donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Arif Aziz, Bhopal
Title :
   Girani Ka Asar Sikkon Par Faqeer Bhi Lene Ko Taiyar Nahi


گرانی کا اثر سکوں پر فقیر بھی لینے کو تیار نہیں


عارف عزیز

(بھوپال)

٭    ہندوستان میں گرانی آسمان سے باتیں کررہی ہیں جس کے خلاف عام لوگوں میں بے چینی پائی جاتی ہے اور سیاسی پارٹیاں بھی اس کے خلاف آواز بلند کرکے عوام میں مقبولیت حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں لیکن ایسا کبھی دیکھنے میں نہیں آیا کہ بڑھی ہوئی قیمتیں کم ہوگئی ہوں ۔ اس کے برخلاف کچھ عرصہ بعد ان میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے تو نئے سرے سے شکایات کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے لیکن اس کا بھی کوئی نتیجہ نہیں برآمد ہوتا یہی وجہ ہے کہ عام لوگ صبر کرکے بیٹھ گئے ہیں کہ گرانی ان کی قسمت میں لکھ گئی ہے۔ گرانی دور کرنے کے لئے بہت سے علاج تجویز کئے جاتے ہیں لیکن وہ تجویز شاید کسی کے ذہن میں نہیں آئی تھی جو جبلپور کے فقیروں نے کچھ عرصہ پہلے پیش کی ہے اور جس کے مطابق مرض کا علاج یہ تجویز کیا گیا ہے کہ تمام چھوٹے سکے منسوخ کردیئے جائیں ا ن فقیروں نے جبل پور میں اپنی ایک کانفرنس منعقد کرکے حکومت ہند سے یہ مطالبہ کرنے کا فیصلہ بھی کیا تھا کہ پانچ پیسے، دس پیسے، بیس پیسے ، پچیس پیسے ، پچاس پیسے  کے ساتھ ایک روپیہ کے سکے بھی منسوخ کردیئے جائیں کیونکہ ان سے آج کل کوئی چیز بھی نہیں خریدی جاسکتی ان فقیروں نے اپنی کانفرنس کے بعد وزیراعظم کے نام ایک عرض داشت بھی پیش کی ہے۔

    یہ واقعہ بظاہر دلچسپ لیکن عملاً بڑا سبق آموز ہے کیونکہ ان چھوٹے سکوں کی پوزیشن اتنی گر گئی ہے کہ ملک کے بعض علاقوں میں کوئی انہیں قبول کرنے کے لئے تیار نہیں، کئی ریاستوں کے بڑے بڑے شہروں میں ان سکوں کا چلن اس حد تک ختم ہوگیا ہے کہ سرکاری بس اسٹینڈ اور ریلوے اسٹیشنوں کا عملہ بھی ان کو قبول نہیں کرتا جن علاقوں میں آج یہ سکے قبول کئے جاتے ہیں وہاں بھی ان میں سے کسی بھی سکے سے کوئی چیز خریدی نہیں جاسکتی بچوں کو بہلانے والا لیمن چوس تک ایک روپیہ میں نہیں ملتا۔ یعنی خرید وفروخت کا سب سے چھوٹا ایک روپے والا سکہ بے معنی ہوگیا ہے جہاں تک دو، پانچ پیسے، دس پیسے اور پچیس پچاس پیسے کے سکوں کا تعلق ہے ان کا نام ونشان مٹ گیا ہے اور پچیس، پچاس پیسے کا سکہ صرف حساب وکتاب کی ضرورت کی وجہ سے کہیں کہیں نظر آجاتا ہے لیکن ان کا بھی حال یہ ہے کہ اگر کسی کو راستہ میں یہ سکے پڑے ہوئے نظر آجائے تو وہ ان کو جھک کر اٹھانے کی کوشش نہیں کرتا۔

    ملک کے بعض حصوں میں مذکورہ بالا چھوٹے سکوں کا چلن بند ہوجانا اور بعض میں ان کا چلتے رہنا بھی پریشان کن ہے مثلاً آپ کے شہر سے اگر کوئی شخص پہلی بار یوپی کا رخ کرے تو اس کی جیب میں ایسے سکے بھی ہوسکتے ہیں جو قانونی ہیں اور جو اس کے شہر میں قبول کئے جاتے ہیں لیکن منزل مقصود پر پہونچ کر اسے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں وہ سب کے سب بند ہوچکے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ایسے سکے لوگ فقیروں کو دے کر اپنی جیب ہلکی کررہے ہوں اور اسی لئے فقیروں کو احتجاج کرنے کی ضرورت پیش آئی، لیکن بات یہ نہیں ہے کیونکہ وہ بھی ایسے سکے لینے سے انکار کرسکتے ہیں اور انکار کرتے وقت ایسا طرز عمل اختیار کرسکتے ہیں کہ دینے والا شرم محسوس کرنے لگے۔پاکستان میں تو برسوں سے کوئی فقیر ایک روپے سے کم قبول نہیں کرتا لیکن ہندوستان میں عام طور پر یہ کیفیت پیدا نہیں ہوئی تھی، اب ’’گلوبلائزیشن‘‘ کے تجربے کی دھوم دھام میں یہاں کے فقیروں نے ایک نئے انداز میں سوچنا شروع کردیا ہے۔ پاکستانی فقیروں نے تو چھوٹے سکوں کو قبول کرنا بند کیا تھا اور ہندوستانی فقیروں نے ان سے بھی دو ہاتھ آگے بڑھ کر یہ مطالبہ شروع کردیا ہے کہ ایسے سکے رائج ہی کیوں ہیں جن کی قدروقیمت نہ ہو۔

    ہندوستان میں جس تیزی سے روپے کے سکے کی قیمت میں کمی آرہی ہے اس کے دیکھتے ہوئے وہ وقت دور نظر نہیں جب پاکستان کی طرح فقیر روپے کے علاوہ چھوٹا سکہ لینے سے انکار کردیں گے کیونکہ عالمی بازار میں روپے کی قیمت آج صرف ۲۸ پیسے رہ گئی اور مرکزی حکومت آنکھیں بند کئے نیز وزارت مالیات منہ بند کئے تماشائی بنی ہوئی ہے۔

(یو این این)

***********************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 461