donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ashfaqur Rahman Sharar
Title :
   Babri Masjid Ram Janam Bhumi Masla Par Hukumaten Hamesh Hi Janibdar Raheen

 

بابری مسجد رام جنم بھومی مسئلہ پر حکومتیں ہمیشہ ہی جانب دار رہیں

 

اشفاق الرحمن شررؔ مئوناتھ بھنجن، یو۔پی۔


موبائل: +966551105767 

  (e-mail: sharar68@gmail.com)


    اجودھیا میں جشن عید میلادالنبی کے موقع پر تھرما کول سے بنے ایک مسجد کے ماڈل پر بابری مسجد لکھا ہوا تھا جسے پولس انتظامیہ نے امن بگاڑنے کی کوشش قرار دیکر ایف آئی آر درج کیا ہے اس میں خاص بات یہ ہے کہ ایف آئی آر کسی فریق کی شکایت پر نہیں بلکہ خود تھانہ بابری مسجد کے انچارج کی شکایت پر درج ہوئی ہے۔ پولس نے اسے ماحول خراب کرنے والا عمل مانا ہے اور اسکے خلاف مبینہ طور پر ذمہ دار نورانی کمیٹی کے ذمہ داران اور ان کے نا معلوم ساتھیوں پر مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلانے اور امن و امان خراب کرنے کی کوشش کے خلاف پولس کی فوری کارروائی قابل تعریف ہو سکتی تھی اگر یہ انصاف کے مطابق ہوتی لیکن بد قسمتی سے یہ یک طرفہ کارروائی کی گئی ہے۔ ایک طرف تو معاملہ عدالت عظمیٰ میں زیرِ غور ہونے کے باوجود ایک فرقہ مسلسل رام مندر بنانے کے دعوے کرتا ہے، چندے کا سلسلہ جاری ہے پتھروں کے منگائے جانے میں کوئی کمی نہیں ہوئی ہے یہاں تک کہ متنازع مقام کے قریب ہی باقاعدہ طور پر ورکشاپ قائم ہے جس میں مندر کے لئے پتھر تراشے جانے کا کام جاری ہے۔ ابھی حال ہی میں جے پور سے منگائے گئے پتھر کی باقاعدہ طور پر پوجا کی گئی۔ وشو ہندو پریشد کے لیڈران اور یہاں تک کہ مرکزی حکومت کے ایم پی اور وزراء تک رام مندر بنانے کے دعوے کرتے ہیں۔ کھلے اسٹیج سے بھی مندر تعمیر کی بات کرنے میں انھیں کوئی تردد نہیں ہوتا سب کچھ پولس اور انتظامیہ کے سامنے ہورہا ہے۔ افسوس کہ پولس انتظامیہ یا حکومت کو ایسے بیانات اور عمل سے امن کو خطرہ نہیں دکھائی دیتاجو قانون ہاتھ میں لینے کی کوشش کر رہے ہیںاور صرف کسی پروگرام میں ماڈل پر بابری مسجد لکھ دینا ہی خلاف امن ہو گیا۔کبھی کسی مسلمان یا بابری مسجد مقدمہ کی پیروی کرنے والے نے مسجد بنانے کا دعوہ نہیں کیا جب کہ 1992 میں جب مسجد شہید کی گئی تھی اس وقت کے وزیر اعظم پی وی نرسمہا رائو نے ملک کی سب سے بڑی پنچایت پارلیمنٹ میں اسی مقام پر مسجد بنوانے کی یقین دہانی کرائی تھی لیکن مسلمانوں نے ہمیشہ عدالت کے فیصلے کا انتظار کیا ہے اور بابری مسجد کے پیروکار وں میں سی کسی نے کبھی نہ تو عوامی جذبات کا حوالہ دیکر یا طاقت کے بل پر مسجد تعمیر کرنے کی بات کی ہے اور اسلام میں ایسی کسی زمین پر مسجد بنانے کی اجازت ہی ہے جو کسی اورکی ہو اس کے خلاف دوسرا طبقہ ہمیشہ ہی دعوہ کرتا آرہا ہے کہ اس مقام پر مندر ہی بنے گی انھوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ہم عدالت کے فیصلے کو مانیں گے۔ بابری مسجد اور رام جنم بھومی کے مالکانہ حق کو لیکر طویل عرصے سے نزاع چلی آرہی ہے لیکن آزاد ہندوستان حکومتوں نے ہمیشہ جانب داری سے کام لیا گیا کبھی انصاف کے مطابق اقدام نہیں کئے گئے بلکہ بھیڑ کو دیکھا گیا جدھر بڑی بھیڑ دکھائی دی اس طرف نرم رخ اختیار کیا گیا اور اس معاملہ میں کانگریس کی حکومتوں میں سب سے زیادہ انصاف کا خون کیا گیا۔ بابری مسجد رام جنم بھومی پرپہلی بار نواب واجدعلی شاہ کے دور 1853 میں ہندو اورمسلمانوں کے درمیان تصادم ہوا نرموہی اکھاڑہ نے مسجد کی زمین پر دعوہ جتایا تھا جسے خارج کر دیا گیا۔ 1903 میں جاری فیض آباد ضلع انتظامیہ کی رپورٹ کے مطابق1855 تک ایک ہی عمارت میں ہندو اور مسلمان دونوں اپنی اپنی پوجا اور عبادت کرتے رہے لیکن 1857 میں ایک ہجوم نے مسجد کے صحن میں ایک چبوترہ بنا کر اس پر مورتی رکھ دیا جسے رام چبوترہ کا نام دیا گیا تھا۔ 1883 میں رام چبوترے پر مندر تعمیر کی کوشش کی گئی اور اس کے لئے ڈپٹی کمشنر سے اجازت مانگی گئی تھی 19؍ جنوری 1885 کو ڈپٹی کمشنر نے تعمیر سے روک دیا۔ اس کے بعد فیض آباد کے نائب جج کی عدالت میں اپیل کر کے مندر تعمیر کی اجازت مانگی گئی جسے عدالت نے نا منظور کر دیا اس کے بعد ضلع جج کے وہاں دائر اپیل 17؍ مارچ 1886 کو خارج کی گئی پھر 25؍ مئی 1886 کواودھ کے جوڈیشیل کمشنر کی عدالت میں اپیل کی گئی اور یہ اپیل بھی خارج کر دی گئی اس طرح پہلے دور میں عدالتی کارروائی کامندر کے دعوے داروں کی شکست کے ساتھ اختتام ہوگیا۔1934 میں مسجد کی باہری دیوار گرا دی گئی تھی جسے برٹش حکومت نے پھر سے تعمیر کرا دیا تھا۔


    1947 کو ملک آزاد ہوا لیکن 26؍ جنوری 1950 کو جمہوری نظام قائم ہونے سے کچھ روز پہلے یعنی 22؍ دسمبر 1949 کی نصف شب میں 50-60  لوگوں کی بھیڑ زبردستی مسجد کے اندر داخل ہو کر مورتی ر کھ دئے اور دیواروں پر گیرو سے جگہ جگہ سیتا رام لکھ دئے جس کی ایف آئی آر وہاں پر تعینات گارڈ کانسٹیبل ماتا پرساد نے اجودھیا تھانہ میں اگلی صبح یعنی 23؍ دسمبر 1949 کو درج کرائی۔اس وقت کے وزیر داخلہ سردار بلبھ بھائی پٹیل تک جب یہ خبر پہونچی تو انھوں نے اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ پنڈت گووند بلبھ پنت، وزیر داخلہ لال بہادر ساستری کو موقع کا معائنہ کرنے اور مورتی کو ہٹانے کی ہدایت دیا۔ اس سلسلہ میں انسپیکٹر جنرل آف پولس نے فیض آباد کے ضلع مجسٹریٹ کوفوراً مورتی ہٹائے جانے کا حکم دیا لیکن ضلع مجسٹریٹ نے یہ کہتے ہوئے حکم ماننے سے انکار کر دیا کہ یہ معاملہ عوام کے جذبات سے جڑا ہوا ہے اور مورتی ہٹانے پر امن کو زبردست خطرہ ہوگا۔ عوامی جذبات کو بہانہ بنا کر ضلع مجسٹریٹ نے مرکزی حکومت کو ماننے سے انکسار کر دیا لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ بس یہیں سے ایک فرقہ کا حوصلہ بڑھ گیا اور تعداد کا فائدہ اٹھا کر ہمیشہ حکومت کو نرم رخ اختیار کرنے پر مجبور کرتے رہے ۔ 1984 میں وشو ہندو پریشد نے مہم چلا کر مسجد میں عدالت کے ذریعہ لگا تالا کھولانے کا مطالبہ کیا 1985 میں وزیر اعظم راجیو گاندھی کے حکم پر تالا کھول دیا گیا۔ مسلمانوں کو نماز پڑھنے کی اجازت نہیں تھی لیکن ہندوئوں کو پوجا کرنے کی اجازت مل گئی یہاں تک کہ مندر کا سنگ بنیاد بھی کانگریس کی حکومت میں کرا دیا گیا اور کانگریس کی ہی مرکزی حکومت کے دوران مسجد شہید بھی کر دی گئی۔ انھیں اعمال کے سبب کانگریس اپنی تاریخ کے سب سے برے دور سے گذر رہی ہے اور اسے اپنا وجود بچانا بھی مشکل ہو رہا ہے۔


    کانگریسی حکومتوں میںجس طرح ایک فرقہ کی حمایت میں نرم رخ اختیار کیا گیااس سے ماحول دن بہ دن خراب تر ہوتے گئے اور ایک فرقہ کے حوصلے بلند ہوتے رہے جب کہ مسجد کے دعویدار ہمیشہ ہی عدالتی فیصلہ کے منتظررہے اور اب تک امید لگائے بیٹھے ہیں کبھی نہ قانون ہاتھ میں لینے کی کوشش کی اور نہ ہی طاقت کے بل پر مسجد تعمیر کرنے کی بات کہی۔ حکومت خواہ کسی کی بھی ہو انصاف کو قائم رکھنا اس کی ذمہ داری ہوتی ہے اگر ایک ادنیٰ ملازم بھی کوئی غیر قانونی کام کرتا ہے تو اسکی ذمہ دار حکومت ہوتی ہے لیکن ہماری حکومتوں میںبیٹھے ہوئے ذمہ داران کو انصاف اور امن سے زیادہ اقتدار پیارا ہے اور وہ ووٹ کی لالچ میں لا قانونیت اور زبردستی کو بھی برداشت کرتے رہتے ہیں۔ ارباب حکومت نے انصاف کو قائم رکھنے کی اپنی ذمہ داری کبھی مکمل طور پر نہیں نبھایا اور اب بھی حالات وہی ہیں بلکہ اب مزید خراب ہو رہے ہیں۔ مسجد کے ماڈل بنانے پر مقدمہ قائم کرنا اس بات واضح ثبوت ہے کہ اب بھی حکومت انصاف کے لئے سنجیدہ نہیں ہے بلکہ ایک فرقہ کو کھلی چھوٹ دیکر دوسرے فرقہ کو دبا کر ووٹ کی سیاست کر رہی ہے۔ جب معاملہ عدالت میں ہے تو حکومت کی ذمہ داری تھی کہ نہ تو عدالت کے ذریعہ لگایا گیا تالا کھولا جاتا، نہ عدالت کی حکم امتناعی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سنگ بنیاد کرایا جاتا نہ ہی ایک فرقہ کو پوجا کرنے کی اجازت دی جاتی جب تک عدالت کا فیصلہ نہیں آجاتا عمارت اسی صورت میں باقی رہتی لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا تالا کھلا، سنگ بنیاد ہوئی، ایک فرقہ کو پوجا کی اجازت دی گئی، مسجد شہید ہو گئی، مندر کی تعمیر بھی شروع ہوگئی گو کہ مکمل نہیں ہوئی پھر بھی کچھ حد تک تعمیر ضرور ہو گئی یہ سبھی کام یا تو حکومت کی اجازت سے ہوئے یا حکومت کی خاموش حمایت سے۔ سچائی یہی ہے کہ دنیا کے سب سے زیادہ سلگتے ہوئے مسئلہ پر حکومتوں کا کردار ہمیشہ جانب دار رہا جس کے سبب قانونی لڑائی فرقہ وارانہ رنگ میں رنگتی گئی، ملک میں نفرت کا ماحول بنتا گیا، فسادات میں ہزاروں جانیں گئیں تو زبردست مالی نقصانات ہوئے لیکن اب بھی حکومت کی آنکھ نہیں کھل رہی ہے اور جانب دارانہ کارروائی اب تک جاری ہے۔


******************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 550