donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Adil Faraz
Title :
   Azadi Izhar Par Pabandi Aur Adm Bardasht Ka Masla

 آزادی اظہار پر پابندی اور عدم برداشت کا مسئلہ


 عادل فراز

adilfaraz2@gmail.com


    راج ناتھ سنگھ نے پارلیمنٹ میں عامر خان کے بیان پر اپنے مؤقف کا اظہارکرکے یہ ثابت کردیا کہ بی جے پی میں وقت برداشت کا مادہ نہیں ہے ۔عامر خان کا معاملہ اتنا اہم نہیں تھا کہ دوسرے اہم مسائل سے ہٹ کر یوم آئین کے موقع پر ایک معمولی بیان پر انکی توبیخ کی جاتی ۔ہم سمجھتے تھے کہ بی جے پی میں چند شدت پسند ایسے ہیں جو ہر مسئلے کو’’ ہندوتو ‘‘ کا مسئلہ بناکر ہر کسی کو’’ دیش دروھی‘‘ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں مگر یہاں تو پوری گنگا ایک ہی کھونٹ میں بہہ رہی ہے ۔جس طرح بی جے پی خود پر تنقید کرنے والوں کو آڑے ہاتھو ں لیتی ہے اور اپنے خلا ف اٹھنے والے ہر سوال کو ’’ بی جے پی دشمنی‘‘ سمجھ رہی ہے ایسی ذہنیت پارٹی کی ترقی اور ملک میں اسکے اقتدار کی بقاء کے لئے خطرہ ہے ۔ایسا ممکن نہیں ہے کہ ہر انسان انکی پالسیوں اور منصوبوں کی تعریف کرتا پھر ے ۔حکومت سے سوال کرنے کا حق ہر شہری کاہے۔مگر ہر سوال پر انکا چراغ پا ہوجانااس بات کی دلیل ہے کہ بی جے پی اپنی تنقید برداشت نہیں کرسکتی اور نہ وہ کسی سوال کا جواب دینا پسند کرتی ہے ۔آزادی اظہار پر پابندی کے بعد بھی اگر سوال اٹھتے ہیں تو بی جے پی کو خود احتسابی کی ضرورت ہے ۔

    بی جے پی کے متشدد اور’’ ہندوتو‘‘ کا جھنڈا اٹھائے رہنمائوں کو کیا کوسیں جب وزیراعظم اور انکے ہمکار افراد بھی آزادی اظہار پر پابندی کے حق میں ہیں اور تنقید پر برداشت کی قوت کھو بیٹھتے ہیں ۔دہلی اور بہار کے انتخابات میں شکست کے بعد بھی پارٹی خود احتسابی کے عمل سے دور ہے ۔وزیر اعظم اور دوسرے بزرگ رہنما بھی اپنے کارکنان کو خوداحتسابی پر متوجہ نہیں کرتے اور وہی عمل سامنے آتاہے جو پارٹی کے دوسرے کم قد کے افراد انجام دے رہے ہیں ۔دوراندیش سیاست دانوں کا ہر مسئلے پر خاموش رہنا ، پارٹی پر تنقید کرنے والوں اور سوالوں پر عدم برداشت کا ثبوت دینا اس بات کی دلیل ہے کہ آئندہ انتخاب میں وہ اپنی شکست کو یقینی مان چکے ہیں۔قابل غور بات یہ ہے کہ جب بی جے پی کی پالسیو ں اور ملک میں بڑھتی انارکی پر سوال اٹھائے جاتے ہیں تو آرایس ایس فورا دفاع میں سامنے آجاتی ہے اور جب آر ایس ایس کے نظریات کی تنقید کی جاتی ہے تو بی جے پی بچائو میں سبقت کرتی ہے ۔کیا اب بھی عوام انکے سیاسی تعلقات اور نظریاتی ہم آہنگی کو نہیں سمجھیں گے ؟۔

    جس طرح بی جے پی سوالوں اور تنقید پر بھڑک اٹھتی ہے اس سے ظاہر ہے کہ وہ سیاست میں اپنا حزب مخالف دیکھنا پسند نہیں کرتی ۔ہر مسئلے پر مخالفین کو غلط ثابت کرنا اور بات بات میں اپنے سیاسی حریفوں کو ملک دشمن ثابت کرنا انکی مکروہ پالیسی کا حصہ بن چکاہے ۔ادیبوں کے احتجاج پر بی جے پی چراغ پا دکھائی دی ، ہر احتجاج کرنے والے ادیب کو کانگریس کا درباری سمجھا گیا ۔بالی وڈ سے احتجاج کی آواز بلند ہوتی ہے تو پورے ملک میں انکے خلاف مہم چھیڑدی جاتی ہے ۔ملک میں جہاں بھی آزادی اظہار کے ساتھ بات کی جاتی ہے اور بی جے پی کو محسوس ہوتاہے کہ انکی حکمت عملی کو نشانہ بنایا جارہاہے وہ پوری قوت کے ساتھ ان آوازوں کو دبانے میں جت جاتی ہے ۔کیا ہندوستان کے شہریوں کو اپنی حکومت سے سوال کرنے کا حق نہیں ہے ؟کیا وہ انکی پالسیوں پر انگشت نمائی کا حق نہیں رکھتے ؟کیا جمہوری نظام میں اپنے نظریات کا اعلان کرنا بھی جرم ہے ؟کیا ملک کے ہر باشندے کے لئے لازمی ہے کہ وہ بی جے پی اور آرایس ایس کے نظریات سے اتفاق رکھے ۔ اگر ایسا ہے تو پھر راج ناتھ سنگھ اپنی جگہ صحیح ہیں کہ اس ملک کے آئین میں ’’ سیکولر‘‘ لفظ کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ’’ سیکولر ‘‘ لفظ کو ’’آئین بدر‘‘ کرنے کے بعد ’’ جمہوریت کو ملک بدر‘‘ کرنے کی نوبت آئے گی ۔وجہ صرف یہ ہے کہ بی جے پی اپنے نظریات کو پس پشت ڈال کر آر ایس ایس کے دستورالعمل کے مطابق کام کررہی ہے ۔آر ایس ایس نہیں چاہتی کہ ہندوستان میں انکے نظریات کے سامنے کسی دوسری تنظیم یا کسی دوسرے مذہب کا نظریہ پیش ہو ،یہی وجہ ہے کہ اسکے لوگ ہندوستان کے آئین میں اپنے دستورالعمل کے مطابق ترمیم چاہتے ہیں او راپنے اس خواب کی تعبیر کے لئے انہوں نے بی جے پی میں’’ سنگھ پرستوں‘‘ کا دخل بڑھانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے ۔

    بی جے پی کے زہر افشانی کرنے والے رہنمائوں سے ہمیں کوئی شکوہ نہیں ہے کیونکہ ہندوئوں کے ایک مخصوص حلقے میں انکی محبوبیت کا راز یہی ہے لہذا انکی زہر افشانیوں پر زیادہ توجہ کی ضرورت نہیں ہے ۔ہمیں افسوس اس بات کا ہے کہ ملک کے مایۂ ناز عہدے پر فائز نریندرمودی جی بھی ان امراض کا شکار ہوگئے ہیں ؟وہ بھی اپنے عہدے کے تقدس اور وقار کا خیال نہیں کرتے اور اسی بہائو میں بہتے چلے گئے جس میں بی جے پی کے شدت پسند ’’سنگھ پرست ‘‘لیڈر بہتے جارہے تھے ۔جب بھی وزیر اعظم بی جے پی کی انتخابی تشہیر کی مہم پر نکلے وہ بھو ل بیٹھے کہ پہلے اس ملک کے اہم مقدس عہدے پر فائز ہیں اسکے بعد وہ بی جے پی کے رکن ہیں ۔دہلی میں انتخابی تشہیر کے دوران انہوں نے رام لیلا میدان میں اروند کیجریوال کو ’’ انارکسٹ ‘‘ کہکر خطاب کیا تھا اور نکسلیوں سے جاملنے کی بات کہی تھی ۔اسی خطاب میں کیجریوال کو ’’ جھوٹ کی فیکٹری چلانے والا ‘‘ کہکر یاد کیا تھا ۔صرف یہی نہیں بلکہ بہارمیں انتخابی تشہیر کے وقت وہ مزید متشدد نظر آئے ۔بہار میں آر جے ڈی ،جے ڈی یو اور کانگریس کے اتحاد کو انہوں نے ’’ تھری ایڈیٹ ‘‘ سے تعبیر کیا ۔لالو یادو پر جوابی حملہ کرتے ہوے ان میں ’’ شیطان کے حلول‘‘ کی بات کہی ۔ظاہر ہے جب ہمارے ملک کے وزیر اعظم اور انکے شانہ بہ شانہ کام کرنے والے افراد میں ہی قوت برداشت کا مادہ نہیں ہوگا تو پارٹی کے دوسرے کارکنان کی بھڑکائو بیان بازیوں پر کیسے قابو حاصل کیا جاسکتاہے ۔ وزیر اعظم نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ ’’ ترقی صرف وعدوں سے نہیں ہوتی بلکہ ترقی کے لئے کڑی محنت اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے ‘‘ مگر مودی جی خود اپنے فلسفوں پر عمل اور کسی حکمت عملی پر کام کرنے کے بجائے وہی اقدامات کررہے ہیں جن کے لئے وہ کانگریس اور عآپ کو انتخابی تشہیر کے وقت کوس رہے تھے ۔لہذا مودی جی اپنا کہا یا د رکھیں کہ جولوگ صرف ترقی کے وعدے کرتے ہیں اور جھوٹ کی فیکٹری چلاتے ہیں اور کڑی محنت نہیں کرتے انہیں عوام شکست دیکر سبق سکھا دیتی ہے ۔

    مودی جی وزارت داخلہ کی رپوٹ کے مطابق اس سال ہر مہینے ملک میں ۷۵ کمیونل رائٹس ہوئے ہیں ، بی جے پی کہتی ہے کہ یہ رائٹس کانگریس کی حکومت کے باالمقابل بہت کم ہیں ۔مسئلہ یہ نہیں ہے کہ کس کی حکومت میں کتنے کمیونل رائٹس ہوئے ہیں ۔مسئلہ یہ ہے کہ یہ کیمونل رائٹس کیوں ہوئے ہیں ؟اور انکے’’ ہونے میں ‘‘ کیا حکمت عملی کام کررہی تھی ۔ظاہر ہے ان کمیونل رائٹس میں مسلمانوں کو زیادہ نشانہ بنا یا گیا اور تمام رائٹس عدم برداشت کے ماحول کی بنیاد پر وجود میں آئے ۔آسام ،اڑیسہ ،کرناٹک ،مہاراشٹر اور اترپردیش کے ساتھ ملک کے متعدد مقامات پر اقلیتوں کو مذہبی انتہا پسندوں کے ذریعہ نشانہ بنایا جانا حکومت کے لئے خود احتسابی کے جواز پیش کرتاہے، مودی جی آزادی اظہار پر پابندی اور عدم برداشت کے ماحول میں پنپتی ذہنیتیں ملک کے بہتر مسقبل کے لئے بڑا خطرہ ثابت ہونگی۔جانوروں کے مذہبی تقدس کے خیال میں انسانوں کے خون کو جانوروں کے گوبر اور موت سے زیادہ ارزاں نہ ہونے دیں ۔ مودی جی اگر بی جے پی ملک میں اقتدار کے ساتھ امن و سکون چاہتی ہے تو اسے چاہئے کہ مذہبی انتہاپسندی پر قابو کرے اور آر ایس ایس کے اثرات سے باہر نکل کر ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرے ۔

(یو این این)


******************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 693