہو تی ہے یا خفیہ محکمہ کے کھیل ہو تے ہیں ۔اس کو سمجھنا آسان نہیں ہو تا اور ایسے سطحی صحافی جو صحافت کے پاکیزہ پیشہ پر ایک دھبہ ہیں ان کے بس کا تو بالکل نہیں ۔ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ جس کے اشاروں پر یہ سب کررہا ہے وہ انہیں جو بتادیں اس کو وہ اپنی دانشوری کا تمغہ سمجھتا پھرے تو پھر کیا کہا جاسکتا ہے۔غرض پورا انٹر ویو جھوٹ ،فریب دجل سے بھرا پڑا اس انٹر ویو نے مسلم نوجوانوں کو مجرم کی حیثیت سے کھڑا کردیا ہے اور پولس اور اے ٹی ایس جس کی درندگی کی مثالیں آئے دن سامنے آتی رہتی ہیں کیلئے مسلمانوں کے ذہن میں یہ ڈالنا ہے کہ وہ ہمارے نجات دہندہ ہیں ۔جیسا کہ اس نے کہا ہے کہ وسئی کے کسی نوجوان کو اے ٹی ایس پڑھا رہی ہے ۔اسامہ کے تعلق سے امریکہ بار بار ویڈیو جاری کرتا تھا کہ آج انہوں نے یہ کہا لیکن دنیا میں ان ویڈیوز کی سچائی پر سوالات اٹھتے رہے ہیں اور امریکہ ہمیشہ ان سوالات کو نظر انداز کرتا رہا ہے ۔یہاں یہ شخص بھی ایک ویڈیو کا حوالہ دیتا ہے کہ کلیان کے کسی فہد شیخ نے اپنے ویڈیو میں بابری مسجد اور گجرات فساد کے انتقام کی دھمکی دی گئی ہے ۔جبکہ مجھے اچھی طرح یاد ہے غالبا روزنامہ انقلاب نے یہ رپورٹ شائع کی تھی کہ فہد کے والدین نے اس ویڈیو پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا تھا ۔لیکن اس صحافی کو تو وہی کہانی آگے بڑھانی ہے جس کا اشارہ انہیں مسلمانوں کے خلاف کام کرنے والے محکمہ سے ملتا ہے ۔

****************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 527