donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Amir Ansari
Title :
   Modi Ka Takabbur Unhen Le Gaya Andhere Me

مودی کا تکبر انہیں لے گیا اندھیرے میں


عامر انصاری کی قلم سے --


-*-*- میں بس اتنا ہی کہنا چاہتا ہوں کہ بہار سے جس طرح کا فیصلہ آیا ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مودی کے گھمنڈ اور تکبر پر اسی بہار نے مضبوط ہتھوڑا مار دیا ہے جس نے اندرا کے تکبر کو چور چور کیا تھا لیکن جمہوری روایات کی وجہ یہ بھی بتاتا چلو کی کل جس شرد یادو کی تقریر کو نظر انداز کر منہ موڑ کر مودی پارلیمنٹ کی دیوار تکنے لگے تھے آج اسی شرد یادو نے ہندوستانی سیاست کا ہی منہ موڑ دیا اور مودی کو ایک بار پھر غور سے پارلیمنٹ کی تمام در و دیوار دیکھنے پر مجبور کر دیا چونکہ کل جب مودی نے پارلیمنٹ کی عمارت کی دیوار اپوزیشن سے منہ موڑ کر دیکھی تھی تب ان کا گھمنڈ ان کے سر پر چڑھ کر بول رہا تھا اور اب بہار انتخابات کے نتائج کے بعد اس لئے مودی جی کو پارلیمنٹ کی در و دیوار غور سے دیکھنے کا مشورہ اس سچے اور تلخ نغمے کے ساتھ دے رہا ہوں کی

"یہ گلیاں، یہ چوبارا یہاں آنا نہ دوبارہ
چونکہ آپ تو بھ?ے پردیسی ??ا تیرا کوئی نہیں "

-*-*-

کل جب منموہن حکومت کے زیر سائے کوئلہ اور 2 جی اسپیکٹرم گھوٹالہ جیسے بڑے معاملے ہندوستانی سیاست میں دکھائی دے رہے تھے تب اپوزیشن کے طور پر سب سے تلخ تیور اختیار کرتے ہوئے اس وقت کے بی جے پی کے رہنما یہ کہتے دکھائی دیے تھے کہ ان تمام گھوٹالوں سے براہ راست تعلق وزیر اعظم کا ہے

چونکہ وزیر اعظم حکومت کا سربراہ ہوتا ہے اور اگر حکومت کا کوئی وزیر غلط کرتا ہے تو اس کی اخلاقی ذمہ داری وزیر اعظم پر جاتی ہے

اخلاقیات کا سبق ملک کو پڑھانے والی بی جے پی جب خود اقتدار میں آتی ہے تو وہ اخلاقیات کی تعریف میں تبدیلی لاتے ہوئے کہتی ہے کہ وزرائ￿  کے ہر معاملے میں وزیر اعظم جواب نہیں دے سکتا بھلا مرکزی وزیر نرنجن جیوتی دہلی کی سڑکوں پر رامذادے اور حرام زادے کی بحث کو جنم دے کر ملک کے سماجی ڈھانچے کو ہی توڑ نے کا اپنا منصوبہ سر عام اعلان کرے لیکن جب پارلیمنٹ کے اندر اپوزیشن وزیر اعظم کے بیان کی مانگ کو لے کر متحرک ہو جائے تو وہ وزیر اعظم جو اپنی  انتخابی تقریروں میں منموہن سنگھ کی خاموشی پر طنز کسا کرتے تھے خود ہی خاموشی کے ایسے سمندر میں ڈوب گئے کہ پارلیمنٹ کی کارروائی لگاتار کئی دنوں تک صرف اس ایک سوال پر ملتوی ہوتی رہی لیکن وزیر اعظم مودی کی زبان میں جنبش نہیں آئی

اور مودی حکومت کے بلند اقبال کی بات کرنے والے وہی بی جے پی لیڈر یہ کہتے نظر آنے لگے کہ ہر معاملے میں وزیر اعظم پارلیمنٹ میں آکر تقریر نہیں دے سکتے جو کل ہر وزیر کی غلطی کا ٹھیکرا سابق وزیر اعظم کے سر پر پھوڑا کرتے تھے

بار?ال جب بہت دن کے تعطل کے بعد مودی راج?سبھا میں تشریف لائے تو اس معاملے میں ایک لمبی بحث ہوئی حکومت کے تمام وزیر اس بحث میں رکاوٹ ڈالتے نظر آئے لیکن کسی ایک انسان کے لب سلے تھے تو اس کا نام نریندر مودی تھا اور مودی نے بھی ایوان کے اندر تکبر کی جو تصویر پیش کی تھی اس پارلیمنٹ کی عمارت کی وہ دیوار کبھی نہیں بھول سکتی جسے مودی اس وقت ٹک ٹ?? لگائے اپوزیشن کی طرف سے پیٹھ موڑ کر دیکھ  رہے تھے جب ہندوستانی سیاست کا وہ تجربہ کار رہنما شرد یادو بول رہے تھے جس نے 1974 میں ادرا کے غرور کو للکارتے ہوئے پارلیمنٹ کی رکنیت سے استعفی دے دیا تھا

لیکن وقت کا پہیہ جو ماضی سے گھمنڈی کا دمن کرتا چلا آ رہا ہے اس نے اپنی رفتار تیز کی اور مستقبل کے ایک ایسے گھمنڈی کے گھمنڈ کو چور چور کر دیا جس کے تکبر کی آگ میں ابھی نہ جانے کتنے دن اور مہینے  ہندوستان کو جھلسنا پڑے گا

مودی کے تکبر پر وقت کا گھنٹال ان کے وزیر اعظم بن کے پہلے 3 ماہ میں ہی ضرب دینے لگا تھا یہ ضرب تھی ان تمام ریاستوں کے ضمنی انتخابات جہاں مودی نے تاریخی جیت درج کی تھی وہ چاہے کرناٹک ہو، بہار ہو، پنجاب ہو، گجرات ہو ، مدھیہ پردیش، یا اتر پردیش سب جگہ مودی نے 3 ماہ کی جیت کے بعد شکست کا ذائقہ بھی چکھ لیا تھا لیکن نہ تو مودی حکومت کے وزرائ￿ ، ممبران پارلیمنٹ اور ان کی پارٹی کے عہدیداروں کے گھمنڈ میں اور نہ ہی مودی کے تکبر پر ذرہ برابر بھی فرق نہیں پڑا

ان انتخابات کے بعد جن جن ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کی سیاست گرمائی انمے دہلی سب سے اہم تھا چونکہ مودی اور ان کی حکومت کا ایک ایک وزیر یہاں سکونت کرتا ہے وہاں بی جے پی کی حالت اتنی خراب ہو گئی کہ وہ دہلی اسمبلی کے لیڈر اف اپوزیشن  کی کرسی حاصل کرنے کے لئے بھی کیجریوال کی محتاج ہو گئی

دہلی کے بعد جن علاقوں میں اسمبلی انتخابات ہوئے ان میں بی جے پی کو لوک سبھا کے مقابلے میں نہ صرف کم ووٹ حاصل ہوئے بلکہ ان علاقوں (م?راشٹر اور جموں و کشمیر) میں مودی کی بی جے پی نے حکومت توبنائی لیکن کس ذلت کے ساتھ بنائی ہے وہ جگ ظاہر ہے، مہاراشٹراتحاد کا اہم ساتھی شیوسینا جس طرح مودی اور انکے  طریقہ کار پر حملہ کر رہا ہے اس کے باوجود تکبر میں ڈوبے بی جے پی لیڈر توہین کو امرت جان کر نگلتے جا رہے ہیں

اب اقتدار محبت میں بی جے پی مہاراشٹر میں روز توہین کے گھونٹ پی کر 56 انچ کا سینہ پھلا کر گھوم رہی ہے اتنا ہی نہیں جموں و کشمیر میں تو مودی کی بی جے پی نے اپنا گھمنڈ، تکبر، انا اور اقبال سب کچھ طاق پر رکھ کر خیالات اور اصولوں کی ہولی جلا کر ان مفتی محمد سعید کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کر لیا جن کے بارے میں وزیر اعظم کے عہدے کے دعویدار کے طور پر مودی نے محبوبہ مفتی کا نام لے کر انکو دہشت گردوں کے ظریے کئے گئے اغوا اور تاوان میں رہا کیے گئے  دہشت گردوں کی داستان کو اس طرح بیان کیا تھا کہ ہر قوم پرست  کے دل میں وہ زخم ہرا ہو گیا تھا جو بی جے پی دور حکومت میں ہی مفتی محمد سعید نے مرکزی وزیر داخلہ رہتے ہوئے دیا تھا

اور قوم پرست کے سرٹیفکیٹ اشتراک کرنے والی بی جے پی کے فرضی قوم پرستی کی قلعی اس وقت کھل گئی جب بی جے پی اتحاد کی جموں کشمیر حکومت نے مسرت عالم کے ہاتھ میں رہائی کا پرچم دیا

لیکن وقت کی پڑتی ان چوٹوں کا اثر نہ تو مودی کے گھمنڈ پر ہوا اور نہ ہی ان کے وزیر، ایم پی اور حامیوں کے غرور پر لیکن وقت کی مار کے آگے کوئی نہیں ٹک سکتا اتنے سب کے باوجود مودی کے وزیر گھمنڈ کی اس دیوار پر چڑھے رہے جس کی بنیاد بہت کھوکھلی ہوتی ہے اسی د?واار پر سوارہوکر دادری کے ظلم پر ان کے مقامی رہنما اور مرکزی ثقافتی وزیر نے جس غیر    معیاری زبان کا استعمال کیا اس نے ایک بار پھر مودی حکومت کے دامن میں ایک ایسا داغ لگا دیا  جسے دھوتے دھوتے صدیاں گزر جائے گی اور نہ صرف مہیش شرما بلکہ ہریانہ کے اندر دلت معصوم کے برہم قتل کے بعد جو شرمناک بیان

وی کے سنگھ نے دیا ہے اس نے تو انسانی احساس کو ہی روند ڈالا پھر وہ قدرت جوش میں آئی جس نے اس نیلے آسمان کو بغیر کسی سہارے کے تھامے رکھا ہے اور اتر پردیش کے شہر پنچایت انتخابات نے اسی درمیان دستک دی اس دستک کو اتر پردیش کے اسمبلی انتخابات کے سیمی فائنل کے طور پر ملک کے سیاسی مبصرین نذر گڑائے دیکھ رہے تھے اسی درمیان ہندوستانی

سیاست کی 30 برسوں سے نبض کو پکڑنے والے نوواذ مو?ممد اعظم خان نے مودی کے انتخابی علاقے بنارس کو اپنے ہدف پر لیا اور بنارس کی گلیوں میں جا کر جب اعظم خان نے یہ اعلان کیا کی بنارس کے گھاٹوں کو خوبصورت بنانے کے لئے بنارس کی گلیوں میں انٹر لوکنگ کے لئے بنارس کی سڑکوں کی توسیع کے لئے میں نے کروڑوں روپے خرچ کر دیے لیکن افسوس ملک کا وہ بادشاہ جو آپکے ووٹ پاکر آج ہندوستان کے تخت اے طاؤس پر بیٹھا ہے اس نے ایک نیا پیسہ اپنے انتخابی میدان میں خرچ نہیں کیا اعظم خان کے ان جملوں پر بنارس کے گھاٹوں سے لے کر بنارس کی چوپالو تک بحث ہونے لگی اور بنارس کے مقامی پنچایت انتخابات میں مودی کی تاریخی شکست ہو گئی 48 سیٹوں میں سے صرف 8 سیٹوں پر ہی بنارس میں مودی کی بی جے پی سمٹ کر رہ گئی

ابھی بی جے پی کے بیان بہادروں کی زبان خاموش ہیں چونکہ مودی کے بنارس راج ناتھ کے لکھنؤ سمیت تمام اتر پردیش میں بی جے پی کو بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے

میں مضمون کے آخر میں بس اتنا ہی کہنا چاہتا ہوں کہ بہار سے جس طرح کا فیصلہ آیا ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مودی کے گھمنڈ اور تکبر پر اسی بہار نے مضبوط ہتھوڑا مار دیا ہے جس نے اندرا کے تکبر کو چور چور کیا تھا لیکن جمہوری روایات کی وجہ یہ بھی بتاتا چلو کی کل جس شرد یادو کی تقریر کو نظر انداز کر منہ موڑ کر مودی پارلیمنٹ کی دیوار تکنے لگے تھے آج اسی شرد یادو نے ہندوستانی سیاست کا ہی منہ موڑ دیا اور مودی کو ایک بار پھر غور سے پارلیمنٹ کی تمام در و دیوار دیکھنے پر مجبور کر دیا چونکہ کل جب مودی نے پارلیمنٹ کی عمارت کی دیوار اپوزیشن سے منہ موڑ کر دیکھی تھی تب ان کا گھمنڈ ان کے سر پر چڑھ کر بول رہا تھا اور اب بہار انتخابات کے نتائج کے بعد اس لئے مودی جی کو پارلیمنٹ کی در و دیوار غور سے دیکھنے کا مشورہ اس سچے اور تلخ نغمے کے ساتھ دے رہا ہوں کی

"یہ گلیاں، یہ چوبارا یہاں آنا نہ دوبارہ
چونکہ آپ تو بھ?ے پردیسی ??ا تیرا کوئی نہیں "


***********************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 455